سپریم کورٹ نے پوچھا – تبدیلی مذہب ’دھوکہ دہی‘ ہے یا نہیں، یہ فیصلہ کون کرے گا

سپریم کورٹ نے لالچ اور دھوکہ دہی کے ذریعے تبدیلی مذہب پر مکمل پابندی لگانے کی مانگ کرنے والے درخواست گزار وکیل اشونی اپادھیائے سے پوچھا کہ بین مذہبی شادی دھوکہ دہی ہے یا نہیں، یہ طے کرنے کا حق اصل میں کس کو ہے ۔

سپریم کورٹ نے لالچ اور دھوکہ دہی کے ذریعے تبدیلی مذہب پر مکمل پابندی لگانے کی مانگ کرنے والے درخواست گزار وکیل اشونی اپادھیائے سے پوچھا کہ بین مذہبی شادی دھوکہ دہی ہے یا نہیں، یہ طے کرنے کا حق اصل میں کس کو ہے ۔

سپریم کورٹ. (تصویر: سنتوشی مرکام/دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل (16 ستمبر) کو ‘دھوکہ دہی’  سے کی جانے والی مذہب کی تبدیلی پر مکمل پابندی لگائی جانے کی مانگ کرنے والے درخواست گزار سے پوچھاکہ کہ بین مذہبی شادی دھوکہ دہی / فراڈہے یا نہیں، یہ طے کرنے کا حق کس کو ہے۔

دی ہندو کی خبر کے مطابق، چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی نے سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ سے اتفاق کیا، جو ایک این جی او کی طرف سے پیش ہوئے تھے اور 10 ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے خلاف تیزی سے سخت  ہوتے جا رہے قوانین کے جواز پر سوال اٹھا رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت قوانین کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینے بیٹھتی ہے قانون بنانے کے لیے نہیں۔

درخواست گزار وکیل اشونی اپادھیائے نے کہا کہ ان کی درخواست لالچ اور دھوکہ دہی کے ذریعے تبدیلی مذہب کے خلاف ہے۔ اپادھیائے نے دلیل دی کہ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت کسی کو بھی مذہب کی تبلیغ  کا حق ہے، لیکن دھوکہ دہی یا زبردستی مذہب تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے۔

آئین میں درج ضمیر کی آزادی کو ان کی درخواست سے لاحق خطرے کو اجاگر کرتے ہوئے چیف جسٹس گوئی نے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، ‘لیکن یہ کون پتہ  کرے گا کہ تبدیلی مذہب دھوکہ دہی ہے یا نہیں؟’

سینئر ایڈوکیٹ اندرا جئے سنگھ اور ایڈوکیٹ ورندا گروور کے ساتھ اس معاملے میں پیش ہوئے سنگھ نے کہا کہ اتر پردیش، ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ، گجرات، چھتیس گڑھ، ہریانہ، جھارکھنڈ اور کرناٹک جیسی ریاستوں نے ‘مذہبی آزادی’ کے قوانین کی ایک کے بعد ایک نقل کی ہے، اور حال ہی میں راجستھان نے بھی اسی طرح کا قانون بنایا ہے۔

سنگھ نے کہا،’ان قوانین کو مذہبی آزادی کا ایکٹ کہا جاتا ہے، لیکن ان میں آزادی کے علاوہ ہر چیز شامل ہے۔ یہ بنیادی طور پر تبدیلی مذہب کے خلاف قوانین ہیں۔’

انہوں نے ان قوانین پر پابندی کا مطالبہ کیا، جو عدالتوں کی جانب سے ملزمان اور ان کے تحت گرفتار کیے گئے افراد کو ضمانت اور ریلیف دینے کے معاملے میں مزید سخت ہوتے جا رہے ہیں۔

عدالت نے ان قوانین پر عملدرآمد روکنے کے سوال پر غور کرنےکے لیے کیس کی سماعت چھ ہفتے بعد مقرر کی ہے۔

سنگھ نے دلیل دی کہ ان قوانین میں حالیہ ترامیم نے تیسرے فریق کو بین مذہبی شادی کرنے والے جوڑوں کے خلاف مجرمانہ شکایات درج کرنے کا اختیار دیا ہے۔ ان قوانین کے تحت سزا میں کم از کم 20 سال یا زیادہ سے زیادہ عمر قید  شامل ہے۔ ضمانت کی شرائط سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت جیسی ہیں۔ سینئر وکیل نے دلیل دی کہ ثبوت کا بوجھ مذہب تبدیل کرنے والے شخص پر ہوتا ہے کہ انہیں مذہب تبدیل کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا گیا یا کوئی ‘لالچ ‘ نہیں دی گئی۔

سنگھ نے کہا،’جو کوئی بھی بین مذہبی شادی کرتا ہے، اس کے لیے ضمانت حاصل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ آئینی چیلنجز ہیں… نہ صرف شادیاں، بلکہ چرچ کی کوئی بھی تقریب یا تہوار بھیڑ کو اپنی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔’

ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے کہا کہ اس کیس کی تین سال بعد سماعت ہو رہی ہے، ‘اور اچانک وہ (درخواست گزار) التوا مانگ رہے ہیں؟’

سال 2023میں اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے لا کمیشن آف انڈیا کو یہ سوال بھیجنے سے انکار کر دیا  تھاکہ کیا ‘جبری تبدیلی مذہب’ کو تعزیرات ہند کے تحت مذہب سے متعلق ایک الگ جرم بنایا جانا چاہیے۔

حکومت نے این جی او، سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس، جس کی نمائندگی سنگھ کی ہے، کے ان قوانین کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے حق کی بھی مخالفت کی تھی۔

تاہم، سنگھ نے استدلال کیا تھاکہ یہ قوانین کسی شخص کے اپنے مذہب اور شریک حیات کے انتخاب کے حق میں بلاجواز مداخلت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر قانون کا استعمال دوسرے فریق نے اپنے لیے مزید ‘زہریلے’ قوانین بنانے کے لیے ‘بنیادی ڈھانچے’ کے طور پر کیا ہے۔

درخواستوں میں استدلال کیا گیا تھا کہ ان قوانین کا آئین کے آرٹیکل 25 میں درج کسی کے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کے حق پر ‘نقصان دہ اثر’ پڑے گا۔