
قبائلی امور کی وزارت نے تمام ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکولوں کو طلبہ کے درمیان ‘ہندی زبان کے لیے دلچسپی’ پیدا کرنے کی ہدایت دی ہے ۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ہندی پڑھانے کی ذمہ داری تمام اساتذہ کی ہوگی۔

چھٹے سے آٹھویں جماعت کے قبائلی بچوں میں ‘ہندی کے لیے دلچسپی پیدا کرنے ‘ کے لیے جاری اس نوٹس میں ہر ایکلویہ اسکول میں’ ہندی لنگویج روم ‘ کے قیام کے لیے کہا گیا ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکلویہ اسکول/منی پور)
نئی دہلی: نیشنل ایجوکیشن سوسائٹی فار ٹرائبل اسٹوڈنٹس (این ای ایس ٹی ایس)، جو مرکزی حکومت کا ادارہ ہے، نے تمام ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکولوں کے پرنسپل کو ہدایت دی ہے کہ وہ قبائلی طلبہ کے درمیان’ہندی زبان کے لیے دلچسپی پیدا کرنے’ کے لیے بڑے پیمانے پر مہم کی شروعات کرے۔
گزشتہ 20 اگست کو جاری ہونے والے اس نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ‘کسی زبان کو پڑھانا صرف زبان کے استاد کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ اسکول کے دیگر اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے۔’ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاضی، سائنس اور سماجی علوم کے اساتذہ کو بھی ہندی اساتذہ کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہندوستانی تعلیم کی تاریخ میں یہ ایک غیرمعمولی قدم ہے۔ یہ شاید پہلا موقع ہے جب دوسرے مضامین کے اساتذہ کو ہندی پڑھانے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
یہ ادارہ قبائلی امور کی وزارت کے تحت آتا ہے۔ یہ نوٹس کئی ہدایات پر مشتمل ہے جو اس بارے میں خدشات کو جنم دیتے ہیں کہ کیا قبائلی برادریوں کی لسانی اور ثقافتی شناخت کو مسترد کرتے ہوئے ان پر ہندی کی ‘بالادستی’تھو پنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جب دی وائر نےاین ای ایس ٹی ایس سے پوچھا کہ کیا اس نے نوٹس جاری کرنے سے پہلے قبائلی برادریوں، اساتذہ یا زبان کے ماہرین سے مشورہ کیا تھا، تو اس نے جواب دیا، ‘یہ ایک جاری عمل ہے۔ یہ سب کے ساتھ مسلسل بات چیت پر مبنی ہے۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ہمارے پاس کوئی مطالعہ یا ڈیٹا دستیاب ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ طلبہ کو ہندی سیکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، تو ان کا جواب تھا، ‘ہندی مضمون کے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد اس کی ضرورت محسوس کی گئی۔’
یہ واضح نہیں ہے کہ این ای ایس ٹی ایس نے کن ماہرین سے مشورہ کیا یا اس نے کون سی اسٹڈی کروائی۔
ہندی کمرہ: ثقافتی بالادستی کی علامت؟
ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکول 1997-98 میں قائم کیے گئے تھے تاکہ قبائلی طلبہ کو ان کے اپنے ماحول میں معیاری، جامع تعلیم تک رسائی فراہم کی جاسکے۔ ان اسکولوں کا بنیادی اصول قبائلی بچوں کو ان کی ثقافتی اور لسانی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے جدید تعلیم فراہم کرنا تھا۔
قبائلی امور کی وزارت کے مطابق، اب تک ملک بھر میں کل 722 اسکولوں کو منظوری دی گئی ہے، جن میں سے اس وقت 485 اسکول چل رہے ہیں۔
لوک سبھا میں 6 فروری 2025 کو قبائلی امور کے وزیر مملکت درگاداس کے ایک بیان کے مطابق ، 722 اسکولوں کو منظوری دی جا چکی تھی، جن میں سے 476 چل رہے تھے۔ ان کے مطابق، کل 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سے تب تک 28 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ایکلویہ اسکولوں کو منظوری دی جا چکی تھی۔ لداخ اور میگھالیہ کو چھوڑ کر باقی 26 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں اسکول چل رہے تھے۔
اس میں غیر ہندی بولنے والی ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے بھی شامل ہیں – دادر اور ناگر حویلی اور دمن اور دیو (1)، آسام (1)، اروناچل پردیش (5)، ناگالینڈ (3)، میزورم (11)، منی پور (3)، کرناٹک (12) اور کیرالہ (4)۔
چھٹے سے آٹھویں جماعت کے قبائلی بچوں میں ‘ہندی کے لیے دلچسپی پیدا کرنے’ کے لیے جاری اس نوٹس میں ہر ایکلویہ اسکول میں ایک مخصوص ‘ہندی لنگویج روم’ کے قیام کے لیے کہا گیا ہے۔ اس کمرے میں ایک بڑے بلیک بورڈ اور دیواروں پر ہندی کے مشہور ادیبوں کے پورٹریٹ، ادبی حوالوں والی تصاویر، چارٹ اور خاکوں سے مزین کرنے کو بھی کہا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ہندی کلاس روم میں ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر اور ٹیلی ویژن کا انتظام کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ہندی میں شاعری، مباحثہ، مضمون نویسی اور خوش نویسی کے مقابلے منعقد کرنے کی بھی ہدایت ہے۔
زبان کے ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ ان قبائلی طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک ہے جو ہندی نہیں جانتے اور اس سے بچوں میں احساس کمتری پیدا ہو سکتا ہے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
لیکن این ای ایس ٹی ایس نے دی وائر کو بتایا کہ وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ قبائلی طلبہ میں عدم تحفظ یا احساس کمتری پیدا نہ ہو۔
این ای ایس ٹی ایس کے مطابق،’اس کا بنیادی مقصد ہندی تعلیم کو مؤثر بنانا ہے۔ جہاں جہاں ہندی پڑھائی جاتی ہے، وہاں جدید تدریسی طریقوں کو لاگو کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔’
جب ہم نے این ای ایس ٹی ایس سے پوچھا، ‘کیا یہ نوٹس ان اسکولوں کے طلبہ کے لیے امتیازی نہیں ہوگا جہاں ہندی مادری زبان نہیں ہے؟’ جواب ملا کہ یہ نوٹس صرف ان اسکولوں کے لیے ہے جہاں ہندی پڑھائی جاتی ہے۔
لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔ تمام اسکولوں کو نوٹس بھیج دیے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ تمام اسکولوں کو اس پر عملدرآمد کرنا ہے۔

نیشنل ایجوکیشن سوسائٹی فار ٹرائبل اسٹوڈنٹس کی طرف سے جاری کردہ نوٹس۔
سماجی انصاف کے بجائے تعلیمی ناانصافی؟
ایک طرف مرکزی حکومت قبائلی برادریوں کی ثقافت کو محفوظ رکھنے کا وعدہ کر رہی ہے، لیکن دوسری طرف لداخ سے لے کر وسطی ہندوستان تک ان کے مفادات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں قبائلی آبادی10 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ ہے۔ وہ 700 سے زیادہ مختلف قبائل پر مشتمل ہیں، ہر ایک کی اپنی الگ ثقافت اور زبان ہے۔ ان میں سے صرف دو قبائلی زبانیں (بوڈو اور سنتھالی) آئین کے آٹھویں شیڈول میں شامل ہیں ۔
تحقیق بتاتی ہے کہ ہندوستان میں تقریباً 25فیصد بچے غیر مانوس زبان میں ہدایات دینے کی وجہ سے بتدریج شدید تعلیمی نقصانات کا شکار ہیں۔ مادری زبان پر مبنی تعلیم نہ صرف تعلیمی وجوہات کی بناء پر بلکہ نفسیاتی نشوونما کے لیے بھی ضروری ہے، خاص طور پر قبائلی بچوں کے لیے جنہیں اکثر مرکزی بیانیے میں ‘پسماندہ’ کہا جاتا ہے۔
ہندی کولازم بنانےسے اساتذہ کی بھرتی متاثر
مسئلہ صرف اس نوٹس تک محدود نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے حالیہ برسوں میں کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جو قبائلی طلبہ پر ہندی مسلط کرنے کی سعی معلوم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، 2023 کے بجٹ میں اعلان کے بعد ایکلویہ اسکولوں کے لیے اساتذہ کی بھرتی کی ذمہ داری این ای ایس ٹی ایس کو سونپ دی گئی ۔ اس طرح ایکلویہ اسکولوں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی بھرتی کو سینٹرلائز کر دیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی بھرتی کے عمل میں ہندی کے علم کو لازمی قرار دیا گیا ۔ اس حکومتی فیصلے سے کھلبلی مچ گئی۔
کئی ریاستوں اور لیڈروں نے ہندی تھوپے جانے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ڈی ایم کے لیڈر تروچی شیوا نے راجیہ سبھا میں سوال کیا کہ ریاستی زبان کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے بھرتی ہونے والے عملے طلبہ سے بات چیت کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ اس زبان کو نہیں جانتے جو وہ بولتے ہیں۔
آخر کار، حکومت کو ہندی کی مہارت سے متعلق اصولوں میں تھوڑی رعایت دینی پڑی ۔ تاہم، اس کے بعد ہندی کی شرط ختم نہیں ہوئی، کیونکہ وزارت نے فیصلہ کیا ہے کہ ابتدائی تحریری امتحان میں تربیت یافتہ گریجویٹ ٹیچر(ٹی جی ٹی) امیدواروں کا جائزہ زبان کی مہارت کے حصے میں تین زبانوں (انگریزی، ہندی، اور امیدوار کی پسند کی علاقائی زبان) میں ان کی مشترکہ کارکردگی کی بنیاد پر لیا جائے گا۔ اس حصے میں کل 30 نمبر ہوں گے، اور یہ صرف کوالیفائنگ مقاصد کے لیے ہے۔ امیدواروں کو تینوں زبانوں میں ملا کر کم از کم 12 نمبر حاصل کرنے ہوں گے۔
پرانے اصول کے مطابق، ٹی جی ٹی امیدواروں کو ہندی میں کم از کم اسکور حاصل کرنے کی ضرورت تھی، خواہ انہوں نے کسی علاقائی زبان کو منتخب کیا ہو۔ اس کے علاوہ، ہندی میں مہارت کی شرط پوسٹ گریجویٹ اساتذہ (پی جی ٹی) کے لیے ابھی بھی بنی ہوئی ہے۔ یہ اساتذہ عام طور پر 9 سے 12 تک کے طلبہ کو پڑھاتے ہیں۔

(تصویر بہ شکریہ: ایکلویہ اسکول/منی پور)
اس کے علاوہ ہندی بولنے والی ریاستوں کے اساتذہ کو جنوبی اور شمال مشرقی ریاستوں میں بھیجا گیا ہے ، جو نہ تو مقامی زبان جانتے ہیں اور نہ ہی قبائلی ثقافت کو سمجھتے ہیں۔
سال 2024 میں تلنگانہ کے ایکلویہ اسکول کے طلبہ نے شکایت کی تھی کہ ان کے انگریزی ٹیچر ہندی میں پڑھاتے ہیں ۔ فزکس کے استاد انگریزی بولنے میں دشواری کی وجہ سے ہندی میں پڑھاتے ہیں جسے طلبہ سمجھ نہیں پاتے۔ کیمسٹری کی ٹیچر صرف ہندی بولتی ہیں اور طلبہ کی درخواست کے باوجود انگریزی میں نہیں پڑھاتی ہیں ۔
سی پی آئی (ایم) کی رہنما برندا کرات نے قبائلی امور کے وزیر جوآل اورام کو خط لکھ کر مرکزی بھرتی کے عمل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، یہ مطالبہ پورا نہیں کیا گیا، اور این ای ایس ٹی ایس ایکلویہ اسکولوں کے لیے پھر سے بھرتی نکلی ہے ۔
مادری زبان پر مبنی تعلیم: ایک سائنسی ضرورت
لسانیات اور تعلیمی نفسیات کے مطابق ابتدائی سالوں میں مادری زبان میں تعلیم بچوں کی علمی نشوونما کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 2020 مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم کی بھی وکالت کرتی ہے۔ تاہم عملی طور پر اس کے برعکس ہندی کو مسلط کیا جا رہا ہے۔
آندھرا پردیش میں 2003 سے چل رہا مادری زبان پر مبنی کثیر لسانی تعلیم (ایم ٹی بی -ایم ایل ای) پروگرام، قبائلی زبانوں میں تعلیم کی کامیابی کو ظاہر کرتا ہے ۔ اڑیسہ میں بھی اسی طرح کے پروگراموں نے قبائلی بچوں کے اسکولوں میں اعتماد کو بڑھایا ہے۔
پسماندہ بچوں کی تعلیم کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم مسکان کے ساتھ وابستہ ماہر تعلیم شیوانی کہتی ہیں،’یہ ہمیں یک سنگی شناخت کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے۔ زبان کا گہرا تعلق شناخت سے ہے، اور این ای ایس ٹی ایس کی جانب سے قبائلی بچوں پر ہندی مسلط کرنے کی کوشش ظاہر کرتی ہے کہ قبائلی شناخت پر اب تعلیم کے میدان میں بھی حملہ کیا جا رہا ہے۔’