پاکستان اور ہندوستان کے مابین ٹریک ٹو سفارت کاری کا زوال

دونوں ممالک خاص طور پر ہندوستانی میڈیا کی موجودہ روش نے بھی ٹریک ٹو کو زوال کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔

دونوں ممالک خاص طور پر ہندوستانی میڈیا کی موجودہ روش نے بھی ٹریک ٹو کو زوال کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔

(علامتی تصویر: رائٹرز)

(علامتی تصویر: رائٹرز)

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ ہندوستان اور پاکستان جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے۔ ماضی میں جب بھی ایسی کشیدگی پیدا ہوئی، تو اس میں کمی کے لیے امن دوست آوازوں نے اپنا کردار اد اکیا۔ اس بارلیکن امن کی حامی ایسی آوازیں کیوں خاموش رہیں؟

پاکستان اور ہندوستان کے ریٹائرڈ فوجی افسران، سفارتکاروں، انٹلی جنس اہلکاروں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل غیر سرکاری سطح پر کی جانے والی پس پردہ سفارت کاری یا ٹریک ٹو ڈپلومیسی دونوں پڑوسی ممالک کے مابین کشیدگی کم کرنے اور قیامِ امن کو برقرار رکھنے میں ایک خاموش لیکن بنیادی کردار ادا کرتی رہی ہے۔

ٹریک ٹو سے وابستہ کئی افراد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ  سول سوسائٹی اس ٹریک ٹو ڈپلومیسی  کا ایک اہم جزو رہی ہے اور اب اس کی عدم دلچسپی اور دونوں ممالک میں تقسیم ہند کے وقت کی نسل کے معدوم ہونے کے عمل نے پس پردوہ سفارت کاری کو بڑی حد تک غیر مقبول بنا دیا ہے۔

 اس سے بڑھ کر پاکستان اور ہندوستابن میں سرگرم ٹریک ٹو گروپس کو امن کےخواہاں کئی یورپی و دیگر ممالک کے غیر سرکاری گروپ فنڈ فراہم کرتے تھے تاہم اب ان گروپوں نے یہ فنڈنگ بند کردی ہے۔

اندازہ ہے کہ کبھی 15 سے زائد فعال گروپ پاک-ہندوستان مکالمے کو زندہ رکھنے کا کام کرتے تھے۔ اب یہ تقریباً غیر مؤثر ہو چکے ہیں- جن تنظیموں نے ٹریک ٹو میں کلیدی کردار ادا کیا ان میں میڈیا سے متعلق سافما یعنی ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن، اور پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی یعنی پی آئی پی ایف ڈی قابل ذکر ہیں۔ یہ تنظیمیں اعتماد سازی اور عوامی تعلقات کی بحالی میں ایک بڑا کردار ادا کرتی تھیں۔

ہندوستانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں ہندوستانی اراکین پارلیامان کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر گیا تھا۔ پاکستانی صحافی امتیاز عالم، جنہوں نے سافما کے مقامی ذمہ دار ہونے کی وجہ سے اس گروپ کی میزبانی کی تھی، کا کہنا ہے کہ وفد میں تمام پارٹیوں کے نمائندے شامل تھے، جنھوں نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا نفاز کروانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔

اس وفد میں بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو بھی شامل تھے، جہنوں نے پاکستانی سامعیں کو خوب لبھایا۔ وہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی سڑکوں پر دکانداروں اور ریڑھی والوں سے بات چیت کرتے ہوئے  بھی نظر آتے تھے۔ سال 2004 میں ہندوستانی صحافیوں کا ایک وفد پاکستان اور پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر گیا، جس کے نتیجے میں ایک بڑی پیش رفت ہوئی۔

ان کے مشورہ پر حکومت نے لائن آف کنٹرول پر سرحدی آمد و رفت کی اجازت دی اور دونوں ملکوں نے کشمیر میں چار مقامات پر سرحد کھول دی، جہاں عوامی رابطوں اور دوطرفہ تجارت کا آغاز ہوا۔ امتیاز عالم کہتے ہیں،’یہ سب اسی وفد کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔’

شائستگی کی موت

وزیر اعظم نریندر مودی کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد ٹریک ٹو کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ دوسری طرف ٹی وی اسٹوڈیوز نے بھی اپنی ریٹنگزیا ٹی آرپی کی ریس میں جنگی جنون برپا کروانے کی ترجیح دی۔ حال ہی میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں  پہلگام میں سیاحوں پر کیے گئے حملے اور اس کے بعد کے واقعات نے صرف آن لائن جنون کو بڑھاوا دیا۔ اس قومی جنون نے امن کی آوازوں کو دبا دیا اور دونوں حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔

ہندوستانی تھنک ٹینک سینٹر فار پیس اینڈ پروگریس کے کنوینر او پی شاہ  کہتے ہیں،’اس وقت سے بہتر کوئی لمحہ نہیں ہو سکتا کہ سیاسی دانش مندی دکھائی جائے اور پرامن حل نکالا جائے۔’  پہلگام حملے کے دس دن گزرنے کے بعد دونوں ملکوں کے امن پسند کارکنوں نے بمشکل ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس کا اثر تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔

پاکستان اور ہندوستان کے مابین  ٹریک ٹو  سفارت کاری کے سلسلے میں کی گئی متعدد کوششوں کا حصہ رہنے والے سینئر ہندوستانی صحافی ونود شرما افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں،’نفرت نے امید کو شکست دے دی ہے۔ جو امن کی بات کرتا ہے اسے غدار کہا جاتا ہے۔‘

خوف کی فضا اور قوم پرستی کا غلبہ

پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی سے وابستہ ریتا منچندا کہتی ہیں،’ہندوستان میں امن کے لیے کام کرنے والے کارکنوں میں خوف کی فضا ہے۔ آج ٹریک ٹو دونوں ملکوں میں یتیم ہے۔ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا صرف دشمنی کو ہوا دے رہے ہیں۔‘

سال 2008 کے ممبئی حملوں کے بعد سے ہی ٹریک ٹو نیٹ ورک زوال کا شکار ہو گیا تھا۔ اگرچہ اب سرکاری طور پر دونوں ممالک کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ہر ہفتے رابطہ میں رہتے ہیں، مگر سول سوسائٹی کی سطح پر روابط نہ ہونے کےبرابر ہیں۔

ہندوستان کے وزیراعظم مودی نے ان  کاوشوں کو ہمیشہ ہی شک کی نگاہ سے دیکھا ہے اور ان کے لیے ‘خان مارکیٹ گینگ’الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ ان کی حکومت کی طرف سے فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ کو سخت کرنے سے امن کی خواہاں غیر ملکی اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے فنڈنگ کا حصول مشکل بنا دیا گیا۔

یورپی اداروں نے بھی ہندوستان پاکستان کی سول سوسائٹی سے منہ موڑ رکھا۔ افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد ان کی بھی ترجیحات بدل گئیں اور دوسری طرف یورپ میں کساد بازاری کی وجہ سے ان کی اپنی فنڈگ کے ذرائع خشک ہو گئے۔

کچھ عطیہ دہندگان نے تو افغانستان کا رُخ کیا اور کچھ نے دہلی و اسلام آباد کی غیر دلچسپی دیکھ کر امید ہی چھوڑ دی۔

ناقدین کہتے ہیں کہ ٹریک ٹو ہمیشہ اشرافیہ کے درمیان محدود رہا۔ ایسے افراد کے مابین جو تقسیمِ ہند کی یادیں یا سرحد پار رشتہ داریاں رکھتے تھے، مگر نئی نسل اس سے پوری طرح کٹی ہوئی تھی۔

’یہ ملاقاتیں محض جذباتی نقطہ نظر سے اہم تھیں، نوجوانوں کے لیے ان کے کوئی معنی نہیں۔ ‘ یہ بات ایک سابق ہندوستانی امن کارکن نے کہی، جو اب قوم پرست نظریہ کے ہراوال سپاہی بنے ہوئے ہیں اور اپنی تقریریوں میں پاکستان اور مسلمانوں پر تنقید کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے ہیں۔

ریتا منچندا بھی اس نکتے سے اتفاق کرتی ہیں،’ہم نے کہیں نہ کہیں نوجوان نسل کو کھو دیا ہے۔ آج کی نسل نفرت انگیز وائرل مواد سے متاثر ہے، مشترکہ ماضی کی یادوں سے نہیں۔ یہ خلا خطرناک ہے۔ تاہم کچھ نوجوانوں کے اقدامات آج بھی امید دلاتے ہیں۔’

میڈیا کا کردار

دونوں ممالک خاص طور پر ہندوستانی میڈیا کی موجودہ روش نے بھی ٹریک ٹو کو زوال کی وادی میں دھکیل دیا ہے۔ کارگل جنگ کے بعد ٹی وی میڈیم نے کلیدی پوزیشن حاصل کی تھی اور اس میڈیم کو امن کا نقیب نہیں بنایا جاسکا۔ باقی رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کی۔

ساؤتھ ایشیا پیس ایکشن نیٹ ورک کی صدر اور پاکستان اور ہندوستان کے مابین دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کے ایک اقدام امن کی آشا کی ایک سرگرم کارکن رہنے والی بینا سرور شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سول سوسائٹی کو امن کی قیمت کا اندازہ ہو گا۔

اس موقع پر وہ ایک سوال پوچھتی ہیں،’اگر فرانس اور جرمنی جو ایک لمبےعرصے تک ایک دوسرے کے دشمن رہے اور خونریز جنگیں بھی لڑیں، یورپی یونین کے رکن بن کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں، تو ہندوستان اور پاکستان اچھے ہمسائے کیوں نہیں بن سکتے؟‘

(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کایہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)