سپریم کورٹ نے سوموار کو دہلی فسادات کے نام نہاد ‘سازش’ کیس میں عمر خالد، شرجیل امام، گلفشاں فاطمہ اور میران حیدر کی درخواست ضمانت پر شنوائی 31 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔عدالت نے ضمانت کی ان درخواستوں کا جواب نہ دینے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے دہلی پولیس کو پھٹکار لگائی ہے۔

یہ پانچ سال سے زیادہ سے جیل میں ہیں۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سوموار (27 اکتوبر) کو 2020 کے شمال-مشرقی دہلی فسادات کے مبینہ ‘ سازش’ کیس میں عمر خالد، شرجیل امام، گلفشاں فاطمہ اور میران حیدر کی درخواست ضمانت پر سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ، عدالت نے دہلی پولیس کی جانب سے ضمانت کی ان درخواستوں کا جواب نہ دینے پر سخت اعتراض کیا ہے اور ان کی سرزنش کی ہے۔
معلوم ہو کہ یہ چاروں پانچ سال سے زیادہ سے جیل میں ہیں۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل سالیسٹر جنرل سوریہ پرکاش وی راجو نے جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لیے وقت مانگا، جس پر جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے کہا کہ پولیس کو جواب دینے کے لیے کافی وقت دیاجا چکا ہے اور ضمانت کے معاملات میں ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے جہاں جوابی اپیل دائر کی جائے۔
لائیو لا کے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس کمار نے اس معاملے میں کہا، ‘اگر آپ کو یاد ہو تو، ہم نے کھلی عدالت میں کہا تھا کہ ہم 27 اکتوبر کو کیس کی سماعت کریں گے اور اسے نمٹا دیں گے۔ سچ کہوں تو ضمانت کے معاملات میں جوابی دلیل دائر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔’
سپریم کورٹ بنچ نے یہ بھی کہا کہ اپیل کنندگان پہلے ہی پانچ سال جیل میں گزار چکے ہیں۔ جسٹس کمار نے کہا،’آپ جوابی پٹیشن دائر کریں۔ لیکن ہم آپ کو دو ہفتے کا وقت نہیں دیں گے۔’
اس پر ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے ایک ہفتے کا وقت مانگا، تب بھی بنچ نے ناگواری کا اظہار کیا۔
بار اینڈ بنچ کے مطابق ، جسٹس کمار نے کہا، ‘جمعہ کو، آپ یقینی بنائیں کہ آپ کو مناسب ہدایات ملیں… ہم سنیں گے۔ دیکھیے،کیا آپ کر سکتے ہیں۔ یہ صرف ضمانت پر غور کرنے کا معاملہ ہے۔ دیکھیے، پانچ سال تو پورے ہو ہی گئےہیں۔’
عدالت کے سامنے سینئر وکیل کپل سبل اور سی یو سنگھ نے عمر خالد،ابھیشیک منو سنگھوی نے فاطمہ اور سدھارتھ دوے نے امام کی نمائندگی کی۔ ان چاروں نے جیل میں گزارے ہوئے وقت اور ضمانت کے طویل انتظار پر زور دیا۔
معلوم ہو کہ خالد اور دیگر نے دہلی ہائی کورٹ کے 2 ستمبر کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جس میں انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا ۔ دہلی ہائی کورٹ کی جسٹس نوین چاولہ اور جسٹس شیلندر کور کی بنچ نے ان چاروں اور خالد سیفی، اطہر خان، محمد سلیم خان، شفا الرحمان اور شاداب احمد کی تمام اپیلوں کو خارج کر دیا تھا۔
قانونی ماہرین نے اس فیصلے کو ‘بدنماداغ’ قرار دیا تھا۔
غور طلب ہے کہ جیل میں بند ان کارکنوں نے متعدد اپیلیں دائر کیں، جنہیں عدالتوں نے ملتوی کرنے کے بعد خارج کر دیا۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسے ‘انصاف کے ساتھ مذاق’ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 2020 دہلی فسادات کے معاملے میں انتہائی متنازعہ ایف آئی آر نمبر 59/2020 دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے تعزیرات ہند اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مختلف جرائم کے تحت درج کیا تھا۔
اس تشدد کی تحقیقات میں دہلی پولیس کے جانبدارانہ کردار پر سوالات اٹھتے رہے ہیں ۔
دہلی پولیس کے زیادہ تر مقدمات ملک گیر شہریت ترمیمی قانون کے احتجاج کے دوران وہاٹس ایپ گروپس میں کارکنوں کی موجودگی یا شرکت پر مبنی ہیں۔