آخر کار سابق جسٹس چندر چوڑ نے ہندوتوا کے لیے اپنی وفاداری کا ثبوت دے ہی دیا …

ڈی وائی چندر چوڑ کی یہ دلیل کہ سینکڑوں سال قبل بابری مسجد کی تعمیر ایک 'ناپاک حرکت' تھی، آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندوتوا کے تئیں ان کی اٹوٹ وفاداری کا ثبوت ہے۔

ڈی وائی چندر چوڑ کی یہ دلیل کہ سینکڑوں سال قبل بابری مسجد کی تعمیر ایک ‘ناپاک حرکت’ تھی، آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندوتوا کے تئیں ان کی اٹوٹ وفاداری کا ثبوت ہے۔

فوٹوبہ شکریہ: یوٹیوب/وکی پیڈیا

‘ایودھیا کی متنازعہ زمین پر دیے گئے اہم فیصلے کے بعد ہندوستان میں کچھ تبدیل ہو گیا ہے ، کچھ بدل گیا ہے ، کچھ ٹوٹ گیا ہے۔ ‘

میں نے یہ بات 2019 میں پانچ ججوں پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ کی جانب سے متفقہ طور پر دیے گئے اس تاریخی فیصلے کےکچھ دنوں بعدکہی تھی، جس میں یہ پوری جگہ، جہاں کبھی قرون وسطیٰ کی بابری مسجد ہوا کرتی تھی، ہندو فریقوں کو بھگوان رام کا مندر بنانے کے لیے دے دی گئی تھی۔ 1992 کے موسم سرما میں ایک پرتشدد ہجوم نے مسجد کو منہدم کر دیا تھا، جسے کئی لوگ گاندھی کے قتل کے بعد آزاد ہندوستان کی تاریخ کاسیاہ ترین  دن سمجھتے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں مجھے اپنی مذکورہ بات کئی بار پریشان کرتی  رہی۔ سب سے پہلے اس وقت، جب اس کیس میں فیصلہ سنانے والے جج نے دعویٰ کیا کہ اس فیصلہ کولکھنے میں انہیں ایشورکی جانب سے رہنمائی حاصل ہوئی تھی، اور وہ ایک سچے ہندو ہیں۔ ان کے مطابق، ایک ایسا فیصلہ لکھنے میں ایک ہندو ایشور نے ان کی رہنمائی کی جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک مذہبی تنازعہ تھا!

اور اب جب اسی جج نے یہ اعلان کیا کہ 1528-29 میں بابر کے ایک فوجی کمانڈر کی طرف سے مسجد کی تعمیر ہی ‘ناپاک حرکت’تھی، نہ کہ 1992 میں جمہوری ہندوستان میں ایک جنونی ہجوم کے ذریعے قانون، سپریم کورٹ کی ہدایات اور آئینی اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے مسمار کرنا، تو یہ تشدد پر آمادہ ہجوم کےمسجد کو مسمار کرنے کا اخلاقی جواز ہے۔

کئی صحافیوں کو دیے غیر روایتی انٹرویو کے بعد ڈی وائی چندر چوڑ کی اخلاقی اور سیاسی حیثیت عوامی جانچ کے دائرے میں آگئی۔ ڈی وائی چندرچوڑ حال تک سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس تھے اور 2019 کا وہ فیصلہ انہوں نے دیگر ججوں کے ساتھ مل کرلکھا تھا، اورجس فیصلے نے قرون وسطیٰ کی بابری مسجد کو ہجوم کے ذریعے مسمار کیے جانے کے بعد کے اس احاطے  کی زمین  کو بھگوان رام کے مندر کی تعمیر کے لیے دے دیا  گیا تھا۔

ان کا یہ مشاہدہ آر ایس ایس اور اس کے سیاسی ونگ بی جے پی کے ہندوتوا کے بنیادی نظریے کے تئیں ان کی اٹوٹ وفاداری  کی عکاسی کرتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 22 جنوری، 2024 کووزیر اعظم کی قیادت میں رام مندر کی پران پرتشٹھا کےلیےعظیم الشان عوامی تقریب اور مذہبی رسومات اسی زمین پر منعقد ہوئی  جہاں بابری مسجد کو گرایا گیا تھا، یہ ڈی وائی چندر چوڑ کے تحریر کردہ فیصلے اور سپریم کورٹ کے ذریعے منظور کیے گئے فیصلے کے بعدہی ممکن ہوا۔

آر ایس ایس کے سپریمو موہن بھاگوت نے رام مندر کی پران پرتشٹھاکو ہندوستان کی ‘حقیقی آزادی’ سے تعبیرکیا، جس نے صدیوں کے’پرا چکر’ یا غیر ملکی حملے کو ختم کردیا ۔ پران پرتشٹھاکی تقریب کے چند دن بعد مرکزی کابینہ نے وزیر اعظم کو انہی الفاظ میں مبارکباد دی، جو بعد میں آر ایس ایس سپریمو نے کہے۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور وزیر اعظم نریندر مودی 5 اگست 2020 کو ایودھیا میں رام مندر کے بھومی پوجن کی تقریب میں۔ (تصویر: پی آئی بی)

کابینہ نے اعلان کیا کہ 1947 میں ہندوستان کا صرف جسم آزاد ہوا تھا۔ اس کی روح اس وقت آزاد ہوئی جب بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی پران پرتشٹھا کی گئی ۔ اور پھر چندرچوڑ نے مسجد کی تعمیر کو ایک ‘ناپاک عمل’ قرار دیا ، اس طرح اس کے انہدام اور اس کے کھنڈرات پر  ہندو مندر کی تعمیر کا جواز پیش کیا۔

مرکزی کابینہ، آر ایس ایس کے سربراہ اور اب سابق چیف جسٹس آف انڈیا کے یہ تینوں عوامی بیانات تاریخ کے ہندوتوا ورژن سے پوری طرح مطابقت رکھتے ہیں۔

وزیر اعظم اکثر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہندوستانی عوام نے دو صدیوں  تک صرف برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں کی محکومی کو برداشت نہیں کیا۔ ہندوستان کے لوگوں نے مسلم ‘غیر ملکی حملہ آوروں’ کی غلامی بھی جھیلی، جو کہیں زیادہ سفاک تھے ، جنہوں نے 1,000 سال تک مطلق العنان حکومت کی۔ وہ حددرجہ سفاک، وحشی اورجنونی تھے، جنہوں نے ہندو مندروں کو تباہ کیا، ہندو مذہب کی بے حرمتی کی، ہندو خواتین کی عصمت دری کی اور بڑی تعداد میں ہندوؤں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا۔

مسجد کی تعمیر کے ‘فرضی’ دعوے؟

مودی حکومت کی طرف سے حال ہی میں نظر ثانی شدہ تاریخ کی نصابی کتابوں میں، اکبر کو بھی ایک مذہبی شدت پسند کے طور پر دوبارہ متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ ہندوستانی تاریخ کی ایک انتہائی ناقص، اشتعال انگیز، اور فرقہ وارانہ تحریر ہے، جس کی ڈی وائی چندرچوڑ نے اس وقت خاموشی سے تائید کی، جب انہوں نے  ایودھیا میں بابری مسجد کی تعمیر کو ایک ناپاک عمل قرار دیا، لیکن 1992 میں ایک پرتشدد ہجوم کے ذریعے اس کے انہدام کو غیرمقدس عمل نہیں مانا۔

اپنے اختتام پر، یہ انہدام فرقہ وارانہ جارحیت اور تشدد کا مجرمانہ فعل نہیں تھا جس کی وجہ سے ملک گیر تشدد ہوا تھا۔ اس کے بجائے، یہ بحالی کا ایک ایساعمل تھا جس کا دفاع کیا جانا چاہیے۔

یہ وہی نظریاتی دلیل ہے، جس کا سہارا لے کر انہوں نے 1991 کے عبادت گاہوں کے قانون کی واضح ممانعتوں کے باوجود وارانسی میں گیان واپی مسجد کے سروے کی اجازت دی۔ اس کے لیے پیچیدہ دلیل کا سہارا لیا گیا کہ 1991 کا قانون مذہبی مقامات کی مذہبی حیثیت کو تبدیل کرنے سے منع کرتا ہے، لیکن یہ مذہبی حیثیت کی حقیقت پر مبنی تحقیقات میں مانع نہیں ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ یہ معروف حقیقت ہے کہ مندر کے نیچے تہہ خانے میں صدیوں سے ہندوؤں کے طریقہ کار کے مطابق پوجا ہوتی رہی ہے۔ تاہم، یہ پوری طرح سے غلط ہے، مسلم فریقوں نے بھی اس بات کی تردید کی ہے، اور ساتھ ہی یہ قانون کے لفظی مفہوم اور روح کی ان کی متضاد تشریح کی وضاحت کرنے میں بھی ناکام ہے۔ اس زبانی فیصلے سے انہوں نے تاریخ میں کسی وقت مندروں کو مسمار کرنے کے بعد تعمیر کی گئی مسجدوں کے کئی دعووں کے لیے دروازے کھول دیے، جویقینی طور پر نسلوں تک فرقہ وارانہ نفرت، ناراضگی اور خونریزی کو ہوا دے گی۔

ان کے اس دعوے  میں کئی پیچیدہ مسائل ہیں- تجرباتی، تاریخی، قانونی، اخلاقی اور آئینی- کہ 1528-29 میں مسجد کی تعمیر اصل میں یا بنیادی طور پر ناپاک حرکت تھی۔ اس بنیاد پر رام مندر کی تعمیر کے لیے زمین الاٹ کرنے کے 2019 کے فیصلے کا ان کا دفاع، بذات  خود اس فیصلے سے بھی زیادہ پیچیدہ اور غیر منطقی ہے۔

اول، یہ دعویٰ ان کے اپنے فیصلے کے نتائج سے متصادم ہے۔ فیصلے میں آثار قدیمہ کے نتائج کا حوالہ دیا گیا کہ بابری مسجد کے نیچے ایک اور عبادت گاہ – ممکنہ طور پر ہندوؤں کے کھنڈرات واقع تھے۔ تاہم، تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اصل مندر کے استعمال میں نہ آنے کے بعد تقریباً چار صدیاں گزر چکی تھیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اصل مندر کو گرا کر مسجد نہیں بنائی گئی تھی۔

آثار قدیمہ کی تحقیق  اس بات کی بھی تصدیق نہیں کرتی ہے کہ مندر کو چار صدی پہلے ہی منہدم کیا گیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کسی قدرتی آفت سے تباہ ہوگئی  ہو، یا کسی اور وجہ سےاسے چھوڑ دیا گیا ہو۔پھر  مسجد کی تعمیر سے ہوئی بے حرمتی کہاں تھی، جس کی طرف چندرچوڑ اشارہ کرتے ہیں؟

صحافی سری نواسن جین کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو کے دوران سابق سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: نیوز لانڈری)

مبینہ تاریخی غلطیوں کی  چنندہ اصلاح؟

آثار قدیمہ کی تحقیق کے نتائج سے ہٹ کر بھی اس کے استدلال میں شدید اخلاقی اور قانونی خامی ہے۔


بھلے ہی صدیوں پہلے کسی خاص شناخت کے لوگوں کے ذریعے تاریخی غلطیاں سرزد ہوئی ہوں، آج اس شناخت کے لوگوں کو نقصان پہنچا کر تاریخ کی حقیقی اور مبینہ غلطیوں کو درست کرنا کس طرح سےاخلاقی، منصفانہ یا جائز  ہے؟ اور اگر معاشرہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس طرح کی تلافی تاریخی غلطیوں کے بدلے یا معاوضے کے طور پر جائز ہے، تو پھر اس عمل کو چنندہ کیوں ہونا چاہیے؟


یہ بات ناقابل تردید ہے کہ مراعات یافتہ ذاتوں نے پسماندہ ذاتوں میں پیدا ہونے والوں کو کم از کم 2000 سالوں سے مسلسل جبر کا نشانہ بنایا ہے، ایک ایسا جبر جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، جس میں ناپاک سمجھے جانے والے کام میں جبری مشقت، جنسی تشدد، تعلیم اور مشترکہ عبادت کے حق سے انکار، اور روزمرہ کی بے عزتی اور امتیازی سلوک کی بے شمار دوسری شکلیں شامل ہیں۔ ہر ذات کی خواتین کو ماتحت کادرجہ دیا گیا ہے، جس میں آزادی، تعلیم اور کام سے محروم رکھنا اور مسل تشدد کی اذیت شامل ہے۔

یہ مسلم حکمرانوں کے حقیقی یا تصوراتی مظالم کے سامنے کچھ بھی نہیں  ہے۔ لہذا، اگر تاریخی جرائم کا بدلہ قانون اور عوامی اخلاقیات میں قابل قبول ہے، تو ہمیں مراعات یافتہ ذاتوں اور مردوں سے اس کی شروعات کیوں نہیں کرنی چاہیے؟

فیصلے کے دفاع کی کمزور کوششیں

سابق جج کے فیصلے کے دفاع میں بھی منطق کے کئی پراسرار خلا موجود ہیں۔ جج نے تسلیم کیا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مسجد بنانے کے لیے مندر کو گرایا گیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مندر کی تعمیر کے مقام پر کم از کم دو مجرمانہ کارروائیاں ہوئیں۔

پہلا 1949 میں مسجد میں رام کی مورتی کی خفیہ اور غیر قانونی تنصیب ، جس کی وجہ سے مسجد میں عبادت میں خلل پڑا۔ دوسرا 1992 میں تشدد پر آمادہ  ہجوم کا مسجد کو مسمار کرنا ، جس کا بی جے پی کے سینئر لیڈروں نے جشن منایا اور اس کی حوصلہ افزائی کی، اور یہ سپریم کورٹ کے احکامات اور تمام مذاہب کی مساوات کی آئینی ضمانت کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی۔ اس کے نتیجے میں فرقہ وارانہ قتل عام کا دور شروع ہوگیا،جس میں ہزاروں اموات ہوئیں اور سماجی تانا بانا بری طرح سے بگڑ گیا۔

جج نے اسے سنگین مجرمانہ فعل قرار دیا۔ اس کے باوجود قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کو انعام دیا گیا جبکہ قانون پر عمل کرنے والوں کو سزا دی گئی۔

سابق جسٹس چندر چوڑ اب پانچ ججوں کی جانب سےلکھے گئے  2019 کے تاریخی فیصلے کےدفاع میں جو دلیل دے رہے ہیں،ان میں بھی قانونی اور اخلاقی تضاد ہیں۔ انہوں نے استدلال کیا کہ مسلم فریقوں کو ناجائز قبضے کا قانونی حق اس لیے نہیں دیا گیا  کیونکہ مسلمانوں نے’ڈھانچے کے مکمل حصے پر غیر متنازعہ اوربالکلیہ؛ یقینی اور مسلسل قبضہ قائم نہیں کیا تھا’، حالاں کہ یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ مسلمان کم از کم 100 سالوں تک مسجد میں مسلسل نماز ادا کر رہے تھے ۔

اکتوبر 1990 میں بابری مسجد کے باہر تعینات سکیورٹی اہلکار۔ (فائل فوٹو: اے پی/پی ٹی آئی)

دوسری طرف، بیرونی صحن میں ہندوؤں کی عبادت پر کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا، اس لیے وہ منفی یا برعکس قبضے کے لیے اہل تھے۔ اس کا مطلب یہ ہواکہ ہندو فریقوں نے مسلمانوں کی عبادت میں غیر قانونی مداخلت کی تھی، جبکہ مسلم فریقوں نے قانون پر عمل کیا تھا اور ہندوؤں کے عبادت کے حق کا احترام کیا تھا۔ لیکن یہ پھر سے ان کے خلاف گیا، جبکہ قانون شکنی کرنے والوں کو انعام دیا گیا۔

مسلمانوں کو سزا دی گئی کیونکہ انہوں نے غیر قانونی طور پر لڑنے کے بجائے قانون کا راستہ چنا!

عقیدہ اور قانون

یہ سوالات بھی اٹھے کہ عدالت کا فیصلہ عقیدے پر تھا یا قانون پر؟ مقدمے کی سماعت کرنے والی بنچ کے پانچ ارکان میں سے ایک نامعلوم جج نے مرکزی فیصلے کے ضمیمہ میں لکھا کہ انہوں نے ہندوؤں کے مذہبی عقائد کی وجہ سے فیصلے کی حمایت کی۔ فیصلے کے مرکزی حصے میں یہ دعویٰ بھی شامل ہے کہ ہندوؤں کا ماننا ہے کہ متنازعہ زمین ‘بھگوان وشنو کے اوتار”بھگوان رام کی جائے پیدائش’ تھی۔ پہلی نظر میں یہ حقائق کی رو سے غلط ہے۔

ایودھیا میں کئی ایسے مندر ہیں جو رام کی جائے پیدائش ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور کچھ پیروکاروں کا خیال ہے کہ ایودھیا کہیں اور واقع تھی۔ اس سے بھی زیادہ موزوں بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسے فیصلے سے کیسے متعلق ہو سکتا ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ عقیدے پر نہیں ، بلکہ یہ پوری طرح سے قانون پر مبنی ہے ؟

معاملہ جسٹس چندرچوڑ کے اس دعوے سے مزید پیچیدہ ہو جاتاہے کہ ایشور نے ہی انہیں یہ فیصلہ لکھنے کی تحریک دی ۔

یہ پوچھے جانے پر کہ متنازعہ جگہ کے ایک حصے پر مسلمانوں کو مسجد بنانے کے لیے زمین کیوں نہیں دی گئی، تو چندرچوڑ کی یہ دلیل عجیب تھی، جسے مالکانہ حق کے مقدمے (ٹائٹل سوٹ) میں قانون کے سوالوں پر غور کرنے کے لیے کہا گیا ہو۔

انہوں نے کہا کہ ججوں نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ ‘اسی صورتحال کو برقرار نہیں رکھنا چاہتے تھے جس نے صدیوں سے تشدد اور تنازعات کی ان گنت کارروائیوں کو جنم دیا ہے۔’ وہ ایک ایسے فیصلے کے ذریعے سماجی امن بحال کرنا چاہتے تھے جو مسلم مدعیان کے قانونی اور آئینی حقوق ساتھ ساتھ اپنے مضمرات میں وسیع تر مسلم کمیونٹی کے ساتھ واضح طور پر ناانصافی ہے۔


داؤ پر صرف اس جج کا اعتبار اور ساکھ نہیں ہے، جو ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز تھے اور انہیں انصاف کے حتمی ثالث ہونے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یہ واضح ہے کہ وہ ہندوستان کے سیکولر جمہوری آئین کے تحفظ میں بری طرح ناکام رہے۔


لیکن تعفن کی اور بھی بہت سی تہیں ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ہندوستان کے جمہوری ادارے، جس میں عدالتیں بھی شامل ہیں، اکثریتی سیاسی تشکیلات کی فتح کی مہم کو روکنے سے قاصر ہیں ،جو ہندوستان کے آئینی نظام سے پوری طرح متصادم ہیں، یا یہاں تک کہ ایک ایسی جمہوریہ کی فطرت کے خلاف بھی ہیں جو ہر مذہب اور شناخت کے لوگوں کے لیے مساوی حقوق اور مساوی تعلق کی ضمانت دیتی ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

ہندوستان آج ایک ایسی ریاست کا مشاہدہ کر رہا ہے جو اپنے مسلمان شہریوں کے ساتھ مؤثر طریقے سے جنگ میں ہے اور ان کے بہت سے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ ایسے وقت میں عدلیہ ہی مظلوم اقلیتوں کا آخری سہارا ہے۔ لیکن اگر ہندوستان کے جج اکثریتی نظریات کے تئیں اپنی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اور یہاں تک کہ عوامی طور پر مظاہرہ کرتے ہیں جو ہندوستان کے سیکولر جمہوری آئین کی ضمانت کو مجروح کرتا ہے اور ان کی نفی کرتا ہے، تو وہ کدھر جائیں گے؟

جیسا کہ میں نے 2019 کے ایودھیا فیصلے کے بعد لکھا تھا؛

‘یہ فیصلہ، بالآخر، اس بات  کا انتہائی تشویشناک اشارہ ہے کہ ہمارا ملک کس سمت جا رہا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے یہ سمت واضح ہے۔ تاہم، ہمیں پھر بھی امید تھی کہ ہندوستان کی سپریم کورٹ اس گھپ اندھیرے اور اس طوفان کے خطرات میں ہمارے جہاز کو ثابت قدم رکھے گی؛ کہ یہ ہواؤں سے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑی ہو گی اور ہمیں اس امن اوراور مساوی شہریت کی راہ پر واپس لائے گی جس کا تصور تحریک آزادی میں کیا گیا تھا اور  جس کا حل ہمارے آئین میں کیا گیا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تاریخ اس لمحے کو دیر تک یاد رکھے گی، کہ جیسا یہ تھا، اور جیسا یہ  ہو سکتا تھا۔’

(ہندی میں پڑھنے کے لیےیہاں  کلک کریں)