لوک سبھا میں منگل کو انتخابی اصلاحات پر بحث شروع ہوئی۔ اس دوران اپوزیشن نے 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جاری ایس آئی کارروائی آر کی خامیوں کو اجاگر کیا۔ بحث کے دوران اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن پر غیر جانبداری کے فقدان کا الزام لگایا اور بیلٹ پیپر سے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا۔

9 دسمبر 2025 کو لوک سبھا میں اپوزیشن کے اراکین پارلیامنٹ منیش تیواری، اکھلیش یادو اور سپریا سولے۔ (تصویر: سنسد ٹی وی/ پی ٹی آئی)
نئی دہلی: اپوزیشن کی بار بار کی درخواستوں کے باوجود بہار میں ووٹر لسٹ کے اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر) پر ایوان کے مانسون اجلاس کے دوران بحث نہیں ہو پائی تھی۔ اب منگل (9 دسمبر) کو لوک سبھا میں انتخابی اصلاحات پر بحث شروع ہوئی۔ اپوزیشن نے 12 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں جاری اس عمل کی خامیوں کو اجاگر کیا۔
اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کمیشن پر غیر جانبداری کے فقدان کا الزام لگاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انتخابات بیلٹ پیپرکے ذریعے کرائے جائیں۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سے متعلق قانون میں تبدیلی کا بھی مطالبہ کیا۔
وہیں، حکمراں پارٹی نے کہا کہ ای وی ایم اور الیکشن کمیشن پر سوال اٹھانے کے بجائے اپوزیشن کو اپنی انتخابی شکست کا جائزہ لینا چاہیے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کے این ڈی اے اتحادیوں نے بحث کے دوران بار بار بہار اسمبلی انتخابات میں اپنی جیت کا حوالہ دیا۔
بی ایل او کی اموات
بحث کے دوران، حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ نے بوتھ لیول آفیسرز (بی ایل او)پر ایس آئی آرکے عمل کے دوران شدید دباؤ کاذکرکیا، اور کہا کہ یہ عمل ‘شمولیت کے بجائے اخراج کا ایک ذریعہ’ بن گیا ہے۔
ترنمول کانگریس کے ایم پی کلیان بنرجی نے کہا،’مغربی بنگال میں 20 لوگوں کی موت ہو چکی ہے، پانچ شدید بیمار ہیں۔ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ الیکشن کمیشن؟’
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے واقعات نہ صرف بنگال میں بلکہ دیگر ریاستوں میں بھی ہوئے ہیں۔
بنرجی نے کہا کہ ‘اب وزیر اعظم مودی الیکشن کمیشن کے ذریعے طے کرتے ہیں کہ ووٹر کون ہوگا۔’
اپوزیشن کی جانب سے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ایس آئی آر کرانے کا کوئی آئینی حق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا،’عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 21 کہتی ہے کہ کمیشن وہیں سے اپنے اختیارات ملتے ہیں۔ آئین یا قانون میں ایس آئی آر کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔’
انہوں نے سوال کیا کہ کمیشن نے کن بنیادوں پر یہ عمل شروع کیا اور کیا یہ وجوہات تحریری طور پر درج ہیں۔
تیواری نے کہا، ‘حکومت کو یہ تحریری وجہ ایوان کے سامنے رکھنی چاہیے۔ کون سی شکایات موصول ہوئیں، کیاجانچ ہوئی، اور ایس آئی آر کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا گیا؟’
الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے گئے اور بیلٹ پیپر کی واپسی کا مطالبہ
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے کہا کہ اگر انتخابات منصفانہ طریقے سے ہوئے تو بی جے پی کو اتر پردیش میں 2027 کے اسمبلی انتخابات میں ایک بھی سیٹ نہیں ملے گی۔
رام پور اور ملکی پور ضمنی انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس نے ووٹروں کو ڈرایا اور کمیشن نے شکایات کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی۔ یادو نے کہا،’انتخابات جیتے یا ہارے جا سکتے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن غیر جانبدار کیوں نہیں ہے؟ یہی اصل سوال ہے۔’
منیش تیواری کی طرح انہوں نے بھی انتخابات کے لیے بیلٹ پیپر کے اپنے مطالبے کو دہرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ضمنی انتخابات میں ووٹ چوری نہیں ہوئی بلکہ ووٹ ڈکیتی ہوئی‘۔
وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے بھی بیلٹ پیپرکی واپسی کی حمایت کی۔ پارٹی کے ایم پی پی وی مدھون ریڈی نے نشاندہی کی کہ آندھرا پردیش اسمبلی انتخابات میں شام 6 بجے کے بعد 15 فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ اور یہ کہ ای وی ایم کی بیٹری ووٹنگ ڈےسے گنتی کے دن تک بڑھ گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ نیدرلینڈ جیسے ممالک نے دکھایا ہے کہ ای وی ایم کو کس طرح ہیک کیا جا سکتا ہے، جس کے بعد کئی ممالک پیپر بیلٹ پر واپس آئے، ہندوستان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
این سی پی (شرد پوار دھڑے) کی رکن پارلیامنٹ سپریہ سولے نے ای وی ایم کی مخالفت نہ کرتے ہوئے کمیشن کی غیر جانبداری پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا، ‘یہ بحث اس لیے ہو رہی ہے کہ عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن غیر جانبدار نہیں ہے۔’
منیش تیواری نے یہ بھی کہا کہ راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس آف انڈیا کو چیف الیکشن کمشنر سلیکشن کمیٹی میں شامل کیا جانا چاہیے۔
بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے جوابی حملہ کیا
اپوزیشن کے الزامات پر حکمراں جماعت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پر سوال اٹھانے سے پہلے اپوزیشن کو اپنی شکست کی وجوہات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے کانگریس پر جوابی حملہ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اس نے پہلے لوک سبھا انتخابات میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو شکست دینے کے لیے 74,000 ووٹوں کو رد کر کے ‘ووٹ چوری’کی تھی۔
انہوں نے کہا، ‘ایس آئی آرکوئی نئی بات نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے ہمیشہ مختصر اور تفصیلی نظر ثانی کی ہے ۔ یہ ایک باقاعدہ عمل ہے، جس میں گھر گھر جا کر ووٹروں کی معلومات حاصل کی جاتی ہے۔’
لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے رکن پارلیامنٹ ارون بھارتی نے کہا کہ بہار کے لوگوں نے این ڈی اے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور نئی حکومت ترقی یافتہ ہندوستان کے لیے کام کرے گی۔ انہوں نے کہا، ‘دہلی کے بعد اب بہار میں کانگریس سنگل ڈیجیٹ پارٹی رہ گئی ہے۔’
این ڈی اے کی حلیف ٹی ڈی پی نے بھی اصلاحات کا مشورہ دیا
دیگر اتحادیوں کے برعکس، تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) نے نہ صرف اپوزیشن سے سوال کیا بلکہ انتخابی اصلاحات کی تجویز بھی دی۔
ٹی ڈی پی کے رکن پارلیامنٹ لوو سری کرشنا دیویرالو نے کہا کہ ہندوستان کا انتخابی نظام دنیا کے سب سے زیادہ جامع نظاموں میں سے ایک ہے جس نے ہر شہری کو ووٹ کا حق دیا، جو کہ مغربی ممالک میں بھی طویل عرصے تک نہیں تھا۔
تاہم، انہوں نے انتخابی اصلاحات کی ایک فہرست پیش کی جس میں بوتھ سطح کے ایجنٹوں کی شرکت میں اضافہ، انتخابی بدعنوانی پر نظر رکھنے کے لیے ایک آزاد ادارہ تشکیل دینا، نااہلی کے مقدمات کو بروقت نمٹانے کے لیے انسداد انحراف قانون میں ترمیم، مقامی حکومتوں کے اداروں کو بااختیار بنانا، اور ریاستی الیکشن کمشنروں کی مدت 5 سال مقرر کرنا شامل ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔