یوپی سرکار کی جانب سے گزشہ تین سالوں میں درج قومی سلامتی قانون کے 120معاملوں پر الہ آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے، جن میں آدھے سے زیادہ معاملے گئو کشی اورفرقہ وارانہ تشدد سے متعلق تھے۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق کورٹ نے فرقہ وارانہ معاملوں سے متعلق تمام حبس بے جا کی عرضیوں کو سنتے ہوئے این ایس اےکو رد کر دیا۔
نئی دہلی: اتر پردیش سرکارنے پچھلے تین سالوں میں جن معاملوں میں قومی سلامتی قانون (این ایس اے)لگایا اور جن120 معاملوں میں الہ آباد ہائی کورٹ فیصلہ سنایا، ان میں سے آدھے سے زیادہ یعنی61 معاملے گئو کشی اور فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق تھے۔
انڈین ایکسپریس کی تفتیش کے مطابق، الہ آباد ہائی کورٹ نے جن کم از کم 50حبس بے جا(ہیبیس کارپس)کی عرضیوں پر اپنا فیصلہ سنایا ان میں سے لگ بھگ 80 فیصدی معاملوں میں ہائی کورٹ نے احکامات کو رد کر دیا اور حراست میں لیے گیے لوگوں کی رہائی کا حکم دے دیا۔
حالانکہ فرقہ وارانہ مقدمات کے معاملے میں یہ100 فیصدی رہا جہاں جنوری 2018 اور دسمبر 2020 کے بیچ ہائی کورٹ نے اس کے سامنے آئی تمام عرضیوں پر شنوائی کرتے ہوئے تمام معاملوں میں این ایس اے کو رد کر دیا۔پولیس اور عدالت کے ریکارڈس دکھاتے ہیں کہ ان معاملوں میں تمام ملزمین اقلیتی کمیونٹی سے تھے اور کم از کم چار معاملوں میں عدالت نے اس بات کو ریکارڈ میں درج کیا۔
منگل کو انڈین ایکسپریس کے پہلے حصےکی تفتیش کا جواب دیتے ہوئے اتر پردیش سرکار کے ایک ترجمان نے جنوری 2018 اور دسمبر 2020 کے بیچ این ایس اےسے متعلق مقدمات کی سلسلےوار جانکاری دی۔ان کے مطابق، 534 معاملوں میں این ایس اے لگایا گیا اور ان میں سے 106 معاملوں کو ایڈوائزری بورڈ کی طرف سےواپس لے لیا گیا جبکہ 50 معاملوں کو ہائی کورٹ نے رد کر دیا۔
اس سے پہلے انڈین ایکسپریس نے اتر پردیش کے چیف سکریٹری آر کے تیواری کو ایک مفصل سوالنامہ بھیج کر جواب مانگا تھا لیکن انہوں نے کوئی ردعمل نہیں دیا تھا۔
کچھ معاملے:
– فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنے کےالزام میں کانپور کے ضلع مجسٹریٹ نے 3 نومبر 2017 کو فرخندہ صدیقی کے خلاف این ایس اے آرڈر جاری کیا تھا۔
اس معاملے میں ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ‘اگرریاست کو لگتا ہے کہ وہ ضمانت کے لائق نہیں ہے تو ریاست ضمانت کی مخالفت کر سکتی ہے۔ حالانکہ اس کو نظربندی کے آرڈر پر مہر لگاکر عدالت کو ضمانت کے لیےمنتقل کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ عدلیہ کی جانب سے ضمانت دینے کا امکان کافی نہیں ہو سکتا ہے۔ نہ ہی ایک ادھورا بیان کہ ملزم اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو دہرائےگا کافی ہوگا۔’
– مظفرنگر کے ضلع مجسٹریٹ نے ایک ہی شخص کی طرف سے درج کرائی گئی دو ایف آئی آرکی بنیاد پر 6 اکتوبر 2018 کو شمشیر کے خلاف این ایس اے جاری کیا۔
اس معاملے میں ہائی کورٹ نے کہا کہ عرضی گزار کی دلیل کہ آرڈر اس بنیاد پردیا گیا ہے کہ عرضی گزارمسلمان ہےجبکہ اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ دوسری ایف آئی آر پہلی ایف آئی آر کا ایک منطقی نتیجہ تھا جس میں ان کا نام نہیں تھا۔
اس میں کہا گیا،‘شروعات میں ہی یہ ذکر کیا گیا ہے کہ بھلے ہی عرضی گزارکا نام دیا گیا ہو، لیکن کوئی بھی خصوصی رول اسے نہیں سونپا گیا ہے۔ حالانکہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ سو لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی تھی لیکن کسی کو بھی کوئی چوٹ نہیں آئی تھی، یہاں تک کہ ایک کھرونچ بھی۔’
تین ایف آئی آر کی بنیاد پر 25 مئی 2018 کو علی گڑھ کے ضلع مجسٹریٹ نے ادب کے خلاف این ایس اے جاری کیا تھا۔
اس معاملے میں ہائی کورٹ نے کہا کہ عرضی گزار کی یہ دلیل کہ آرڈر اس بنیاد پر پاس کیا گیا ہے کہ عرضی گزار مسلمان ہے، جبکہ اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ دوسری ایف آئی آر پہلی ایف آئی آر کا ایک منطقی نتیجہ تھا جس میں ان کا نام نہیں تھا۔
اس میں کہا گیا کہ انہیں کوئی بھی خصوصی رول نہیں سونپا گیا تھا۔ ریکارڈ پر کوئی بھی چوٹ کی رپورٹ نہیں ہے جو یہ دکھا سکتی ہے کہ کسی کو بھی شدید چوٹ لگی تھی۔
– 10 جولائی 2020 کو جون پور کے ضلع مجسٹریٹ نے جاوید صدیقی کے خلاف این ایس اے لگایا تھا جس میں الزام تھا کہ انہوں نے اور 56معلوم ا ور25 نامعلوم لوگوں نے ایک بستی میں گھس کر دنگا اور آگ زنی کے ساتھ نسلی تبصرے کیے۔
اس معاملے میں ہائی کورٹ نے کہا، ‘جہاں عرضی گزار کے خلاف کارروائی کرنے میں غیرمعمولی عجلت دکھائی گئی وہیں حکام بے حس بنےرہے اور ان کی طرف سے مکمل غیرفعالیت تھی جس سے حراست میں رکھے گئے شخص کی نمائندگی کو وسیلہ فراہم کرنے میں غیرمناسب تاخیر ہوئی اور صلاح کار بورڈ کےسامنے نمائندگی نہیں رکھی گئی ۔’
اس نےنتیجہ اخذ کیا کہ جہاں قانون ایگزیکٹوکو غیرمعمولی اختیارات فراہم کرتا ہے کہ وہ کسی شخص کو حراست میں رکھے بغیر اور عدالتوں کی طرف سے مقدمے کی شنوائی کر سکے، ایسے قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا جانا چاہیے اور ایگزیکٹو کو انتہائی احتیاط کے ساتھ اختیارات کا استعمال کرنا چاہیے۔