مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا ہے کہ وہ تھانے ضلع میں واقع حاجی ملنگ درگاہ کو آزاد کرانے کے لیے پرعزم ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں سے ہندو فریق اس درگاہ کو مندر کہتے آ رہے ہیں۔ تاہم، اس درگاہ کی دیکھ بھال کرنے والے ہندو ٹرسٹی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ درگاہ ایک مخلوط ڈھانچہ ہے، جس پر ہندو یا مسلم قانون نہیں چلایا جا سکتا۔
نئی دہلی: مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے یہ کہنے کے ایک دن بعد کہ وہ صدیوں پرانی حاجی ملنگ درگاہ – جس کے بارے میں دائیں بازو کے گروپ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایک مندر ہے— کی ‘آزادی’ کے لیے پرعزم ہیں، درگاہ کے ہندو معتمدوں نے کہا ہے کہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیےاس تنازعہ کو طول دیا جا رہا ہے۔
تھانے ضلع میں ماتھیران پہاڑی سلسلے پر سطح سمندر سے 3000 فٹ بلندی پر واقع ایک پہاڑی قلعہ ملنگ گڑھ کے سب سے نچلے مرتفع سطح پر واقع یہ درگاہ 12ویں صدی کے یمن کے صوفی بزرگ حاجی عبد الرحمٰن (جو حاجی ملنگ بابا کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں) کی مزار ہے۔
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، درگاہ کے تین رکنی ٹرسٹ کے دو ٹرسٹیوں میں سے ایک چندرہاس کیتکر، جن کا خاندان پچھلی 14 نسلوں سے درگاہ کی دیکھ بھال کر رہا ہے، نے کہا، ‘جو کوئی بھی درگاہ کے مندر ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے، وہ سیاسی فائدے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘1954 میں سپریم کورٹ نے کیتکر خاندان کے اندر درگاہ کے کنٹرول سے متعلق ایک کیس میں ریمارکس دیے تھے کہ درگاہ ایک مخلوط ڈھانچہ ہے، جسے ہندو یا مسلم قانون کے تحت نہیں چلایا جا سکتا، بلکہ صرف اس کے اپنے مخصوص رسم و رواج کے تحت چلایا جا سکتا ہے۔’
انہو ں نے مزید کہا کہ ‘سیاستدان اب صرف اپنے ووٹ کے لیے اور سیاسی ایشو کھڑا کرنے کے لیے یہ تنازعہ پیدا کر رہے ہیں۔’
ٹرسٹی فیملی سے تعلق رکھنے والے ابھیجیت کیتکر کے مطابق، ہر سال ہزاروں لوگ اپنی منتیں پوری کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔
یہ درگاہ، جسے بہت سے لوگ مہاراشٹر کی ہم آہنگی کی ثقافت کا نمائندہ سمجھتے ہیں، تنازعات سے پاک نہیں ہے۔
شندے کے سیاسی گرو آنند دیگھے نے 1980 میں اس سلسلے میں تحریک چلانے والے سب سے پہلے شخص تھے، جن کا دعویٰ تھا کہ اس عمارت کی جگہ پر یوگیوں کے ناتھ فرقے سے متعلق ایک پرانا ہندو مندر ‘مچھندر ناتھ مندر’ ہوا کرتا تھا۔
سال 1996 میں وہ یہاں پوجا کرنے کے لیے 20000 شیوسینکوں کو مندر میں لے جانے پر بضد ہوگئے تھے۔ اس سال اس وقت کے وزیر اعلیٰ منوہر جوشی کے ساتھ شیوسینا لیڈر ادھو ٹھاکرے نے بھی پوجا میں حصہ لیا تھا۔ تب سے سینا اور دائیں بازو کے گروپ اس عمارت کو شری ملنگ گڑھ کے نام سے پکارتے ہیں۔
تاہم، یہ عمارت اب بھی درگاہ ہے، لیکن پورنیما کے دن ہندو اس کے احاطے میں آتے ہیں اور آرتی کرتے ہیں۔
وہیں ، 1990 کی دہائی میں اقتدار میں آنے پر شیو سینا نے اس معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا تھا، لیکن اب شندے نے اس مسئلے کو دوبارہ طول دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں درگاہ کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی ہے اور کہا ہے کہ اس کا ذکر 1882 میں شائع ہونے والے بمبئی پریزیڈنسی کے گزٹیئر سمیت مختلف تاریخی ریکارڈوں میں موجود ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ درگاہ عرب مشنری حاجی عبدالرحمٰن، جو حاجی ملنگ کے نام سے مشہور تھے، کے اعزاز میں تعمیر کی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی حکمران نل راجہ کے دور میں صوفی بزرگ بہت سے پیروکاروں کے ساتھ یمن سے آئے تھے اور پہاڑی کے نچلے مرتفع سطح پر آباد ہوگئے تھے۔
درگاہ کی بقیہ تاریخ اسطوری کہانیوں سے لبریز ہے اور مقامی طور پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نل راجہ نے اپنی بیٹی کی شادی ایک صوفی بزرگ سے کی تھی۔ درگاہ احاطے کے اندر حاجی ملنگ اور ماں فاطمہ دونوں کی قبریں واقع ہیں۔
بمبئی پریزیڈنسی کے گزٹ میں کہا گیا ہے کہ عمارت اور مقبرے 12ویں صدی سے موجود ہیں اور انہیں مقدس سمجھا جاتا ہے۔
گزٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 18ویں صدی میں مراٹھا سنگھ نے برہمن کاشی ناتھ پنت کیتکر سے بھی درگاہ میں پرساد بھیجا تھا۔ وہیں۔ کاشی ناتھ پنت نے اس کی مرمت کروائی تھی اور عمارت کی نگرانی کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
درگاہ پر پہلا تنازعہ 18 ویں صدی میں شروع ہوا، جب مقامی مسلمانوں نے اس پر برہمن کے زیر انتظام ہونے پر اعتراض کیا۔ بعد میں، اس وقت کے مقامی منتظم نے 1817 میں ‘قرعہ اندازی’ کے ذریعے اس تنازعے کو حل کیا۔ گزٹ میں کہا گیا کہ کاشی ناتھ پنت کے حق میں لاٹری نکلی اور انہیں سرپرست قرار دیا گیا۔
تب سے کیتکر حاجی ملنگ درگاہ ٹرسٹ کے موروثی ٹرسٹی ہیں اور انہوں نے درگاہ کی دیکھ بھال میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹرسٹ میں ہندو اور مسلم دونوں ممبر ہیں، جو مل جل کر کام کرتے ہیں۔
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے موجودہ ٹرسٹی چندرہاس کیتکر نے کہا، ‘ہمارے ٹرسٹ بورڈ میں پارسی، مسلم اور ہندو برادریوں کے ساتھ ساتھ مقامی کسان برادری کے ممبران بھی تھے۔ تاہم 2008 کے بعد سے ٹرسٹ میں کوئی نئی تقرری نہیں ہوئی ہے۔’
درگاہ پر مقالہ لکھنے والے رما شیام نے کہا، ‘درگاہ کا انتظام ایک مقامی برہمن خاندان کرتا ہے۔ یہ تمام مذاہب کے لیے ایک زیارت گاہ ہے اور تاریخی اعتبار سے بلا لحاظ مذہب و عقیدہ وہ لوگ جو مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور حاشیے پر ہیں، یہاں آتے رہے ہیں۔’
پربھات سوگویکر کا خاندان کئی نسلوں سے درگاہ کی طرف جانے والی پہاڑی پر چائے اور ناشتے کی ایک چھوٹی سی دکان چلا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ‘زیادہ تر مسلم عقیدت مند درگاہ کو حاجی ملنگ بابا کے نام سے جانتے ہیں، جبکہ آنند دیگھے کے یہاں آنے کے بعد ہندو اس جگہ کو شری ملنگ گڑھ کے نام سے جانتے ہیں۔ میرے لیے بابا اور شری ملنگ دونوں ایک ہی ہیں۔’
اتفاق سے شندے فروری 2023 میں درگاہ پر گئے تھے۔ تب انہوں نے آرتی کی تھی اور درگاہ کے اندر بھگوا چادر چڑھائی تھی۔ 11 ماہ بعد انہوں نے اس معاملے پر جارحانہ موقف اختیار کیا ہے۔