وی ایچ پی نے دیا ’جہادی-مکت دلی‘ کا نعرہ: چھٹھ پوجا کے بہانے مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ؟

وشو ہندو پریشد نے چھٹھ پوجا کے موقع پر 'جہادی-مکت دلی' مہم کے تحت 'سناتن پرتشٹھا' اسٹیکر جاری کیا ہے۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ یہ 'خالص پوجا کے سامان' کے لیے ہے، لیکن یہ مسلم تاجروں کے اقتصادی بائیکاٹ کا ایک اور حربہ معلوم ہوتا ہے۔

وشو ہندو پریشد نے چھٹھ پوجا کے موقع پر ‘جہادی-مکت دلی’ مہم کے تحت ‘سناتن پرتشٹھا’ اسٹیکر جاری کیا ہے۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ یہ ‘خالص پوجا کے سامان’ کے لیے ہے، لیکن یہ مسلم تاجروں کے اقتصادی بائیکاٹ کا ایک اور حربہ معلوم ہوتا ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور معروف مؤرخ ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں کہ ‘یہ سب  اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ بہار کے ان لوگوں کے بنیادی مسائل (پانی، بجلی اور رہائش وغیرہ) پر کوئی بات نہ ہو جن کو دہلی میں ہر طرح سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔’

نئی دہلی: وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے چھٹھ پوجا کے موقع پر دہلی میں ایک نئی مہم شروع کی ہے، جس میں ‘جہادی-مکت دلی’ کے عہد کے ساتھ ‘سناتن پرتشٹھا’ کے اسٹیکر تقسیم کیے جا رہے ہیں۔

تنظیم کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام عقیدت مندوں کو ‘خالص اور مصدقہ’ پوجا کے سامان دستیاب کرانا ہے۔ تاہم، دانشور اسے ہندوتوا تنظیم کی طرف سے منظم طریقے سے مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔

سناتن پرتشٹھا’ کا اسٹیکر: سرٹیفیکیشن یا بائیکاٹ کا حربہ؟

وی ایچ پی اندر پرستھ کے عہدیدار سریندر گپتا نے جمعرات (23 اکتوبر) کو اعلان کیا کہ تنظیم دہلی کے تمام 30 اضلاع میں مختلف مقامات پر اسٹال لگائے گی، جو ‘مصدقہ، خالص اور مفید’ پوجا کے سامان دستیاب کرائے گی۔ اس کے ساتھ ہی، ہندو دکانداروں، ٹھیلے والوں اور ریہڑی -پٹری والوں کو ‘تصدیق کے بعد’ آفیشل “سناتن پرتشٹھا’ اسٹیکرز فراہم کیے جائیں گے۔

یہ’تصدیق’کس بنیاد پر ہوگی؟ گپتا نے بتایا کہ اس کا تعین ‘دکان/اسٹال کے رجسٹریشن، شناخت اور دستاویزوں کی جانچ ،پھر مقامی نمائندہ کے معائنہ کے بعد کیا جائے گا۔ تنظیم کا دعویٰ ہے کہ یہ ‘معیار اور تقدس’ کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔

وی ایچ پی دکانداروں کو یہی اسٹیکر فراہم کرنے والی ہے۔

وی ایچ پی کا دفاع: ‘کسی کے خلاف نہیں

گپتا نے دعویٰ کیا کہ یہ پہل ‘کسی کے خلاف نہیں، بلکہ ہماری ثقافت، روایت اور سناتن عقائد کے تحفظ کے لیے ہے۔’ انہوں نے کہا کہ تنظیم ‘پرامن، قانونی اور شفاف طریقے سے’ کام کررہی ہے اور ‘تمام طبقات کا احترام’ کرتی ہے۔

تاہم، وی ایچ پی کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس طرح کی مہم  کا اصل مقصد مذہبی شناخت کی بنیاد پر تاجروں کو تقسیم کرنا ہے۔ جولائی 2025 میں کانوڑ یاترا کے دوران تنظیم نے اسی طرح کی ‘سناتنی سرٹیفیکیشن’ مہم کا آغاز کیا تھا، جس میں صرف ہندوؤں کی ملکیت والی دکانوں پر اسٹیکر لگائے گئے تھے۔

کیا ہےجہادی- مکت  دلی’ کا منصوبہ ؟

دی وائر سے بات چیت میں ‘جہادی-مکت دلی’ کی وضاحت کرتے ہوئے سریندر گپتا نے کہا، ‘جو لوگ جہاد کی نیت سے ہندو بہنوں اور بیٹیوں سے محبت کا ڈھونگ کرتے ہیں، ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر ڈھابے چلاتے ہیں، تھوک جہاد کرتے ہیں، ایسی تمام سرگرمیاں جو جہاد کے زمرے میں آتی ہیں، ہم ان تمام سرگرمیوں کو روکیں گے۔’

لیکن چھٹھ پوجا کی اشیاء کی فروخت جہاد کیسے ہے، اور اسے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی کوشش کیوں نہیں سمجھا جانا چاہیے؟ گپتا نے کہا، ‘آپ اسے جو بھی نام دیں۔ ہماری سیدھی سی بات ہے، جو ہمارے دیوی دیوتاؤں کو نہیں مانتا، جو ہمارے مذہب کو نہیں مانتا، جو ہماری مورتیوں کو نہیں مانتا، جو ہمارے جئے شری رام کے نعرے پر یقین نہیں رکھتا، اس کوہمارے تہوار میں سامان بیچنے میں کس طرح کا آستھاہے؟  کہیں اور بیچ لیں۔ ہم سے فائدہ کمانے کے لیے تو ان کو سب قبو ل ہے۔ویسے ان کا مذہب ان باتوں کے خلاف ہے۔ یہ دوہرا معیار کیسےچلےگا؟’

وی ایچ پی کا پوسٹر ۔

وی ایچ پی اپنی مہم کو تہوار کی خریداری تک محدود نہیں کر رہی ہے۔ اس کے منصوبے وسیع ہیں۔ گپتا کہتے ہیں، ‘یہ صرف تہواروں کے لیے نہیں ہے۔ ہمیشہ کے لیے ہے۔ ہم اپنے مذہبی مقامات کے باہر بھی ایسی ہی مہم چلائیں گے۔ ہم لوگوں کو آگاہ کریں گے کہ وہ خریداری سے پہلے اسٹیکر  دیکھ کر ہی سامان لیں۔’

گپتا نے کہا کہ آہستہ آہستہ ہندو روزمرہ کی چیزیں بھی اس اسٹیکر کو دیکھ کر خریدیں گے اور جو کوئی ہندوؤں کو سامان بیچنا چاہتا ہے اسے ‘سناتن پرتشٹھان’ کا سرٹیفکیٹ لینا ہی  ہوگا۔

’جہادی-مکت دلی‘جیسی اصطلاحات کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہندوتوا تنظیمیں اکثر پوری مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے ‘جہادی’ کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔

ستمبر 2025 میں اندور میں وی ایچ پی اور بی جے پی کے لیڈروں نے کھلے عام ‘جہادی-مکت بازار’ کا اعلان کرنے والے بینرز آویزاں کیے اور مسلم تاجروں اور کارکنوں کو ٹیکسٹائل مارکیٹوں سے باہر نکال دیا۔

بی جے پی لیڈر اور اندور کی ایم ایل اے مالنی گوڑ کے بیٹے ایکلویہ سنگھ گوڑ نے ہندو تاجروں سے مسلم ملازمین کو نوکری سے نکالنے کی اپیل کی، اور مارکیٹ ایسوسی ایشن نے فوراً اس پر عمل کیا۔

منظم اقتصادی بائیکاٹ کی تاریخ

پچھلے کچھ سالوں میں، ہندوتوا تنظیموں کی طرف سے مسلم تاجروں کے معاشی بائیکاٹ کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں؛

اکتوبر 2022: بی جے پی ایم پی پرویش صاحب سنگھ ورما نے دہلی کے دلشاد گارڈن میں وی ایچ پی کی میٹنگ میں مسلمانوں کے ‘مکمل بائیکاٹ’ کی اپیل کی تھی ۔ انہوں نے کہا تھا،’ان کی دکانوں سے سامان مت خریدو، انہیں مزدوری  مت دو۔’

اگست 2023: ہریانہ میں تشدد کے بعد، وی ایچ پی اور بجرنگ دل نے مسلمانوں کے کاروبار کا معاشی بائیکاٹ کرنے اور مسلمانوں کو دیہات سے نکالنے کی مہم شروع کی تھی۔ بجرنگ دل کے کرشنا گرجر نے خبردار کیا تھا، ‘جودکاندارمسلمان ملازم رکھے گا، اس کی دکان کے باہر بائیکاٹ کے پوسٹر لگائے جائیں گے۔’

اکتوبر 2024: ہماچل پردیش میں وی ایچ پی کی قیادت میں سنجولی مسجد سے متعلق  تشدد کے بعدریاست بھر میں مسلمانوں کے کاروباروں کا بائیکاٹ کرنے ، انہیں نوکریوں سے انکار کرنے اور جائیداد کرائے پرنہ  دینے کی اپیل جاری کی گئی۔ کئی  مسلمان مہاجر مزدوروں کو ریاست چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

جولائی 2025: کانوڑ یاترا کے دوران وی ایچ پی نے دہلی میں 5000 دکانوں پر ‘سناتنی’ اسٹیکر لگانے کی مہم شروع کی۔ اطلاعات کے مطابق، مسلمانوں کی ملکیت والی  دکانوں کو جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا تھا۔

جون 2025: مراد آباد کے منگو پورہ میں وی ایچ پی لیڈر سوامی وگیانانند نے ‘حلال معیشت کو کمزور کرنے’ کے لیے مسلم نائی، میوہ فروشوں اور دیگر چھوٹے تاجروں کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔

جولائی 2025: مہاراشٹر کے پونے کے گاؤں پاؤڑ اور پیرنگوت میں ہندوتوا گروپوں نے مسلمانوں کی ملکیت والی بیکری،ا سکریپ شاپس، سیلون اور چکن شاپس کو بند کروا دیا۔ روشن بیکری کے مالک نےبتایا تھا ، ‘ہمارا خاندان یہاں 40 سال سے مقیم ہے، پھر بھی ہمیں باہری کہا جاتا ہے کیونکہ میرے والد کا گاؤں اتر پردیش میں ہے۔’

قانون کی خلاف ورزی؟

اپریل 2023 میں سپریم کورٹ نے ہدایت کی  تھی کہ ہندوستانی ریاستوں کو باضابطہ شکایت کا انتظار کیے بغیر نفرت انگیز تقاریر کا مقدمہ درج کرنا چاہیے۔ جولائی 2025 میں، سپریم کورٹ نے اتر پردیش اور اتراکھنڈ حکومتوں کے احکامات پر روک لگا دی تھی جس میں کانوڑ یاترا کے راستے میں کھانے پینے کی جگہوں اور ریستوراں کو مسلمانوں کے مالکان اور ملازمین کے نام ظاہر کرنے کو کہا گیا تھا، یہ واضح طور پر مسلمانوں کی ملکیت والے اداروں کی شناخت کرنے کی کوشش تھی۔

لیکن ہندوتوا تنظیموں کی طرف سے مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کی کھلی کال کے باوجود، ان کے خلاف قانونی کارروائی بہت کم ہوئی ہے۔

اس طرح کی مہم ہندوؤں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ پونے میں، بیکریوں کو بندکروانے سے تقریباً 400 مزدور بے روزگار ہوگئے، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ بھارت بیکری کے مالک نے کہا  تھا، ‘پانچ ہندو دکاندار جو ہماری روٹی گھر گھر فروخت کرتے تھے، اب بے روزگار ہیں… یہ صرف مذہب کی بات نہیں ہے؛ یہ ہمارے ذریعہ معاش کو تباہ کرنے کے بارے میں ہے۔’

نازی جرمنی سے مماثلت

متعدد تجزیہ کاروں نے اس اقتصادی بائیکاٹ کا موازنہ 1930 کی دہائی میں نازی جرمنی میں یہودی کاروبار کے بائیکاٹ سے کیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکن ہرش مندر نے لکھا ہے ،’جرمنی میں، نازیوں نے یہودیوں کی دکانوں پر ‘جوڈ’ (یہودی) لفظ کے ساتھ پیلے ستارے لگوائے تھے تاکہ جرمن ان کی شناخت کر سکیں اور ان کا بائیکاٹ کر سکیں۔ ہندوستان میں نام مذہب اور اکثر ذات پات کے اشارے ہوتے ہیں، اس لیے یہ واضح طور پر مسلمانوں کی ملکیت والے اداروں کی شناخت کا ایک حربہ ہے۔’

دی وائر سے بات کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور معروف مؤرخ ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں،’جرمنی میں نازیوں کی طرف سے یہودیوں کی دکانوں کے بائیکاٹ اور ہندوستان میں ہندوتوا کارکنوں کی طرف سے مسلمان دکانداروں کے بائیکاٹ میں جہاں بہت سی مماثلتیں ہیں، وہیں کچھ فرق بھی ہیں۔ جرمنی میں تو یہودیوں کا کاروبار پر اچھا خاصہ کنٹرول تھا۔ لیکن یہاں توصرف غریب مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، وہ مسلمان  جو یہاں پھل، سبزی، ٹافی، چورن اورپرانا کپڑا وغیرہ بیچتے ہیں۔ان لوگوں (ہندوتوادیوں) کاجھگڑاایران، کویت، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات میں تیل فروخت کرنے والےمسلمانوں سے نہیں ہے ۔خودیوپی کے وزیر اعلیٰ  یوگی آدتیہ ناتھ نے’لولو گروپ’ کے  ایک مال کا افتتاح کیا، جو  یواے ای میں رہنے والا ارب پتی مسلم کاروباری ایم اے یوسف علی کا ہے۔’