اخلاق لنچنگ: خاندان نے الہ آباد ہائی کورٹ سے پوچھا – کیا لاٹھی سے پیٹ-پیٹ کر قتل کرنا کم سنگین جرم ہے؟

جمعرات کو ایک فاسٹ ٹریک عدالت نے دادری لنچنگ کیس میں اخلاق کے خاندان کی جانب سے دائر اعتراض کو قبول کر لیا، جس میں اتر پردیش حکومت کے الزامات واپس لینےکے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ خاندان نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی کو لاٹھیوں سے پیٹ پیٹ کرقتل کرنا کم سنگین جرم ماناجا سکتا ہے اور اس دعوے کو چیلنج کیا کہ مقدمہ واپس لینے سے ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا۔

جمعرات کو ایک فاسٹ ٹریک عدالت نے دادری لنچنگ کیس میں اخلاق کے خاندان کی جانب سے دائر اعتراض کو قبول کر لیا، جس میں اتر پردیش حکومت کے الزامات واپس لینےکے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ خاندان نے سوال اٹھایا کہ کیا کسی کو لاٹھیوں سے پیٹ پیٹ کرقتل کرنا کم سنگین جرم ماناجا سکتا ہے اور اس دعوے کو چیلنج کیا کہ مقدمہ واپس لینے سے ہم آہنگی میں اضافہ ہوگا۔

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: دادری کے محمد اخلاق لنچنگ کیس میں ایک فاسٹ ٹریک عدالت نے جمعرات (18 دسمبر) کو اخلاق کے خاندان کی جانب سے دائر اعتراض کو قبول کر لیا، جس میں لنچنگ کی شکایت واپس لینے کے اتر پردیش حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج سوربھ دویدی کی سربراہی والی عدالت نے اگلی سماعت کی تاریخ 23 دسمبر مقرر کی ہے۔

اخلاق کے خاندان نےسپریم کورٹ کے سینئر وکیل عندلیب نقوی اور یوسف سیفی توسط سےحکومت کی جانب سے شکایت واپس لینے کی درخواست کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں ایک الگ اپیل  دائر کی ہے۔

بدھ کو وکیل عمر ضامن کے توسط سے دائر کی گئی ان کی درخواست میں اعلیٰ سرکاری افسران اور تمام 14 ملزمان سمیت  21 مدعا علیہان کو نامزد کیا گیا ہے ۔

بتا دیں کہ گوتم بدھ نگر کے دادری علاقے کے بساہڑا گاؤں کے رہنے والے 52 سالہ محمد اخلاق کو 28 ستمبر 2015 کوبھیڑ نے مبینہ طور پر اس شبہ میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے۔ اس حملے میں اخلاق کے بیٹے دانش بھی زخمی ہوگئے تھے۔

اس لنچنگ نے مودی حکومت میں ہجومی تشدد کے متعدد واقعات کی بنیاد ڈالی۔ پولیس کی ابتدائی تحقیقات میں قتل سمیت تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت 10 ملزمان اور کئی نامعلوم افراد کے نام سامنے آئے ۔

دسمبر 2015 میں چارج شیٹ دائر کی گئی تھی، لیکن بار بار ملتوی ہونے، کووڈ اور انتظامی تبادلوں کی وجہ سے مقدمے کی سماعت فروری 2021 میں ہی شروع ہو پائی۔ بعد میں اس معاملے میں ملزمان کی تعداد بڑھ کر18 ہو گئی، جن میں تین نابالغ بھی شامل تھے۔ ان میں سے دو کی موت ہو چکی ہے جبکہ باقی ضمانت پر باہر ہیں۔

خاندان کا احتجاج

گزشتہ ماہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ایڈوکیٹ بھاگ سنگھ بھاٹی کی طرف سے دائر کی گئی ایک  درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کیس کو ختم کرنے سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوبحال کرنے میں مدد ملے گی۔ درخواست میں یہ بھی بتایا گیا  تھاکہ اب تک صرف ایک اہم گواہ کا بیان درج  کیا گیا ہے۔ اخلاق کے خاندان نے ان باتوں کی شدیدمخالفت کی ہے۔

ان کی درخواست میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا کسی شخص کو لاٹھیوں سے پیٹ -پیٹ کر قتل کرنا کم سنگین جرم سمجھا جا سکتا ہے اور اس دعوے کو چیلنج کیا گیا کہ مقدمہ واپس لینے سے ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔

اخلاق کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے وکیل سیفی نے کہا،’ایف آئی آر درج ہونے کے بعد چارج شیٹ دائر کی جاتی ہے اور الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ استغاثہ پہلے ہی اپنے شواہد پیش کر چکا ہے اور اخلاق کی بیٹی شائستہ کا بیان ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ دو اہم گواہ – اخلاق کا بیٹا دانش اور اس کی بیوی کو ابھی گواہی دینا ہے۔’

ہائی کورٹ میں اپنی درخواست میں وکیل سید عمر ضامن نے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے اس بیان کا حوالہ دیا کہ ‘کہیں بھی ناانصافی ہر جگہ انصاف کے لیے خطرہ ہے۔’

ضامن نے دلیل دی کہ سیاسی دباؤ کے تحت مقدمات کو واپس لینے کی اجازت دینا ایک خطرناک مثال قائم کر سکتا ہے اور ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔

عرضی میں ہائی کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایگزیکٹو پاور کا کوئی بھی صوابدیدی استعمال آئین ہند کے مطابق ہو اور سیاسی ایجنڈوں کے لیے اس کا غلط استعمال نہ ہو۔

ہائی کورٹ 5 جنوری کو موسم سرما کی چھٹی کے بعد دوبارہ کھلے گی۔ کچھ ملزمان کے وکیل ہری راج سنگھ نے کہا کہ وہ اگلی سماعت تک خاندان کے اعتراضات کا مفصل جواب داخل کریں گے۔