اربن نکسل اور خان مارکیٹ گینگ کہہ کر کرتے ہیں بدنام: ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج نے کیا سنگھ پریوار پر حملہ

سابق جج ایس مرلی دھر نے  پروفیسر جی این سائی بابا میموریل لیکچر میں کہا کہ  آر ایس ایس تفرقہ انگیز ایجنڈہ کو فروغ دے رہی ہےاور گمراہ کن تاریخ پڑھا رہی ہے۔ انہوں نے تعلیمی میدان میں نوجوانوں کے ذہنوں پر  قبضہ، ادارہ جاتی مداخلت اور اکیڈمک آزادی پر سوال اٹھائےاور سائی بابا کیس کے توسط سے عدلیہ کے رویے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

سابق جج ایس مرلی دھر نے  پروفیسر جی این سائی بابا میموریل لیکچر میں کہا کہ  آر ایس ایس تفرقہ انگیز ایجنڈہ کو فروغ دے رہی ہےاور گمراہ کن تاریخ پڑھا رہی ہے۔ انہوں نے تعلیمی میدان میں نوجوانوں کے ذہنوں پر  قبضہ، ادارہ جاتی مداخلت اور اکیڈمک آزادی پر سوال اٹھائےاور سائی بابا کیس کے توسط سے عدلیہ کے رویے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

تصویر: انکت راج/ دی وائر

نئی دہلی: اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے جسٹس ایس مرلی دھر نے آر ایس ایس کے تفرقہ انگیز ایجنڈے پر سخت تنقید کی اور اس کے ساتھ ہی سنگھ کے ذریعے  غلط تاریخ کی تعلیم کی جانب توجہ مبذول کرائی ۔

جسٹس مرلی دھر نے یہ باتیں اتوار، 12 اکتوبر 2025 کو دہلی میں منعقد پروفیسر جی این سائی بابا کے پہلے میموریل لیکچرمیں کہیں۔ ‘ٹیچنگ اے لیسن؟ اکیڈمک فریڈم  اینڈ دی انڈین اسٹیٹ’ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے سینئر وکیل اور ریٹائرڈ جج نے ہندوستان کےتعلیمی نظام،اکیڈمک آزادی اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر سخت تبصرہ کیا ۔

سابق جج نے پروفیسر سائی بابا کو ایک اسکالر اور دانشور کے طور پر یاد کیا۔

بائیں سے’ پروفیسر جی این سائی بابا میموریل کمیٹی کی شریک چیئرپرسن پروفیسر نندتا نارائن،سائی بابا کی بیٹی منجیرا، جسٹس مرلی دھر اور سائی بابا کی بیوی وسنتا۔ (تصویر بہ شکریہ: صمیم اصغر علی)

‘آزادی کے نعرے لگانے پر

‘کیا پڑھایا جائے گا، کیسے پڑھایا جائے گا، کون پڑھائے گا، کس کو پڑھائے گا، کن موضوعات پر لکھا یا تبصرہ کیا جا سکتا ہے- اب یہ سب تعلیمی ادارے طے نہیں کرتے۔ اب ان کے لیے کچھ  بیرونی اور غیر قانونی میکانزم سے منظوری لینی ہوتی ہے۔’ جج نے کہا۔

ادارہ جاتی جبر، عدم برداشت، اقتدارکی مداخلت اور اساتذہ اور طلباء کے حقوق کے سوالوں کو اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘2025 کے ہندوستان میں فیض احمد فیض کی نظم ‘بول’ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن شرائط و ضوابط لاگو ہیں۔ کیمپس میں ‘ہم دیکھیں گے’ یا ‘آزادی’ کے نعرے لگانے سے آپ پر اربن نکسل، ٹکڑے-ٹکڑے گینگ، خان مارکیٹ ٹائپ یاجے این یو ٹائپ کالیبل  لگ سکتا ہے۔’

واضح ہو کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پہلی بار 2019 میں ‘خان مارکیٹ گینگ’ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ انہوں نے اس اصطلاح کا استعمال کانگریس پارٹی اور اس کے مبینہ حامیوں کے گروپ کے لیے کیا تھا، جنہیں وہ دہلی کے اشرافیہ  اورانگریزی بولنے والے دانشور کے طور پر دیکھتے ہیں۔

مئی 2019 میں دی انڈین ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مودی نے کہا تھا کہ ‘میری شبیہ ‘خان مارکیٹ گینگ’ یا ‘لٹین دہلی’ نے نہیں بنائی ہے، بلکہ یہ 45 سال کی تپسیا کا نتیجہ ہے۔’

(تصویر بہ شکریہ: صمیم اصغر علی)

نوجوان ذہنوں پر قبضہ؟

تعلیم کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں پر قبضہ کرنے کی مودی حکومت کی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے جسٹس مرلی دھر کہتے ہیں،’جب کوئی پچھلی دہائی کے دوران تعلیم میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر ڈالتا ہے، تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ عوام بالخصوص نوجوانوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کتنی اور کیسی مسلسل کوششیں کی گئی ہیں۔ اس میں ایک منظم کوشش ہے کہ تعلیم سے ہر اس چیز کو ہٹا دیا جائے جو حکمران اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں اور اقدامات پر سوالیہ نشان لگاتی ہو۔سائنس کو خارج کرنے اور ماضی کی حصولیابیوں کو پیش کرنے میں ایک گھمنڈ سا دکھائی دیتا ہے۔’

اپنے لیکچر میں جسٹس مرلی دھر نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی طرف سے بچوں کو پڑھائی جانے والی گمراہ کن تاریخ کی وضاحت کی۔

‘آر ایس ایس کی ایک تعلیمی تنظیم ہے، ودیا بھارتی۔ یہ مبینہ طور پر ملک بھر میں 12,754 رسمی اسکول اور 12,654 غیر رسمی اسکول چلاتی ہے، جس میں تقریباً 77 لاکھ طلباء اور تقریباً 150,000 اساتذہ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر اسکول سی بی ایس ای، مختلف ریاستی بورڈز اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ سے منسلک ہیں۔ ودیا   بھارتی کی کتابیں ہندی سمیت 12 دیگر علاقائی زبانوں -جیسے بنگلہ، تامل، اور اڑیا میں شائع ہوتی ہیں۔ یہ کتابیں حکومت کے منظور شدہ نصاب کے علاوہ پڑھائی جاتی ہیں۔’

ایک میڈیا رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس مرلی دھر نے مزید کہا؛


‘بودھ مالا 4’ نامی کتاب کے صفحہ 5 پر دیا گیا سوال جواب، جس کا مقصد چوتھی جماعت کے بچوں کے ‘ثقافتی علم’ کو بڑھانا ہے، توجہ حاصل کرنے والا ہے۔

سوال: ہماری موجودہ سرحدوں سے متصل کون سے ممالک پہلے ہمارے ملک کا حصہ تھے؟

جواب: مشرق میں برما (میانمار) اور بنگلہ دیش، مغرب میں پاکستان اور افغانستان، شمال میں تبت، نیپال اور بھوٹان، اور جنوب میں سری لنکا ۔

اسی سلسلے میں ایک استاد کی گائیڈ بک یہ مبالغہ آمیز دعویٰ کرتی ہے؛

ہندو ثقافت ایک زمانے میں پورے جمبودیپ خطے پر حاوی تھی… جسے ہم اب ایشیا کہتے ہیں وہ قدیم جمبودیپ تھا۔ مصر، سعودی عرب، عراق، ایران، قزاقستان، اسرائیل، روس، منگولیا، چین، میانمار، انڈونیشیا، ملائیشیا، جاوا، سماترا، ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، پاکستان اور افغانستان یہ  سب اسی کا حصہ تھے۔


جسٹس مرلی دھر نے مزید کہا، ‘اگر یہ سب کچھ ‘انڈین نالج سسٹم’ کے نام پر چلائی جانے والی ایک بڑی مہم کا حصہ نہ ہوتا تو شاید یہ تشویشناک بات نہ ہوتی۔’ سابق جج واضح طور پر کہتے ہیں کہ ’ ان خیالات کا اثر اب رسمی تعلیمی اداروں کے نصاب میں بھی نظر آرہا ہے‘۔

(تصویر: انکت راج/ دی وائر )

جسٹس مرلی دھر نے استدلال کیا کہ ‘ادارہ جاتی خودمختاری کا فقدان اس وقت  شدید ہوتا ہے جب یہ طے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ نصاب میں کیا شامل کیا جائے گا اور کون سی کتابیں پڑھائی جائیں گی یا کس مواد کوشامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسئلہ اسکولوں اور کالجوں دونوں سے متعلق ہے۔’

دیگر کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سابق جج کہتے ہیں، ‘اس کے علاوہ، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے ملک بھر کی یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کئی ہدایات جاری کی ہیں۔ ان میں سری سری روی شنکر کی تنظیم ‘آرٹ آف لیونگ فاؤنڈیشن’ کی طرف سےتیار کردہ میڈیٹیشن سیشن کا انعقاد، یا  پھرکیمپس میں مختلف تہوار منانا شامل ہیں۔’

اس کے ساتھ ساتھ نصاب میں وسیع تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، جن میں کچھ جگہوں پر ترمیم تو کچھ جگہوں پرمکمل طور پر ہٹانے تک کی کارروائیاں ہو رہی ہیں ، خاص طور پر ایسے مواد کو جو دائیں بازو کے گروپوں کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔

مثال کے طور پر دلی یونیورسٹی کے بی اے آنرز کورس کی ریڈنگ لسٹ سے مشہور ادیب اے کے رامانوجن کا مضمون ‘تھری ہنڈریڈ رامائنز:فائیو اگزامپلز اینڈ تھری تھاٹس آن ٹرانسلیشن’ کو زبردستی ہٹایا گیا تھا۔’

(تصویر: انکت راج/ دی وائر)

تو کیا اب بھی کوئی امید ہے؟

جسٹس مرلی دھر خود یہ سوال پوچھتے ہیں، پھر جواب کی تلاش میں کچھ تجاویز پیش کرتے ہیں،’تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ ملک کے کسی نہ کسی کونے میں ایسے بہت سے اساتذہ اور طلباء ہیں جو جابرانہ نظام کے دباؤ اور اثرات کے سامنے جھکنے یا سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ یہ انسان کی اس طاقت کی علامت ہے، جو مشکلات کے باوجود ثابت قدم  رہتی ہے۔’

اگر ہم اپنی اندرونی خواہش کو نہیں دباتے تو امید باقی رہے گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اس روح اور آئینی اقدار کی حفاظت کرنی چاہیے جس کے ذریعے ہم جینا چاہتے ہیں، تاکہ آنے والی نسلیں ہمارے تجربے سے سیکھ سکیں اور جان سکیں کہ کیا قیمتی ہے اور کس چیز کی حفاظت کرنی چاہیے۔’

جسٹس مرلی دھر کا کہنا ہے کہ’پچھلی دہائی میں ہم نے جو تبدیلیاں دیکھی ہیں وہ شاید ہمارے تصور سے بھی زیادہ دیرپا ہو سکتی ہیں ۔ یہ ہمارے لیے آئین میں شامل جامعیت اور تکثیریت کی اقدار پر اعتماد بحال کرنے کے کام  کواور بھی مشکل بنا دیتی ہے۔’

وہ کچھ سوال پوچھتے ہیں،’ہم سرکاری یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اکیڈمک آزادی کے لیے سیکولر جگہ کو کیسے واپس حاصل کر سکتے ہیں؟ نجی یونیورسٹیوں کو ادارہ جاتی خود مختاری دوبارہ حاصل کرنے میں کس طرح مدد کی جا سکتی ہے؟ ہم نوجوان ذہنوں میں ‘سائنسی مزاج’ اور تجسس کے جذبے کو کیسے تیار کر سکتے ہیں؟ اپنے سرکاری اور سرکاری اسکولوں کے حالات میں بہتری لاکربچپن سے جوانی تک اکیڈمک آزادی کی امید کیسے دی جا سکتی ہے؟’

اس کے بعد وہ تجویز کرتے ہیں، ‘حال ہی میں ہم نے مختلف تعلیمی ماڈل دیکھے ہیں جو متبادل جگہوں اور نظام تعلیم کی پیشکش کرتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، شانتی نکیتن ماڈل (جیسا کہ گرودیو ٹیگور نے اصل میں تصور کیا تھا) یا کرشنامورتی فاؤنڈیشن آف انڈیا اسکول ماڈل۔ اور بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ کیا ہم ان کو آج کی ضروریات کے مطابق نقل کر سکتے ہیں یا ڈھال سکتے ہیں؟ ان سوالوں کے ہمارے جوابات یہ طے کریں گے کہ آنے والی  نسلوں کے لیے اکیڈمک آزادی کا راستہ کیسا ہوگا۔’

(تصویر: انکت راج/ دی وائر )

پروفیسر جی این سائی بابا کے بارے میں جج نے کیا کہا؟

جسٹس مرلی دھر نے پروفیسر جی این سائی بابا کے معاملے میں ہندوستانی عدلیہ کے رویے پر شدید تشویش کا اظہار کیا، تاہم، انہوں نے اس کیس پر بات نہیں کی کیونکہ یہ ابھی زیر التوا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘ہندوستانی سپریم کورٹ کی طرف سے دہلی یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد پروفیسر جی این سائی بابا کے کیس کو ہینڈل کرنے نے بہت سے قانونی ماہرین کو حیران اور مایوس کیا، تاہم، اس وقت اس کیس پر تفصیل سے بات کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ اب سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔’

جی این سائی بابا کی قید اور ان کی رہائی کی کہانی سنانے کے بعد جسٹس مرلی دھر نے کہا، ‘وہ ایک اسکالر تھے جن کی پی ایچ ڈی کا موضوع تھا ‘انڈین  رائٹنگ ان انگلش اینڈ نیشن میکنگ’۔ جیل میں انہوں نے بے شمار مضامین اور نظمیں لکھیں، جن میں سے دو جلدیں شائع ہوئیں، سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ‘کون اور کب ذمہ دار ٹھہرایا جائے گااس نظام کے لیے جس نے ایک پڑھے لکھے اور بردبار آدمی کے ساتھ ایسا کیا؟’

پروفیسر جی این سائی بابا کے خلاف سخت یو اے پی اے  کی دفعات کا استعمال کرتے ہوئے یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ایک ممنوعہ دہشت گرد تنظیم سے وابستہ تھے اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ یہ مقدمہ مکمل طور پر ان کے گھر سے12 ستمبر 2013 کو ضبط کیے گئے الکٹرانک شواہد (سی ڈی، پین ڈرائیو اور لیپ ٹاپ) پر مبنی تھا ۔ انہیں 9 مئی 2014 کو گرفتار کیا گیا ۔

بچپن سے پولیو کا شکار ہونے کے بعد پروفیسر سائی بابا ہمیشہ وہیل چیئر پر رہے۔ اس کے باوجود ان کی ضمانت مسترد کر دی گئی۔ انہیں جیل سے رہا ہونے میں دس سال لگے ۔ اس کے کچھ وقت  بعد 57 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا ۔

جسٹس مرلی دھر کے لفظوں میں کہیں تو، ‘یہ عمل خود ایک سزا بن گیا۔’ 10 سال سے زیادہ کی قید کے دوران ریاست کے سخت سلوک سے ان کے جسم کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ ‘

اس لیکچر کا اہتمام پروفیسر جی این سائی بابا میموریل کمیٹی نے دہلی کے ہرکشن سنگھ سرجیت بھون میں کیا تھا۔ جسٹس مرلی دھر کے ساتھ اسٹیج پر جی این سائی بابا کی اہلیہ وسنتا کماری اور بیٹی منجیرا تھیں۔

تقریب کا آغاز وہاں موجود نوجوانوں کے نعروں سے ہوا – آپریشن کگار بند کرو، سیاسی قیدیوں کو رہا کرو، جی این سائی بابا امر رہے۔ تقریب کا اختتام انقلابی ترانوں سے ہوا۔

(بائیں سے: جسٹس مرلی دھر، منجیرا اور پروفیسر نندتا نارائن | تصویر بہ شکریہ: صمیم اصغر علی)

قابل ذکر ہے کہ 8اگست 1961 کو پیدا ہوئے مرلی دھر کا عدالتی کیریئر 17 سال پر محیط تھا۔ وہ اگست 2023 میں اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ مرلی دھر کے فیصلے بطور جج ہندوستانی عدالتی تاریخ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ 2009 میں انہوں نے چیف جسٹس اے پی شاہ کے ساتھ مل کر ناز فاؤنڈیشن کیس میں دفعہ 377 کو غیر آئینی قرار دیا، جس سے ای جی بی ٹی کیو+حقوق کے لیے ایک تاریخی راہ ہموار ہوئی۔ ان کے سب سے قابل ذکر فیصلوں میں 1984 کے سکھ فسادات کیس میں کانگریس لیڈر سجن کمار کی سزا اور عمر قید اور 1987 کے ہاشم پورہ قتل عام میں اتر پردیش کے 16 پولیس اہلکاروں کوقصوروار ٹھہرانا شامل ہیں۔

مرلی دھر کا سب سے مشہور فیصلہ 2020 کے دہلی فسادات کے دوران آیا ۔ فسادات کے متاثرین کے علاج کے لیے آدھی رات کی ہنگامی سماعت کے دوران انہوں نے کہا تھا،’ہم اس ملک میں ایک اور 1984 نہیں  ہونےدیں گے۔’ اس ریمارک کے کچھ ہی دیر بعد انہیں راتوں رات پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ منتقل کر دیا گیا، جسے سرکاری دباؤ مانا گیا۔

دہلی ہائی کورٹ میں 14 سال تک خدمات انجام دینے کے بعد فروری 2020 میں ان کے اچانک تبادلے اور اس کے بعد اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تقرری نے عدالتی آزادی پر سوالات کھڑے کر دیے۔ سپریم کورٹ میں ان کی عدم تقرری عدالتی حلقوں میں آج بھی متنازعہ ہے۔