
ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمود آباد پر سوشل میڈیا پر اپنے تبصروں کے ذریعے’مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی توہین’ کا الزام لگایا ہے۔ علی نے الزامات کی تردید کی ہے اور کمیشن کے نوٹس کو سینسر شپ کا نیا طریقہ قرار دیا ہے ۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر: فیس بک)
نئی دہلی: ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے 12 مئی کواشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمود آباد کو طلب کیا تھا۔ کمیشن نے الزام لگایا کہ سوشل میڈیا پر ان کے تبصروں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کیا ہےاور ‘مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی توہین’ کی ہے۔
کمیشن نے ‘آپریشن سیندور’ پر محمود آباد کی جانب سے کی گئی دو فیس بک پوسٹس اور اس پر لوگوں کے ردعمل کے اسکرین شاٹس منسلک کیے ہیں۔ کمیشن نے کہا کہ ان پوسٹوں کے ابتدائی جائزے میں کئی تشویشناک پہلو سامنے آئے ہیں —جن میں کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ جیسی خواتین افسران کی توہین،’نسل کشی’، ‘ڈی ہیومنائزیشن اور ‘ہیپوکریسی’ جیسے الفاظ کے استعمال کے ذریعے حقائق کو غلط انداز میں پیش کرنا، فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینااوریکجہتی پر حملہ کرنا، خواتین کی توہین کرنا اوریونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے اخلاقی رہنما خطوط کی خلاف ورزی کرناشامل ہے۔
فیس بک پوسٹس میں کیا لکھا ہے؟
آٹھ مئی کو، جب ہندوستان نے ‘آپریشن سیندور’ شروع کیا، محمود آباد نے ہندوستانی مسلح افواج کی پہلی قومی پریس بریفنگ پر ایک فیس بک پوسٹ شیئر کی۔
انہوں نے لکھا کہ وہ خوش ہیں کہ دائیں بازو کے مبصرین کرنل قریشی کی تعریف کر رہے ہیں،’ لیکن انہیں اتنی ہی بلند آواز میں یہ بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ ہجوم کے ہاتھوں زدوکوب کیے جانے والے، بغیر کسی قانونی کارروائی کے مسمار کیے گئےگھر، اور بی جے پی کی نفرت پھیلانے والی سیاست کے شکار لوگوں کو ہندوستانی شہری کے طور پر تحفظ فراہم کیا جائے۔’
انہوں نے لکھا، ‘دو خواتین افسران کو اپنے نتائج پیش کرتے ہوئے دیکھنا ایک اہم منظر ہے… لیکن آپٹکس کو زمینی حقیقت میں بدلنے کی ضرورت ہے؛ ورنہ یہ صرف منافقت ہے۔’
انہوں نے مزید کہا کہ یہ پریس کانفرنس صرف ایک لمحاتی جھلک – شاید ایک وہم اور اشارہ ہے- اس ہندوستان کا جس نے اس نظریے کو مسترد کردیا جس پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ عام مسلمانوں کوجو زمینی حقیقت جھیلنی پڑتی ہے، وہ حکومت کی طرف سے دکھائی گئی تصویر سے مختلف ہے، لیکن ساتھ ہی یہ پریس کانفرنس یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ تنوع میں اتحاد سے جڑا ہندوستان پوری طرح سے مرا نہیں ہے۔’
ایک اور پوسٹ میں،جس کا عنوان تھا’دی بلائنڈ بلڈ لسٹ فار وار’، انھوں نے ہندوستان اور پاکستان دونوں کے کچھ میڈیا اداروں، مذہبی رہنماؤں اور سیاست دانوں پر جنگی جنون پھیلانے کا الزام لگایا۔
انہوں نے لکھا؛’یہ ریڈکلف سرحد کے دونوں طرف ہو رہا ہے – ہر طرف پاگل لوگ ہیں، لیکن سرحد کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ جنگ کا کیا مطلب ہوتاہے؛ یہ من مانی، غیر یقینی اور بے مطلب موت ہوتی ہے۔’
‘ سوچیے، جب آپ کہتے ہیں’انہیں مٹا دو…’ —آپ دراصل یہ کہہ رہے ہیں کہ تمام بچوں، بزرگوں، اقلیتوں، اس طرف کے امن کے حامیوں اور تمام بے گناہ لوگوں کو مار دو — جو وہی کرنا چاہتے ہیں جو آپ کرنا چاہتے ہیں؛ ایک باپ ، ایک ماں، ایک بیٹی، بیٹا، دادا-دادی ، یا دوست بننا۔’
‘شرمناک’
اس کےبعدایک پریس کانفرنس میں ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ نے علی خان محمود آباد کے تبصروں کو’انتہائی شرمناک’ قرار دیا۔
انہوں نے کہا،’اگر وہ ہماری بیٹیوں کی عزت نہیں کر سکتے تو پروفیسر کیسے اور کیوں بنے؟ وہ ہماری بیٹیوں کو کیا سکھائیں گے؟’ انہوں نے کہا، ‘ان کی پوسٹس سے واضح ہے کہ وہ ملک کے خلاف بغاوت کی ذہنیت رکھتے ہیں۔’ انہوں نے الزام لگایا کہ محمود آباد صرف ہندوستان میں رہتے ہیں لیکن انہیں ملک سے کوئی محبت نہیں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سال 2023 میں بھاٹیہ کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ ‘وہ لڑکیاں جو بوائے فرینڈ کے ساتھ اویو (ایک ہوٹل چین) جاتی ہیں اور بعد میں ریپ اور بلیک میل کی شکایت کرتی ہیں’۔ انہوں نے کہا تھا، ‘آپ جانتے ہیں کہ آپ وہاں ہنومان آرتی کے لیے نہیں جا رہے ہیں۔’
بھاٹیہ نے اشوکا یونیورسٹی سے اپیل کی کہ وہ محمود آباد کے خلاف کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا، ‘اگر وہ کرنل قریشی اور (ونگ کمانڈر) ویومیکا کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں تو وہ ہماری بیٹیوں کو کیا پڑھاتے ہوں گے؟ وہ ان کو کیسے دیکھتے ہوں گے یا ان کے ساتھ کیساسلوک کرتے ہوں گے؟’
اشوکا یونیورسٹی نے محمود آباد کے خیالات سے خود کو الگ کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا۔ یونیورسٹی نے کہا کہ انہوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ‘اشوکا یونیورسٹی اور اس کے تمام ممبران ہندوستان کی مسلح افواج پر فخر کرتے ہیں اور ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔’
‘یہ سینسر شپ اور ہراساں کرنے کی ایک نئی صورت ہے’
چودہ مئی کو جاری ہونے والے ایک پریس بیان میں علی خان محمود آباد نے تمام الزامات کو مسترد کریا۔ انہوں نے کہا، ‘نوٹس کے ساتھ منسلک اسکرین شاٹس [میری پوسٹس کے] یہ واضح کرتے ہیں کہ میرے تبصرے کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا ہے۔’
محمود آباد نے کہا کہ کمیشن نے ان کی پوسٹس کو اس حد تک غلط پڑھا اور اس کی غلط تشریح کی کہ ان کے اصل معنی ہی الٹ دیےگئے اور ایسے مسائل گھڑے گئے جو حقیقت میں موجود ہی نہیں تھے۔
انہوں نے نوٹس کو سینسرشپ کی ایک نئی شکل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کے بیانات سے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہوئی۔
انہوں نے کہا، ‘الزامات کے برعکس، میری پوسٹ میں اس بات کوسراہا گیا تھاکہ مسلح افواج نے پریس کانفرنس کے لیے کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کا انتخاب کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ہماری جمہوریہ کے معماروں کا ہندوستان – جوتنوع میں اتحاد کا ایک خواب تھا- ابھی بھی زندہ ہے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘میں نے تجزیہ کیا اور تبصرہ کیا کہ کس طرح ہندوستانی فوج نے اس بات کو یقینی بنایا کہ کسی فوجی یا شہری ٹھکانے یا ڈھانچے کو نشانہ نہ بنایا جائے، تاکہ کسی غیر ضروری تصادم کو روکا جا سکے۔’
انہوں نے کہا، ‘میں نے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے سوچ اور اظہار رائے کی آزادی کے اپنے بنیادی حق کا استعمال کیا ہے اور ہندوستانی مسلح افواج کی فیصلہ کن کارروائی کی تعریف کی ہے، ساتھ ہی ان لوگوں پر تنقید کی ہے جو نفرت پھیلاتے ہیں اور ہندوستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔’
‘میری امیج کو خراب کیا جا رہا ہے’
دی وائر سے بات کرتے ہوئے محمود آباد نے کہا کہ مرکزی دھارے کے میڈیا نے ان کا غلط حوالہ دیا ہے اور انہوں نے کسی بھی پوسٹ کو حذف کرنے سے بھی انکار کیا، جیسا کہ کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا، ‘ایک نیوز آرگنائزیشن نے میری پوسٹس کا انتخاب کیا اور انھیں اس انداز میں پیش کیا کہ ان کا مطلب ہی بدل گیا۔ یہ صرف حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا نہیں بلکہ میری شبیہ کو داغدار کرنے اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ اس مضمون کے متن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ میری پوسٹس ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں، جبکہ وہ ابھی تک میرے فیس بک پر موجود ہیں۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )