وشو ہندو پریشد نے ’سانسکرتک سجگتا‘ یعنی’ثقافتی بیداری‘ کے نام پر ہندوؤں سے کرسمس نہ منانے کی اپیل کی ہے۔ قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی آزادی اور آئین کی تمہید میں درج بھائی چارے کے اصولوں کے خلاف ہے۔

(بائیں) کرسمس کے لیے سجا ہوا بازار(پی ٹی آئی)| (دائیں) وی ایچ پی کے اندرپرستھ صوبائی وزیر سریندر گپتا۔
نئی دہلی: وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) نے ’سانسکرتک سجگتا‘ یعنی’ثقافتی بیداری‘ کے نام پر کرسمس جیسے مذہبی تہوار کو نہ منانے کی اپیل کی ہے۔وی ایچ پی نے اسے مذہب اور روایت کے تحفظ سے جوڑتے ہوئے نہ صرف عام لوگوں، بلکہ دکانداروں، شاپنگ مالز اور اسکولوں کو بھی نشانے پر لیاہے۔
وی ایچ پی کے اندرا پرستھ کے صوبائی وزیر سریندر گپتا کی طرف سے 13 دسمبر کو جاری ایک خط میں کہا گیا ہے کہ موجودہ دور میں ہندو سماج کو ضبط نفس اور عزت نفس کے ساتھ مذہبی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں ‘تبدیلی مذہب کی منظم کوششیں’طویل عرصے سے جاری ہیں، اور دیگر مذاہب کے تہواروں میں شرکت سے انہیں سماجی قبولیت حاصل ہو سکتی ہے۔
دی وائر نے سریندر گپتا سے پوچھا کہ کیا ان کی اپیل لوگوں کی مذہبی آزادی کے جذبے کے خلاف نہیں ہے؟
اس پر ان کا کہنا تھا کہ’بات مذہبی آزادی کی نہیں بلکہ تبدیلی مذہب کی ہے۔ عیسائی مشنری ہمارے لبرل جذبات کا استحصال کرتے ہیں اور مذہب تبدیل کرواتے ہیں، اس سے بچنے کی بات کہی گئی ہے۔’
وی ایچ پی نے واضح طور پر ہندوؤں سے کسی بھی صورت میں کرسمس نہ منانے کی اپیل کی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ کسی فرد یا برادری کی مخالفت کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ہندو مذہب اور ثقافت کے تحفظ کا سوال ہے۔ تاہم اس اپیل میں براہ راست عیسائیت سے وابستہ تہوار کو نشانے پر لیا گیاہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ان کی اپیل سے مذہبی پولرائزیشن اور سماجی بائیکاٹ کی حوصلہ افزائی نہیں ہوگی؟ اس کے جواب میں گپتا نے کہا؛
یہ تو ان کو سوچنا چاہیے، جو یہاں آکر تبدیلی مذہب کی منشا سے کام کرتے ہیں۔ میں توکہتا ہوں کہ چرچ کھل کر سامنے آئیں اور کہیں کہ ہم ہندوستان کے اندر تبدیلی مذہب کی کوئی سرگرمی نہیں کریں گے۔ اس کے بعد، جو چاہیں کریں، کیا دقت ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن آپ یہاں آکرکھلے عام چنگائی سبھا یعنی شفا یابی کی تقریبات کا انعقاد کریں گے، تبدیلی مذہب کی سرگرمیاں چلائیں گے، معصوم لوگوں کو گمراہ کرکے ان کے مذہب کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے – تو ہمیں اپنے معاشرے کی حفاظت کا حق ہےکہ نہیں ہے؟
چنگائی سبھا، عیسائیوں کے مذہبی اجتماعات ہیں، جن کی ہندوتوا تنظیمیں اکثر مخالفت کرتی ہیں۔
بتادیں کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ہندوستان میں تقریباً2 کروڑ 78لاکھ عیسائی ہیں، جو کل آبادی کا تقریباً 2.3 فیصد ہیں۔ صرف دہلی میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ عیسائی ہیں۔
‘بھائی چارے کے جذبے کے خلاف ہے اپیل ‘
سپریم کورٹ کی وکیل شاہ رخ عالم نے وی ایچ پی کی اپیل کو آئین کی تمہید میں درج بھائی چارے کے جذبے کے خلاف قرار دیا۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ‘تکنیکی طور پر، (اس طرح کی اپیل) کی جا سکتی ہے، لیکن پھر بھی یہ آئینی اقدار کےخلاف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کوئی اختلاف یا احتجاج کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ ثقافتی حد بندی اور بائیکاٹ پر مبنی ہے، جو کہ آئین کی تمہید میں درج بھائی چارے کے اخلاقی اصول کے خلاف ہے۔’
وہ مزید کہتی ہیں؛
یہ اس عجیب و غریب تصور کو بھی فروغ دیتا ہے کہ ‘ثقافتی بیداری’ واضح ثقافتی حدود قائم کرنے سے حاصل ہوتی ہے، اور یہ کہ مختلف ثقافتی روایات اور اثرات کے آپسی میل جول کو ناپاکی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اگرچہ تکنیکی طور پر ایسا (اپیل) کرناممکن ہے، لیکن جب یہ زبردستی کیا جانے لگے یا اس کے ساتھ چوکسی ( بیداری کے نام پر پرتشدد یا جبری کارروائی) وابستہ ہو جائے،تو یہ یقینی طور پر ایک جرم بن جاتا ہے۔ بھلے ہی اس کے ساتھ کوئی براہ راست یا ظاہری جبر نہ بھی ہو، لیکن جب اس طرح کے بائیکاٹ کی صلاح کسی سیاسی اور سماجی طور پر اکثریتی تنظیم کی طرف سےآتی ہے، تو اس کا اثر ہوتا ہے اور وہ ڈی فیکٹو اخراج پیدا کرتا ہے ۔ اس لیے یہ آئینی اقدار کی خلاف ورزی ہے۔
کچھ معاملوں کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ رخ عالم بتاتی ہیں،’پرتھوی راج چوہان بمقابلہ یونین آف انڈیا (2018) کے معاملےمیں سپریم کورٹ نے ایک آئینی قدر کے طور پر بھائی چارے کی جامع تشریح کی ہے۔ اسی طرح حجاب معاملے (2022) میں بھی اسی اصول کو دہرایا گیا ۔ مزید برآں، سپریم کورٹ نے کانوڑ یاترا معاملے میں مداخلت کی، جہاں عقیدت مندوں کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ کھانا فروخت کرنے والوں کے اصلی نام پتہ کریں ۔’
ہندو دکانداروں کے لیے وی ایچ پی نے کیا کہا ہے؟
وی ایچ پی نے ان دکانداروں اور کاروباری اداروں پربھی سوال اٹھائے ہیں جو اپنی دکانوں کو ‘ہیپی یا میری کرسمس’ جیسے بورڈ سے سجاتے ہیں۔ وی ایچ پی کا کہنا ہے کہ ہندو ہونے کے باوجود صرف تجارتی فائدے کے لیے اس طرح کے پیغامات کی نمائش کرنا ‘ثقافتی الجھن اور خود فرسودگی’ کو فروغ دیتا ہے۔ تنظیم نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسے دکانداروں سے خریداری نہ کرنے پر ‘غور’ کریں۔
وی ایچ پی کی اس اپیل سے ‘دہلی ٹریڈ فیڈریشن’کے صدر دیوراج باویجا کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ہم نے جاننا چاہا کہ ‘کیا وہ اس اپیل کی پیروی کریں گے اور دکانداروں سے کہیں گے کہ وہ ‘ہیپی کرسمس’ کے بورڈ نہ لگائیں یا کرسمس کا سامان فروخت نہ کریں۔ اس پر باویجا نے کہا، ‘ہمیں اس کا فیصلہ ایک میٹنگ میں کرنا پڑے گا اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے کہ ہم بھی ایسی اپیل کریں۔’
دہلی ٹریڈ فیڈریشن کے صدر نے اپنی بات کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں اپنی ثقافت پر فخر ہے۔ ہمیں دوسروں کی ثقافت کو اپنانے کے بجائے اپنی ثقافت کو فروغ دینا چاہیے۔ عیسائیوں کو اپنی ثقافت کو اپنانا چاہیے، ہندوؤں کو اپنی ثقافت کو اپنانا چاہیے۔’
واضح ہوکہ وی ایچ پی نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ یہ اپیل لیٹر ان شاپنگ مالز کے عہدیداروں اور اسکولوں کے پرنسپلوں کو بھیجا جائے گا جہاں 25 دسمبر کو کرسمس منایا جاتا ہے یا ‘ہیپی کرسمس’ لکھ کر سجاوٹ کی جاتی ہے، چاہے وہاں پڑھنے والے بچے ہندو ہوں۔
وی ایچ پی کا موقف ہے کہ اس اپیل کا مقصد تنازعہ یا دشمنی کو ہوا دینا نہیں ہے، بلکہ ‘پرامن ثقافتی بیداری’ کو فروغ دینا ہے۔ تاہم، ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی اپیلیں مذہبی شناخت پر مبنی سماجی رویے کو کنٹرول کرنے اور کثیر مذہبی معاشرے میں تفرقہ کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔
وی ایچ پی اور عیسائی
اپنے بیان میں وی ایچ پی نے ‘جو دھرم کی حفاظت کرتا ہے، دھرم اس کی حفاظت کرتا ہے’ جیسے مفہوم والے بعض اشلوکوں کا حوالہ دیتے ہندو سماج سے متحد اور چوکس رہنے کی اپیل کی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ثقافتی خود اعتمادی کا مطلب دوسرے مذاہب کی عوامی تقریبات سے خود کو دور کرلینا اور انہیں شک کی نگاہ سے دیکھنا ہے؟
وی ایچ پی کی مبینہ عیسائی مخالف تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئےدہلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور معروف مؤرخ ڈاکٹر شمس الاسلام کہتے ہیں، ‘یہ بہت پرانی بات نہیں ہے۔ 1997 میں وی ایچ پی، بجرنگ دل، اور ہندو جاگرن منچ نے گجرات کے ڈانگ (ایک آدی واسی علاقہ) میں پہلی بار کرسمس نہیں ہونے دیا تھا۔انہوں نے بہت سارے چر چ جلا دیے تھے اور کئی عیسائی اسکولوں پر قبضہ کر لیا تھا۔’
پروفیسر اسلام مزید کہتے ہیں، ‘بڑی تعداد میں ہندوستانی ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں عیسائی اکثریت میں ہیں، اور وہ وہاں آرام سے دیوالی مناتے ہیں۔ ہندوستان سے باہر دنیا کا سب سے بڑا مندر شکاگو میں ہے، جہاں آبادی کی اکثریت عیسائی ہے۔ دوسرا بڑا مندر ابوظہبی میں ہے، جو ایک مسلم ملک ہے۔’
پروفیسر طنزکرتے ہوئے کہتے ہیں، ‘وی ایچ پی والوں کو تمام ہندوستانیوں سے مغربی ممالک چھوڑ کر ہندوستان آنے کی اپیل کرنی چاہیے، کیونکہ وہاں عیسائی رہتے ہیں۔’
پروفیسر اسلام کا دعویٰ ہے کہ وی ایچ پی جس راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی ایک اکائی ہے، اس نے اس وقت تک عیسائیوں کی مخالفت نہیں کی، جب تک ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی۔
وہ کہتے ہیں،’وی ایچ پی تو سوامی وویکانند کو ایک عظیم ہندوتوا فلسفی مانتی ہے، اس لیے انہیں وویکانند کو پڑھنا چاہیے، جنہوں نے یسوع مسیح کو انسانیت کا نجات دہندہ بتایا تھا۔ وویکانند نے ان برہمنوں پر بھی تنقید کی تھی جنہوں نے شودروں پر ظلم کیا، جبکہ عیسائی مشنریوں نے ان کی خدمت کی۔اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کی اکائی ہونے کے ناطے وی ایچ پی کو ملک کو یہ بتانا چاہیے کہ 1925 سے 1947 کے درمیان انہوں نے عیسائیت کی مخالفت کیوں نہیں کی۔’ آر ایس ایس کی بنیاد 1925 میں رکھی گئی تھی۔
مودی دور حکومت اور عیسائی
قابل ذکر ہے کہ 29 نومبر 2025 کو تقریباً 3,500 عیسائی 18 عیسائی تنظیموں کی مشترکہ کال پر پارلیامنٹ کے قریب جمع ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت ملک بھر میں ان کی کمیونٹی کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد اور امتیازی سلوک کوروکنے میں کی ناکام رہی ہے۔
یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) کے کنوینر اے سی مائیکل کا دعویٰ ہے کہ نریندر مودی کے دور حکومت میں عیسائیوں کے خلاف حملوں میں 500 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ مائیکل کے مطابق،’تشدد کے واقعات 2014 میں 139 سے بڑھ کر 2024 تک 834 ہو گئے، جو تقریباً 500 فیصد کااضافہ ہے۔’
یونین آف کیتھولک ایشیا نیوز سے بات کرتے ہوئے مائیکل نے کہا، ‘وزیراعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور قومی اقلیتی کمیشن سے تشدد کو روکنے کے لیے بار بار اپیل کی گئی، لیکن اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔’
یو سی ایف کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ 10 سالوں میں ملک بھر میں عیسائیوں کے خلاف 4,959 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، اوسطاً ہر سال تقریباً 70 واقعات۔ مائیکل نے کہا کہ تقریباً ہر معاملے یکساں پیٹرن نظر آتاہے، جہاں مذہبی انتہا پسندوں سے منسلک نگرانی گروپ کی طرف سے دھمکی دی جاتی ہے، زبردستی کی جاتی ہے اور تشدد کی بات کہی جاتی ہے۔