
گزشتہ 13ستمبر کو کوچی میں صحافی اور کارکنوں نے مئی میں مہاراشٹر اے ٹی ایس کے ذریعےگرفتار کیے گئے صحافی رجاز ایم شیبا صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک بیٹھک کی تھی۔ اب کیرالہ پولیس نے منتظمین اور مقررین کے خلاف غیر قانونی اجتماع اور پولیس کی ڈیوٹی میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات میں ایف آئی آر درج کی ہے۔

صدیق کپن جلسے سے خطاب کرتے ہوئے۔ (تصویر: مردلا بھوانی)
نئی دہلی: 13 ستمبر کو صحافیوں، کارکنوں اور وکلاء کا ایک گروپ کیرالہ کے کوچی میں جمع ہوا۔ انہوں نے صحافیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن اور من مانی گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ یہ میٹنگ کیرالہ کے 26 سالہ صحافی رجاز ایم شیبا صدیق کی رہائی کا مطالبہ کرنے کی مہم کے ایک حصے کے طور پر منعقد کی گئی تھی، جنہیں 7 مئی کو مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ(اے ٹی ایس)نے گرفتار کیا تھا۔
لیکن میٹنگ کے فوراً بعد کیرالہ پولیس نے وہی کارروائی کی جس کے خلاف یہ گروپ احتجاج کر رہا تھا۔ انہوں نے تقریب کے منتظمین اور مقررین کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔
عوامی تقریب کے انعقاد کی قانونی اجازت کے باوجود کوچی پولیس نے منتظمین کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا(بی این ایس) اور کیرالہ پولیس ایکٹ کی کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔ الزامات میں ‘غیر قانونی اجتماع’ اور ‘پولیس کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنا’ شامل ہے۔
سب سے عجیب الزام یہ ہے کہ منتظمین نے ‘پولیس اہلکاروں کو ڈرایا، روکا یا حملہ کیا، تاکہ وہ اپنے فرائض سرانجام نہ دے سکیں’ تاہم منتظمین نے اس دعوے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
ایف آئی آر میں جن کے نام ہیں، ان میں صحافی صدیق کپن، امبیکا، بابوراج بھگوتی، اور مردولا بھوانی؛ کارکنان نہاریکا پردوش، ڈاکٹر ہری، شنیر، سی پی راشد، ساجد خالد، وی ایم فیصل؛ اور ایڈوکیٹ پرمود پوجنگر شامل ہیں۔
کپن کیرالہ کے صحافی ہیں، انہیں 2020 میں اتر پردیش پولیس نے ہاتھرس جانے کے دوران گرفتار کیا تھا، جہاں وہ ایک دلت لڑکی کےریپ اور قتل کی رپورٹنگ کرنے والے تھے۔ انہیں تقریباً دو سال جیل میں گزارنے پڑے اور 2022 میں مشروط ضمانت پر رہا کیا گیا۔ وہ اس تقریب کے اہم مقررین میں سے ایک تھے۔
منتظمین میں سے ایک پردوش نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے میونسپل کارپوریشن سے اجازت حاصل کرنے کے طریقہ کار پر عمل کیا تھا،’یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ہم کوئی عوامی تقریب منعقد کر رہے تھے۔ ہم نے عام طریقہ کار پر عمل کیا اور کارپوریشن کو مطلع کیا کہ وانچی اسکوائر پر تقریباً 30-40 لوگوں کا ایک چھوٹا سا اجتماع متوقع ہے۔’
پردوش نے مزید دعویٰ کیا، ‘جب پروگرام شروع ہوا، 60-70 سے زیادہ پولیس والے وہاں پہنچ گئے اور حاضرین کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کر دیں۔’
کس نے کیا کہا؟
اپنی تقریر میں کپن نے کہا کہ انہوں نے صحت کی وجوہات کی بناء پر تقریب سے دستبردار ہونے کا ارادہ کیا تھا، لیکن جب انہوں نے ایک خبر پڑھی جس میں بی جے پی کے حامی کارکن مارٹن میناچری کی طرف سے ان کے خلاف شکایت کا ذکر کیا گیا تھا، تو انہوں نے شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔
پردوش نے کہا کہ میناچاری کلکٹر اور دیگر سرکاری افسران کو خط لکھ کر کپن کی ضمانت منسوخ کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔ پردوش نے دی وائر کو بتایا، ‘ ضمانت سپریم کورٹ نے دی تھی، لیکن میناچاری بے تکی باتیں لکھ رہے ہیں اور صدیق کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔’
ایک اور اسپیکر، مردلا بھوانی، جن کا نام بھی ایف آئی آر میں درج ہے، نے کہا کہ انہوں نے ملک میں صحافت کی خراب حالت کو دیکھ کر تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا۔
بھوانی نے کہا،’ایک ساتھی صحافی، جس پریو اے پی اےکے تحت معاملہ درج ہے، اس کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے صحافیوں کااکٹھا ہونا اس طرح کی گرفتاریوں پر ایک عام ردعمل ہے۔ صرف صحافیوں کی اجتماعی کوششوں سے ہی اس طرح کے معاملات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس یکجہتی میٹنگ میں صحافیوں نے کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ بات کی۔’
بھوانی کا مزید کہنا ہے کہ کیرالہ حکومت واضح پیغام دے رہی ہے کہ ‘آپ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے۔ رجاز کو واضح طور پر اس کی شناخت کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے، اور ہم نے اپنی تقریروں میں اس بات کو اجاگر کیا۔ وہ ریاستی ایجنسیوں کے ذریعہ مسلمانوں اور دیگر پسماندہ برادریوں کے خلاف کریک ڈاؤن سمیت کئی مسائل پر رپورٹنگ کر رہے تھے۔’
غور طلب ہے کہ مہاراشٹر اے ٹی ایس نے اپنی ریمانڈ درخواستوں میں کئی دعوے کیے ہیں، جن میں ممنوعہ سی پی آئی (ماؤسٹ) گروپ سے تعلق اور کشمیری علیحدگی پسند تحریک کی حمایت کے الزامات شامل ہیں۔ بھوانی نے سوال اٹھایا، ‘ یہ معاملہ عدالت کی جانچ میں بھی ٹک نہ پائے۔ لیکن کیا ہم انہیں اس وقت تک جیل میں رہنے دے سکتے ہیں؟’
واضح ہو کہ رجاز کی گرفتاری سے چند ہفتے قبل، انہوں نے اور دیگر نوجوان صحافیوں نے کوچی میں ایک فلسطین حامی مظاہرے کا اہتمام کیا تھا۔ اس مظاہرے میں صرف چند لوگ جمع ہوئے، تھے جنہوں نے پوسٹر اٹھا رکھے تھے۔ پولیس نے ان سب کو ’دنگائی‘ قرار دیتے ہوئے معاملہ درج کر لیا۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔