بی جے پی پر کچھ سال پہلے سوچھ بھارت، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اور کسان سیوا جیسی سرکاری اسکیموں کے نام پر عوام سے ‘غیر قانونی طور پر’ چندہ اکٹھا کر نے کا الزام لگا تھا۔ صحافی بی آر ارونداکشن کو آر ٹی آئی کے توسط سے معلوم ہوا ہے کہ بی جے پی کو ان اسکیموں کے لیے چندہ جمع کرنے کی کوئی خصوصی اجازت یا منظوری نہ تو مرکزی حکومت کے کی کسی وزارت سے ملی تھی، نہ ہی پی ایم او سے۔

جے پی نڈا (بائیں) اور نریندر مودی۔ پس منظر میں 2021 کی فنڈ ریزنگ مہم کے دوران بی جے پی کو دیے گئے چندے کے ایکس سے لیےگئےاسکرین شاٹ ۔تصویر: ایکس/پی ٹی آئی
نئی دہلی: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر کچھ سال پہلے سوچھ بھارت، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ، اور کسان سیوا جیسی سرکاری اسکیموں کے نام پر عوام سے غیر قانونی طور پر چندہ اکٹھا کرنے کا الزام لگا ہے۔ بی جے پی کی نمو ایپ اور نریندرمودی ڈاٹ ان پورٹل آج بھی اپنے ڈونیشن پیج پر ان سرکاری اسکیموں میں حصہ ڈالنے کے اختیارات دکھا رہے ہیں۔
چنئی کےسینئر صحافی اور ستھیام ٹی وی کے نیوز ایڈیٹر بی آر ارونداکشن کی جانب سے دائر آر ٹی آئی درخواستوں کے جواب میں پتہ چلاکہ بی جے پی کو ان سرکاری اسکیموں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنےکی کوئی خصوصی اجازت یا مجاز منظوری نہ تو وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) سے ملی تھی اور نہ ہی کسی مرکزی وزارت سے ۔
بی جے پی نے دسمبر 2021 اور فروری 2022 کے درمیان نریندر مودی ڈاٹ ان اور نمو ایپ ایپ جیسے نجی پلیٹ فارم کے ذریعے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ اس مہم کے دوران اپیل کی گئی تھی کہ وہ سوچھ بھارت، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اور کسان سیوا جیسی سرکاری اسکیموں کے لیے چندہ دیں۔ ویب سائٹ اور ایپ پر بی جے پی کو چندہ دیتے وقت چندہ دینے والوں کو ان تین اسکیموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کو کہا گیا اور ‘پارٹی فنڈ’ کو ڈونیشن کا مقصد بتایا گیا۔
تاہم، ان اسکیموں کو نافذ کرنے والی وزارتوں نے اپنے آر ٹی آئی کے جواب میں واضح طور پر کہا ہے کہ کسی بھی پلیٹ فارم کو ان اسکیموں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ 25 دسمبر 2021 کو بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی یوم پیدائش کے موقع پر ‘مائیکرو ڈونیشن’ مہم کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ مہم 11 فروری 2022 تک جاری رہے گی، جو ہندوتوا مفکر دین دیال اپادھیائے کی برسی ہے۔

ڈونیشن کی مہم سے متعلق نڈا کا خط۔
نڈا نے بتایا تھا کہ یہ مہم پارٹی اور اس کی عوامی تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے ہے، لیکن عطیہ دہندگان کو پارٹی فنڈ کے بجائے سرکاری اسکیموں میں حصہ ڈالنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

سال2021 میں ڈونیشن کی مہم سے متعلق جے پی نڈا کا ٹوئٹ۔

سال2021 میں ڈونیشن کی مہم سے متعلق جے پی نڈا کا ٹوئٹ۔
اسی دن وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اپنے ایکس (تب ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے اس مہم کی حمایت کی تھی اور 1000 روپے کا عطیہ کرتے ہوئے لوگوں سے تعاون کی اپیل کی تھی۔
انہوں نے لکھا تھا،’آپ کی حمایت ان لاکھوں کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرے گی جو قوم کی تعمیر کے لیے بے لوث کام کر رہے ہیں۔’ وزیراعظم کی اس اپیل کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے چندہ دیا۔

سال2021 کے چندہ مہم کی شروعات کا اعلان کرنے والا پی ایم مودی کا ٹوئٹ۔

اسی لنک کے ذریعے ‘پارٹی فنڈ’ میں عطیہ کرنے کے بارے میں معلومات شیئر کرتے ہوئے لوگوں کے ٹوئٹس کے اسکرین گریب۔
اگرچہ یہ مہم فروری 2022 میں ختم ہوگئی تھی، لیکن دونوں پلیٹ فارم آج بھی اپنی ویب سائٹس پر سرکاری اسکیموں کے نام پر چندہ دینے کا اختیار دکھا رہے ہیں۔
ستھیام ٹی وی کے نیوز ایڈیٹر ارونداکشن نے ان دونوں ذرائع سے ہر سرکاری اسکیم کے لیے100 کا تعاون کیا۔ اس کے لیے انہیں جو آن لائن رسیدیں موصول ہوئیں، وہ بی جے پی کے مرکزی دفتر سے جاری کی گئی تھیں۔

پورٹل نریندرمودی ڈاٹ ان/ڈونیشن/پر عطیہ کے لیے پانچ زمرے دیے گئے ہیں – سوچھ بھارت، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ، کسان سیوا، پارٹی فنڈ اور دیگر۔

نمو ایپ عطیات کے لیے پانچ زمرے دکھاتی ہے – سوچھ بھارت، بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ، کسان سیوا، پارٹی فنڈ اور دیگر۔
ارونداکشن نے کہا،’جب ویب سائٹ اور ایپ مرکزی حکومت کی اسکیموں کے نام پر دکھائی دے رہے تھے، تو مجھے فطری طور پرلگاکہ عطیات انہی اسکیموں کے لیے ہے۔ اسی یقین کی وجہ سے میں نے اور دوسرے شہریوں نے تعاون کیا۔’

ارونداکشن کو ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ’، ‘کسان سیوا’ اور ‘سوچھ بھارت’ کے لیے چندہ دینے پر بی جے پی کی رسیدیں موصول ہوئیں۔
اروندکشن نے پھر جنوری اور فروری 2022 کے درمیان ان تینوں اسکیموں کے لیے ذمہ دار وزارتوں کو کئی آر ٹی آئی درخواستیں بھیجیں۔ تمام وزارتوں نے واضح کیا کہ بی جے پی کو ان اسکیموں کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے کوئی اجازت یا خصوصی منظوری نہیں دی گئی تھی۔
جل شکتی وزارت کے گرامین سوچھ بھارت مشن ڈپارٹمنٹ نے اپنے جواب میں کہا، ‘سوچھ بھارت پروجیکٹوں کے لیے کسی این جی او یا فرد کے ذریعے فنڈ اکٹھا کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔’
خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت کی سی پی آئی او رچنا بولیمرا نے بھی آر ٹی آئی کے جواب میں لکھا، ‘بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ اسکیم کے لیے نمو ایپ کے ذریعے فنڈ اکٹھا کرنے کی کوئی خصوصی اجازت نہیں دی گئی ہے۔’
وزارت زراعت کی جانب سے محکمہ کے ڈائریکٹر وجئے راج موہن نے کہا کہ ‘محکمہ کی طرف سے ایسی کسی ایپ کو فروغ نہیں دیا گیا ہے، اور حکومت ہند کسانوں یا کسان برادری سے متعلق کسی بھی فلاحی ایپ کے لیے فنڈ اکٹھانہیں کرتی ہے۔’
دریں اثنا، ارونداکشن نے الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی وزارت سے نمو ایپ اور نریندر مودی ڈاٹ ان کے جواز کے بارے میں 16 سوال پوچھے۔ وزارت نے درخواست وزیراعظم آفس کو منتقل کر دی، جس نے جواب میں کہا کہ ‘ مانگی گئی جانکاری اس دفتر کے ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے۔’
بعد میں یہ درخواست نیشنل ای-گورننس ڈویژن اور مائی جی او وی یونٹ، ڈیجیٹل انڈیا کارپوریشن کو بھیج دیا گیا، جن کا جواب بھی یہی تھا کہ ان کے ریکارڈ میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
کئی کوششوں کے بعد ارونداکشن کو 10 اکتوبر 2023 کو وزیر اعظم کے دفتر سے ٹھوس جواب ملا۔ انہوں نے پی ایم او سے تین سوال پوچھے تھے-
– کیا وزیر اعظم کے نام پر کوئی آفیشل ایپ بنائی گئی ہے؟
– پی ایم او کا ایکس اکاؤنٹ کون چلاتا ہے؟
– اور کیا نمو ایپ کا پی ایم او سے کوئی تعلق ہے؟
پی ایم او نے 16نومبر 2023 کو اپنے جواب میں کہا کہ ‘وزیراعظم کے نام پر کوئی سرکاری ایپ نہیں ہے۔’ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پی ایم او کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کسی ایک فرد کے ذریعہ نہیں بلکہ متعدد عہدیداروں کے اشتراک سے چلائے جاتے ہیں۔
نمو ایپ اور پی ایم او کے درمیان کسی بھی تعلق پر کہا گیا کہ ‘جو معلومات مانگی گئی ہیں وہ اس دفتر کے ریکارڈ کا حصہ نہیں ہیں۔’
تینوں وزارتوں کے ان جوابات سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ بی جے پی کی طرف سے چلائی جانے والی ‘مائیکرو ڈونیشن’ مہم کو مرکزی حکومت یا کسی بھی سرکاری ادارے نے مجاز نہیں بنایا تھا۔
غور طلب ہے کہ8دسمبر 2025 کو ارونداکشن نے چنئی کے پولیس کمشنر اور سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کے ریجنل ڈائریکٹر کو خط لکھ کر معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے وزیر اعظم، چار متعلقہ وزارتوں کے سکریٹریوں اور وزارت داخلہ کو شکایت بھیجی تھی۔
اپنے خط میں انہوں نے کہا،’وزیر اعظم اور بی جے پی صدر کی اپیل پر، مجھ سمیت شہریوں کو یہ یقین دلایا گیا تھاکہ وہ پارٹی کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کی اسکیموں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ لیکن حقیقت میں، رسیدیں بی جے پی کے مرکزی دفتر سے جاری کی گئیں، جبکہ وزارتوں نے ایسی کسی بھی چندہ کی مہم کی اجازت سے انکار کیا ہے۔’
ارونداکشن نے الزام لگایا کہ چندہ لینے کی یہ مہم شفاف نہیں تھی اور عطیہ دہندگان کو یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کی رقم کب اور کیسے حکومت تک پہنچے گی۔
انہوں نے بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کو خط لکھ کر یہ پوچھنے کی کوشش بھی کی کہ مجموعی طور پر کتنی رقم جمع ہوئی اور کیا اسے حکومت کے حوالے کیا گیا، لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔
سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ پہلی نظر میں یہ معاملہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ‘فراڈ، اعتماد کی مجرمانہ خلاف ورزی، مجرمانہ سازش، اور تعزیرات ہند 1860 کے تحت دیگر قابل شناخت جرائم’ سے وابستہ معلوم ہوتا ہے۔ مزید برآں، اگر کسی سرکاری اہلکار کے اس میں ملوث ہونے یا عہدے کے غلط استعمال کی تصدیق ہو جاتی ہے، تو اسے بھی انسداد بدعنوانی ایکٹ 1988 کے تحت جرم تصور کیا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی، یہ معاملہ عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 اور سیاسی جماعتوں کے لیے عطیہ کے قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں بھی آسکتا ہے۔

اروندکشن نے دی وائر کو بتایا، ‘میں نے 7 مارچ 2022 کو بی جے پی کے صدر کو خط لکھا تھا، جس میں پوچھا گیا تھا کہ کیا بی جے پی سرکاری اسکیموں کے نام پر حاصل کیے گئے عطیات کو حکومت کو واپس کرے گی؟ لیکن مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ اگر مرکزی حکومت میری شکایت پر کارروائی نہیں کرتی ہے تو میں عدالت جاؤں گا۔’
انہوں نے کہا کہ سرکاری اسکیموں کے نام پر چندہ جمع کرنا ہندوستانی شہریوں کو گمراہ کرنے اور ‘بڑے پیمانے پر غلط بیانی’ کا معاملہ ہے۔
دی وائر نے اس سلسلے میں بی جے پی کے مرکزی دفتر اور جے پی نڈا کو سوال بھیجے ہیں۔ ان کے جواب موصول ہونے پر اس رپورٹ کو اپڈیٹ کیا جائے گا۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔