
ایک حالیہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں صحافیوں کے خلاف فوجداری مقدمات میں عدالتی عمل ہی سزا بن گیا ہے۔ اکثر معاملات میں تفتیش یا مقدمے کی سماعت مکمل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے صحافیوں کو، خصوصی طور پر چھوٹے شہروں میں، مالی مشکلات، ذہنی دباؤ اور کیریئر پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

(السٹریشن: دی وائر)
نئی دہلی: ہندوستان بھر میں صحافیوں کے لیے ‘عدالتی عمل بذات خود ایک سزا بنتا جا رہا ہے’ – یہ بات منگل کو جاری کی گئی ایک نئی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔ یہ رپورٹ کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس کے ٹرائل واچ انیشیٹو، نیشنل لاء یونیورسٹی، دہلی اور کولمبیا لاء اسکول میں انسانی حقوق کے ادارے نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کو فوجداری مقدمات میں پھنسانے کے عمل میں ہر مرحلے کو طول دیا جاتا ہے، جس سے انہیں مالی مشکلات، ذہنی پریشانی، خوف اور تشویش سے گزرنا پڑتا ہے اور ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں شدید خلل پڑتا ہے۔
‘ پریسنگ چارجز: اے اسٹڈی آف کریمینل کیسیزاگینسٹ جرنلسٹس اکراس اسٹیٹ ان نڈیا’ کے عنوان سے رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘244 مقدمات میں سے 65 فیصد سے زیادہ 30 اکتوبر 2023 تک مکمل نہیں ہوئے تھے۔’
اس کے علاوہ، 40 فیصد مقدمات میں پولیس نے تفتیش مکمل نہیں کی۔ اور صرف 16 مقدمات (6فیصد) میں ہی کیس کا حتمی تصفیہ ہوا – جس میں سزا یا بری ہونا بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی پایا گیا کہ چھوٹے شہروں یا قصبوں میں کام کرنے والے یا مقامی خبر رساں اداروں کے لیے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو بڑے شہروں میں کام کرنے والوں کے مقابلے میں گرفتار کیے جانے کا امکان زیادہ تھا۔
رپورٹ کے مطابق، انصاف کے نظام کے بارے میں صحافیوں کا تجربہ بھی ان کے مقام اور سماجی حیثیت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔
‘جہاں بڑے شہروں میں صحافیوں کی گرفتاریاں کل مقدمات کا 24 فیصد تھیں، وہیں چھوٹے شہروں/قصبوں میں یہ تعداد بڑھ کر 58 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کا تعلق اس بات سے تھا کہ صحافیوں کو انصاف تک کتنی رسائی حاصل ہے۔’
اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ بڑے شہروں میں رہنے والے صحافیوں کو 65 فیصد مقدمات میں گرفتاری سے عبوری راحت ملی، جبکہ چھوٹے شہروں میں صرف 3 فیصد صحافیوں کو یہ راحت مل سکی۔
رپورٹ کے مطابق، اس کی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ یہ راحت اکثر سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی، جس کی واحد بنچ دہلی میں ہے۔ ہندی یا دیگر علاقائی زبانوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو انگریزی میں کام کرنے والے صحافیوں کے مقابلے زیادہ منفی تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔
‘ہمارا ڈیٹا ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتا ہے کہ اگر ‘عمل ہی سزا ہے’، تو یہ سزا دہلی سے دوری کے تناسب میں بڑھ جاتی ہے۔’
یہ مطالعہ ایک نئے ڈیٹا سیٹ کے تجزیے پر مبنی ہے، جس میں ہندوستانی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 427 صحافیوں کے خلاف 423 مجرمانہ معاملوں کی جانکاری شامل ہے۔ اس میں 2012 سے 2022 کے درمیان صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے 624 مجرمانہ واقعات شامل ہیں۔
رپورٹ کے لیے 48 صحافیوں سے انٹرویو کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، صحافیوں کے خلاف مقدمات ان کی صحافت کو شدید طور پرمتاثر کرتے ہیں؛
قابل ذکر ہے کہ 58فیصد صحافیوں نے مالی مشکلات کا سامنا کرنے کی بات کہی،56فیصد نے خوف یا تشویش کا اظہار کیا،73فیصد نے کہا کہ اس نے ان کی ذاتی زندگی کو متاثر کیا،اور 56فیصد نے کہا کہ اس سے ان کے کیریئر پر منفی اثر پڑا۔
اس کے علاوہ صحافیوں کے اہل خانہ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
‘میری گرفتاری کے بعد میرا خاندان بہت پریشان ہوا، خاص طور پر میرے چھوٹے بچے، جو بہت فکرمند تھے۔ ایسے معاملات صرف ایک فرد کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ پورے خاندان کو تباہ کر دیتے ہیں۔ بالآخر وہ آپ کو گھٹنوں کے بل لے آتے ہیں۔’ ایک صحافی نے محققین کو بتایا۔
ٹرائل واچ کے قانونی ڈائریکٹر اسٹیفن ٹاؤنلی نے کہا، ‘ہمارا مقصد یہ اجاگر کرنا ہے کہ کس طرح مختلف ممالک اور حکومتیں صحافیوں کو نشانہ بنانے اور اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے لیے جدید طریقے استعمال کر رہی ہیں۔یہ رپورٹ عالمی بحث میں ایک نئے تناظر کا اضافہ کرتی ہے اور ہندوستانی تناظر میں اہم ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔’
نیشنل لاء یونیورسٹی، دہلی کے پروفیسر انوپ سریندر ناتھ، جنہوں نے اس مطالعہ کی قیادت کی، انہوں نے کہا،’اس رپورٹ کی آئینی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح آئین کے ذریعے تحفظ یافتہ پریس کی آزادی کو عام فوجداری قانون اور طریقہ کار کے ذریعے ختم کیا جا رہا ہے۔’
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صحافیوں کے خلاف مقدمات عام طور پر مبہم ہوتے ہیں اور آزادی اظہار کے ہندوستان کے آئینی تحفظات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ نیا انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) جو 2024 میں نافذ ہوا تھا نے بھی ان مبہم قوانین میں کوئی خاص اصلاحات نہیں کی ہیں۔
‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان قوانین کے غلط استعمال کا امکان اب بھی باقی ہے۔ اس کے علاوہ،بی این ایس میں ایک نئی غیر واضح شق شامل کی گئی ہے – دفعہ 195(1)(ڈی) – جو ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد، سالمیت یا سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی جھوٹی یا گمراہ کن معلومات’ کو جرم بناتی ہے۔
رپورٹ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں صحافت ایک خطرناک کام ہے۔
‘صرف پیشہ ور صحافی ہی نہیں بلکہ وہسل بلورز، ‘سٹیزن جرنلسٹ’ اور دیگر بھی ان دھمکیوں اور قانونی چارہ جوئی کے خطرے کے دائرے میں آتے ہیں۔’