تہور رانا کی حوالگی: سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تہور حسین رانا کی حوالگی سے ممبئی حملوں کے باقی تار جڑ جائیں گے یا اس کو بس گودی میڈیا کے ذریعے ڈھنڈورا پٹوانے کا کام کیا جائےگا۔کئی تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ رانا کو موت کی سزا دے کر ہی اب اگلا عام انتخاب لڑا جائے گا۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تہور حسین رانا کی حوالگی سے ممبئی حملوں کے باقی تار جڑ جائیں گے یا اس کو بس گودی میڈیا کے ذریعے ڈھنڈورا پٹوانے کا کام کیا جائےگا۔کئی تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ رانا کو موت کی سزا دے کر ہی اب اگلا عام انتخاب لڑا جائے گا۔

 حال ہی میں نومبر 2008کے ممبئی حملوں میں ملوث پاکستانی نژاد کینیڈا کے شہری تہور حسین رانا کی امریکہ سے ہندوستان  حوالگی ایک بڑی سفارتی کامیابی گر دانی جار ہی ہے۔ مگر بڑا سوال ہے کہ کیا اس حوالگی سے ممبئی حملوں کی پلاننگ وغیر کے حوالے سے ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے میں مدد ملے گی؟

عوامی یاداشت انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ اگر یہ کمزور نہ ہوتی، تو یقیناًسوال پوچھا جاتا کہ 25جون 2012 کی اسی طرح ہندوستانی  ایجنسیوں نے ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل کو سعودی عرب سے لانے میں جب کامیابی حاصل کی تھی، تو ان تیرہ برسوں میں کیس میں کس قدر پیش رفت ہوئی ہے؟

اس وقت بھی بالکل اسی طرح کا ڈھونڈورا پیٹا گیا تھا کہ اب ممبئی حملوں کی پوری سازش بے نقاب ہو جائےگی۔ 2008 سے ہی بتایا جاتا تھا کہ مہاراشٹر کے بیہڑ ضلع کے رہائشی انصاری ہی حملوں کے وقت کراچی میں قائم کنٹرول روم سے حملہ آوروں کو گائیڈ کر رہا تھا۔

مگر 2016میں عدالت نے اس کو  2006  میں اورنگ آباد  کے اسلحہ برآمدگی کیس میں سزا سنائی۔ ممبئی حملوں کے سلسلے میں اس کی ٹرائل کی اب خبر بھی نہیں آرہی ہے۔

ہندوستان کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ اس لحاظ سے منفردتھاکہ اس سے دو ماہ قبل ہی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں میرٹ ہوٹل پر خود کش ٹرک حملہ میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوچکے تھے، جن میں تین امریکی شہری بھی شامل تھے۔

اس کے علاوہ  امریکی سی آئی اے اور ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں جیسے انٹلی جنس بیورو، ریسرچ اینڈ انیلیسز ونگ(را)سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی ا ن حملوں کی پیشگی اطلاع تھی۔

دو برطانوی صحافیوں اڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ کلارک کی تحقیق پر مبنی کتاب دی سیج کے مطابق، اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں چھبیس اطلاعات ان اداروں کوموصول ہوئیں جن میں ان حملوں کی پیشن گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔

اتنی واضح خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔

یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ دو سال کے تعطل کے بعد جولائی2006ء میں ممبئی ٹرین دھماکوں اوربعد میں سمجھوتہ ایکسپریس پرکیے گئے حملوں کے بعدپاکستان اورہندوستان باہمی تعلقات معمول پر لانے کی سعی کر رہے تھے۔

جس وقت ممبئی میں حملہ ہوا عین اسی وقت پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اپنے ہندوستانی ہم منصب پرنب مکھرجی کے ساتھ نئی دہلی کے حیدر آباد ہاؤس میں محوگفتگو تھے اور ہندوستانی سکریٹری داخلہ مدھوکر گپتا پاکستان میں تھے۔

خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست2008 ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریقہ کار پر بھی معلومات درج تھیں۔

ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تھی۔آئی بی کے ایک مخبر کی طرف سے بھیجی گئی پل پل کی اطلاعات بھی  موجود تھیں جن میں حملے کے لیے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔

اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔

 اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں کی ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔

ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران تاج ہوٹل کی انتظامیہ نے نہ صرف حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوا دیں۔ بتایا گیا کہ حفاظت پر  مامور حفاظتی اہلکار دوران ڈیوٹی ہوٹل کے کچن سے کھانا مانگ رہے ہیں۔

اس کتاب میں حملے کے محرک پاکستانی نژاد امریکی شہری ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے کردار اور پس منظر پر خاصی روشنی ڈالی  گئی ہے۔

اس کے مطابق ہیڈلی دراصل امریکی انسداد منشیات ایجنسی اور سی آئی اے کے مخبر کے طور پر کام کرتاتھا۔ ڈرگ انفورسمنٹ کے لیے اطلاعات فراہم کرنے اور ہیروئن حاصل کرنے کے لیے ہیڈلی نے جب 2006 ء میں افغانستان سے متصل سرحدی قبائلی علاقوں کا دورہ کیا تھا۔

امریکہ کو اندیشہ تھا کہ القاعدہ کے جنگجو لشکر کی صفوں میں داخل ہوگئے ہیں جن کے ذریعے اسامہ بن لادن تک پہنچا جاسکتا ہے۔

ممبئی میں یہودیوں کے مرکز ’شباڈ ہاؤس‘ پرحملے کے لیے لشکر کی اعلیٰ قیادت تیار نہیں تھی کیونکہ ان کو علم تھا کہ اس سے وہ عالمی جہاد کا حصہ بن کر القاعدہ اور طالبان کی طرح برا ہ راست امریکی اوردیگر مغربی طاقتوں کا نشانہ بن جائیں گے،لیکن ان تفتیشی صحافیوں کے مطابق کیمپ میں مقیم زیرتربیت اٹھارہ ہندوستانی جنگجوؤ ں کے اصرار پر شباڈ ہاؤس کو ٹارگٹ لسٹ میں شامل کرلیا گیا۔ان میں ذبیح الدیں انصاری  عرف ابوجندل بھی شامل تھا۔

 صوبہ مہاراشٹر میں انصاری کوجاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ضلع بیہڑ کے پولیس ہیڈکوارٹر میں بطورالیکٹریشن اورمقامی مخبرکام کرتا تھا۔انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ کے پی رگھونشی جب ایک بار ضلع کے دورہ پر تھے، تو اس کو اپنے ساتھ لے گیا۔

بتایا جاتا ہے کہ 2006ء میں اسی صوبے کے شہر اورنگ آباد میں اسلحے کے ایک بڑے ذخیرے کو پکڑوانے میں انصاری نے کلیدی کردار ادا کیا،جس کے بعد وہ روپوش ہوکرلشکر میں شامل ہوگیا۔اسی کیس میں اس کو سزا بھی ہوگئی ہے۔

ادھر امریکہ اورپاکستان میں ہیڈلی کی گرل فرینڈز، بیوی اوردوسرے اہل خانہ اس کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں خدشات ظاہرکررہے تھے۔

پاکستان میں مقیم اس کی بیوی فائزہ نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ جاکربھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا اوراصرار کیا کہ اس کے شوہر کی وقتاً فوقتاً ممبئی جانے اوروہاں اس کی مصروفیات کی تفتیش کی جائے مگر سفارت خانہ کے افسروں نے اس کی شکایت کو خانگی جھگڑاقرار دے کر فائل داخل دفترکردی۔

 دوسری جانب خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستان کی سکیورٹی انتظامیہ کی لاپروائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیشنل سکیورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ہیڈکوارٹرسے حملوں کے بیس منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سکریٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سکریٹری نے فون کرکے انہیں متنبہ کیا کہ وہ احکامات کے بغیرنقل و حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔

اس تنبیہ کے ستر منٹ بعد وزارت داخلہ نے انہیں بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے اس لیے وہ فوراً ممبئی روانہ ہوجائیں مگر ائیر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ ہندوستانی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی کئی سو کلومیٹر دور چندی گڑھ میں ہے۔

کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے را ء سے ان کا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اس کا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے۔آدھی رات کے بعد جب دستہ طیارے میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسر بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں اس لیے ان کا انتظار کیا جائے۔

بالآخر جب طیارہ اگلے دن صبح ممبئی پہنچا تو افسرکو لینے کے لیے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں موجود تھیں مگر کمانڈو دستوں کو لے جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ اس عرصے کے دوران تاج اور اوبرائے ہوٹلوں کے علاوہ یہودی مرکز پر جنگجوؤں نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا تھا اور سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔

ان حملوں سے دو سال قبل18فروری 2007ء کی شب دہلی اور لاہور کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کے دو ڈبے تاریخی شہر پانی پت کے نزدیک دھماکوں سے اڑ گئے۔ 68 اموات میں اکثر پاکستانی شہری تھے۔

ابتدائی تفتیش میں ہندوستانی ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے تار بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔

مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم’ ابھینوبھارت‘ کے رول کو بے نقاب کیا گیا۔سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹلی جنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد سری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کرکے اس کو گرفتار کیا گیا۔

اگلے دو سالوں میں نیشنل انویسٹی گیٹنگ ایجنسی (این آئی اے) نے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو بھی حراست میں لے لیا۔ اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیاگیاکہ فروری 2006ء میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی ہندوستان کے ایک شہر اندور میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔

اس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ(آر ایس ایس) کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔

مگر ان کی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندر پہلوان، کمل چوہان اور اجیت چوہان کر گرفتار کیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افراد نے ہی ٹرین میں بم نصب کیے تھے۔

گو کہ ہندوستان میں سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق واقعات کے تار آنکھ بند کیے مسلمانوں سے جوڑتی آرہی ہیں، مگر 29 ستمبر 2008ء کو مہاراشٹر کے مالیگاؤں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیا۔

اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کیا۔ کرکرے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپر د کی گئی۔

اس کے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔ جب کرکرے نے یہ نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا تو بی جے پی اور شیو سینا کے متعدد رہنماؤں نے ان کے خلاف زبردست شور برپا کیا اور انہیں ‘ملک کا غدار‘ قرار دیا تھا۔

بہرحال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پید اکردیا گیا تھا وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کے پشت پر وہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کوہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔

ابتداء میں ان واقعات میں معصوم مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرکے انہیں ایذائیں دی گئیں اور کئی ایک کو برسوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔

ایک معروف صحافی لینا گیتا رگھوناتھ نے کانگریسی حکومت کی ہند و دہشت گردی کے تئیں’ نرم رویہ‘ کو افشاں کیا تھا۔

لینا کے بقول؛

تفتیشی ایجنسیوں کے ایک افسر نے انہیں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزارت داخلہ کو سونپی گئی ان خفیہ رپورٹوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی۔

ان رپورٹوں میں مرکزی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ آر ایس ایس کو ایک شو کاز (وجہ بتاؤ) نوٹس جاری کرے کہ اس کے خلاف جو شواہد اور ثبوت ہیں کیوں نہ ان کی بنیاد پر اسے غیر قانونی اور ممنوع قرار دیا جائے؟

مہاراشٹر کی اس وقت کی کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت نے بھی ابھینو بھارت اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اس پر مرکزی حکومت نے عمل نہیں کیا۔

خیر اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تہور حسین رانا کی حوالگی سے ممبئی حملوں کے باقی تار جڑ جائیں گے یا اس کو بس گودی میڈیا کے ذریعے ڈھنڈورا پٹوانے کا کام کیا جائےگا۔ کئی تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ رانا کو موت کی سزا دے کر ہی اب اگلا عام انتخاب لڑا جائےگا۔

ویسے  عوامی یاداشت اتنی کمزور تو ہے ہی کہ انصاری کی حوالگی جس طرح اب یاداشت سے محو ہو چکی ہے، چند سال بعد رانا کی حوالگی کو بھی عوام بھول جائیں گے۔ میڈیا جو ایک زمانے میں سوال پوچھتا تھا وہ بھی اب حکومت کا احتساب کرنے سے کتراتا ہے، خاص طور پر جب قومی سلامتی کا معاملہ ہو۔

Next Article

آپریشن سیندور کے حوالے سے ہندوستانی حکومت نے کہا؛ کارروائی محدود، دہشت گردوں کے ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا

ہندوستان نے ‘آپریشن سیندور’ کے تحت پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ سکریٹری خارجہ نے اسے منصفانہ، محدود اور غیر اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے سرحد پار حملوں کا جواب دینے، انہیں روکنے اور مزاحمت کرنے کے اپنے حق کا استعمال کیا ہے۔

آپریشن سیندور کے بعد میڈیا بریفنگ میں ہندوستان کے سکریٹری خارجہ وکرم مصری، کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ ۔ (اسکرین شاٹ بہ شکریہ: وزارت خارجہ/یو ٹیوب)

آپریشن سیندور کے بعد میڈیا بریفنگ میں ہندوستان کے سکریٹری خارجہ وکرم مصری، کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ ۔ (اسکرین شاٹ بہ شکریہ: وزارت خارجہ/یو ٹیوب)

نئی دہلی: پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر (پی او کے) میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ‘آپریشن سیندور’ کے تحت حملہ کیےجانے کے چند گھنٹوں بعد، ہندوستانی حکومت نے کہا کہ حملے محدود اور غیر اشتعال انگیز تھے، اور اس کا مقصد دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا تھا۔

بدھ کو نئی دہلی میں ہندوستان کے سکریٹری خارجہ وکرم مصری، کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ نے میڈیا کواس  آپریشن کے بارے میں جانکار ی دی۔

ہندوستان  نے اپنی کارروائی کا جواز کیسے پیش کیا؟

سکریٹری خارجہ وکرم مصری نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ‘یہ ضروری سمجھا گیا کہ 22 اپریل کے حملے کے ذمہ داروں اور ان کے منصوبہ سازوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ حملوں کے ہفتہ عشرہ گزرنے کے بعد بھی پاکستان کی طرف سے اپنی سرزمین یا اس کے زیر کنٹرول دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس کے برعکس وہ تردید اور الزام تراشی میں مصروف ہے۔ پاکستان میں موجود دہشت گرد ماڈیول پر ہماری انٹلی جنس نگرانی نے اشارہ دیا ہے کہ ہندوستان کے خلاف مزید حملے ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ان کو روکنا اور ان سے نمٹنا، دونوں ہی انتہائی ضروری سمجھا گیا۔ آج صبح، ہندوستان نے سرحد پار سے اس طرح کے حملوں کا جواب دینے، انہیں روکنے اور ممزاحمت  کرنے کے اپنے  حق  کااستعمال کیا ہے۔’

مصری نے فوجی کارروائی کو محدود اور غیر اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا؛’یہ کارروائی متوازن، متناسب اور ذمہ دارانہ ہے۔ یہ دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے اور ہندوستان میں بھیجے جانے والے ممکنہ دہشت گردوں کو غیر فعال کرنے پر توجہ مرکوز ہے۔’

آپریشن سیندور کے بعد ہندوستانی  حکومت کی میڈیا بریفنگ۔ (اسکرین شاٹ بہ شکریہ: وزارت خارجہ/یو ٹیوب)

آپریشن سیندور کے بعد ہندوستانی  حکومت کی میڈیا بریفنگ۔ (اسکرین شاٹ بہ شکریہ: وزارت خارجہ/یو ٹیوب)

انہوں نے مزید کہا، ‘آپ کو یاد ہوگا کہ 25 اپریل 2025 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پہلگام دہشت گردانہ حملے پر ایک پریس بیان جاری کیا تھا، جس میں دہشت گردی کے اس قابل مذمت عمل کے مجرموں، منتظمین، مالی معاونت کرنے والوں اور اسپانسرز کو جوابدہ ٹھہرانے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ ہندوستان کی آج کی کارروائی کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔’

 اہداف کا انتخاب کیسے کیا گیا؟

مصری کی جانب سے ہندوستان کا موقف پیش کرنے کے بعد، کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ نے فوجی کارروائی کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے میں اپنی جانیں گنوانے والوں اور ان کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔

آپریشن سیندور کے تحت دہشت گردوں کے 9 ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ …ان اہداف  کا انتخاب قابل اعتماد انٹلی جنس معلومات کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ اس بات پر خصوصی توجہ دی گئی کہ شہریوں اور شہری تنصیبات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔’

اس کے بعد پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے ان 9 ٹھکانوں کے بارے میں معلومات دی گئیں، جہاں آپریشن سیندور کے تحت حملہ کیا گیا۔  ہندوستان کی جانب سے جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا، ان میں بہاولپور میں مرکز سبحان اللہ بھی شامل ہے ، جس کا تعلق جیش محمد سے ہے ۔ مریدکے کا مرکز طیبہ جو کہ لشکر طیبہ کا گڑھ ہے ۔ اور تہرا کلاں میں سرجل ، جوجیش کا ایک اور ٹھکانا۔

اس کے علاوہ ، سیالکوٹ میں مہمونہ  زویا ، جو حزب المجاہدین سے منسلک ہے ، اور برنالہ میں مرکز اہل حدیث ، جو لشکر سے منسلک ہے ، پر بھی حملہ کیا گیا۔

ہندوستانی فوج نے کوٹلی میں مرکز عباس (جیش) اور مسکر رحیل شاہد (حزب المجاہدین) پر بھی حملہ کیا ۔ اس کے علاوہ مظفرآباد میں شاوائی نالہ کیمپ (لشکر) اور سیدنا بلال کیمپ (جیش) کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔

Next Article

احوال 2019 کی ہندوپاک فضائی جنگ کا

دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: indianairforce.nic.in

علامتی تصویر، فوٹو بہ شکریہ: indianairforce.nic.in

یہ کیسا اتفاق ہے کہ 22 اپریل کو کشمیر کے پہلگام پہاڑوں میں سیاحوں پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہندوستان اورپاکستان کے درمیان پیدا ہوئی کشیدگی سے بس ایک ماہ قبل معروف دفاعی تجزیہ کار سوشانت سنگھ کا  2019  میں ہوئے پلوامہ حملوں اور بالاکوٹ فضائی آپریشن پر ایک تحقیقی مضمون مؤقر جرنل کارواں کے مارچ شمارے میں شائع ہوا تھا۔

 بالاکوٹ پر فضائی حملوں کے بعد ہندوستانی فضائیہ کی اپنی جائزہ رپورٹ اور متعدد انٹرویوز پر مشتمل اس مضمون میں بتایا گیا نہ صرف فضائیہ نے ہدف کو مس کیا، بلکہ خود اپنے ہی ایک ہیلی کاپٹر کو نشانہ بنایا، جس میں کئی افسران ہلاک ہوگئے۔

 ایک اور واردات اسی دن راجستھان سیکٹر میں ہوتے ہوتے رہ گئی، جہاں روسی ساخت کے جدید ترین سخوئی فائٹر نے اپنے ہی ایک مگ طیارہ کو کو نشانہ بنادیا تھا، مگر میزائل بس چند سینٹی میٹر کے فاصلے سے چوک گیا۔ اس واردات کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ اس سب کے بعد اپنا ایک پائلٹ بھی پاکستان کی تحویل میں دےکر پورے ملک کو بیک فٹ کر کھڑا کر کے رکھ دیا۔

سوشانت سنگھ، جو خود بھی ایک ملٹری افسر رہ چکے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، کے مطابق ان حملوں نے تو بس ایک کارنامہ انجام دیا، وہ یہ تھا کہ انتخابات سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک ایسا ماحول بنانے میں مدد دی، جس سے وہ دوسری بار عوام میں پولرائزیشن کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس کے نتیجہ میں بھاری اکثریت کے ساتھ انتخابات جیت گئے۔

 سال 2002میں جب وہ پہلی بار اسمبلی انتخاب میں قسمت آزمائی کر رہے تھے، گجرات کے شہر احمد آباد میں اکشر دھام مندر پر حملہ ہوا تھا، جس میں 30ہندو مارے گئے تھے۔ مودی نے اس کے لیے اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف کو ذمہ دار ٹھہرایا اور انتخابات میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ پاکستان ان کے لیے انتخابات جیتنے اور ہندوستانی عوام کی نفسیات کو ایڈریس کرنے کا ایک آزمودہ ہتھیار بن چکا ہے۔

ہندوستانی فضائیہ کے ایک اعلیٰ افسر جو بالا کوٹ کے بعد قائم جائزہ کمیٹی کے رکن تھے، کے مطابق پہلے روز یعنی 26فروری 2019کو ہندوستانی فضائیہ نے 100میں سے 80نمبرات حاصل کیے، کیونکہ حملہ اور اس کی نوعیت نے پاکستان کو حیرت زدہ کردیا۔

 اس دن پاکستانی فضائیہ کو 100میں سے بس 25نمبرات حاصل ہوئے۔مگر اگلے روز پاکستانی فضائیہ نے کسرپوری کردی۔اس دن ہندوستانی فضائیہ کی کارکردگی 25سے نیچے ہوگئی۔اس روز پاکستانی فضائیہ کی کارکردگی ہم آہنگی کا ایک بہترین نمونہ تھی۔

پاکستانی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول اور پنجاب کی سرحد کی طرف آتے ہوئے دو ہندوستانی جہازوں کی ٹیموں کو دیکھ لیا تھا اور وہ ان کو روکنے کے لیے فضا میں پرواز کر گئے تھے۔ مگر ایک تیسری ٹیم اسی وقت وادی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے اوپر پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے وادی نیلم کی طرف رواں تھے اور تین منٹ کے وقفے میں انہوں نے ایک غیر آباد علاقے کو نشانہ بناکر کئی میزائل گرادیے۔

 سنگھ کے مطابق، اس پورے واقعہ نے ہندوستان کی قومی سلامتی کے اسٹرکچر کی خامیوں کو اجاگر کردیا۔ گو کہ عوامی طور پر ان حملوں کو بہادری سے تعبیر کیا گیا،مگر اندرون خانہ اس نے تشویش کی لہر دوڑا دی اور عالمی سطح پر بھی فضائیہ کی کارکردگی کی پول کھل گئی۔

ان کہ کہنا ہے کہ 2016میں اوڑی کے فوجی کیمپ پر حملہ کے بعد ہوئی سرجیکل اسٹرئکس کے بعد پاکستان نے جس طرح خاموشی اختیار کی، اس بار بھی اندازہ تھا کہ پاکستان یہ خون کے گھونٹ پی جائےگا اور کوئی جوابی کارروائی نہیں کرےگا۔

بالی ووڈ نے تو اوڑی سرجیکل اسٹرئک پر فلم بھی بنائی، جو پلوامہ حملوں سے قبل ریلیز کی گئی۔ بالاکوٹ پر حملہ کرکے مودی شاید فلم میں ان کے اپنے کردار کو اب حقیقی روپ دینا چاہتے تھے۔ ان کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ کہ حملہ ان کے کنٹرول سے باہر ہوسکتا ہے۔

سنگھ کے مطابق، پلوامہ حملوں کے ایک د ن بعد ہی فضائی کارروائی کا پلان بنایا گیا تھا۔ اس کے لیے فضائیہ کو تیاری وغیرہ کے لیے دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی ایما پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ خیبر پختونخواہ صوبہ کے بالاکوٹ علاقہ میں جیش محمد کے ٹھکانے پر حملہ کیا جائےگا، جو ایک نان ملٹری ٹارگیٹ ہوگا اور عالمی برادری کو قابل قبول ہوگا اور پاکستان کو جوابی حملہ کرنے کا جواز نہیں ملے گا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ ٹارگیٹ ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے اور زیادہ سویلین ہلاکتیں ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔ بالا کوٹ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ لائن آف کنٹرول سے قریب ہی واقع ہے۔ ڈوبھال کو آپریشن کی نگرانی اور سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان تال میل کی ذمہ داری اور آنجہانی ارون جیٹلی کو میڈیا کو سنبھالنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔

ایک دون قبل حکومت نے کئی سربراہان مملکت اور سفارت کاروں کو پلوامہ حملوں پر مشتمل ایک ڈوزیر تھما دیا، جس میں جیش محمد کو خود کش حملہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

چھبیس فروری رات کے آخری پہر مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر کے فوجی مستقر سے ہندوستانی فضائیہ کے 12میراج 2000جہازوں نے اڑان بھری، جو اسرائیلی ایس پی اے سی ای 2000میزائلوں سے لیس تھے۔ یہ میزائل جہاز سے ریلیز ہونے کے بعد کنٹرول روم سے گائیڈ کیے جاتے ہیں۔ ان کے ہمرا سخوئی 30فائٹر اور مواصلاتی طیارہ اور ہوا میں ایندھن بھرنے والا طیارہ بھی شامل تھا۔

پلان تھا کہ چھ میزائل  ٹارگٹ پر داغے جائیں گے۔ پانچ طیاروں سے تو میزائل ریلیز ہو گئے، مگر چھٹا میزائل طیار ہ سے باہر ہی نہیں آیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ 35برس پرانے میراج طیارہ کے نیوی گیشن سسٹم میں نقص آگیا تھا۔ گو کہ ہندوستانی میڈیا اور سیاستدانوں نے فصائیہ کی یہ کہہ کر ستائش کی کہ اس نے  گھر میں گھس کر مارا، یعنی پاکستان کے اندر جاکر بم گرائے، مگر حقیقت ہے کہ یہ میزائل چالیس کلومیٹر دور سے ہندوستانی کنٹرول والے علاقے سے ہی داغے گئے۔

تکنیکی طور پر اسرائیلی ساخت کے یہ میزائل عمودی طور پر سیدھے زمین پر نہیں آتے ہیں، بلکہ ان کو بیضوی راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ لہذا ان کو دور سے ہی داغا جانا تھا۔ نئی دہلی میں جشن منایا گیا اور بتایا گیا کہ جیش محمد کے کئی سو اراکین مارے گئے۔

سنگھ کے مطابق، سیٹلائٹ ڈیٹا سے یہ تو پتہ چلا کہ میزائل بالا کوٹ کے پہاڑوں کی طرف گئے، مگر وہ ہدف پر گرے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ گہرے بادلوں کی وجہ سے طیارے اس کی تصویر نہیں لے سکے۔ اس دوران پاکستانی فضائیہ اس علاقے میں متحرک ہو چکی تھی۔ کسی دوست ملک کے سٹیلائٹ کو بھی ٹارگیٹ کی تصویر نہیں مل پائی۔

 لہذا دنیا بھر کے دفاعی ماہرین ہندوستانی فضائیہ کی اس کارروائی کی کامیابی کے حوالے سے شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک متفق ہیں کہ میزائل ٹارگٹ سے خاصے دور گرے۔  ایک   فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ افسر، جو اس مشن میں شامل تھے نے سنگھ کوبتایا کہ انہوں نے اگلے دن دوبارہ حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا، مگر سیاسی قیادت نے سختی کے ساتھ منع کردیا۔

 آسٹریلین اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ (اے ایس پی آئی) اور اٹلانٹک کونسل کی ڈیجیٹل فارنزک لیب،  کے مطابق تینوں ایس پی آئی سی ای-2000 بم تقریباً ایک جیسے زاویے پر لیکن ہدف سے تیس سے چالیس میٹر دور جا گرے۔ اس کی وجہ ہندوستانی فضائیہ کا صرف جی پی ایس پر انحصار تھا، جبکہ ان بموں کے لیے درست ہدف تک پہنچنے کے لیے 3ڈی ماڈلز اور جدید گائیڈنس ٹکنالوجی درکار تھی، جو ہندوستان کے پاس نہیں تھی۔

رپورٹ کے مطابق، ہدف کی بلندی کا اندازہ بھی غلط تھا۔ اگر جی پی ایس میں غلط اونچائی درج کی جائے، تو بم بھی غلط جگہ گرتے ہیں، چاہے طیارہ ہدف کے بالکل اوپر ہو۔ یہ تمام شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ حملہ تکنیکی لحاظ سے ناکام رہا۔

جوابی کارروائی کے طور پر  چند گھنٹوں بعدپاکستان نے ایل او سی پر جارحانہ حکمت عملی اختیار کی۔ 27 فروری کی علی الصبح، پاکستان نے اوڑی سیکٹر میں ہندوستانی چیک پوسٹوں پر توپ خانے سے گولہ باری کی۔ یہ صرف ایک چال تھی۔

پاکستان کا دعویٰ ہے کہ پاک فضائیہ نے جموں و کشمیر میں ہندوستانی اہداف کے قریب چھ فضائی حملے کیے۔  24 پاکستانی طیاروں نے ایل او سی کے اس پار چار کلومیٹر تک پرواز کی۔  راجوری کے نادن، لام، جھنگار، کیری اور ہمیرپور علاقوں، اور بھمبر گھاٹی میں بم گراکر طیارہ واپس چلے گئے۔

چونکہ یہ کارروائی بہت کم وقت میں کی گئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اہداف پہلے سے طے اور نشاندہی شدہ تھے۔ پاکستانی حکام نے کہا کہ ان کے لڑاکا طیاروں کو خالی علاقوں میں بم گرانے کا حکم دیا گیا تاکہ جانی نقصان یا سویلین تباہی نہ ہو۔پاکستانی ایر فورس کے حکام نے ایک ویڈیو بھی ریلیز کی جس میں دکھایا گیا کہ طیاروں نے عسکری تنصیبات پر نشانہ لگایا اور پھر شعوری طور پر قریبی بنجر علاقوں میں بم گرائے تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔

پاکستانی فضائیہ  نے راجستھان کے انوگڑھ علاقے میں بھی ایک حملے کی کوشش کی، جو شاید ایک چال تھی، کیونکہ وہاں کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ہندوستانی فضائیہ کو شمالی ہندوستان میں اپنے مختلف فضائی اڈوں پر حملے کا خدشہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیشتر جنگی طیارے پہلے ہی  مستعد گشت پر تھے تاکہ کسی بھی خطرے کی صورت میں فوری ردعمل دے سکیں۔ اسے ‘آپریشنل ریڈی نیس پیٹرول’ کہا جاتا ہے۔

چار ہندوستانی جنگی طیارے—دو میراج 2000 شمالی کشمیر میں بانڈی پورہ کے قریب، اور دو ایس یو -30 ایم کے آئی راجوری کے نوشہرہ علاقے میں —ایل او سی پر دفاعی جنگی گشت پر تھے۔ مزید دو ایس یو -30 ایم کے آئی طیارے ایک ائیر بورن وارننگ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ساتھ، جو کہ ایک فضائی کمانڈ پوسٹ ہے تمام فضائی کارروائیوں کی نگرانی کرتا ہے۔

ہندوستانی فضائیہ کے پاس صرف پانچاے ڈبلیو اے سی ایس طیارے ہیں، جبکہ پاکستان کے پاس نو ہیں۔رپورٹس کے مطابق، ہندوستانی اے ڈبلیو اے سی ایس کو پاکستانی طیاروں کا مسلسل سراغ رکھنے میں مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ کشمیر کی پہاڑی زمین اور زمینی رکاوٹوں سے ریڈار کی رینج متاثر ہوتی ہے۔

پاکستانی فضائیہ کے اسٹرائیک اسکواڈ میں چار میراج-III اور چار جے ایف-17 لڑاکا طیارے شامل تھے، جن کے ساتھ چار ایف-16 طیارے بطور حفاظتی اسکواڈ تھے۔

جموں و کشمیر میں زمینی طور پر ایم آئی جی- 21 بی آئی ایس او این ایس کو فوری پرواز کا حکم دیا گیا، جن میں ایک ابھینندن ورتمان چلا رہے تھے۔ جب وہ ایل او سی عبور کر گئے تو ان کا طیارہ میزائل سے نشانہ بنا، اور وہ ایجیکٹ ہو کر پاکستانی قبضے میں آ گئے۔

 پاکستانی فضا ئیہ نے علاقے میں تمام ریڈیو رابطے جام کر دیے تھے، جس سے ابھینندن کو کنٹرولر سے واپسی کے احکامات موصول نہ ہو سکے۔ ہندوستانی فضا ئیہ کے پائلٹ اور ایئر ڈیفنس کنٹرولرز مکمل الجھن میں آ گئے تھے۔ ایم آئی جی- 21  طیارہ ایک محفوظ ڈیٹا لنک سے محروم تھا، جو جدید فضائی جنگ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔

 فضا ئیہ کے اعلیٰ افسران اس خامی پر شدید برہم تھے، جس کا الزام دفاعی تحقیقاتی ادارے اور تاخیر سے ہونے والی خریداریوں پر عائد کیا گیا۔ ایر فورس کے چیف، آر کے ایس بھدوریا، جو بعد میں بی جے پی میں شامل ہوگئے  نے اعتراف کیا کہ 27 فروری کو آپریشنل ڈیٹا لنک کی کمی نے ہندوستانی فضا ئیہ کی کارروائی کو متاثر کیا۔

پاکستان نے ابتدائی طور پر دو ہندوستانی پائلٹوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا، لیکن بعد میں اسے ایک تک محدود کر دیا۔ہندوستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستانی ایف16کو مار گرایا، لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت حاصل نہ ہو سکا۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی طیارہ پاکستانی حدود میں زمینی افواج کے ذریعے گرایا گیا۔مگر فارن پالیسی نے امریکی دفاعی حکام کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان کے سبھی ایف 16طیارے ثابت و سلامت ہیں۔

ہندوستان نے بعد میں تسلیم کیا کہ ایم آئی جی-21  کا ایک پائلٹ لاپتہ ہے، جسے پاکستان نے اپنی تحویل میں بتایا۔ یہ سب کچھ چند منٹوں میں ہوا۔ایک اور ناکامی ہندوستان کے سری نگر ایئربیس پر ہوئی، جب فضا ئیہ نے اپنے ہی ایم آئی -17 وی-5 ہیلی کاپٹر کو مار گرایا۔ تمام چھ افراد، بشمول ایک سویلین، ہلاک ہو گئے۔

 تحقیق سے معلوم ہوا کہ مسئلہ ‘فرینڈ یا فو’ سسٹم کا تھا، جو سول فریکوئنسیوں کے ساتھ الجھ گیا۔ جنگ کے دباؤ میں، افسر نے اسے دشمن طیارہ سمجھ کر مار گرایا، بعد میں سزا دی گئی۔ اس نقصان کا علم ہو گیا تھا لیکن اس کو2019 کے انتخابی نتائج آنے تک خفیہ رکھا گیا۔

 ایک اور واقعہ جس کی کوریج نہیں ہوئی، وہ بارمیر، راجستھان میں پیش آیا۔ ایک سخوئی طیارے نے اپنے ہی ایم آئی جی- 21  پر میزائل داغ دیا، لیکن خوش قسمتی سے وہ بچ گیا۔

ایک سابق رکن اسمبلی نے واقعے پر لکھا، بعد میں ایک افسر نے تصدیق کی کہ اگر یہ میزائل نشانہ لگا لیتا، تو ایر فورس کا سربراہ برخاست ہوتا۔اس لیے  میڈیا کی توجہ جان بوجھ کر ابھینندن کی گرفتاری پر رکھی گئی۔

ستائیس  فروری کو شام پاکستانی سکریٹری خارجہ  تہمیہ جنجوعہ، نے امریکی، برطانوی اور فرانسیسی سفیروں کو بتایا کہ ‘ہندوستان کے نو میزائلوں کو پاکستان پر نشانہ بنانے کے لیے تیار رکھا گیا ہے۔ پاکستان نے انتباہ دیا کہ وہ اپنی میزائل طاقت سے ‘تین گنا زیادہ’ جوابی کارروائی کرے گا، اور اپنی فوج کو ہائی الرٹ پر رکھا۔

مودی نے ایک انتخابی ریلی میں کہا؛’پاکستان ہمیں دھمکی دیتا ہے، کہ اس کے پاس ایٹم بم ہے اور وہ بٹن دبائے گا۔’ 17 اپریل کو انہوں نے کہا، ‘اب ہندوستان رونے والا نہیں، پاکستان کو رونا ہو گا۔ ہمارے پاس سب ایٹم بموں کی ماں ہے۔ میں نے کہا، پاکستان کو کہہ دو، جو کرنا ہے کرو، ہندوستان بدلہ لے گا۔’

ابھینندن کی گرفتاری اور رہائی ہندوستان-پاکستان تعلقات میں ایک نازک لمحہ تھی۔ حیران کن طور پر، دونوں ممالک کے حکومت حامی میڈیا نے کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا، اور پائلٹ کی واپسی کو بحران کے خاتمے کے طور پر پیش کیا۔

 پاکستانی میڈیا نے ابھینندن کی گرفتاری کو اپنی فوج کی کامیابی کے طور پر دکھایا، جبکہ ہندوستانی میڈیا نے انہیں قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا۔کارگل جنگ کی طرح، اس بار بھی ہندوستانی حکومت اور فوج کو قومی جذبات کی حمایت حاصل تھی، اور میڈیا نے حب الوطنی کو آزادرپورٹنگ پر ترجیح دی۔ ارنب گوسوامی اوروہاٹس ایپ چیٹس کے ذریعے یہ بات سامنے آئی کہ میڈیا کو حکومت کے فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔

 اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ کس طرح ہندوستانی میڈیا نے قوم پرستی کے نام پر تحقیقاتی صحافت کو ترک کر دیا ہے۔ہندوستانی میڈیا نے ممکن ہے اپنے عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی ہو، مگر بین الاقوامی ساکھ اور فوجی نتائج نے واضح کر دیا کہ ہندوستان کو عملی طور پر نقصان ہوا۔

پاکستانی فضائیہ نے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا جبکہ ہندوستان کی قیادت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔اگر اس بحران میں ہندوستان کے پائلٹ ابھینندن مارے جاتے، تو ردعمل شدید ہوتا، اور مودی اس بحران کو ختم نہیں کر پاتے۔ ایک معمولی غلطی بڑے پیمانے پر جنگ کو جنم دے سکتی تھی۔

سوشانت سنگھ کے مطابق، ہندوستان کی فوجی ناکامی واضح تھی، چاہے اسے انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ ایک کمزور حریف کے خلاف بھی فضا ئیہ فیصلہ کن برتری نہیں دکھا سکی۔ہندوستانی فوجی قیادت غیر ذمہ دار اور غیر پیشہ ور نظر آئی، جو سیاسی قیادت کی خواہشات کے سامنے کوئی مؤثر مزاحمت نہ کر سکی۔

اس تحقیقی مضمون کے آخر میں سنگھ تحریر کرتے ہیں کہ،’ایک سیاسی طور پر کمزور مودی،جو کمزور معیشت سے نبرد آزما ہے، کسی بہانے سے ایک بار پھر ملک کی توجہ پاکستان کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کراسکتا ہے۔’ ان کی  یہ پیشن گوئی ایک ماہ بعد ہی حقیقت کی شکل میں سامنے آگئی ہے۔

Next Article

ہندوستانی حملے کے بعد دعویٰ – مسعود اظہر کے خاندان کے 10 افراد اور چار قریبی ساتھی مارے گئے

ہندوستانی فوج کی جانب سے ‘آپریشن سیندور’ کے تحت پاکستان میں دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں کو نشانہ بنائے جانے کے بعد جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بہاولپور میں ہوئے حملے میں اس کے خاندان کے دس افراد اور چار ساتھی مارے گئے ہیں۔

مولانا اظہر مسعود (فائل فوٹو: پی ٹی آئی/اے پی)

مولانا اظہر مسعود (فائل فوٹو: پی ٹی آئی/اے پی)

نئی دہلی: کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بہاولپور کی سبحان اللہ مسجد پر ہندوستان کے حملے میں ان کے خاندان کے 10 افراد اور 4 قریبی ساتھی بھی مارے گئے۔

بی بی سی اردو نے حملے کے بعد جیش محمد سے منسلک کچھ وہاٹس ایپ گروپ پر گردش کر رہے مسعود اظہر کے بیان کے حوالے سے یہ خبر دی ہے۔ بیان میں، وہ (مسعود اظہر) مبینہ طور پر دعویٰ کر رہاہے کہ حملے میں اس  کے خاندان کے 10 افراد اور چار دیگر قریبی ساتھی مارے گئے۔

کچھ ہندوستانی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ اظہر نے دعویٰ کیا کہ مرنے والوں میں اس کی بڑی بہن اور اس کے شوہر، مسعود اظہر کا بھانجہ اور اس کی بیوی، ایک اور بھانجی اور خاندان کے پانچ بچےبھی  شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، حملے میں مسعود اظہر کے ایک قریبی ساتھی، اس کی ماں اور دو دیگر قریبی ساتھی بھی مارے گئے ہیں۔

بی بی سی اردو اور دی وائر آزادانہ طور پر سے اس بیان کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

بی بی سی اردو نے کہا کہ بیان میں مرنے والوں کی تفصیلات اور مولانا مسعود اظہر کے ساتھ ان کی مبینہ رشتہ داری کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے، تاہم، اس حوالے سے  ہسپتال یا مقامی انتظامیہ سے  تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

معلوم ہو کہ ’آپریشن سیندور‘ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ہندوستانی فوج نے بدھ کی صبح پاکستانی سرحد کے اندر تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بہاولپور کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

پنجاب کا یہ بڑا شہر دہشت گردوں کی رہائش  کےلیے جانا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جیش محمد کا ہیڈ کوارٹر شہر کے احمد پور علاقے میں ہے۔ سال 2000 کے اواخر میں آئی سی -814 کے ہائی جیکروں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے مسافروں کی رہائی کے بدلے ہندوستان کی طرف سے رہائی پانے والے دہشت گردوں میں سے ایک مسعود اظہر کا قائم کیا ہوا جیش محمد گزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستان میں ہوئے  دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث رہا ہے۔

Next Article

آپریشن سیندور: ہندوستانی فوج نے پاکستان کے کن نو مقامات کو نشانہ بنایا؟

ہندوستانی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد سے منسلک ہائی پروفائل مقامات- جن کے ہٹ لسٹ میں سرفہرست ہونے کی امید تھی-کے علاوہ ہندوستانی فوج کے آپریشن سیندور نے ان کیمپوں کو نشانہ بنایا ہے جن میں پہلگام سمیت ہندوستان میں ہوئے مختلف دہشت گردانہ  حملوں کی’جڑیں’ ہیں۔

بہاولپور میں جیش محمد کے ہیڈکوارٹر مسجد سبحان اللہ کی سیٹلائٹ تصویر۔ (تصویر: گوگل میپس)

بہاولپور میں جیش محمد کے ہیڈکوارٹر مسجد سبحان اللہ کی سیٹلائٹ تصویر۔ (تصویر: گوگل میپس)

نئی دہلی: ہندوستانی وزارت دفاع نے بدھ کی صبح پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر (پی او کے) میں’دہشت گرد ڈھانچے’ کے خلاف فوجی حملوں کا اعلان کرتے ہوئے نو مقامات کو نشانہ بنائے جانے کی بات کہی ہے، لیکن اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں کہ کن مقامات پر حملہ کیا گیا۔ تاہم، یہ بتایا گیا ہے کہ یہ تمام وہ مقامات تھے ‘جہاں سے ہندوستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کی گئی  اور ہدایت دی گئی۔’

رپورٹ کے مطابق ، ہدف بنائے گئے مقامات کے بارے میں معلومات سب سے پہلے پاکستان کے اندر مختلف مقامات، بالخصوص بہاولپور سے جلتی ہوئی عمارتوں کی عجلت میں بنائی گئی ویڈیو فوٹیج میں سامنے آئیں۔

ہندوستانی وقت کے مطابق صبح 4:38 بجے، پاکستان کے چیف ملٹری ترجمان نے پاکستان میں ان چھ مقامات کا نام بتائے، جنہیں ان کے بقول نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان میں سے چار مغربی پنجاب میں تھے؛ بہاولپور، مریدکے، سیالکوٹ کے گاؤں کوٹکی لوہارا اور شکر گڑھ کے قریب ایک علاقہ، جبکہ باقی دو پی او کے، یعنی مظفر آباد اور کوٹلی میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ کل ’24 حملے’ ہوئے تھے۔

بعد ازاں صبح، ہندوستانی ذرائع نے بی جے پی کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو فوج کی طرف سے منتخب کیے گئے نو اہداف کی فہرست اور انہیں کیوں چنا گیا، اس کے اشارے دیے۔ جہاں بہاولپور اور مریدکے کے کردار معروف ہیں لیکن دیگر سات مقامات کے بارے میں دعوؤں کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

بہاولپور، پنجاب

پاکستان کے اندر تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پنجاب کا یہ بڑا شہر دہشت گردوں کے ٹھکانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جیش محمد کا ہیڈ کوارٹر شہر کے احمد پور علاقے میں ہے۔سال  2000 کے اواخر میں آئی سی -814 کے ہائی جیکروں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے مسافروں کی رہائی کے بدلے ہندوستان کی طرف سے رہائی پانے والے دہشت گردوں میں سے ایک  مسعود اظہر کے ذریعے قائم کیے گئے جیش محمدگزشتہ دو دہائیوں میں ہندوستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات میں ملوث رہا ہے۔

مریدکے، پنجاب

بین الاقوامی سرحد سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ قصبہ طویل عرصے سے لشکر طیبہ کا ہیڈ کوارٹر رہا ہے، جو ہندوستان کو نشانہ بنانے والے سب سے زیادہ فعال اور مہلک دہشت گرد گروہوں میں سے ایک ہے۔ ہندوستان کا ماننا ہے کہ حافظ سعید نے 2008 میں ممبئی پر 26/11 کے دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ سعید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مریدکے سے برسوں پہلے چلا گیا تھا اور اب خیال کیا جاتا ہے کہ وہ لاہور میں ہے۔ اس امکان کے پیش نظر کہ یہ شہر ہندوستان کی ٹارگٹ لسٹ میں ہوگاہی، اس بات کا امکان ہے کہ لشکر نے شہر میں اس کے  اہم اہلکاروں کو رکھا ہوا نہیں ہوگا۔

سرجل کیمپ، ضلع شکر گڑھ، پنجاب

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ جیش محمد کا کیمپ تھا، جو بین الاقوامی سرحد سے تقریباً 8 کلومیٹر دور سامبا-کٹھوعہ کے سامنے واقع تھا۔

مہمونہ کیمپ، ضلع سیالکوٹ، پنجاب

ہندوستانی ذرائع کے مطابق،یہ ایک تربیتی کیمپ تھا جو حزب المجاہدین کے زیر استعمال تھا اور سرحد سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

گل پور، پی او کے

یہ جگہ پونچھ-راجوری کے بالمقابل لائن آف کنٹرول (ایل او سی) سے تقریباً 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ 20 اپریل 2023 کو پونچھ میں ہونے والے ‘حملے’ اور جون 2024 میں بس میں سفر کرنے والے معصوم تیرتھ یاتریوں پر ‘حملوں’ کی جڑیں یہاں کے دہشت گردوں سے جڑی ہوئی ہیں۔

لشکر کوٹلی کیمپ، پی او کے

راجوری کے سامنے ایل او سی سے تقریباً 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس کیمپ کو ‘لشکر بامبر کیمپ’ بتایا جا رہا ہے، جس میں’تقریباً 50 دہشت گردوں’ کی گنجائش ہے۔ تاہم، ایل او سی سے نزدیک ہونے اور ہندوستانی فوجی حملے کی یقین دہانی کے پیش نظر یہ واضح نہیں ہے کہ حملے کے وقت کیمپ میں 50 میں سے کتنے آدمی تھے۔

لشکر سوائی کیمپ، تنگدھار، پی او کے

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پہلگام میں حالیہ دہشت گردانہ حملہ اور اکتوبر 2024 میں سونمرگ اور گلمرگ میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی جڑیں ایل او سی کے اندر 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس جگہ سے جڑی ہیں۔

بلال کیمپ، مقام نامعلوم

اسے محض ‘جیش محمد کا لانچ پیڈ’ قرار دیا گیا ہے۔

برنالہ کیمپ، پی او کے

یہ جگہ راجوری کے سامنے ایل او سی سے صرف 10 کلومیٹر دور واقع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس فہرست اور پاک فوج کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ذریعے جاری کردہ فہرست میں واحد بڑا تضاد مظفرآباد شہر کو مبینہ طور پر نشانہ بنانا ہے۔

پاکستان نے مظفرآباد میں نشانہ بنائے گئے مقام کی شناخت شہر کی بلال مسجد کے طور پر کی ہے۔

Next Article

سیاسی جماعتوں نے پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر حملوں کی حمایت کی، کہا – مسلح افواج پر فخر ہے

‘آپریشن سیندور’ کے تحت ہندوستانی فوج کی جانب سے پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کے نو کیمپوں پر حملے کیے جانے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے اس کی حمایت کی اور سکیورٹی فورسز کی تعریف کی۔ ان جماعتوں نے کہا کہ قومی مفاد سب سے مقدم ہے۔

نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے ایک کیمپ کا منظر دکھایا گیا، جس پر 'آپریشن سیندور' کے تحت حملہ کیا گیا۔ (تصویر: @MEAIndia/Youtube via PTI)

نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے ایک کیمپ کا منظر دکھایا گیا، جس پر ‘آپریشن سیندور’ کے تحت حملہ کیا گیا۔ (تصویر: @MEAIndia/Youtube via PTI)

نئی دہلی: مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں نے بدھ کی صبح پاکستان اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں نو دہشت گرد کیمپوں پر حملوں کی حمایت کی ہے ۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ نے کہا، ‘حکومت ہند، ہندوستانی دفاعی فورسز نے یہ یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے کہ کوئی بھی فوجی اور شہری ہدف  نشانہ نہ بنے۔ انہوں نے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور لانچنگ پیڈز کو نشانہ بنایا ہے۔’

انہوں نے کہا،’بدقسمتی سے ردعمل متناسب نہیں ہے۔ ان کی وجہ سے ہم اس حال میں ہیں۔ اگر وہ ہمارے معصوم شہریوں کو نشانہ نہ بناتے تو ہم یہاں نہ ہوتے۔ ہم نے اسے اکسایا نہیں۔ ہم نے اشتعال انگیزی کا جواب دیا ہے۔ اب پاکستان کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ ہمارا ردعمل پہلگام کے واقعے تک ہی محدود تھا۔ انہیں محتاط رہنا چاہیے کہ معاملات قابو سے باہر نہ جائیں۔’

عبداللہ نے کشمیر کے پونچھ سیکٹر میں پاکستان کی طرف سے جوابی گولہ باری میں شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات کی بھی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ صورتحال سے نمٹ رہے ہیں اور متاثرین کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں۔

‘پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد کانگریس پوری طرح مسلح افواج اور حکومت کے ساتھ ‘

کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے مسلح افواج کی حمایت کرتے ہوئے کہا، ‘پاکستان اور پی او کے سے نکلنے والی ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہندوستان کی مضبوط قومی پالیسی ہے۔ ہمیں اپنی ہندوستانی مسلح افواج پر بے حد فخر ہے، جنہوں نے پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے کیمپوں کو تباہ کیا ہے۔ ہم ان کے عزم اور ہمت کو سراہتے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘پہلگام دہشت گردانہ حملے کے دن سےہی انڈین نیشنل کانگریس سرحد پار دہشت گردی کے خلاف کسی بھی فیصلہ کن کارروائی میں مسلح افواج اور حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ قومی اتحاد اور یکجہتی وقت کی ضرورت ہے اور انڈین نیشنل کانگریس ہماری مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہمارے قائدین نے ماضی میں راستہ دکھایا اور ہمارے لیے قومی مفاد سب سے مقدم ہے۔’

لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف اور کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، ‘ہمیں اپنی مسلح افواج پر فخر ہے۔ جئے ہند!’

کانگریس کے چیف ترجمان اور سینئر لیڈر جئے رام رمیش نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد منعقدہ آل پارٹی میٹنگ میں حکومت کو کانگریس کی حمایت کا اعادہ کیا۔

انہوں نے کہا، ‘پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردی کے تمام ذرائع کو ختم کرنے کے لیے ہندوستان کا عزم ہمیشہ اٹل اور ہمیشہ اعلیٰ ترین قومی مفاد میں ہونا چاہیے۔ یہ اتحاد اور یکجہتی کا وقت ہے۔ 22 اپریل کی رات سے ہی کانگریس واضح طور پر کہہ رہی ہے کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے پر ملک کے ردعمل میں حکومت کو ہماری مکمل حمایت حاصل ہوگی۔ کانگریس ہماری مسلح افواج کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔’

بی جے پی کے ایکس ہینڈل نے مرکزی حکومت کی پریس ریلیز کو شیئر کیا اور اسے ‘جئے ہند’ کے نعرے کے ساتھ ٹیگ کیا۔ بی جے پی نے اس موقع پر اپنی طاقت دکھانے کے لیے اسٹرائیک کے مناظر اور وزیر اعظم نریندر مودی کی تقاریر کا ایک ویڈیو شیئر کیا، جس کے ساتھ کیپشن لکھا تھا،’ کہا تھا نہ، چن چن کر ماریں گے!’

بی جے پی صدر جے پی نڈا نے کہا، ‘یہ پہلگام کے لیے ہندوستان کا پیغام ہے۔ اگر آپ ہمیں چھیڑیں گے تو ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا ہے کہ ہندوستان کی روح پر حملہ کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ ہندوستان دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیار اور پرعزم ہے۔ ہم دہشت گردی کے بہتے گھاؤ کو مٹا دیں گے۔’

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شردچندرا پوار) کے ترجمان انیش گوانڈے نے اپنے ابتدائی ریمارکس میں کہا کہ ‘…ایک ذمہ دار حزب اختلاف کو دکھاوے یا جنگی اشتعال سے بچنا چاہیے۔’

انہوں نے کہا،’ہم امن کی دعا کرتے ہیں، ہم سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں۔ میں خاص طور پر سرحدوں پر رہنے والے لوگوں کے لیے دعا کرتا ہوں – جو بغیر کسی خواہش  کے جنگ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔’

شیوسینا (یو بی ٹی) اور آر جے ڈی نے ہندوستانی فوج کو مبارکباد دی

شیو سینا (یو بی ٹی) کے رہنما آدتیہ ٹھاکرے نے کہا، ‘دہشت گردی کی تمام شکلوں کو ختم کیا جانا چاہیے… ان پر  اتنی مارپڑنی چاہیے کہ دہشت گردی کو دوبارہ موقع نہ ملے۔ جئے ہند!’

شیو سینا (یو بی ٹی) کی ترجمان پرینکا چترویدی نےحملوں کا جشن منایا۔ انہوں نے کہا، انہوں نے دھرم کے بارے میں پوچھا۔ اب اپنے حرکتوں کا خمیازہ بھگتو۔ ہندوستانی فوج۔’

انہوں نے کہا، ‘پاکستانی شہریوں کو ان کے پاکستانی فوجی جرنلوں کی طرف سے بنائے گئے دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے کے لیے ہندوستانی فوج کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ہم نے آپ کے گھر میں گھس کر اسے صاف کر دیا۔’

راشٹریہ جنتا دل کے رہنما تیجسوی یادو نے ہندوستانی فوج کو مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا، ‘جئے بھارت! نہ تو دہشت گردی  ہونی چاہیےاور نہ ہی  علیحدگی پسندی! ہمیں اپنے بہادر فوجیوں اور ہندوستانی فوج پر فخر ہے۔’

اسد الدین اویسی نے حملوں کا خیرمقدم کیا

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا، ‘میں پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر دفاعی افواج کی جانب سے کی گئی سرجیکل اسٹرائیکس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ پاکستان کے ڈیپ اسٹیٹ کو کڑا سبق سکھایا جانا چاہیے تاکہ پہلگام جیسا واقعہ دوبارہ نہ ہو۔ پاکستان کے دہشت گردی کے  ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کیا جانا چاہیے۔ جئے ہند۔’

دریں اثناکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے پولت بیورو نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے پہلے ہی ‘دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کے خلاف’ اٹھائے گئے اقدامات میں حکومت کی حمایت کی ہے۔ اس نے حکومت پر حملوں کے ساتھ ساتھ پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کی اپیل کی۔’

سی پی آئی (ایم) نے کہا، ‘ان کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پہلگام میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کے ذمہ دار لوگوں کو حوالے کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالا جانا چاہیے کہ اس کی سرزمین سے کوئی بھی دہشت گرد کیمپ کام نہ کرے۔ حکومت ہند کو عوام کے اتحاد اور ملک کی سالمیت کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے۔’

سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن واحد پارٹی ہے جس نے ‘کشیدگی کو ختم کرنے اور سفارت کاری’ کا مطالبہ کیا

تاہم، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ لیننسٹ) لبریشن (سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن) واحد پارٹی ہے جس نے ‘ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ سے بچنے کے لیے کشیدگی میں کمی اور سفارت کاری’ پر زور دیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے، ‘ہندوستانی حکام نے اس آپریشن کو قابل اعتماد انٹلی جنس کا نتیجہ قرار دیا ہے اور اسے ایک درست اور تحمل کے ساتھ دیا ہوا جواب قرار دیا ہے، جو ایک اچھی طرح سے منصوبہ بند اور کشیدگی نہ بڑھنےکے ساتھ کیا گیا ہے۔ تاہم پاکستان نے کہا ہے کہ خواتین اور بچوں سمیت عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ آپریشن سیندور کے بعد جموں و کشمیر میں سرحد پار سے فائرنگ اور کئی عام شہریوں کے مارے جانے کی خبریں پہلے سے  ہی آ رہی  ہیں۔’

اس میں کہا گیا ہے، ‘ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کے خطرے کے واضح آثار ہیں۔ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان جنگ کو روکنے کے لیے تمام کوششیں کی جانی چاہیے اور دہشت گردی کو روکنے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے تمام غیر فوجی سفارتی آپشنز پر غور کرنا چاہیے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کی جانب سے 200 مراکز میں وسیع پیمانے پر ماک ڈرل کا اعلان ‘عوامی بیداری پھیلا کر سیکورٹی کو مضبوط کرنے کی ایک تکنیک’ہے لیکن اسے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس طرح کی ڈرل ہندوستان کے اندرونی ماحول کو خراب نہ کریں اور جنگ کے لیے شاونسٹک شور پیدا نہ کریں۔

نیز، اس نے حکومت پاکستان سے دہشت گردی کے کیمپوں کو بند کرنے کی اپیل کی ۔ پارٹی نے کہا، ‘ہم پاکستانی حکومت سے پاکستان میں دہشت گردی کے کیمپوں کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور پاکستانی عوام سے دہشت گردی اور جنگ کے خلاف آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں۔ آئیے ہم ایک اور بھارت- پاک جنگ کے لیے زوردار نہ کہیں اور دو طرفہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے دباؤ بنائیں۔’