کیا اے ایم یو کے طلبا نے’ہندوؤں کی قبر کھدے گی، اے ایم یو کی چھاتی پر‘ جیسے نعرے لگائے؟

فیکٹ چیک: سوشل میڈیا میں بھگوا ٹوئٹرہینڈلوں اور پروفائلوں سے ایک ویڈیو عام کیا گیا جس میں کچھ طلبا شہریت ترمیم بل کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔آلٹ نیوزکے مطابقیہ دعوے جھوٹے ہیں اور ان کا مقصد صرف فرقہ وارانہ تشدد کو ہوادینا ہے۔

فیکٹ چیک:  سوشل میڈیا میں بھگوا ٹوئٹرہینڈلوں اور پروفائلوں سے ایک ویڈیو عام کیا گیا جس میں کچھ طلبا شہریت ترمیم بل کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔آلٹ نیوزکے مطابق یہ دعوے جھوٹے ہیں اور ان کا مقصد صرف فرقہ وارانہ تشدد کو ہوادینا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (فوٹو : پی ٹی آئی)

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (فوٹو : پی ٹی آئی)

شہریت ترمیم  قانون کی مخالفت میں ملک بھر میں احتجاج ہو رہے ہیں۔ عوام سڑکوں پر ہیں۔ 16 دسمبر کی دوپہر تک ملک کی تقریباً 20 یونیورسٹیوں میں طلبانے حکومت کے اس آئین مخالف قانون اور جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کی بربریت کے خلاف مورچہ کھول دیا تھا۔ اپوزیشن نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلباپر ہوئے مظالم کی جوڈیشیل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔ کانگریسی رہنما راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی طلباکے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے دہلی میں انڈیا گیٹ پر مظاہرہ کیا۔اُدھر مغربی بنگال میں وزیر اعظم ممتا بنرجی بھی اس قانون کے خلاف سڑکوں پر گشت کرتی ہوئی نظر آئی ہیں۔

the wire

15دسمبرکی شام دہلی کی سڑکوں،جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےکیمپس میں جوکچھ ہواوہ بےحدافسوسناک تھا جو ہندوستان کے جمہوری ڈھانچےپرایک بدنماداغ ہے۔دہلی اوراتر پردیش کی پولیس نے یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر وہاں کی لائبریری اور ہاسٹل میں اپنی بربریت کا مظاہرہ کیا۔ لیکن اس سے پہلے ہی 12 دسمبر کو سوشل میڈیا پر علی گڑھ کے طلبا کے خلاف ایک پروپیگنڈہ  چلایا گیا۔ سوشل میڈیا میں بھگوا ٹوئٹرہینڈلوں اور پروفائلوں سے ایک ویڈیو عام کیا گیا جس میں کچھ طلبا شہریت ترمیم بل کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کے تحت دعویٰ کیا گیا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس طرح کے نعرے سننے کو مل رہے ہیں جن میں کہا جا رہا ہے؛

ہندوؤں کی قبر کھدےگی، اے ایم یو کی چھاتی پر

 سوشل میڈیا میں یہ ویڈیو بی جے پی کے حامیوں نے پروپیگنڈے کے تحت عام کیا۔ ان میں اتر پردیش بی جے پی کے ترجمان شلبھ منی ترپاٹھی، رمیش سولنکی، تجندر پال سنگھ بگا، اور امت مالویہ جیسے لوگ شامل تھے۔آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ سوشل میڈیا پر کئے گئے دعوے جھوٹے ہیں اور ان کا مقصد صرف فرقہ وارانہ تشدد کو ہوادینا ہے۔ پیر زادہ محبوب الحق نامی ایک ٹوئٹر ہینڈل سے اوریجنل ویڈیو کو ٹوئٹ کیا گیا تھا۔

پروپیگنڈے کے لیے  استعمال کی گئی ویڈیو کو زوم کر دیا گیا تھا اور اس کی آواز کو خراب کر دیا گیا تھا جس میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ طلبا واقعی ہندو مخالف نعرے لگا رہے تھے۔ آلٹ نے اصل ویڈیو کی بنیاد پر واضح کیا کہ دراصل طلبا کے نعرے کچھ اس طرح تھے:

ہندتوا کی قبر کھدےگی، اے ایم یو کی چھاتی پر

ساورکر کی قبر کھدےگی، اے ایم یو کی چھاتی پر

برہمن واد کی قبر کھدےگی، اے ایم یو کی چھاتی پر

جاتی واد کی قبر کھدےگی، اے ایم یو کی چھاتی پر

اس طرح واضح ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایسا کوئی بھی نعرہ نہیں لگایا گیا جس میں ہندومذہب یا ہندوعقیدت مندوں کونشانہ بنایاگیاہو۔غورطلب ہےکہ ‘ہندومذہب’ اور ‘ہندتوا’ دو مختلف حقیقت ہیں۔ ہندو مذہب عقیدے کے طور پر ہزاروں سال پرانی تہذیب ہے جبکہ ہندتوامسخ شدہ  ایک سیاسی تصور ہے جس کو اس کے بانی ویر ساورکر نے خود ہی ہندو مذہب سے مختلف بتایا تھا۔ ہندتوا ہندوستان میں ‘ہندو راشٹر’ کو قائم کرنے پر زور دیتا ہے جو آزاد ہندوستان کی آئین کے خلاف ہے۔ لہٰذا آئین ہند کے اعتبار سے ہندتوا کی مذمت کرنا دراصل آئین کے تحفظ کے برابر ہے۔

misinformation

شہریت ترمیم قانون کو مکمل کامیابی کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے بی جے پی اور اس کی معاون تنظیمیں ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ ایک طرف تو ان لوگوں کے خلاف پروپیگنڈہ چلایا جا رہا ہے جو اس بل کو آئین مخالف مانتے ہیں اور ملک کی سیکولر تہذیب کے لیے اس  کو ایک بڑا خطرہ تسلیم کرتےہیں۔ دوسری طرف بھگوا تنظیموں کی آئی ٹی سیل اس طرح  بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے کہ کس طرح اس کالےقانون کے مخالفین کو کسی پروپیگنڈے کی مدد سے سمجھایا لیا جائے۔ اسی غرض سے کچھ ٹوئٹر ہینڈل نے ایک پروپیگنڈہ شروع کیا جس میں انہوں نے شہریت ترمیم قانون کی تائید میں ٹوئٹ کیے اور تمام ٹوئٹر ہینڈل سے یکساں عبارت کو ٹوئٹ کیا گیا؛

میں مسلم ہوں، اور میں شہریت ترمیم بل کو سپورٹ  کرتا/کرتی  ہوں۔ ملک بھر میں میرے مسلم برادران کے ذریعے اس بل کے خلاف کیے  جانے والے مظاہروں کی میں سخت مذمت کرتا/کرتی ہوں۔  یا تو وہ اس بل کو سمجھتے نہیں ہیں ۔ ان کو گمراہ کیا گیا ہے یا پھر وہ سیاسی مفاد کے لئے دانستہ طور پر حکومت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ لیکن مجھے اس بل پر بہت فخر ہے۔ جئے ہند۔

یہ ٹوئٹ مختلف ٹوئٹر ہینڈل سے عام کیا گیا اور تمام ہینڈل کے مسلم نام تھے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس پائی گئی۔ یہ تمام مسلم نام والے ہینڈل دراصل بی جے پی کی آئی ٹی کے ٹرولز کے تھے جن کی اصل شناخت آلٹ نیوز نے غیر مسلم کے طور پر کی۔

fake

نازیہ نامی ٹویٹر ہینڈل نے اسی سال مارچ کے مہینے میں ایک ٹوئٹ کےجواب  میں لکھا تھا کہ وہ ہندو ہے۔ وقتاًفوقتاً یہ شخص کبھی آرتی پال میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔

امیشا نامی ہینڈل نے اپنا نام فارسی رسم الخط میں ہی لکھا ہے۔ اسی سال اگست ماہ میں اس نے بھی ایک جواب  میں تسلیم کیا تھا کہ وہ ہندو ہے۔

نیچے سے ٹاپر‘ نامی ہینڈل نے اسی سال اپریل ماہ میں ایک تصویر ری ٹوئٹ کیا تھا اور لکھا تھا کہ وہ ہندو ہے۔

باشا بھائی نامی ہینڈل نے اسی سال اپریل میں ایک ٹوئٹ میں تسلیم کیا تھا کہ وہ ہندو ہے۔

اس طرح بھگوا تنظیموں کے آئی سیل کا فراڈ اس تکنیکی دور میں زیادہ ٹک نہیں پاتا ہے اور حقیقت سامنے آہی جاتی ہے۔

سوشل میڈیا میں کچھ تصویریں عام کی گئیں جن کے تعلق سے دعویٰ کیا گیا کہ تصویریں ان لوگوں کی ہیں جو مودی حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور وہ ہندوستان سے ہندوؤں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ونیتا ہندوستانی نامی ہینڈل سے ان تصویروں کو عام کیا گیا تھا، لیکن بعد میں ڈیلیٹ کر دیا گیا۔

پہلی تصویر میں دکھایا گیا تھا کہ ایک ٹرین کی بوگیوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ یہ غالباً اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ مودی مخالف لوگوں نےاحتجاج کے دوران ٹرین میں آگ لگا دی۔ دراصل یہ تصویر ایک سال پرانی ہے جب دہلی سے آندھرا پردیش جانے والی ٹرین کی دو بوگیوں میں آگ لگ گئی تھی۔ اس خبر کو امر اجالا نے گزشتہ سال شائع کیا تھا۔

fake

آلٹ نیوز ویب سائٹ دوسری تصویر کا سراغ نہیں لگا پائی لیکن اس بات کو مکمل طور پر واضح کر دیا کہ اس تصویر کا موجودہ احتجاج سے کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ یہ تصویر گزشتہ سال بھی شئیر کی گئی تھی۔

زخمی  خاتون کی تیسری تصویر گزشتہ سال اپریل کی ہے۔ یہ تصویر اس وقت منظر عام پر آئی تھی جب ایس سی / ایس ٹی ایکٹ کے خلاف مظاہرہ جاری تھا۔

چوتھی تصویر میں مسلمانوں کی ایک تعداد سڑک پر موجود ہے جو مظاہرہ کر رہی ہے۔ تصویر کو غور سے دیکھنے پر ایک پلے کارڈ پر شہریت ترمیم بل کا مخفف CAB لکھا ہوا نظر آتا ہے، جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ موجودہ قانون سے متعلق ہے۔حالانکہ اس تصویر کی اصلیت معلوم نہیں ہو پائی ہے۔