
سیکورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے مرکزی حکومت نے نومبر میں گرو نانک دیو کے جنم دن کے موقع پر سکھ جتھے کو پاکستان جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس فیصلے کو پنجاب کی سیاسی اور مذہبی تنظیموں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ چیف منسٹر بھگونت مان نے کہا کہ حکومت سکھ زائرین کو روکتے ہوئے ہندوستان-پاکستان کرکٹ میچ کی اجازت دے کر ‘دوہرا معیار’ اپنا رہی ہے ۔

سکھ یاتری اٹاری واہگہ بارڈر سے کرتار پور میں گوردوارہ دربار صاحب کے لیے روانہ ہوتے ہوئے۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سیکورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے مرکزی حکومت نے نومبر میں گرو نانک دیو کے پرکاش پرو کے موقع پر سکھ جتھے کو پاکستان جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے ۔
نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ، 12 ستمبر کو پنجاب، ہریانہ اور دہلی کے چیف سیکریٹریز کو بھیجے گئے ایک خط میں سکھ تنظیموں کو مطلع کرنے اور زائرین کی درخواستوں پر کارروائی روکنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
خط میں کہا گیا ہے،’پاکستان کے ساتھ موجودہ سکیورٹی صورتحال کو دیکھتے ہوئے نومبر 2025 میں سری گرو نانک دیو جی کے گروپرو کے لیے سکھ زائرین کے جتھے کو پاکستان بھیجنا ممکن نہیں ہوگا۔ ہماری اپیل ہے کہ آپ کی ریاست میں سکھ تنظیموں کو مطلع کیا جائے اور جتھے کی درخواستوں پر کارروائی فوری طور پر روک دی جائے۔’
اس فیصلے کو پنجاب کی سیاسی اور مذہبی تنظیموں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
وزیر اعلی بھگونت مان نے کہا کہ مرکزی حکومت سکھ زائرین کو اجازت نہ دے کر اور ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچوں کی اجازت دے کر ‘دوہرا معیار’ اپنا رہی ہے۔
مان نے کہا،’اگر آپ ایشیا کپ کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کی اجازت دے سکتے ہیں، تو پاکستان میں مذہبی مقامات کے تئیں پنجابیوں کی عقیدت کو کیوں نظر انداز کیا جانا چاہیے؟ یا تو پاکستان کے ساتھ ہرطرح کے تعلقات کی اجازت دیجیے یا کسی بھی طرح اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ آپ پاکستان کے ساتھ کرکٹ تعلقات رکھ سکتے ہیں – کیونکہ آئی سی سی کی سربراہی ‘بڑے صاحب کے لاڈلے’ کر تےہیں – اور ساتھ ہی، سکھوں سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپریشن سیندور کے بعد بگڑتے دوطرفہ تعلقات کی وجہ سے وہ پاکستان نہیں جا سکتے۔’
مان نے یہ سوال بھی کیا کہ واہگہ کے راستے تجارت کیوں بند ہے اور سکھ زائرین پاکستان کیوں نہیں جا سکتے جبکہ گجرات اور ممبئی سے کراچی تک تجارت کی اجازت ہے۔
انہوں نے مزید کہا،’کیا یہ بی جے پی کی پنجاب مخالف اور پنجابی مخالف ذہنیت کی عکاسی نہیں کرتا؟ شاید وہ پنجابیوں سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ پنجابی کسانوں نے انہیں تین زرعی قوانین واپس لینے پر مجبور کیا تھا۔’
اسی طرح شرومنی اکالی دل کے صدر سکھبیر سنگھ بادل نے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ سکھ زائرین پاکستان میں مذہبی مقامات پر سجدہ کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔
کانگریس ایم ایل اے پرگٹ سنگھ نے کہا کہ ایک طرف پاکستان کے ساتھ کرکٹ کی اجازت دینا اور دوسری طرف یاتریوں کے جتھوں کو اجازت نہ دینا ‘ترجیحات میں سنگین عدم مطابقت کو ظاہر کرتا ہے۔’
شرومنی گردوارہ پربندھک کمیٹی (ایس جی پی سی) نے بھی اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ ایس جی پی سی کے صدر ہرجیندر سنگھ دھامی نے کہا کہ سکھ زائرین کئی دہائیوں سے بغیر کسی رکاوٹ کے پاکستان میں مذہبی مقامات کی زیارت کر رہے ہیں اور یہ پہلی بار ہے کہ اس طرح کی پابندی لگائی گئی ہے۔
اس سال کے شروع میں ایس جی پی سی نے پاسپورٹ جمع کیے اور نومبر کی یاترا کے لیے ویزا کے لیے درخواست دی۔ یہ گروپ جون میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی کے لیے زائرین کو بھیجنے میں بھی ناکام رہا۔
غور طلب ہے کہ حکومت کا یہ فیصلہ اپریل میں پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد آیا ہے، جس میں 26 لوگ مارے گئے تھے۔ اس حملے کے بعد ہندوستان نے اپنے شہریوں کے اٹاری واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان جانے پر پابندی لگا دی ۔
اس کے جواب میں پاکستان نے سکھ زائرین کو چھوڑ کر ہندوستانیوں کے لیے سارک ویزا ویور اسکیم کے تحت جاری کیے گئے زیادہ تر ویزوں کو معطل کردیا۔