ہندوپاک کشیدگی کے درمیان ’بائیکاٹ ترکیہ‘ کا مطلب کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

سودیشی جاگرن منچ کے اراکین کا جمعہ 16 مئی 2025 کو نئی دہلی میں ترکی کے خلاف احتجاج۔ تصویر: پی ٹی آئی

جموں و کشمیر کے پہلگام پہاڑو ں میں سیاحوں کی ہلاکت اور اس کے بعد پاکستان کے ساتھ محدود جنگ میں عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق، ہندوستان میں سارا غصہ ترکیہ پر اتارا جا رہا ہے۔

کہیں تجارت یا سیاحت کا بائیکاٹ، تو کہیں ترکیہ کو فوجی طریقے سے گھیرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

حیرت تو یہ ہے کہ سرکاری ترجمان نے اس پاگل پن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ نے پہلگام واقع کی مذمت نہیں کی۔ ایسی بے خبری بھی کیا۔ ترک وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر وہ بیان ا بھی بھی موجود ہے، جو 22اپریل کو ہی ریلیز کیا گیا تھا، جس میں پہلگام واقعہ کی  شدیدمذمت کی گئی تھی۔

وزیرا عظم نریندر مودی غالباًامریکی صدر جارج بش کے نو گیارہ حملوں کے بعد دنیا کو دیے پیغام کی کاپی کر رہے ہیں کہ یاتو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا خلاف ہیں۔ غیر جانبدار رہنے کا سوال ہی نہیں ہے اور جو خلاف ہیں، ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایسی دوٹوک باتیں سفارتی طور پر تو کسی سپر پاور کو بھی زیب نہیں دیتی ہیں۔ ہندوستان جیسے درمیانہ درجے کے پاور کے لیے جو ابھی ایک موثر ایشیائی علاقائی طاقت بننے کے  ابتدائی مراحل میں ہی ہے، یہ غیر حقیقت پسندانہ رویہ انتہائی نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ہندوستان کے اندر گودی میڈیا کے ذریعے عوام کو اپنی فوجی اور سفارتی کامیابیا ں بتاکر ایک جنون تو پیدا کیا جاسکتا ہے، مگر بین الاقوامی طور پر حقائق کو چھپانا ناممکن ہوتا ہے۔

سال 2019میں پلوامہ کے واقعہ کے بعد جس طرح کی حمایت ہندوستان کو حاصل ہوئی تھی،اس وقت واضح طور پر مفقود ہے۔ دنیا بھر کے فوجی ماہرین متفق ہیں کہ اس محدود جنگ کے دوران ہندوستان کے چند انتہائی جدید رافیل طیارے چینی طیاروں اور ان کی فراہم کردہ تکنیک کی وجہ سے گرائے گئے ہیں۔

اس لیے اگر پاکستان کو دفاعی ساز و سامان دینے کا معاملہ ہے، تو یہ غصہ چین پر نکالنا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ حملوں کی جانکاری ہونے کے باوجود اس کا سد باب کرنے کے بجائے، ہلاکتوں اور نقصان کے بعد ہی دنیا بھر میں پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا ڈھونڈورا پیٹا جاتا ہے اور داخلی طور پر اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

 ایک ملک میں حال ہی میں رپورٹروں اور تھینک ٹینک کے اسکالروں کے لیے ہندوستان نے بریفنگ کا انتظام کیا تھا۔  چونکہ اسی دن بائیکاٹ ترکیہ کا ٹرینڈ چل رہا تھا، اس لیے جب سوالات کیے گئے کہ اس ملک کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو بتایا گیا کہ پاکستان نے جو 300 سے 400 ڈرونز استعمال کیے، وہ مبینہ طور پر ترکیہ کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے۔

اب اس محفل میں فوجی ماہرین بھی شامل تھے، تو انہوں نے ان ڈرونز کی تصویریں دکھانے کا مطالبہ کردیا۔ جو پریزنٹیشن دی جارہی تھی، اس میں صرف چینی ملٹری ڈرون نظر آرہے تھے۔

پوچھا گیا کہ کیا ترکیہ کے جدید ترین بیرکتر ٹی بی سیریز کا کوئی ملٹری ڈرون پاکستان نے استعمال کیا، تو جواب نفی میں تھا۔ لے دے کے بس اتنا پتہ چلا کہ پاکستان نے ترکیہ کے سونگر ڈرون نگرانی کے لیے استعمال کیے تھے۔ان کا رینج بھی زیادہ نہیں ہوتا ہے۔

اب اگر ان سے پوچھا جائے کہ نگورنو کاراباخ کی جنگ میں تو ہندوستان نے آکاش میزائل اور ڈیفنس سسٹم کے علاوہ جنگی جہاز اور دیگر ساز و سامان آرمینیا کو فراہم کر دیے تھے، وہ کس کھاتے میں آتا ہے؟ ترکیہ نہ آذربائیجان نے اس کو کبھی ایشو نہیں بنایا، تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔

 ویسے تو دنیا  بھر میں ترکیہ نے اپنے آپ کو ڈرون پاور کے بطور منوا لیا ہے۔ 15مئی کو جب یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی انقرہ میں تھے، تو اپنے ملک کے سفارت خانہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 24فرروری 2022کو جب روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا، تو انہوں نے دارالحکومت کیف کے ایر پورٹ پر تقریبا ً قبضہ کر لیا تھا اور اگلے چند گھنٹوں میں وہ دارالحکومت پر قبضہ کرکے پورے ملک کوکنٹرول کرنے کے قریب تھے۔ جس چیز نے یوکرین کو بچایا اور جنگ نے طول کھنچا وہ ترکیہ کے بیرکتر ڈرون تھے۔

انہوں نے روسی ایر ڈیفنس سسٹم کو چکمہ دیکر روسی ٹینکوں کو اس حد تک تہس نہس کر ڈالا کہ ان کو پسپا ہونا پڑا۔ انہی ڈرونز نے شام، لیبیا، آذربائیجان، ایتھوپیا سمیت کئی محاذوں پر جنگ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ بات اب طے ہے کہ پاکستان نے یہ ڈرونز استعمال نہیں کیے اور چینی ڈرونز پر ہی انحصار کیا ہے۔  جبکہ نگرانی اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے مقصد سےترک ’سونگار‘ ڈرونز استعمال کیے۔

اس دعویٰ کی پو ل کھلنے کے بعد بتایا گیا کہ ناراضگی کی وجہ کراچی میں ترک جنگی بحری جہازوں کی آمد اور اسلام آباد میں ترک فوجی طیارے کی لینڈنگ ہے۔ جن کی تصاویر پاکستانی فوج کے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر ہوگئی۔ دراصل جنگی بحری جہاز کوریا سے روانہ ہوکر استنبول کی طرف رواں تھا اور ایندھن لینے کے لیے کراچی میں رک گیا تھا۔

انقرہ میں ذرائع کا کہنا ہے کہ 7 مئی کو جب ہندوستان نے پاکستان کے اندر میزائلوں سے حملہ کیا، تو تو ترک صدر رجب طیب اردوان نے جنوبی ایشیا کے امور سے متعلق اپنی حکمراں جماعت آق پارٹی اور قریبی مشیروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس بلایا۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ اجلاس محض 10 منٹ جاری رہا اور صدر کا پیغام نہایت واضح تھا: ضبط و تحمل اپنایا جائے اور خطے میں امن یقینی بنایا جائے۔

انقرہ اور استنبول میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پرامن تعلقات ترکی کے اسٹریٹجک مفاد میں ہیں، لیکن اگر مکمل جنگ چھڑ جاتی ہے تو عسکری روابط کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکیہ کے پاس پاکستان کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ ماضی میں پاکستان کی فضائیہ نے ترکیہ کی مدد کی ہے، خواہ وہ 1973 میں یونان کے ساتھ قبرص کی جنگ ہو یا شام کے حالیہ تنازعات۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

جو چیزیں ہندوستان سے آتی ہیں جیسے باسمتی چاول وغیرہ، وہ پاکستان سے بھی دستیاب ہے۔ اگر ترکیہ جوابی اقدام کرتا ہے، تو اس سے ہندوستانی معیشت کو زیادہ نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ تجارت کا  بیلینس ہی ہندوستان کی طرف ہے۔

مزید یہ کہ تقریباً 200 بڑی بھارتی کمپنیوں کے دفاتر استنبول، ازمیر اور انتالیہ میں ہیں، جہاں سے وہ یورپ میں اپنی تجارت کو کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ترکی چونکہ یورپی کسٹمز یونین کا رکن ہے، اس لیے ہندوستانی کمپنیوں کو یہاں کام کرنے میں لاگت میں بچت ہوتی ہے۔

پندرویں صدی میں عثمانی اور مغلیہ سلاطین میں خط و کتابت سے لے کر مشترکہ صوفی روایات اور لسانی مماثلتوں تک،  غیر منقسم ہند-ترک تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ 1912 میں بلقان کی جنگوں کے دوران،  ڈاکٹر ایم اے انصاری جو بعد میں مسلم لیگ اور پھر انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بنے — زخمی ترک سپاہیوں کا علاج کرنے کے لیے ایک طبی مشن لے کر ترکیہ پہنچے۔

ان کے ساتھ علی گڑھ کالج کے طالبعلم  عبد الرحمان صمدانی عرف پشاوری بھی تھے — جنہوں نے اپنا سب کچھ بیچ کر ترکوں کی مدد کرنے کے لیے استبول جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کے باقی ساتھی مشن مکمل کرکے تو واپس ہندوستان آگئے، مگر وہ ترکیہ میں ہی مقیم رہے۔وہ مصطفیٰ کمال اتا ترک کے قریبی رفیق بنے اور گیلی پولی کی جنگ میں حصہ لیا۔

جب اتا ترک نے انادولو نیوز ایجنسی قائم کی تو وہ اس کے پہلے رپورٹر مقرر ہوئے۔ ان کا تعلق ایک ایسے کشمیری خاندان سے تھا جو بارہمولہ سے پشاور ہجرت کر گیا تھا۔

ان کے چھوٹے بھائی محمد یونس گاندھی خاندان کے قریبی تھے اورہندوستان میں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، کئی ممالک میں سفیر، اور انڈیا ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن کے سربراہ بھی رہے۔ غیر منقسم ہندوستان  میں ترکیہ کے لیے جو امدادی فنڈ جمع ہوا، اس سے ‘ایش بینک’قائم ہوا — جو آج بھی ترکیہ کے بڑے بینکوں میں شمار ہوتا ہے۔

کم لوگ  ہی جانتے ہوں گے کہ 20ویں صدی کے وسط تک لداخ میں لداخی کے بعد ترک زبان کا ہی استعمال ہوتا تھا۔  لیہہ کے ارغون مسلمان — جو ترک تاجروں کی نسل سے ہیں — آج بھی وسطی ایشیا اور ترک رسم و رواج، ناموں اور اشیاء کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ترک ارغون  غلام رسول گلوَان کے  نام پر ہی  گلوَان وادی منسوب ہے، اور ترک سلطان سعید خان، کے نام پر  لق دق صحرا کا نام دولت بیگ اولدائی  رکھا گیا۔

چند ماہ قبل ترکیہ دورہ پر آئے ہندوستان کے  اسٹریٹجک امور کے معروف  ماہر سی راجہ موہن نے حقیقت پسندی اور فوری توجہ کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ترکیہ اور ہندوستان دونوں اکیسویں صدی کی بااثر علاقائی طاقتیں ہیں، اس لیے دونوں ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر چہ ترکیہ کی طرف سے کشمیر کے ذکر اور پاکستان کی حمایت کرنے سے ہندوستان میں ناراضگی پائی جاتی ہے، تو ترکیہ بھی ہندوستان کی طرف سے آرمینا کو ہتھیار سپلائی کرنے اور قبرص پر یونانی موقف کی حمایت کرنے سے تشویش ظاہر کرتا ہے۔

لہذاطویل مدتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کو ان چپقلشوں کو درکنار کرتے ہوئے بین الاقوامی معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہیں ڈھونڈنی ہوں گی۔سینئر سفارت کار ایم کے بھدرکمار، جو انقرہ میں ہندوستان کے سفیر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ  ترکیہ اور پاکستان کے درمیان عسکری تعلقات واقعی موجود ہیں، مگر یہ تعلق ہندوستان کے لیے چین کی پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک قربت جتنا خطرناک نہیں۔ انہوں نے ہندوستانی لیڈروں پر واضح کیا کہ سفارتی امور پر جذباتی ردعمل سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے تزویراتی مفاد کو مقدم رکھیں۔

ترکیہ کی ابھرتی عالمی حیثیت کے پیش نظر، دنیا کے لیے اسے نظرانداز کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔مثال کے طور پر، ترکیہ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ ترکیہ کے ڈرون نے روسی صدر ولادمیر پوتن کے یوکرین پر قبضہ کرنے کے پلان کو خاک میں ملا دیا۔ مگر وہ پھر بھی ترکیہ کو ہی قابل اعتماد ثالث گر دانتے ہیں۔وہ مودی کی طرح روٹھے نہیں۔

اردوان نے بیک وقت دونوں ملکوں سے دوستی برقرار رکھی ہے۔ شام میں بشارالاسد کی برطرفی اور جلاوطنی ترکیہ کی عسکری اور سفارتی حکمتِ عملی کی بڑی کامیابی مانی جاتی ہے۔ ترکیہ ایک یوریشیائی مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے، یوکرین میں ثالثی کے علاوہ وہ وسطہ ایشاء نیز افریقہ اور جنوبی امریکہ میں ایک بڑے رول میں سامنے آرہا ہے۔ ہندوستان اگر اپنی معیشت اور اثر و رسوخ کو پر امن طور پر وسعت دینا چاہتا ہے تو اسے خارجہ پالیسی میں ردعمل سے ہٹ کر فعال حکمت عملی اپنانی ہوگی۔

 انقرہ یلدرم بیازیت یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے اسکالراور مصنف پروفیسر عمیر انس کا کہنا ہے کہ ہندوستان-پاکستان کی حالیہ محدود جنگ ترکیہ کی پالیسی پر خاصی اثر انداز ہو گئی ہے۔ تر کیہ کی نظر میں اب جنوبی ایشیا ایک ‘سکیورٹائزڈ’ یعنی سکیورٹی مرکز خطہ ہے، جہاں اس کی اپنی سلامتی بھی جڑی ہوئی ہے۔

ان کے مطابق انقرہ اور ریاض میں خاموش اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی ملٹری پاور کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اسلام آباد اب نیٹو سے باہر ترکی کا سب سے اہم دفاعی شراکت دار بن چکا ہے۔لیکن اس تعلق کی بھاری قیمت ہندوستان کی ناراضگی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ترکیہ نے طویل عرصے تک پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ابہام برقرار رکھا اور ہندوستان سے بھی قریبی روابط قائم رکھنے کی کوشش کی۔ ترکیہ نے ہندوستان کو ایک پیشکش کی تھی، کہ پاکستان سے تعلقات کی بحالی، بشمول کشمیر تنازع کا پرامن حل کے بدلے میں وہ ہندوستان کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری میں حصہ لے گا۔ اس مقصد کے لیے صدر اردوان نے کئی سطحوں پر ہندوستان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اکثر یہ کوششیں سفارتی تناؤ کی نذر ہوگئیں۔

پروفیسر انس کے مطابق 2019 سے 2022 کا عرصہ ترکی-ہندوستان تعلقات کابد ترین دور کہلایا جا سکتا ہے، جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف میڈیا مہمات چلا رکھی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی۔ ہندوستان کی حکمران جماعت کے نظریاتی بیانیے میں’انڈیا فرسٹ’ کا نعرہ گونجنا شروع ہو گیا تھا۔

مطلب یہ کہ ہندوستان کے مفادات ہر چیز پر مقدم ہیں۔ نئی دہلی کے حقیقت پسند تجزیہ کار اکثر اس نعرے کی تشریح ‘انڈیا اکیلا’ کے طور پر کرتے ہیں، یعنی ہندوستان تنہا اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔

یہ موقف گجرال ڈاکٹرائن سے متصادم ہے، جو ہندوستان کے ہمسایہ ممالک کو بلا مشروط مدد فراہم کرنے کی بات کرتا تھا۔۔مگر 2022 کے بعد ہندوستان اور ترکیہ نے تعلقات پر از سر نو غور کرنا شروع کیا تھا۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس ترکیہ سے متعلق کوئی جامع پالیسی نہیں۔محض وقتی ردعمل اور لین دین پر مبنی تعلقات، جو ایک ابھرتی ہوئی طاقت ترکیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

سفارت کاری کے آئینے میں دیکھا جائے، تو ترکیہ صرف پاکستان کا دوست نہیں، اور ہندوستان صرف یونان یا آرمینیا کا حلیف نہیں  ہوسکتا ہے۔ اب وقت ہے کہ بیانیہ بدلا جائے۔ ‘بائیکاٹ ترکی’ کے بجائے پیغام ہونا چاہیے؛ ‘روابط بحال کرو، مکالمہ کرو اور نئے تعلقات  تعمیر کرو۔’

آج دونوں — ہندوستان اور ترکیہ — خطے کی کلیدی طاقتیں ہیں جو عالمی نظام میں نئے کردار کی تلاش میں ہیں۔ ایک پر امن ہندوستان، جو علاقائی مسائل کا حل پر امن طریقے سے سلجھانے پر یقین رکھتا ہو، وقت کی ضرورت ہے۔

چین ایک معاشی پاورتبھی بنا جب اس نے اپنی سرحد پر بیشتر ممالک کے ساتھ تنازعات سلجھائے۔ہندوستانی لیڈروں کو جان لینا چاہیے کہ قدیم تہذیبیں وقتی تنازعات کی بنیاد پر خود کو محدود نہیں کر سکتیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ایک خول میں بند رہنے اور گھمنڈ و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے افکار و خیالات کے تبادلے سے اپنا مستقبل تراشیں۔