
فیکٹ چیک: وزیر داخلہ امت شاہ نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں مسلم آبادی میں اضافہ شرح پیدائش کے باعث نہیں، بلکہ بڑے پیمانے پر گھس پیٹھ کی وجہ سے ہوا ہے۔ شاہ کے دعوے سیاسی طور پر مؤثر ہو سکتے ہیں، لیکن وہ سائنسی اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔

وزیر داخلہ امت شاہ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/امت شاہ)
نئی دہلی: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے جمعہ (10 اکتوبر) کودینک جاگرن کے زیراہتمام منعقدہ ‘نریندر موہن میموریل لیکچر’ میں ‘دراندازی، آبادیاتی تبدیلی اور جمہوریت’ کے موضوع پر اپنے خطاب میں ایک متنازعہ دعویٰ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں مسلم آبادی میں اضافہ شرح پیدائش کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ‘بڑے پیمانے پر دراندازی’ کی وجہ سے ہواہے۔
شاہ کے مطابق، ‘ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی میں 24.6 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے جبکہ ہندو آبادی میں 4.5 فیصد کمی آئی ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ یہ گراوٹ شرح پیدائش کی وجہ سے نہیں بلکہ دراندازی کی وجہ سے ہے۔ ہندوستان کی تقسیم کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ نے کہا کہ دونوں طرف سے دراندازی نے آبادی میں اس قدر اہم تبدیلیاں کی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی حکومت گزشتہ گیارہ سالوں سے مرکز میں برسراقتدار ہے۔ ایسے میں مرکزی وزیر داخلہ یہ کیسے دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کی وزارت کے تحت آنے والا محکمہ باہری ‘دراندازی’ کو روک نہیں پا رہا ہے۔
اعداد و شمار کی حقیقت
مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، 1951 اور 2011 کے درمیان ہندو آبادی 84.1 فیصد سے کم ہو کر 79.8 فیصد (-4.3 فیصد پوائنٹ) ہو گئی، جبکہ مسلمانوں کی آبادی 9.8 فیصد سے بڑھ کر 14.2 فیصد (+4.4 فیصد پوائنٹ) ہو گئی۔ 2001-2011 کی دہائی میں مسلمانوں کی آبادی میں 24.6فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا، جبکہ ہندو آبادی میں 16.7فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا تھا۔
تاہم، شاہ کے اس دعوے میں ایک اہم حقیقت پوشیدہ ہے۔
ان کے مطابق ہندو آبادی میں 4.5 فیصد کی گراوٹ آئی ہے، لیکن یہ فیصد حصہ داری میں گراوٹ ہے، نہ کہ تعداد نہیں۔ دراصل، ہندوؤں کی مطلق تعداد 1951 میں 30.4 کروڑ سے بڑھ کر 2011 میں 96.6کروڑ ہو گئی ہے۔
شرح پیدائش کی حقیقت
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) کا ڈیٹا ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ مسلم کمیونٹی کی شرح پیدائش، جو 1992-93 میں 4.4 بچے فی عورت تھی، 2019-21 میں گھٹ کر 2.3 رہ گئی ہے۔ اسی عرصے کے دوران ہندوؤں کی شرح پیدائش 3.3 سے کم ہو کر 1.9 ہوگئی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسلم کمیونٹی میں شرح پیدائش میں سب سے تیز گراوٹ کا مشاہدہ کیا گیا ہے – فی عورت 2.1 بچوں کی کمی، جبکہ ہندوؤں میں یہ گراوٹ فی عورت 1.4 بچے تھی۔
پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پونم متریجا کا کہنا ہے کہ ‘ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان شرح پیدائش میں فرق کم ہو رہا ہے۔’
آبادی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر شرح پیدائش میں فرق بنیادی طور پر مذہبی عوامل کی بجائے تعلیم، معاشی حیثیت اور صحت کی خدمات تک رسائی جیسے عوامل سے ہوتا ہے۔ پچھلی چند دہائیوں کے دوران، مسلم متوسط طبقہ لڑکیوں کی تعلیم اور خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت سے تیزی سے آگاہ ہوا ہے۔
ابھی چند ماہ قبل ہی پرتیچی ٹرسٹ کے سینئر ریسرچ کوآرڈینیٹر صابر احمد نے کہا تھا کہ ‘مردم شماری ایک دہائی سے زیر التوا ہے اور پچھلی مردم شماریوں میں مسلم کمیونٹی میں ان کی شرح پیدائش کے مطابق آبادی میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں دکھایا گیا، جو کہ دراندازی کی وجہ سے آبادیاتی تبدیلی کی طرف اشارہ کرے۔’
گھس پیٹھ کے دعوے کی تحقیقات
سرحدی ریاستوں میں دراندازی کا مسئلہ بلاشبہ موجود ہے، خاص طور پر آسام، مغربی بنگال اور تریپورہ میں۔ لیکن اس کا پیمانہ شاہ کے دعووں سے میل نہیں کھاتا۔
حال ہی میں ڈیموکریٹک رائٹس پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری رنجیت سر نے کہا تھا، ‘کم از کم مغربی بنگال کے تناظر میں، ہمارے فیلڈ ورک کے تجربات کی بنیاد پر، غیر قانونی تارکین وطن کی آمد اتنی اہم نہیں ہے جتنا کہ اندازہ لگایا جاتا ہے۔’
گجرات اور راجستھان بھی سرحدی ریاستیں ہیں، لیکن وہاں کوئی قابل ذکر دراندازی کی اطلاع نہیں ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسئلہ سرحدی انتظام اور ریاست کے مخصوص عوامل سے زیادہ وابستہ ہے۔
سیاسی تناظر
شاہ کا یہ بیان کئی معنوں میں ان کی پارٹی کے سابقہ موقف سے الگ ہے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر نریندر مودی نے 2002 میں ‘ہم پانچ، ہمارے پچیس’ کا نعرہ دیا تھا، جس میں مسلمانوں کی اعلیٰ شرح پیدائش کا مذاق اڑایا گیا تھا۔
دائیں بازو کی اسٹیبلشمنٹ نے طویل عرصے سے ‘پاپولیشن جہاد’ کے نظریے کو فروغ دیا ہے۔ لیکن اب شاہ کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ شرح پیدائش کی وجہ سے نہیں بلکہ دراندازی کی وجہ سے ہے۔ یہ تبدیلی اس بات کی نشاندہی کر سکتی ہے کہ اصل اعداد و شمار اس ‘پاپولیشن جہاد‘ کی تھیوری کی حمایت نہیں کرتے ۔
پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ ان ممالک میں ہندو آبادی میں کمی تبدیلی مذہب کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ ان میں سے بہت سے ہندوستان میں پناہ لینے آئے ہیں۔ یہ بیان ہندوستان کے ہندو دائیں بازو کے پرانےراگ سے بھی متصادم ہے۔
ڈیٹیکٹ،ڈیلیٹ،ڈی پورٹ پالیسی
شاہ نے ‘ڈیٹیکٹ، ڈیلیٹ، ڈی پورٹ’ کی تین جہتی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت دراندازی کرنے والوں کی شناخت کرے گی، ووٹر لسٹ سے ان کے نام نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی اور پھر انہیں ان کے ملکوں میں بھیجے گی۔
سرکاری اعداد و شمار اور ماہرین کی رائے کی بنیاد پر یہ واضح ہے کہ ہندوستان میں مسلم آبادی میں اضافہ بنیادی طور پر شرح افزائش کی وجہ سے ہے، نہ کہ بڑے پیمانے پر دراندازی کی وجہ سے۔ اگرچہ سرحدی علاقوں میں غیر قانونی نقل مکانی کا مسئلہ موجود ہے، لیکن یہ قومی سطح پر آبادیاتی تبدیلی کی بنیادی وجہ نہیں ہے۔
شرح پیدائش کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تمام مذہبی برادریوں میں شرحیں کم ہو رہی ہیں، مسلمانوں میں یہ کمی سب سے زیادہ ہے۔ آبادیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والی دہائیوں میں ان طبقات کے درمیان شرح پیدائش کا فرق مزید کم ہو جائے گا۔
امت شاہ کے دعوے سیاسی طور پر مؤثرہو سکتے ہیں، لیکن سائنسی اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔ دراندازی کے مسئلے سے نمٹنا ضروری ہے، لیکن اس کے لیے حقائق پر مبنی اور منصفانہ پالیسیوں کی ضرورت ہے، نہ کہ گمراہ کن دعووں کی۔