یوگی آدتیہ ناتھ کے ایس آئی آر میں بے ضابطگیوں کے بارے میں بولنے والے ملک کے پہلے بھاجپائی چیف منسٹر بننے کو کچھ لوگوں نے اس سے پہلے دیگر وزرائے اعلیٰ کی جانب سے ایس آئی آر سے متعلق بے ضابطگیوں کی شکایتوں کی تصدیق کے طور پر دیکھا ہے۔ تاہم، کئی حلقوں میں یہ سوال پوچھا جانے لگا ہے کہ کیا یوپی میں ایس آئی آر میں ’کھیل‘ کرنے کے ارمانوں کے برعکس بی جے پی کو ہی بڑے نقصان کا ڈر ستانے لگا ہے؟

یوگی آدتیہ ناتھ۔فوٹوبہ شکریہ: فیس بک
جب سے الیکشن کمیشن نے بارہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ووٹر لسٹوں کی خصوصی نظر ثانی (ایس آئی آر) کا اعلان کیا ہے، تب سے یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اس عمل کے تحت سب سے زیادہ’کھیل’ اتر پردیش میں ہوں گے۔صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ اتر پردیش میں ملک میں سب سے زیادہ آبادی اور لوک سبھا سیٹوں والی ریاست ہے، اور اس وجہ سے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی مستقبل کے لحاظ سے وہاں اس کا بہت کچھ داؤ پر ہے۔اس لیے بھی کہ مرکز کے ساتھ اتر پردیش میں بھی برسراقتدار ہونے کی وجہ سےکمیشن کی ملی بھگت سے ممکن اس طرح کے’کھیلوں’ کی تمام سہولیات اسی کے نام لکھی ہوئی ہیں۔
لیکن اب ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے گزشتہ اتوار کے تبصروں نے ان شکوک و شبہات اور اس سے متعلق قیاس آرائیوں کو ایک نئی سمت دے دی ہے، اس کی بابت شاید ہی کسی نے پہلے سوچا ہو۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، آئیے یوگی کے تبصرے پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔
مرکزی وزیر مملکت برائے خزانہ پنکج چودھری کے بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتر پردیش یونٹ کا صدر منتخب ہونے کے بعد اتوار کو منعقدہ ایک تقریب میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے یوگی نے اچانک ریاست میں ایس آئی آر کی سست رفتاری یا بے ضابطگیوں کے بارے میں بات کرنا شروع کر دی، جس سے نہ صرف اپوزیشن پارٹیاں بلکہ ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی صفوں میں بھی لوگ حیران رہ گئے۔
اس لیےاور کہ اسی دن اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس ملک کی راجدھانی دہلی میں ووٹ چوری کے خلاف ریلی نکال رہی تھی اور نریندر مودی حکومت، الیکشن کمیشن اور ایس آئی آر کی لعنت ملامت کر رہی تھی۔
بہرحال، یوگی نے جو کہا، مجموعی طور پر اس کالب لباب یہ ہے کہ اگر ریاست کی ووٹر لسٹ میں 18 سال سے زیادہ عمر کے ہر شہری کا نام شامل ہو تو ریاست کی 25 کروڑ کی آبادی کو دیکھتے ہوئے ووٹروں کی کل تعداد 16 کروڑ ہونی چاہیے۔ تاہم، ایس آئی آر کے تحت اب تک صرف 12 کروڑ نام آئے ہیں یعنی جتنے آنے چاہیے، اس سے چار کروڑ کم۔ اس طرح تقریباً ایک چوتھائی ووٹر ‘مسنگ’ ہیں۔
پارٹی کارکنوں کو صورتحال کی سنگینی کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ جنوری 2025 تک ریاست کی ووٹر لسٹ میں کل 15 کروڑ 44 لاکھ نام شامل تھے، اور 1 جنوری 2026 کو 18 سال کا ہونے پر اس میں شامل ہونے کے اہل نوجوان ووٹروں کی شمولیت کے بعد یہ تعداد اور بڑھنی چاہیے تھی۔ لیکن یہ بڑھنے کے بجائے کم ہو کر 12 کروڑ رہ گئی ہے۔
اس کے بعد یوگی نے اس سے بھی زیادہ غور کرنے والی بات کہی۔ یہ کہ چار کروڑ ووٹر، جو ووٹر لسٹ سے باہر رہ گئے ہیں وہ سبھی بی جے پی کے مخالف نہیں ہیں۔ ان میں سے 85 سے 90 فیصد بی جے پی کے حامی ہیں۔ واضح طور پر، وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اگر ان ووٹروں کو باہر رکھا گیا تو بی جے پی کو انتخابات میں کافی نقصان ہو سکتا ہے۔
یہاں ایک اور بات غور طلب ہے کہ ریاست کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے صدر اکھلیش یادو نے پہلے ایس آئی آر پر بی جے پی اور الیکشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ مشترکہ طور پر تین کروڑ ووٹروں کے ناموں کو حذف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تین کروڑ یعنی یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعے ‘مسنگ’ بتائے جا رہے ووٹروں کی تعداد سے ایک کروڑ کم۔ اب، یوگی نے مزید آگے بڑھ کر دعویٰ کیا ہے کہ چار کروڑ ووٹر مسنگ ہیں، جس سے کئی مبصرین کو وہ یعنی اپوزیشن کو بھی مات دینے لگے ہیں۔
لیکن یوگی وہیں نہیں رکے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ریاست کے ایک ضلع کے حالیہ دورے کے دوران انہیں بی جے پی مخالفین کی طرف سے بھرے گئے ایس آئی آر فارم پر بنگلہ دیشی شہریوں کے نام ملے۔ ان کے مطابق، ایک جگہ تو ایسےآدمی کا نام بھی نظر آیا، جن کی اپنی عمر 20 سال، ان کے والد کی عمر 30 سال اور دادا کی عمر 40 سال درج کی گئی تھی۔
اس کے بعد صرف ایک سوال رہ گیا کہ یہ کیساایس آئی آرہے اور کس طرح کرایا جا رہا ہے؟ لیکن آخر میں، یوگی نے بی جے پی کارکنوں سے کہا کہ خوش قسمتی سے، الیکشن کمیشن نے ایس آئی آر کے تحت ووٹر فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ بڑھا دی ہے، اس لیے وہ (کارکنان) ہر بوتھ اور گھر گھر جا کر اہل لوگوں کو ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے اس کا اچھا استعمال کریں۔
یہ سب کہنے کے بعد، یوگی ملک کے پہلے بھاجپائی چیف منسٹر بن گئے جنہوں نے ایس آئی آر میں بے ضابطگیوں کے بارے میں بات کی، جس سے مختلف حلقوں سے مختلف ردعمل سامنے آئے۔ کچھ لوگوں نے اسے اپوزیشن پارٹیوں کے زیر اقتدار ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کی طرف سے ایس آئی آرمیں بے ضابطگیوں کی شکایتوں کی تصدیق کے طور پر دیکھا۔ دوسروں نے یہ بھی پوچھنا شروع کیا کہ کیا، اتر پردیش میں ایس آئی آر کے ساتھ’کھیل’ کرنے کے ارمانوں کے برعکس بی جے پی کو ہی بڑے نقصان کا ڈر ستانے لگا ہے۔
उप्र के मुख्यमंत्री जी स्वयं कह रहे हैं कि जो 4 करोड़ मतदाता SIR के दौरान वोटर लिस्ट में शामिल नहीं किये गये हैं, उनमें से 85-90% भाजपा के वोटर हैं।
इस बात का :
– पहला मतलब तो ये हुआ कि ‘पीडीए प्रहरी’ के चौकन्ने रहने से SIR में भाजपाइयों का मनमाफ़िक़ जुगाड़ नहीं हो पाया।
-…— Akhilesh Yadav (@yadavakhilesh) December 14, 2025
اکھلیش یادو نے اس پر یقین کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ بھی کر ڈالاکہ پی ڈی اے کے محافظوں کی چوکسی کی وجہ سے، بی جے پی ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے اپنے فرضی ووٹروں کے فارم نہیں بھروا پائی،جن کے بھروسے وہ انتخابات میں کھیل کیا کرتی تھی۔ ان کے مطابق یوگی اب انہی ووٹروں کو لاپتہ قرار دے رہے ہیں، جن کے مطابق ان میں 90 فیصد بی جے پی کے حامی ہیں، اور انہیں خدشہ ہے کہ اگر یہ حصہ ختم ہو گیا تو بی جے پی ریاست میں انتخابی دوڑ سے ایک دم باہرہو جائے گی۔
تاہم، ایسے لوگ بھی ہیں جو دلیل دیتے ہیں کہ یوگی کے تبصرے کی وجہ بی جے پی کی اندرونی سیاست اور وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کے ساتھ ان کے تعلقات میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے ساتھ-ساتھ اپوزیشن کو الجھائے رکھنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
سینئر صحافی ہری شنکر ویاس نے تو اپنے روزنامہ ‘نیا انڈیا’ کے ‘راج رنگ’ کالم میں کانگریس کی اتر پردیش یونٹ کے صدر اجئے رائے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک المیہ ہے کہ ایس آئی آر الیکشن کمیشن کرا رہا ہے اور اس کی پیش رفت کا جائزہ یوگی آدتیہ ناتھ پیش کر رہے ہیں۔
دوسری طرف، بہت سے مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یوگی کے ریمارکس پارلیامنٹ میں بحث کے جواب میں ایس آئی آر کی حفاظت کے بارے میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے ‘انتہائی مضبوط’ موقف کو کمزور کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ آخر کار خود الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن (جس میں اس نے اب توسیع کر دی ہے) میں ریاست کے چار کروڑیعنی تقریباً ایک چوتھائی ووٹروں کے فارم نہیں بھرے جا سکے تو یہ کوئی چھوٹی بات تو نہیں ہی ہے ۔
دوسری طرف، ایک معروف انگریزی روزنامے کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹر فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ میں توسیع سے بی جے پی کو سب سے زیادہ راحت ملی ہے۔ اس کے نتیجے میں ایس آئی آرکی غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اگر یہ غیر جانبدار ہوتا تو یوگی آدتیہ ناتھ کو اس کے بارے میں اس طرح کے تبصرے کرتے ہوئے ایک ساتھ کئی اشارہ دینے اور ایک تیر سے کئی شکارکرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
سادھوؤں کو راحت
جو بھی ہو، الیکشن کمیشن کی طرف سے آخری تاریخ میں توسیع نے کم از کم بی جے پی کو ریاست کے ایودھیا، وارانسی، متھرا اور ورنداون جیسے مذہبی اجتماع والے شہروں میں سادھوؤں اور سنیاسیوں (جن کو اسی کا ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے) کے فارم بھرانے کا کام آرام سے مکمل کرنے میں سہولت ہوگی۔
شروع میں ایک مسئلہ جو اس کام کی راہ میں آ رہا تھا وہ یہ تھا کہ سادھوؤں اور سنیاسیوں کے فارم میں ان کی ماں کا نام کیا لکھا جائے؟
دراصل، سادھو اور سنیاسی اپنی ‘نئی’ زندگی یا پنر جنم کو اسی دن سے شروع ہونا سمجھتے ہیں جس دن انہوں نے سنیاس لیا ، اور اس کے بعد وہ باپ کی جگہ اپنے اپنے گروکا نام ہی استعمال کرتے ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے حیاتیاتی والدین سمیت اپنی پچھلی زندگی کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں یا مکمل طور پر بھول گئے ہیں۔
مذہبی عقیدے کے مطابق، گرو کی طرف سے انجام دیے جانے والے ‘پنچ سنسکار’ (پانچ رسومات) کے بعد شاگرد کا گوتر بھگوان کے گوتر میں بدل جاتا ہے، اور وہ’ روحانی طور پر دوبارہ جنم’ لیتا ہے۔ پھر گرو ہی اس کے باپ ہوتے ہیں۔
اس ایس آئی آرسے پہلے سادھوؤں اور سنیاسیوں کو ووٹر بننے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا کیونکہ باپ کے بجائے گرو کا نام لکھنا کافی تھا لیکن اب انہیں اپنی ماں کا نام بھی ایس آئی آر فارم میں لکھنا ہوگا اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ان کا نام ووٹر لسٹ سے نکالے جانے کا خدشہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ایودھیا میں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے رہنما ڈاکٹر رام ولاس داس ویدانتی جو رام مندر تحریک میں شامل تھے اور جو بی جے پی کے سابق لوک سبھا رکن بھی تھے اور حال ہی میں ان کی ناگہانی موت ہوگئی، نے اس مسئلے کے حل کی تجویز پیش کی تھی کہ سادھوؤں اور سنیاسیوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ماں کے نام کی جگہ جانکی لکھ دیں ، جو ماتا سیتا کام نام ہے۔ رپورٹ کے مطابق، انہوں نے اپنے فارم میں بھی یہی لکھا تھا۔
ایودھیا میں بی جے پی کے مقامی لیڈر بھی سادھوؤں اور سنیاسیوں کو اس کی وضاحت کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ انہیں بھگوان رام کی ماں کوشلیا کو اپنی ماں کے طور پر درج کرنے کا آپشن بھی پیش کر رہے تھے۔ لیکن مسئلہ یہیں تک محدود نہیں تھا۔ بہت سے خانہ بدوش سادھو نہ تو اپنے رجسٹرڈ پتے پر دستیاب تھے اور نہ ہی آن لائن فارم بھرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کے لیے فارم بھرناممکن نہیں ہو رہا تھا۔
یہ بھی بتاتے ہیں کہ وارانسی اور متھرا کے بہت سے سادھوؤں نے اپنے فارم بھرتے وقت اپنی ماں کے نام کا کالم خالی چھوڑ دیا ہے۔ اگر اس وجہ سے ان کے فارم مسترد ہوتے ہیں تو ڈرافٹ ووٹر لسٹ شائع ہونے کے بعد اعتراضات دائر کیے جائیں گے۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)