سپریم کورٹ نے متنازعہ وقف ترمیمی ایکٹ کے اہم اہتماموں پر روک لگا ئی

سپریم کورٹ نے سوموار کو متنازعہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے اہم اہتماموں پر روک لگا دی ہے۔ اس میں وقف بنانے کے لیے کسی شخص کے 5 سال تک اسلام کا پیروکار ہونے ، کلکٹر یا ایگزیکٹو کو جائیداد کے حق کا فیصلہ کرنے کی اجازت اور غیر مسلموں کو وقف بورڈ کا ممبر بنانے سے متعلق اہتمام شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے سوموار کو متنازعہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے اہم اہتماموں پر روک لگا دی ہے۔ اس میں وقف بنانے کے لیے کسی شخص کے 5 سال تک اسلام کا پیروکار ہونے ، کلکٹر یا ایگزیکٹو کو جائیداد کے حق کا فیصلہ کرنے کی اجازت اور غیر مسلموں کو وقف بورڈ کا ممبر بنانے سے متعلق اہتمام شامل ہیں۔

سپریم کورٹ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (15 ستمبر) کو متنازعہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے اہم اہتمام پر روک لگا دی ہے ۔

لائیو لاء کے مطابق ، چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے مندرجہ ذیل احکامات جاری کیے؛

سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی دفعہ 3(1)(آر) کی اس شق پر روک لگا دی ہے، جس کے تحت وقف بنانے کے لیے کسی شخص کے 5 سال تک اسلام کا پیروکار ہونا ضروری تھا۔ یہ شق اس وقت تک معطل رہے گی جب تک کہ ریاستی حکومتیں اس بات کا تعین کرنے کے لیے قواعد نہیں بنالیتی ہیں کہ کوئی شخص اسلام کا پیروکار ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ کلکٹر یا ایگزیکٹو کو جائیداد کے حقوق کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ جب تک دفعہ 3 (سی) کے تحت وقف املاک پر وقف ٹریبونل اور ہائی کورٹ کی جانب سے حتمی فیصلہ نہیں لیا جاتا، تب تک وقف کو جائیداد سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔

اس کے ساتھ ہی عدالت کے فیصلے تک ریونیو ریکارڈ میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔ یعنی اب اکیلے کلکٹر کے فیصلے سے یہ ثابت نہیں ہوگا کہ جائیداد وقف ہے یا نہیں۔

اگرچہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو ممبر بنانے کی شق پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے، لیکن عدالت نے کہا ہے کہ وقف بورڈ میں تین سے زیادہ غیر مسلم ممبر نہیں ہونے چاہیے۔ جبکہ  کونسل میں 4 غیر مسلم ممبران کی رکھنے کی منظوری دی ہے۔

عدالت نے وقف املاک کے لازمی رجسٹریشن پر یہ کہتے ہوئے روک نہیں لگائی کہ یہ ہمیشہ سے نافذ ہے۔

باراینڈ بنچ کے مطابق،رجسٹریشن کی آخری تاریخ سے متعلق  خدشات پر عدالت نے کہا کہ اس پر ایک عبوری حکم نامے میں غور کیا گیا ہے، جو ابھی دستیاب نہیں ہے ۔

معلوم ہوکہ لوک سبھا نے 3 اپریل کو وقف (ترمیمی) ایکٹ پاس کیا تھا اور اس کے بعد اسے 4 اپریل کو راجیہ سبھا نے بھی پاس کیا تھا۔ ترمیمی ایکٹ کو 5 اپریل کو صدر کی منظوری ملی تھی۔

متعدد اپوزیشن رہنماؤں، این جی اوز اور کارکنوں نے ترمیم شدہ ایکٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آئین کے آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو شہریوں کو مذہبی امور کے انتظام  و انصرام کی آزادی فراہم کرتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ پارلیامنٹ سے اس قانون کو جلد بازی میں پاس کرنے کے بعد مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع سمیت کئی ریاستوں میں تشدد کا مشاہدہ کیا گیا تھا ۔

بڑی راحت

وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی کچھ دفعات پر پابندی لگانے کے فیصلے کو کانگریس لیڈر اور راجیہ سبھا ایم پی عمران پرتاپ گڑھی نے ‘بڑی راحت’ قرار دیا ہے۔

بتادیں کہ عمران پرتاپ گڑھی ان درخواست گزاروں میں شامل ہیں، جنہوں نے وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر کانگریس لیڈر نے کہا ، ‘یہ بہت اچھا فیصلہ ہے۔ سپریم کورٹ نے بڑے پیمانے پر حکومت کی سازشوں اور ارادوں کو روک دیا ہے۔ مذہبی اور سماجی کاموں کے لیے ملک بھر میں اپنی زمینیں عطیہ کرنے والے لوگ ، جنہیں یہ ڈر تھا کہ حکومت ان کی زمینوں کو لوٹنے کی کوشش کرے گی، انہیں فوری طور پر بڑی راحت ملی  ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘میں بہت خوش ہوں۔ اس ملک میں وقف اراضی کو بچانے کی بہت بڑی لڑائی ہے، ہم اس لڑائی کو لڑتے رہیں گے۔’

غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون کو چیلنج کرنے والی کئی عرضیوں کی سماعت کر رہی ہے۔ سی جے آئی کی بنچ نے اس معاملے پر تین دن کی سماعت کے بعد 22 مئی کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔

مرکزی حکومت نے قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وقف ‘بنیادی حق’ نہیں ہے اور نہ ہی یہ اسلام کا ‘ضروری’ حصہ ہے۔