اتر پردیش میں بے دخلی کا سامنا کر رہے آسام کےمزدوروں میں دہشت

گزشتہ 22نومبر کو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تمام ضلع حکام کو مبینہ 'دراندازوں' کی نشاندہی کرنے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ اب لکھنؤ میونسپل کارپوریشن نے ایک کریک ڈاؤن شروع کیا ہے، جس میں سب سے پہلےآسام سے آنے والے اور چھوٹے موٹے کام کر کے روزی کمانے والے 50 سے زیادہ خاندان  نشانےپر آ گئے ہیں۔

گزشتہ 22نومبر کو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تمام ضلع حکام کو مبینہ ‘دراندازوں’ کی نشاندہی کرنے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ اب لکھنؤ میونسپل کارپوریشن نے ایک کریک ڈاؤن شروع کیا ہے، جس میں سب سے پہلےآسام سے آنے والے اور چھوٹے موٹے کام کر کے روزی کمانے والے 50 سے زیادہ خاندان  نشانےپر آ گئے ہیں۔

فائل فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: 22 نومبر کو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تمام ضلع مجسٹریٹ کو مبینہ غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کرنے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ہر ضلع میں شناخت کیے گئےگھس پیٹھیوں کو رکھنے کے لیے عارضی حراستی مراکز قائم کرنے کی بھی ہدایت دی گئی تھی۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق ، 38 سالہ امتیاز علی کے لیے، جو پھول باغ بہادر پور کی ایک جھگی بستی میں رہتے ہیں، 4 دسمبر اور دنوں کی طرح  ہی شروع ہوا۔ لیکن سب کچھ اس وقت بدل گیا جب لکھنؤ میونسپل کارپوریشن کی ایک ٹیم میئر سشما کھرکھوال کی قیادت میں وہاں پہنچی اور بنگلہ دیشی اور روہنگیا بتا کر غیر قانونی طور پر رہ رہے لوگوں کی شناخت کے لیے دستاویزوں کی جانچ کرنےلگی۔

کھرکھوال نے دعویٰ کیا کہ گدمبہ پولیس اسٹیشن کے حلقہ میں آنے والے اس علاقے کے متعدد رہائشی، جو درست دستاویزات پیش کرنے میں ناکام رہے اور انہیں بے دخل کرنے کی بات کہی۔ میونسپل حکام کی جانب سے اس تحقیقات کے مبینہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئے۔

اخبار کے مطابق، آسام کے بارپیٹا کے رہنے والے علی نے کہا،’میں اس دن کو کبھی نہیں بھولوں گا۔ میرےگھر والے رو رہے تھے کیونکہ اہلکار ہماری بات سننے کو تیار نہیں تھے۔ انہوں نے میرا ٹھیلہ گاڑی چھین لیا اور ہم سے کہا کہ 15 دنوں کے اندر جھگی خالی کر دو۔ انہیں پہلے ہمارے کاغذات چیک کرنے چاہیے تھے، لیکن وہ سیدھے ہمارے گھروں میں آگئے اور ہماری روزی روٹی چھین لی۔’

علی نے بتایا کہ اس واقعے سے 50 سے زائد خاندانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے جو آسام سے لکھنؤ ہجرت کر کے اسکریپ اکٹھا کر کے نجی تاجروں کو بیچ کر روزی کمانے کے لیے آئے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ہم غریب لوگ ہیں اور صرف پیسہ کمانے کے لیے لکھنؤ آئے ہیں۔ ہم ماہانہ 8 سے 10،000 روپے کماتے ہیں اور نجی زمین کے مالک کو کرایہ کے طور پر ایک ہزار روپے فی خاندان ادا کرتے ہیں۔ ہم ہندوستانی شہری ہیں اور کبھی کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔’

آسام سے آئےجھگی کے ایک اور شخص سجان علی نے کہا، ‘ہم گزشتہ 18 سالوں سے لکھنؤ میں رہ رہے ہیں اور ہمارے پاس آدھار، پین اور ووٹر آئی ڈی سمیت تمام درست دستاویز ہیں۔ ہمارے نام نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی ) میں بھی درج ہیں۔ اگر کوئی یہاں غیر قانونی طور پر رہ رہا ہے، تو ہم اسے پولیس کے حوالے کر دیں گے، لیکن ہمیں دہشت میں مبتلا مت کیجیے۔ ہماری ٹھیلہ گاڑیاں واپس کیجیے اور ہمیں کام کرنے دییجے۔ میں 4 دسمبر سے کام نہیں کر پایا ہوں۔’

اپوزیشن نے کارروائی پر سوال اٹھائے

اپوزیشن جماعتوں نے اس مہم کو ‘ریاست میں بی جے پی حکومت کی طرف سے ڈرانے دھمکانے کا حربہ’ قرار دیا اور میئر کے لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے اختیار پر سوال اٹھایا۔

اتوار کو کانگریس کے ایک وفد نے جھگی بستی کا دورہ کیا اور آسام کے مزدوروں  کے ساتھ کھڑے ہونے کا وعدہ کیا۔ اس نے میونسپل حکام سے مبینہ  ‘ہراسانی ‘ کے لیے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا۔

کانگریس کے قومی سکریٹری شاہنواز عالم نے کہا، ‘ہم نے جھگی بستی کا دورہ کیا اور پایا کہ ان سب کے پاس درست شناختی دستاویزا ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ہندوستانی شہری ہیں۔ وہ آسام کے ان علاقوں سے آئے تھے جہاں اکثر سیلاب آتا ہے، اس لیے وہ روزی روٹی کی تلاش میں یہاں آئے ہیں۔ جھگی نجی زمین پر واقع ہے، تو پھر میونسپل کارپوریشن نے ان سے 15 دن کے اندر خالی کرنے کا مطالبہ کیوں کر رہی ہے؟ ان کی ٹھیلہ گاڑیاں کیوں چھین لی گئیں۔ یہ غلط ہے۔ ہم حکام سے معافی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ زبان یا علاقے کی بنیاد پر ایسے اقدامات ملک کو تقسیم کر یں گے۔’

گھس پیٹھیوں’ کے خلاف کریک ڈاؤن کے درمیان سی ایم نے کہا؛ کسی کو رکھنے سے پہلے شناخت کی تصدیق کریں

دریں اثنا، خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے سوموارکے روز شہریوں سے چوکس رہنے کی اپیل کی اور کسی کو کام پر رکھنے سے پہلے اس کی شناخت کی تصدیق کر لیں۔

انہوں نے کہا کہ اتر پردیش نے سیکورٹی اور سماجی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اور فیصلہ کن کارروائی شروع کی ہے۔ ان کی یہ اپیل ‘دراندازوں’ کے خلاف ریاست گیر مہم کے درمیان سامنے آئی ہے، جو گزشتہ ہفتے حکام کو دی گئی ہدایات کے بعد شروع کی گئی تھی۔

ایکس پر ایک پوسٹ میں آدتیہ ناتھ نے کہا، ‘معزز سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران ایک بہت اہم مشاہدہ کیا کہ دراندازوں کے لیے ریڈ کارپٹ نہیں بچھایا جا سکتا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دراندازی کسی بھی قیمت پر ناقابل قبول ہے۔’

انہوں نے کہا کہ وسائل ملک کے شہریوں کے لیے ہیں، غیر قانونی تارکین وطن کے لیے نہیں، اور ریاست میں سلامتی، سماجی توازن اور مضبوط امن و امان کو برقرار رکھنا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔

غور طلب ہے کہ 2 دسمبر کو سپریم کورٹ نے ہندوستان میں رہنے والے روہنگیا کی قانونی حیثیت پر سخت تبصرہ کیا تھا اور سوال اٹھایاتھا کہ جب ملک کے اپنے ہی شہری غربت سے نبردآزما ہیں تو’دراندازوں’ کو’ریڈ کارپٹ ویلکم’ کیوں دیا جائے۔ چیف جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوائےمالیہ باگچی کی بنچ نے یہ ریمارکس ایک کارکن کی طرف سے دائر کی گئی ہیبیس کارپس کی عرضی کی سماعت کرتے ہوئے دیے، جس میں دہلی میں کچھ روہنگیاؤں کی حراست سے لاپتہ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔

یوپی کے وزیر اعلیٰ نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ چوکس رہیں اور کسی کو ملازمت دینے سے پہلے مناسب شناخت کی تصدیق کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘ریاست کی سلامتی ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے، کیونکہ سلامتی ہی خوشحالی کی بنیاد ہے۔’

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ریاست میں غیر قانونی طور پر مقیم روہنگیا اور بنگلہ دیشی شہریوں کے خلاف سخت مہم چلائی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام شہری بلدیاتی اداروں کو مشتبہ غیر ملکی شہریوں کی شناخت اور فہرست مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلاحی اسکیموں کے ثمرات محرومین تک پہنچنے کے لیے ہیں اور اس کا رخ موڑا نہیں جا سکتا۔

انہوں نے کہا، ‘اس مقصد کے لیے ایک تصدیق کی خصوصی مہم چلائی جا رہی ہے اور دراندازوں کی شناخت کر کے انہیں مزید کارروائی کے لیے حراستی مراکز میں بھیجا جا رہا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ اس عمل کو آسان بنانے کے لیے ہر ڈویژن میں حراستی مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔