کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی: پروفیسر عرفان حبیب

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سابق جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کی پہلی برسی کے موقع پر منعقد یادگاری خطبے میں تاریخ دان پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ آزادی کی جدوجہد کے دوران کمیونسٹوں نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک جیسا مان کر اسٹریٹجک غلطی کی اور کمیونزم کے مسئلے کو ڈھنگ سے حل نہیں کیا۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سابق جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کی پہلی برسی کے موقع پر منعقد یادگاری خطبے میں تاریخ دان پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ آزادی کی جدوجہد کے دوران کمیونسٹوں نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک جیسا مان کر اسٹریٹجک غلطی کی اور کمیونزم کے مسئلے کو ڈھنگ سے حل نہیں کیا۔

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/اودھیش کمار

نئی دہلی: کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سابق جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک یادگاری خطبے میں نامور تاریخ دان پروفیسرعرفان حبیب نے اپنے سامعین پر زور دیا کہ انہیں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے چند اہم ترین ابواب  کے مارکسی تنقیدوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔

خاص طور پر ان ابواب کا، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ وہ ہندوستانی کمیونسٹ تحریک کے کردار کو دھندلا کرتے ہیں۔

پروفیسر حبیب نے کہا ،’شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خامیوں پر بھی نظر ڈالیں۔’ انہوں نے واضح طور پر خود کو بائیں بازو کا دانشورمانا۔

عالمی سطح پر قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے ایک انقلابی مؤرخ کے طور پر معروف، لیکن جن کا کام قدیم سے جدید ہندوستان تک کے مختلف ادوار پر محیط ہے، پروفیسر عرفان حبیب اب 90 سال سے زیادہ کے ہوچکے ہیں۔سوموار (15 ستمبر) کو، پروفیسر حبیب نے دہلی میں گزشتہ دہائی کا اپنا پہلا عوامی لیکچر دیا۔

سی پی آئی (ایم) کے جنرل سکریٹری ایم اے بے بی نے پروفیسر حبیب کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ’ وہ93 سال کے نوجوان’ ہیں۔وہیں معروف ماہر اقتصادیات پربھات پٹنائک نے کہا کہ حبیب ان عالمی دانشوروں میں ہیں، جنہوں نے کھل کر اپنے سیاسی خیالات کا اظہار کیا، مثلاً البرٹ آئن سٹائن اور ژاں پال سارتر۔ یہ ہندوستانی روایت سے الگ تھا، یہاں پبلک انٹلیکچوئل عموماً سیاست سے دور رہتے ہیں۔

فوٹوبہ شکریہ: فیس بک/اودھیش کمار

اپنے لیکچر میں،’دی لیفٹ ان دی نیشنل موومنٹ اینڈ اٹز لیگیسی ‘ میں حبیب نے دلیل دی کہ مارکسی تاریخ نگاری نے کانگریس کے لبرل رہنماؤں دادا بھائی نوروجی اور آر سی دت کی غیر معمولی خدمات کو اس طرح تسلیم نہیں کیا جیسا کہ ان کا حق تھا۔ ان دونوں نے سب سے پہلے اس بات کو اجاگر کیا تھا کہ برٹش ہندوستان کی دولت  لوٹ کر باہر لے جا رہے تھے۔اس کو  بعد میں ‘ ڈرین آف ویلتھ’ کی تھیوری کہا گیا۔

نوروجی اور دت کے 1880کی دہائی کے خیالات  ہی بعد میں مارکسی تنقید کی بنیاد بنے، جس نے برطانوی سامراج اور استعمار کے بارے میں اسی تفہیم کو زیادہ گہرائی سے قائم کیا۔

حبیب نے کہا،’برطانوی استعمار پر کمیونسٹ تنقید، ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ (کارل) مارکس اور (فریڈرک) اینگلز نے 1840 کی دہائی میں نوآبادیات پر تنقید کی، لیکن نوروجی اور دت نے ہندوستان میں اس تنقید کو فروغ دیا۔ ہمیں بھی ان کا احترام کرنا چاہیے ۔’

حبیب نے مزید وضاحت کی کہ ’کمیونسٹ انڈین نیشنل کانگریس کا ایک اہم حصہ تھے، اور وہ اکثر سوشلسٹوں کے ساتھ اتحاد کرتے تھے۔ ‘ یہ صورتحال آزادی کے بعد بدلی، جب دونوں کے درمیان اختلافات نمایاں ہونے لگے۔

تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹوں نے ایک اسٹریٹجک غلطی کی تھی، جب انہوں نے ‘مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک جیسا مان لیا۔’ انہوں نے کہا کہ 1930 کی دہائی سے لے کر 1947 تک، کانگریس اور مسلم لیگ ‘دو مختلف سمتوں میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ کانگریس فوری اور مکمل آزادی چاہتی تھی، اور مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے علیحدہ حصہ (ڈیویڈنڈ) کا مطالبہ کر رہی تھی۔’ حبیب نے دلیل دی کہ اگرچہ کمیونسٹوں نے کانگریس کے مطالبے کی حمایت کی، لیکن انہوں نے غلطی سے دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک ہی مان لیا۔

حبیب نے کہا، ‘مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی… مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی، لیکن کانگریس نے نہیں کی۔ تو یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے؟’

انہوں نے مزید کہا،’ہم دونوں میں فرق کیوں نہیں دیکھ پائے؟ کانگریس کے پاس پہلے ہی سوشلسٹ پروگرام تھا۔’حبیب نے یاد کیا کہ غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مانتے ہوئےایسی پالیسی اپنائی تھی، جس کے تحت اپنے مسلم کارکنوں کو مسلم لیگ  میں بھیجا اور ہندو اراکین کو کانگریس میں ،یعنی عملی طور پر کانگریس کو ایک ‘ہندو پارٹی’ مان لیا گیا۔

حبیب نے کہا، ‘کمیونسٹوں نے فرقہ وارانہ مسئلہ کو ٹھیک سے حل نہیں کیا۔’

انہوں نے اسے ایک ‘بڑی غلطی’ قرار دیا اور یاد کیا کہ کیسے کئی مسلم کمیونسٹوں نے مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیے جانے پر مارکسزم سے خود کو دور کر لیا۔ تاہم، انہوں نے یاد دلایا کہ جب کمیونسٹ ایک متنازعہ سیاسی موقف اپنا رہے تھے، اس زمانے کے ایک ممتاز کمیونسٹ ترجمان آر پی دت نے اپنی مشہور کتاب انڈیا ٹوڈے (1940 ) میں ایک الگ باب لکھا تھا جس میں یہ دلیل دی گئی کہ ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ ان کی دلیل کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اس وقت کے جنرل سکریٹری پی سی جوشی نے نظر انداز کر دیا ، جو مسلم لیگ کے تئیں ‘اپیزمنٹ کی پالیسی’ پر عمل پیرا تھے۔

جہاں پروفیسرحبیب نے جدوجہد آزادی کے بعض پہلوؤں کے بارے میں ہندوستانی کمیونسٹ تحریک کے نقطہ نظر پر تنقید کی، وہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بائیں بازو نے ہندوستان چھوڑو تحریک کی حمایت کیوں نہیں کی۔ ہندوستان کی جدید تاریخ میں اس واقعہ کو اکثر ہندوتوا قوتوں اور کانگریس دونوں نے بائیں بازو اور آزادی کی جدوجہد میں اس کے کردار پر سوال اٹھانے کے لیے استعمال کیا ہے۔

حبیب نے کہا کہ 1942 کی بمبئی قرارداد، جسے کانگریس نے ہندوستان چھوڑو تحریک شروع کرنے کے لیے منظور کیا تھا، قبل از وقت اور غلط وقت پر لایا گیاتھا۔ انہوں نے کہاکہ کانگریس نے ‘ہندوستان چھوڑو’کی کال اس وقت جاری کی جب جاپانی فوج ہندوستان کی سرحدوں پر پہنچ چکی تھی۔ ایسے حالات میں کمیونسٹوں نے صحیح طور پر پہچانا کہ ان کی پہلی لڑائی فسطائی طاقتوں کے خلاف ہے، اس لیے انہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف جدوجہد بعد کے لیے  ملتوی کر دی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں دفاعی موقف اختیار کرنے کے بجائے اس معاملے پر کمیونسٹوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔

حبیب نے سب سے اپیل کی کہ وہ ان کی طرف سے اٹھائے گئے نکات پر غور کریں اور امید ظاہر کی کہ کمیونسٹ ان مسائل پر کھلے، آزادانہ اور منطقی طور پر بحث کریں گے۔

حبیب نے اپنے لیکچر کا اختتام موجودہ دور کی ضروریات اور ہندوستان کی کمیونسٹ تحریک کو کس سمت میں آگے بڑھنا چاہیے اس پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا، ‘آج کے ہندوستان میں ہمیں نہ صرف سوشلزم بلکہ مکمل جمہوریت کو بھی فروغ دینا چاہیے۔ سوشلزم اور جمہوریت انمول ہیں، دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کے بغیر قیمتی نہیں ہے… ہمیں سوشلزم کو ہر ممکن حد تک فروغ دینا چاہیے، لیکن ہمیں یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ اسے آبادی کی بڑی اکثریت قبول کرے۔’

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔