مسلمان افسر محض علامت، اس سے کمیونٹی کے تئیں حکومت کی بے رخی نہیں دھل پائے گی

جس حکومت نے اب صوفیہ قریشی کو اپنا چہرہ بناکرپیش کیا ہے، وہ ایک فوجی کی بیوی کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ صرف اس لیےاسےتنہا چھوڑ دیا گیا کہ وہ اپنی  تکلیف کے ساتھ اور اس کے باوجودمسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔

جس حکومت نے اب صوفیہ قریشی کو اپنا چہرہ بناکرپیش کیا ہے، وہ ایک فوجی کی بیوی کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ صرف اس لیےاسےتنہا چھوڑ دیا گیا کہ وہ اپنی  تکلیف کے ساتھ اور اس کے باوجودمسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔

سات مئی کو 'آپریشن سیندور' کی میڈیا بریفنگ میں کرنل صوفیہ قریشی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

سات مئی کو ‘آپریشن سیندور’ کی میڈیا بریفنگ میں کرنل صوفیہ قریشی۔ (تصویر بہ شکریہ: پی آئی بی)

جس وقت ہندوستانی فوج کی افسر کرنل صوفیہ قریشی دہلی میں دنیا کو بتا رہی تھیں کہ ہندوستان نے 22 اپریل کو پاکستان کو جواب دے دیا ہے، اسی وقت ہندوستان کے ایک کونے اڑی میں رہنے والی فاطمہ پوچھ رہی تھی کہ وہ اپنے تین بچوں کو لے کر کہاں جائے؟

صوفیہ قریشی محض  ایک علامت ہے جبکہ اڑی کی فاطمہ ایک سیدھا سیدھانظر آنے والا منظر ، کوئی  علامت نہیں۔ وہ صوفیہ کی علامت کی جمالیات کو ختم کر دیتی ہے۔ اس کا سوال ایک شہری کا اپنی حکومت سے سوال ہے۔ اس قومی لمحے میں اس سوال کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

ہندوستانی قوم پرستی کو خوبصورت بنانے کے لیےصوفیہ قریشی کااستعمال  ہے۔ تین بچوں والی فاطمہ  کے سر پر کوئی فوجی ٹوپی نہیں ہے۔ صوفیہ غیر معمولی ہے، فاطمہ بالکل عام ۔

صوفیہ قریشی اس وقت ہندوستانی قوم پرستی کی ترجمان ہیں۔ اس لیے قابل قبول ہیں۔ہندوستان نے، جو گزشتہ 10 سالوں میں ہندوراشٹر میں تبدیل ہوتا چلا گیا ہے، صوفیہ کو اپنا نمائندہ بنایا ہے۔ ویومیکا سنگھ کے ساتھ۔

صوفیہ قریشی کی آواز ہمارے مشتعل اعصاب کو سکون دینے کے لیےبہت مفید ہے۔ لیکن ایک عام گھریلو خاتون فاطمہ کا سوال ہمیں الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ وہ حکومت سے سوال کر رہی ہے کہ اس کی حفاظت کے انتظامات کیوں نہیں کیے گئے۔

فاطمہ کا سوال حکومت کو اس کی ذمہ داری یاد دلاتا ہے اور اس لیے ہم سب کے لیے تکلیف دہ ہے۔ یہ وقت صرف حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے، اس سےسوال کرنے کا نہیں۔ کیا ہم جنگ کے آداب نہیں جانتے؟

‘سرحد کے قریب ایک ہندوستانی گاؤں پر پاکستانی فائرنگ سے 15 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔’ یہ ایک عام سی معلومات ہے۔ ہم ابھی یہ نہیں سننا چاہتے۔ یہ خبر کسی اخبار کی سرخی نہیں بنے گی۔ کوئی ٹی وی چینل چیخ چیخ کر ان کے لیے انصاف کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ ان کے قتل میں ایسی کوئی ڈرامائیت نہیں ہے جیسا کہ 22 اپریل کو بائی سرن میں سیاحوں کے قتل میں تھی۔ یہ مارے گئے یا انہیں قتل کیا گیا؟جو  مارے گئے وہ مسلمان تھے، سکھ تھے۔ بچے، مرد، عورت، سب۔ ان پر حملہ ہندوستان پر حملہ ہے یا نہیں؟

یہ سارے  لوگ بچ سکتے تھے۔ اگر حکومت اپنا معمولی کام کرتی۔ یہ بات اُڑی کی فاطمہ اور پونچھ کی رنویر کور کہہ رہی ہیں۔ وہ پوچھ رہی ہیں کہ ہم سب سرحد کے صرف 7 کلومیٹر اندر ہیں۔ پاکستان کی فائرنگ کی زد میں۔ وہ پوچھ رہی ہیں کہ ان کی حفاظت کا کوئی انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟ کوئی وارننگ کیوں نہیں دی گئی؟ کیوں انہیں بچاؤ کی کوئی ڈرل نہیں کرائی گئی؟ کیوں ان کے لیے بنکر نہیں بنائے گئے؟ انہیں وہاں سے ہٹا کر جموں جیسی محفوظ جگہ پر کیوں نہیں پہنچایا گیا؟

رنویر وہی پوچھ رہی ہیں جو فاطمہ پوچھ رہی ہے۔ کیا حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان وہاں گولہ باری کرے گا؟ یہ ڈرل دہلی میں ہو رہی تھی، شمالی ہندوستان کے شہروں میں ہو رہی تھی۔ جہاں ہونا چاہیے تھا، وہاں نہیں۔کیوں حکومت کو یہ سادہ سی بات نہیں سوجھی۔

فاطمہ اور رنویر پوچھ رہی ہیں کہ حکومت اپنا معمولی  کام بھی کیوں نہیں کرتی؟

یہ سمجھنے کے لیے کسی انٹلی جنس کی ضرورت نہیں تھی کہ پاکستان فائر کھول سکتا ہے۔ اس کے لیے انتظامی چوکسی کی ضرورت تھی۔ ہر چیز پر نظر رکھنے والی مؤثر حکومت ان علاقوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔ جب وہ پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہی تھی تو اسے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے تھی کہ اڑی اور پونچھ جیسے سرحدی علاقوں پر فائرنگ کرنا پاکستان کے لیے سب سے آسان ہے۔ وہ یہ اندازہ کرکے ان علاقوں کے لوگوں کی حفاظت کا انتظام کر سکتی تھی۔ اس نے ایسا نہیں کیا اور ان علاقوں کے لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

انتظامیہ اور بہادری میں ہمیں کیا چاہیے؟

بہادری کا مظاہرہ ہمیشہ متاثرکن ہوتاہے۔ فرض کیجیے کہ اگر وہاں سیکورٹی اہلکار ہوتے تو یا تو دہشت گرد وہاں نہ آتے یا پھر ان کا مقابلہ کیا جاتا۔ تو وہ صرف ہندوؤں کو نہیں مار پاتے۔ اگر بائی سرن میں سیکورٹی کا انتظامی کام ہو جاتا تو ‘آپریشن سیندور’کی بہادری کی ضرورت نہ پڑتی۔

لیکن پھر کوئی خبر نہیں بنتی۔ کوئی منظر نہیں بنتا۔ کوئی ہندو زخم نہیں بنتا۔’آپریشن سیندور‘ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کسی صوفیہ قریشی کو ویومیکا سنگھ کے ساتھ کھڑا کرنے کی ڈرامائیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔

لیکن ایک حکومت جو صرف اور صرف سماج میں تفرقہ پیدا کرنے میں مصروف ہو، جس کی پوری توجہ صرف اور صرف مسلمانوں کو کنٹرول کرنے پر ہو، جو صرف اور صرف سماج میں انتشار پھیلانے کے لیے پالیسیاں بنا رہی ہو، وہ سماج کے کسی بھی طبقے کے تحفظ کی فکر کیسے کر سکتی ہے؟

صوفیہ اور ویومیکا کو ایک ساتھ دیکھ کر سیکولر لوگ خوش ہو رہے ہیں کہ یہی ان کا ہندوستان ہے۔ یہ تصویر ان کی حکومت نے بنائی ہے جس کے سربراہ نے حال ہی میں مسلمانوں کو پنکچر بنانے والا کہا تھا۔

وہ سب جانتے ہیں کہ یہ ان کا ہندوستان نہیں ہے۔ ان کا ہندوستان وہ ہے جہاں اس تصویرکے آنے تک ایک ہندو خاتون ہمانشی نروال پر ہر طرف سے صرف یہ کہنے کے لیے حملہ کیا جا رہا تھا کہ اس کے فوجی شوہر کی دہشت گردانہ حملے میں ہلاکت کا بدلہ مسلمانوں اور کشمیریوں پر حملہ کر کے نہیں لینا چاہیے۔ جس حکومت نے صوفیہ کو اپنا چہرہ بناکر پیش کیا ہے وہ ایک فوجی کی بیوی کے ساتھ نہیں کھڑی ہوئی۔ اسے صرف اس لیے تنہا چھوڑ دیا گیا کہ وہ اپنے مصائب کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔

ایک ہندو کو اجازت نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرے۔ انسانی جذبات کا مظاہرہ کرے۔ اسے صرف ہندوتوا دی راشٹروادی ہونے کی اجازت ہے۔

دراصل جوہمانشی نروال نے کہا،  وہ ہندوستانی حکومت کو کہنا چاہیے تھا۔ لیکن اس نے اپنے لوگوں کو مسلمانوں کی تذلیل اور مارنے کی آزادی دی۔ جب مسلمانوں اور کشمیریوں پر حملہ ہوا تو اس نے خاموشی اختیار کی۔یہ گالیاں جن مسلمانوں کو دی جا رہی تھیں ان میں صوفیہ، ان کا خاندان شامل ہے یا نہیں؟

فرض محال ہی سہی تصور کیجیے۔ اور مان لیجیے کہ  فاطمہ اور رنویر پریس کانفرنس کر رہی ہیں۔ کیا ہمارے ٹی وی کیمرے ان کے آگے کھڑے ہوں گے؟ کیا وہ ویسا ہی فریم بنائیں گے جو اس نے صوفیہ اور ویومیکا کا مختلف زاویوں سے بنایا؟ کیا فاطمہ اور رنویر کو دیکھ کرکہیں گے یہ ہمارا ہندوستان ہے؟

ہم جواب جانتے ہیں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)