بشارالاسد کے زوال کے ایک سال بعد، دنیا کے میڈیا آوٹ لیٹ ’نئے شام’ کے بارے میں مختلف اور متضاد سرخیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہاں سب سے بنیادی سوال یہ نہیں کہ ملک کس سمت جا رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ رات کہاں گزاری جائے۔

فوٹو: افتخار گیلانی/ وکی پیڈیا
ترکیہ کے مشرقی حطائی صوبہ میں شام میں داخل ہونے کے لیے زیتون ڈالی بارڈر کراسنگ کو عبور کرنے کے بعد پہلا احساس خاموشی کا تھا۔
یہ وہی سرحد تھی جو ایک سال قبل گولیوں اور مارٹر توپوں کی آوازوں اور فضا میں ڈرون اور جنگی طیاروں کے بے پناہ شور سے گونجتی تھی۔ مگر اب صرف ایک غیر معمولی سا سکوت تھا، جو خود اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا۔
پچھلے سال 8 دسمبر کو شامی حزبِ اختلاف کی ایک بڑی فوجی یلغار کے دوران بشار الاسد حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس حملے کی قیادت حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) اور ساودرن آپریشنز روم (ایس او آر) نے کی، جبکہ ترکی کی حمایت یافتہ شامی نیشنل آرمی نے بھی اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔
یہ پیش رفت اس خانہ جنگی کا نقطہ عروج تھی جو 2011 میں شام کے بہارعرب انقلاب سے شروع ہوئی تھی۔ دمشق پر قبضے کے ساتھ ہی اسد خاندان کی حکمرانی کا اختتام ہو گیا۔
یہ خاندان 1971 میں حافظ الاسد کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے شام کو ایک موروثی، مطلق العنان ریاست کے طور پر چلا رہا تھا۔ ایک 55سالہ آمریت کو گرانے والا انقلاب صرف 13 دن میں مکمل ہو گیا تھا۔
ترکیہ کی جانب سرحدپر سرکاری اہلکار کمپیوٹر اسکرینوں پر نام درج کر رہے تھے، انتظار میں کھڑی فیملیوں کو چائے پیش کی جا رہی تھی، اور مؤثر سرکاری زبان میں ہدایات دی جا رہی تھیں۔ کاغذات کی کمی کے باعث چند امدادی کارکنوں کو واپس لوٹایا جا رہا تھا، اور ایک رضاکار ایمبولینس شام لے جانے کی اجازت کے لیے منتیں کر رہا تھا۔ سرحد پر اس طرح کی افراتفری تو معمول کی بات ہی ہے۔
مگر جو چیز نا مانوس تھی، وہ لکیر کے بعد شروع ہونے والی تھی۔شام کی جانب امیگریشن کا کوئی واضح طریقہ کار نہیں تھا۔ شامی محافظ نے بس جانے کا اشارہ کیا۔ نئے قوانین ابھی تشکیل کے مرحلے میں ہے۔آگے پھیلی سڑک ایک لمبی، مدھم سفید پٹی کی مانند ہموار میدانوں میں سردیوں کی روشنی میں چمک رہی تھی۔
اس کے اطراف سولر پینل، ٹین کی چھتیں، پلاسٹک کی چادریں اور چمنیاں نظر آ رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد خیمے شروع ہو گئے۔شامی اس کو چادرستان، یعنی خیموں کی سرزمین کہتے ہیں۔
سڑکوں کے کنارے خیمے اور عارضی پناہ گاہیں میلوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کے درمیان کیچڑ بھری گلیوں میں بچے ننگے پاؤں دوڑتے ہیں، کھمبوں سے بندھی رسیوں پر کپڑے لہراتے ہیں، اور بوڑھے مرد جھکے ہوئے خیموں کے باہر بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، جو یوں محسوس ہوتے ہیں جیسے آہستہ آہستہ مٹی میں دھنس رہے ہوں۔
پچھلے دو سالو ں سے فلسطینی خطے غزہ پر اسرائیلی بربریت اور تباہی تو ٹی وی اسکرینوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے گھروں تک پہنچ چکی ہے،مگر اس کے برعکس شام کے کھنڈرات بڑی حد تک دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ سرحد پار کرنے کے بعد تقریباً اسی کلومیٹر تک شاید ہی کوئی عمارت ایسی ہو جو پوری طرح کھڑی ہو۔
بمباری نے بغیر کسی امتیاز کے سب کچھ مٹا دیا ہے، چاہے وہ کبھی کے پوش علاقے ہوں یا غریبوں کی جھونپڑیاں۔تباہی کا پیمانہ غزہ سے کم نہیں، مگر یہاں یہ سب تقریباً خاموشی میں ہو رہا ہے، دنیا کی نظروں سے بہت دور۔
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے تحت قائم کمیشن آف انکوائری (کو آئی) برائے شام کے مطابق، 2011 سے 2021 کے درمیان پانچ لاکھ اسی ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور ایک کروڑ تیس لاکھ شامیوں کو زبردستی بے گھر ہونا پڑا۔
ہر خاندان کے پاس ایک ہی کہانی کا الگ ورژن ہے۔ گولہ باری، چھاپے، فضائی حملے، بھوک، آدھی رات کو دروازے پر دستک، اور پھر فرار یا ہلاکت۔ بہت سے لوگ ایک بار نہیں بلکہ پانچ یا چھ مرتبہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ کئی شامیوں نے کہا کہ ایک ملک جنگ سہہ سکتا ہے، مگر بے دخلی ایک مختلف نوع کے محاصرے جیسی ہوتی ہے، کیونکہ یہ برسوں تک پھیل جاتی ہے اور مستقبل کو بھی عارضی بنا دیتی ہے۔
راستے میں ہمارے ساتھی گائیڈ، جو ادلب کے اسپتالوں کی امداد پہنچانے کے لیے برسوں سے ان علاقوں میں آتے جاتے رہے ہیں، بتا رہے تھے کہ؛
‘ملک کی آدھی آبادی اپنے گھروں سے باہر رہ رہی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔’
بشارالاسد کے زوال کے ایک سال بعد، دنیا کے میڈیا آوٹ لیٹ’نئے شام’کے بارے میں مختلف اور متضاد سرخیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔
یہاں سب سے بنیادی سوال یہ نہیں کہ ملک کس سمت جا رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ رات کہاں گزاری جائے۔
اسد کے خاتمے کی کہانی اب تقریباً لوک داستان کی طرح سنائی جاتی ہے، حتیٰ کہ ان لوگوں کی زبان پر بھی جو اب تک اس پر حیران ہیں۔ ایک ایسا نظام جو دہائیوں میں تعمیر ہوا، اتحادیوں سے مسلح اور مالی طور پر مضبوط تھا، ایک طویل خانہ جنگی سے گزرا، اور پھر دو ہفتوں سے بھی کم وقت میں تحلیل ہو گیا۔
یہاں تک کہ جن لوگوں نے اس کے خلاف لڑائی لڑی، وہ بھی اس رفتار کو بیان کرتے ہوئے مبالغہ محسوس کیے بغیر نہیں رہتے۔
عفرین قصبہ کے قریب دیہات میں مکانات صرف کنکریٹ کے ڈھانچوں کی صورت میں کھڑے تھے۔ جنگ نے ہر وہ چیز نکال لی تھی جو نکالی جا سکتی تھی۔ دروازے، کھڑکیاں، لوہے کے شہتیر، حتیٰ کہ ٹائلیں بھی۔ ایک گھر کی دیوار پر کسی نے محاصرے کے دن گننے کے لیے لکیریں کھودی تھیں، جیسے وقت کو گننا ہی آخری بچی ہوئی عزت ہو۔آگے زیتون کے باغات نظر آنے لگے، کچھ جلے ہوئے، کچھ تنے سے آروں سے کاٹے گئے۔
ایک کسان نے گاڑی روک کر ایک تباہ شدہ فارم ہاؤس کی طرف ایسے اشارہ کیا جیسے کسی قبر کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا؛
‘میں گھر کے لیے نہیں رویا تھا۔ میں اپنے زیتون کے درختوں کے لیے رویا تھا۔ گھر چند مہینوں میں دوبارہ بن سکتا ہے، مگر ایک درخت کو ایک صدی لگتی ہے۔’
دوپہر ڈھلتے ڈھلتے سراقب شہر آیا۔ ہر دوسری عمارت پر گولہ باری کا گہرا زخم تھا۔ بتایا گیا کہ جس سڑک سے گزر رہے ہیں یہ ایم 5شاہرا ہ ہے۔جنہوں نے شام کی جنگ کو کور کیا ہو، وہ شاہراہ سے بخوبی واقف ہیں۔
Click to view slideshow.حلب سے دمشق تک یہ شاہراہ شام کی خانہ جنگی کی علامت تھی۔ اس پر کبھی باغیوں، حکومتی افواج، حزب اللہ اور غیر ملکی ملیشیاؤں نے باری باری قبضہ کیا اور ہر بار اسے فتح قرار دیا۔
دیہی علاقوں میں اب باغات کے نیچے، ویران گھروں کے اندر اور سڑکوں کے کناروں پر بچھائی گئی بارودی سرنگیں ایک عذاب بن گئی ہیں۔ کچھ نقشوں میں درج ہیں، بہت سی نہیں۔ جن قصبوں میں لوگ واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہاں ایک غلط قدم ان کی زندگی کا خاتمہ کرسکتا ہے۔
معرۃ النعمان کے قریب ایک کسان محمد جویش نے کہا کہ کھیتوں میں جانا کچھ ایسا ہی ہے جیسے ایک ایسے میدانِ جنگ میں جا رہے ہوں۔ جنگ اس کا بیٹا پہلے ہی چھین چکی ہے، اب اسے ڈر ہے کہ کہیں کوئی بارودی سرنگ اس کی زندگی بھی چھین نہ لے۔
غروبِ آفتاب کے وقت دمشق میں داخل ہونا ایک بالکل مختلف ردھم میں قدم رکھنے جیسا تھا۔ بھوت شہروں کے بعد دارالحکومت تقریباً غیر حقیقی محسوس ہوتا تھا۔ دکانوں میں روشنیاں ٹمٹما رہی تھیں، کیفے بھرے ہوئے تھے، خواتین مختلف انداز کے لباس میں آزادانہ گھوم رہی تھیں، اور مرد بیکریوں کے باہر پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھ کر سگریٹ پی رہے تھے۔
شہر کسی فلمی لمحے میں آزاد ہوا نہیں لگتا تھا، بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ سانس روکے انتظار کر رہا تھا اور اب آہستہ آہستہ ہوا واپس لے رہا ہو۔باب توما کے قریب ایک دکاندار عبد الکریم نے کہا؛
‘ساٹھ سال ہم تنکے کے ذریعے سانس لیتے رہے۔ اب ہوا کا ذائقہ عجیب ہے۔ ہم اب امن میں ہیں، یقین کرنا مشکل ہے۔’
بجلی باری باری آتی ہے؛ دو گھنٹے سرکاری بجلی، پھر چھتوں پر لگے سولر پینل، پھر محلے کے جنریٹر، اور پھر دوبارہ اندھیرا۔ کرنسی ایکسچینج میں کام کرنے والے سڑکوں کے کنارے نوٹوں کی گڈیاں لہرارہے ہیں۔ بہت سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اب بھی خاندان چلانے کے لیے ناکافی ہیں۔
ایک رہائشی نے پرانے دور کو کسی رومان کے بغیر یوں بیان کیا؛
Click to view slideshow.‘پرانے نظام میں سب کچھ رشوت پر چلتا تھا۔ اب زندگی اور کام امید پر چل رہے ہیں اور یہ کافی نہیں۔’
دمشق کی مشہور اموی مسجد کے اندر سنگِ مرمر کا صحن نمازیوں سے بھرا ہوا تھا۔ حضرت یحییٰؑ کا مزار، جو عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مقدس ہے، مردوں اور عورتوں کو ایک ہی تسلسل کے احساس میں کھینچ لاتا ہے۔سکیورٹی نظم کی عدم موجودگی واضح ہے۔
ایک دکاندار نے کندھے اچکا کر کہا؛
‘ابھی نظم بنانے کے لیے بہت وقت ہے۔ فی الحال آزادی کنٹرول سے زیادہ اہم ہے۔’
حلب کے حیدریہ علاقے میں تباہی خود ایک طرزِ تعمیر بن چکی تھی۔ جزوی طور پر بحال شیخ فارس مسجد میں جمعہ کے خطبہ میں امام اتحاد اور شرافت کی اپیل کر رہے تھے، اور پھر غزہ، فلسطین اور دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے وہ دعا کر رہے تھے۔
شامیوں کے لیے غزہ کوئی دور کا مسئلہ نہیں۔ وہ ایک گونج ہے۔ محاصرہ، بمباری، بے دخلی اور غم کی زبان جانی پہچانی ہے۔ نقشہ بدلتا ہے، دکھ قافیہ بنتا ہے۔
دمشق سے تیس کلومیٹر شمال میں صیدنایا کی جیل واقع ہے۔ دہائیوں تک شامی اس کا نام لینے سے بھی ڈرتے تھے۔ پہاڑی کنگری پر بنی یہ جیل حکومت کی سب سے خوفناک علامت تھی، گمشدگی، تشدد اور موت کی جگہ۔اسد حکومت کے زوال کے بعد انقلابیوں نے اسے توڑ دیا۔

صیدنایا کی جیل، فوٹو: افتخار گیلانی
دروازے کھلے کھڑے تھے۔ اندر لمبی، مدھم راہداریوں میں ٹوٹے ہوئے سیلوں کے دروازے اور آگ سے سیاہ تپی ہوئی دیواریں تھیں۔ کمبل اب بھی بکھرے پڑے تھے۔ دھاتی پیالے کونوں میں ایسے جمع تھے جیسے کسی ثبوت کو ابھی درج ہی نہ کیا گیا ہو۔ کچھ کمرے اتنے جلے ہوئے تھے کہ روشنی میں بھی سیاہ دکھائی دیتے تھے۔دروازے پر، نئے شامی پرچم کے رنگوں میں لکھے الفاظ ایک قومی عہد نامے کی طرح لگتے ہیں؛
‘ہم نہ بھولیں گے۔ ہم معاف نہیں کریں گے۔’
دمشق کے عمار دغمش، جو صیدنایا میں منظم تشدد کا شکار رہ چکے تھے، نے کہا،
‘یہ اجتماعی قبر میں داخل ہونے جیسا تھا۔’
انہوں نے بتایا کہ قیدی دھوپ میں آنکھیں جھپکاتے تھے، کچھ ایسے قیدی بھی تھے جو اب بھی سمجھتے تھے کہ حافظ الاسد زندہ ہے۔
Click to view slideshow.پائلٹ رغید التتاری 43 سال بعد اسی جیل سے باہر نکلے۔ پچھلے سال دسمبر میں، ستر برس کی عمر میں، انہوں نے پہلی بار آزاد انسان کی حیثیت سے دھوپ دیکھی۔
وہ شام کے طویل ترین سیاسی قیدی تھے اور انہیں یہ تک معلوم نہیں تھا کہ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد انتقال کر چکے ہیں۔1980 میں، جب وہ 27 سال کے ایک خوبرو نوجوان پائلٹ تھے، انہوں نے حما ء میں مظاہروں پر بمباری کے حکم سے بچنے کے لیے اپنا جنگی طیارہ اردن کے دارالحکومت عمان میں اتار دیا تھا۔
چند ماہ بعد انہیں دیگر پائلٹوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔ان پر الزام تھا کہ انہوں نے امریکیوں، اردنیوں اور مصریوں کے ساتھ مل کر شامی پائلٹوں کی بغاوت میں شمولیت کی تھی۔

پائلٹ رغید التتاری 43 سال بعد اسی جیل سے باہر نکلے۔
یاد رہے کہ 1982 میں حماء شہر میں فروری کے ماہ میں ایک اندازے کے مطابق چالیس ہزار شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔ پندرہ سے سترہ ہزار افراد لاپتہ ہو گئے تھے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مارچ 2011 سے شام میں حراست کے دوران 17,723 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، یعنی اوسطاً ہر ہفتے تین سو سے زیادہ اموات۔حلب کے ایک وکیل سلام، جو دو سال سے زائد صیدنایا میں قید رہے، نے کہا؛
‘جب مجھے جیل کے اندر لے جایا گیا تو میں تشدد کو سونگھ سکتا تھا۔ یہ نمی، خون اور پسینے کی ایک مخصوص بو ہوتی ہے۔’
دمشق سے نوے کلومیٹر دور، اردن کی سرحد کے قریب دروز اکثریتی علاقہ سویدا بازاروں، کیفوں اور تنگ گلیوں میں کھیلتے بچوں سے بھرا ہوا ہے۔ مگر اس رونق کے نیچے بے چینی صاف محسوس کی جاتی ہے۔
ایک خاموش ولا میں دروز روحانی پیشوا شیخ حکمت الحجری نے نپی تلی زبان میں کہا،
‘تمام شامیوں نے، اپنی تمام رنگا رنگی کے ساتھ، آمریت کو گرایا ہے۔ یہ فتح سب کی ہے۔’
مگر پھر شرط رکھی؛
‘ہم نئی حکومت کی حمایت کرتے ہیں، مگر ہمیں انصاف، حقوق اور ایسا ریاستی نظام چاہیے جو شہریوں کی حفاظت کرے۔ یہ ایک اور غلبے کا دور نہیں ہونا چاہیے۔’
یعنی کردوں کی طرح وہ بھی ایک علاقائی خودمختاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق صدر احمد الشرع کو امریکی حمایت سمیت بین الاقوامی شناخت ملی ہے، مگر اندرونی چیلنجز شدید ہیں؛ فرقہ وارانہ تناؤ، علیحدگی کے مطالبات، انتہا پسند گروہ اور گہرا معاشی بحران ان کو چیلنج کر رہا ہے۔ شامی فوج ایک متحد ادارے کے بجائے نیم ادارہ جاتی ملیشیاؤں کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ قلیل مدت میں یہ تصادم روک سکتی ہے، مگر بحران میں آزادانہ کارروائی کی صلاحیت ان میں مفقود نظر آتی ہے۔
داعش کے خفیہ سیل، ایرانی اور حزب اللہ نیٹ ورکس، اسدی باقیات، سب خطرات اب بھی موجود ہیں۔ شام میں اب بھی بہت سی غیر حکمرانی شدہ جگہیں ہیں۔ بہت زیادہ اسلحہ، بہت سی رنجشیں، اور بہت زیادہ غربت اس کس مہمیز فراہم کرتی ہے۔ جب لوگ غریب اور خوف زدہ ہوں، تو انہیں بھرتی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
شمالی شام میں ترکی کی امدادی تنظیم آئی ایچ ایچ کے بینر پلوں پر لگے ہیں؛
‘ہم دکھ کے خاتمے تک یہاں رہیں گے۔’
اینٹوں کے گھر، اسکول، یتیموں اور بیواؤں کے منصوبے، سب ریاست کے خلا کو پُر کر رہے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر قیادت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، مگر اندرونِ ملک اعتماد، خدمات اور مستقبل کی تعمیر کہیں زیادہ سست ہے۔
ایک سال بعد بھی شامی سادہ سوال پوچھتے ہیں؛
‘کیا بغیر رشوت کاغذ ملے گا؟کیا زمین پر واپس جا کر جان محفوظ رہے گی؟کیا بولنے پر غائب نہیں ہوں گے؟’
ایک انجینئر نے جرابلس کے قریب کہا؛
‘شامی ایک ڈراؤنے خواب سے جاگے ہیں۔ اب انہیں سیکھنا ہے کہ کل دوبارہ کیسے جاگا جائے۔’
یہی اسد کے ایک سال بعد کا شام ہے۔ نہ مکمل فتح، نہ صاف منتقلی، نہ ختم شدہ انقلاب، بلکہ ایک ملک جو تبدیلی کے بعد جینا سیکھ رہا ہے۔
اس دوران اسرائیل نے شام کے اندر اپنی فوجی موجودگی بڑھا دی ہے۔ پچھلے ایک سال میں 830 سے زائد حملے کیے، اضافی علاقوں پر قبضہ کیا، اور دروز و کرد عناصر کی خاموش حمایت کی ہے۔
اسرائیل ایک منتشر شام کا خواب دیکھ رہا ہے۔ کم از کم وہ دمشق کی مرکزیت نہیں چاہتا ہے، اس لیے وہ دروز اور کرد عسکری گروپوں کی اعلانیہ اور خاموش حمایت کررہا ہے۔
دوسری طرف ترکیہ ایک مضبوط شام اور دمشق کی مرکزیت کا خواہاں ہے۔ واپسی پر زیتون ڈالی سرحد پر خاموشی اب بھی موجود ہے۔ مگر اب وہ محض خالی پن نہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں خوف نے طویل عرصے تک حکمرانی کی ہو، ایسی خاموشی بھی کسی اور شروعات کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔