حکومت عمر خالد کو ان کے مذہب کے دائرے میں محدود کر دینا چاہتی ہے، حالاں کہ وہ ایک سنجیدہ اور ذہین محقق ہیں، جن کے پی ایچ ڈی کا موضوع سنگھ بھوم کا قبائلی معاشرہ ہے۔ ڈاکٹریٹ کا یہ مقالہ ایک ایسے شخص کی ذہنی افتاد کو پیش کرتاہے، جو جمہوریت اور اس کے عمل پر اپنے تبحر علمی کا ثبوت دیتے ہوئے استدلال کر رہا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کو، کئی معنوں میں آدی واسیوں کی طرح ، ہمیشہ ‘انضمام’ اور ‘مین اسٹریم’ میں شامل ہونے کے لیے کہا جاتا ہے – مسلمانوں اور آدی واسیوں میں فرق بس یہ ہے کہ مسلمانوں کو جہاں مرکزی دھارے میں شامل ہونے کے حوالے سے ناخوش خیا ل کیا جاتا ہے، وہیں آدی واسیوں کو اس کے لیے نا اہل تصور کیا جاتا ہے۔
اس خیال کے لحاظ سے، ‘مین اسٹریم یا مرکزی دھارا’ اعلیٰ ذات کی ہندو دھارا ہے، جو اقلیتی دھارے کے کسی سنگم کے بغیرتنہا بہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ، جب جیلوں میں مسلمان، دلت اور آدی واسی غیر متناسب طور پرڈالے جاتے ہیں اور انہیں ضمانت سے انکارکر دیا جاتا ہے , جبکہ دوسروں کو اسی جرم کے لیے ضمانت مل جاتی ہے، تو کوئی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ کس طرح مرکزی دھارے نے انہیں الگ تھلگ رکھنے کا کام کیا ہے۔
جب عمر خالد جیسا مسلمان سرحدوں کو عبور کرتا ہے تو گھبراہٹ مزید بڑھ جاتی ہے۔ ایک باشعور مسلم نوجوان- جو سر پرٹوپی نہیں پہنتا، جو ملحد ہے، جس نے سنگھ بھوم کے قبائلیوں کی تاریخ پر جے این یو سے پی ایچ ڈی کی ہے– کو اسی الگ تھلگ دنیا،جو آر ایس ایس بناناچاہتی ہے، کے حساب سے بے میل خیال کیا جاتا ہے۔
اس وقت کوشش ہوتی ہے کہ اس کواس کی پہچان کے صرف ایک جہت تک محدود کر دیا جائے— یعنی وہ خواہ کچھ بھی کرےیا کہے یا لکھے،آخر میں اس کو صرف ایک مسلمان کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے اورتوسیعی طور پر اسے تشدد پسند، اینٹی نیشنل اور مرکزی دھارے کے لیے خطرہ مانا جانا چاہیے۔ وہ اتنا خطرناک ہے کہ بغیر ضمانت کے تین سال سے جیل میں ہے۔
اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کہ سی اے اے مخالف مظاہرے کے لیے گرفتار کیے گئے نوجوانوں میں سے بہت سے ہندوستان کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے مسلمان طالبعلم تھے۔
متعددلوگوں نے عمر خالد کے خلاف قانونی معاملے کے انتہائی ہلکے/کمزور ہونےکے بارے میں لکھا ہے۔ اس پر لگائے گئے احمقانہ الزامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ایک وہاٹس ایپ گروپ کا حصہ تھا، اوراس نے ‘لفظ انقلابی سلام’ کااستعمال کیا تھا۔ اور اس کے اس خطاب کو ‘گھناؤنا’ کہنا ،جس میں وہ نفرت کا جواب محبت سے دینے کے لیےکہہ رہا ہے،پوری طرح سے ایک عدالتی تعصب (کٹھ ملائیت) ہے، جبکہ قابل مذمت کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر — جن کی تقاریر نے 2020 کے دہلی کے دنگوں میں چنگاری کا کام کیا—آزادانہ گھوم رہے ہیں اور انہیں سرکاری عہدوں سے سرفراز کرکے ترقی دی گئی ہے۔
لیکن ان تفصیلات میں جانے کے بجائے میں عمر خالد کی شخصیت کے ایک اور پہلو کی طرف توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہوں، جہاں وہ ایک مؤرخ ہے اورآپ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتی ہوں کہ اس ذہین شخص کو قید کرنے سے تعلیمی دنیا کاکس قدر نقصان ہوا ہے۔
مجھے ایک ایسے فرد کی حیثیت سے، جس نے قبائلی تاریخ پر بہت کام کیا ہے، عمر کا مقالہ پڑھتے ہوئےایسا لگا جیسے میں کچھ نیا سیکھ رہی تھی۔ اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ یہ مقالہ اس وقت لکھا گیا، جب پی ایچ ڈی کا طالبعلم سیڈیشن کے مقدمے کا سامنا کر رہا تھا، جو پہلے ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے وقت گزار چکا تھا، اور جس پر گولی چلی تھی جس میں وہ بال بال بچا تھا، اور جو بڑے پیمانے پر میڈیا ٹرائل اور ایک ایسے جنون کے نشانے پر تھا کہ وہ آزادانہ طور پر کہیں سفر تک نہیں کر سکتا تھا، اس کا مقالہ نہ صرف شاندار ہے، بلکہ حقیقی معنوں میں جرأت مندانہ ہے۔
یہاں یہ بات خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ اپنے مقالہ نگاری کے آخری سمسٹر میں جب پی ایچ ڈی کے طالبعلم کویونیورسٹی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، انہیں یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھااوراسے پی ایچ ڈی جمع کرانے کی اجازت لینے کے لیے عدالت کی پناہ لینی پڑی تھی۔ المیہ یہ ہے کہ اسی جج نے، جنہوں نے اوردوسروں کے لیے جے این یو میں پی ایچ ڈی جمع کروانے کو ممکن بنایا، نے بعد میں انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔
یقینی طور پر ان کو اس نوجوان کودرپیش ناسازگار حالات کا علم تھا، ان مشکلات کے بارے میں پتہ تھا،جس نے ایک عام آدمی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہوتا۔
عمربھی بچ کر چلنے کی راہ کا انتخاب کر سکتا تھا، اور دیگر پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالروں کی طرح خود کو پوسٹ ڈاکٹریٹ یا نوکریوں کے لیے درخواست دینے میں مصروف رکھ سکتا تھایا موجودہ نظام میں آگے بڑھنے کے خواہشمندوں لوگوں کی طرح پری ڈیٹری جرنل میں چھپ سکتا تھا، لیکن اس نے مشکل راستے کا انتخاب کیا اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) اور شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ایک آفاقی شہریت کے لیے جدوجہد میں اپنا سب کچھ جھونک دیا۔
عام خیال کے برعکس، سی اے اے صرف مسلمانوں کو شہریت سے محروم نہیں کرتا، بلکہ یہ خواتین، آدی واسیوں اور دلتوں یا عام طور پر غریبوں—ان تمام لوگوں کا، جن کے پاس ریکارڈ یا تحریری نسب نامے نہیں ہیں، کو شہریت سے محروم کر دیتا ۔ لیکن ہندوستانی جمہوریت کو برقرار رکھنے کی کوشش کے لیے اس کے اس غیر معمولی قربانی کا صلہ انہیں جیل کی سزا کی صورت میں ملا ہے، اور جس سزا کےتین سال مکمل ہو چکے ہیں۔
عمر خالد تاریخ نویس کی حیثیت سے
عمر کا مقالہ (کنٹیسٹنگ کلیمز اینڈ کنٹنجینسیزآف رول : سنگھ بھوم 1800-2000 ) ہندوستان کے سب سے الگ تھلگ اور پسماندہ علاقوں میں سے ایک کے طور پر دیکھے جانے والے سنگھ بھوم، جو کان کنی کا ایک بڑا مرکز بھی ہے، کے قبائلیوں اوراقتدار کے درمیان کے رشتے پر بڑی محنت سے کیا گیا بصیرت انگیز تحقیق ہے۔
عمر کا استدلال ہے کہ ایک بنے بنائے تصور کے برخلاف جس نے یکساں قبائلی معاشرے کو اقتدار کے خلاف کھڑا کر دیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ریاست/حکومت نے قبائلی معاشرے میں دراڑیں ڈال کر مداخلت کی۔ نوآبادیاتی حکمرانی کی بالواسطہ حکمرانی کی پالیسی نے ہی کمیونٹی کے اندر ایک خاص طبقے کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کیا۔
اس مقالے میں ایک خطہ کے طور پرسنگھ بھم کی تشکیل اور مانکی منڈا (مقامی سربراہ) کو نوآبادیاتی انتظامیہ کے ڈھانچے میں کیسے شامل کیا گیا، کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ اس میں اس بات کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ کیسے اس نظام نے کاشت کی زمین کی توسیع میں، لگان میں اضافہ اور جنگلات کے انتظام وانصرام میں کس طرح مدد کی۔ عمرنے اس کے بعد جے پال سنگھ کی آدی واسی مہاسبھا کو ایک بڑے تاریخی واقعہ کے تناظر میں دیکھا ہے اور یہ دکھا یا کہ کس طرح مہاسبھا نےانفرادیت اور قبائلی فرق کے نوآبادیاتی تصور کا استعمال ہندوستانی آئین کے اندر خود مختار ، حالاں کہ یہ محدود معنی میں ہی تھا،حیثیت حاصل کرنے کے لیے کیا۔
اس مقالے میں کسی ایسے شخص کا نقش نظر نہیں آتا، جو خونی انقلاب میں شامل ہونے کی خواہش رکھتا ہو۔ڈاکٹریٹ کا یہ مقالہ ایک ایسےشخص کی ذہنی افتاد کو ہمارے سامنے لاتا ہے، جو جمہوریت اور اس کے عمل پر اپنے تبحر علمی کا ثبوت دیتے ہوئے استدلال کر رہا ہے۔
عمراپنے ایام اسیری کا بہت اچھا استعمال کر رہے ہیں اور ڈھیر ساری کتابوں کا مطالعہ کرنےمیں مصروف ہیں۔ اس دوران اس نے مؤرخ رنجیت گہا پر ایک خراج تحسین بھی لکھا۔ خالصتاً علمی نقطہ نظر سےکہا جائے تو اس نوجوان کو جلد از جلد جیل سے باہر ہونا چاہیے تاکہ وہ معمول کی زندگی گزار سکے اور اسے اپنے مقالے کو کتابی شکل میں شائع کرنے کے لیے وقت مل سکے۔
اس کے مقالے کا آخری پیراگراف دل کو چھو لینے والے اس نوٹ پر ختم ہوتا ہے؛
میرا مقصد خصوصی طور پر اس طریقے کو سمجھنا تھا، جس سے قبائلی برادریوں کے حاشیے پر کھڑے لوگ اپنی برادریوں کے مختلف غالب ڈھانچوں سے خود کو جوڑتے تھے اور اس کا مقابلہ کرتے تھے، جبکہ ان سب کے درمیان وہ نئے ڈھانچے کی تعمیر کےعمل میں شامل تھے۔ لیکن اتفاق سے ان وجوہات اور واقعات کی وجہ سے، جو میرے اختیار میں نہیں تھے، 2016 کے بعد جھارکھنڈ واپس جانا ناممکن ہو گیا۔ امید ہے، جب مستقبل میں حالات معمول پر آجائیں گے، میں اس کہانی پر واپس آؤں گا –اس انقلابی سماجی تبدیلیوں کے امکانات کے ساتھ ساتھ ان حدود کی تفتیش کرنے،جس کا وعدہ یہ بغاوت کرتی ہے۔
ہم صرف یہ امید کر سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ عمر اور ان تمام نوجوانوں کو رہا کر کے، جنہیں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اپنے گھروں اور تعلیمی اداروں کے کیمپس سے باہر نکلنے کے لیے غیر منصفانہ طریقے سے جیل میں رکھا گیا ہے،معمول کے حالات کو بحال کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔ ایسا کرکے عدالتیں تعلیمی آزادی کے حق میں بڑا قدم اٹھائیں گی۔
(نندنی سندر ماہر سماجیات ہیں۔)
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)