
وقف (ترمیمی) ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے دوسرے دن مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ اگلی سماعت تک کسی بھی وقف جائیداد کو ڈی- نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی غیر مسلم کو کسی وقف بورڈ یا کونسل میں تقرری دی جائے گی۔
نئی دہلی: وقف (ترمیمی) ایکٹ، 2025 کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے دوسرے دن مرکزی حکومت نے جمعرات (17 اپریل) کو سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ 5 مئی کو ہونے والی اگلی سماعت تک کسی بھی وقف جائیداد کو ڈی- نوٹیفائی نہیں کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق ، مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئےسالیسٹر جنرل (ایس جی) تشار مہتہ نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کرائی کہ فی الحال وہ ترمیم شدہ ایکٹ کی متنازعہ دفعات، جیسے مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنے پر کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔
یہ سماعت کئی اپوزیشن رہنماؤں، مسلم اور این جی اوز اور سماجی کارکنوں کی جانب سے ترمیم شدہ ایکٹ پر تنقید کرنے کے بعد ہوئی ہے، جس میں اسے آئین کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی قرار دیا گیاہے، جو شہریوں کو مذہبی امور کے مینجمنٹ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔
پارلیامنٹ میں ایکٹ کی تیزی سے منظوری اور اس کے نفاذ کے بعد سے مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع سمیت کئی ریاستوں میں تشدد کا مشاہدہ بھی کیا گیا ہے۔
جمعرات کو چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور جسٹس پی وی سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن پر مشتمل تین ججوں کی بنچ نے مسلسل دوسرے دن کیس کی سماعت کی۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق، سماعت کے دوران ایس جی مہتہ نے عدالت پر درخواست کی کہ وہ کوئی اسٹے نہ لگائے۔ ‘یہ ایک سخت قدم ہے۔ براہ کرم مجھے کچھ دستاویزوں کے ساتھ ابتدائی جواب داخل کرنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیں۔ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے جس پر اس طرح غور کیا جا سکے،‘ مہتہ نے کہا۔
جواب دیتے ہوئے سی جے آئی کھنہ نے کہا کہ ایکٹ میں کچھ مثبت چیزیں ہیں، لیکن اسٹیٹس -کو کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا، ‘ہم نے کہا تھا کہ قانون میں کچھ مثبت چیزیں ہیں۔ ہم نے کہا ہے کہ اس پر پوری طرح سے روک نہیں لگائی جا سکتی۔ لیکن ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ موجودہ صورتحال میں کوئی تبدیلی آئے… کچھ دفعات… جب معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے، توہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ موجودہ صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔’
سپریم کورٹ نے ایکٹ کی ترمیم شدہ دفعات پر روک لگانے کی درخواست پر حکومت کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے سات دن کا وقت دیا ہے۔ اس کے بعد درخواست گزاروں کو پانچ دن میں جواب داخل کرنے کی مہلت دی گئی ہے۔
مہتہ کی یقین دہانی کو ریکارڈ کرتے ہوئے بنچ نے کہا، ‘سماعت کے دوران ایس جی مہتہ نے کہا کہ جواب دہندگان 7 دنوں کے اندر مختصر جواب داخل کرنا چاہیں گے اور یقین دلایا کہ اگلی تاریخ تک اس ایکٹ کے تحت بورڈ اور کونسلوں میں کوئی تقرری نہیں ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ نوٹیفکیشن یا گزیٹڈ کے ذریعے پہلے سے اعلان کردہ استعمال سے وقف سمیت وقف کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔’
قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل بدھ کی سماعت میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا جس طرح وہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے، وہ اسی طرح ہندو انڈومنٹ بورڈ(بندوبستی بورڈ) میں مسلمانوں کو شامل کرنے کے لیے تیار ہے۔
عدالت نے عبوری فیصلہ دینے کی تجویز دی تھی۔سی جے آئی نے مشورہ دیا کہ عدالت کی طرف سے وقف قرار دی گئی جائیدادوں کو غیر وقف نہیں سمجھا جائے گا اور نہ ہی اسے غیر وقف کے طور پر مطلع کیا جائے گا، چاہے وہ وقف بائی یوزر ہو یا نہیں؛ کلکٹر کارروائی کو جاری رکھ سکتے ہیں، لیکن یہ دفعات مؤثر نہیں ہوگی۔ اور وقف بورڈ اور کونسل کے لیے ممبران کا تقرر کیا جا سکتا ہے لیکن دیگر ممبران کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔
کیس کی اگلی سماعت 5 مئی کو ہوگی۔