غفران کے چچا زاد بھائی نےکہا- تڑپا تڑپا کر مارنے سے اچھا تھا پولیس اس کو تلوار سے کاٹ دیتی۔اس معاملے میں قتل کے ملزم ڈمرا تھانہ انچارج سمیت آٹھ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیاگیا ہے۔ فرار تھانہ انچارج اور پولیس اہلکاروں کی تلاش جاری ہے۔
تاریخ 8 مارچ، جمعہ کی شام، مشرقی چمپارن کا رمڈیہا گاؤں۔ غفران کی موت کو 48 گھنٹے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ گھر کے ٹھیک سامنے بیس سے پچیس لوگ آپس میں بات کر رہے ہیں۔ پاس جانے پر معلوم ہوتا ہے کہ کل سیتامڑھی جانے کی پلاننگ بن رہی ہے۔ گاؤں کے لوگ انتظامیہ کے ڈھل مل رویے سے ناراض ہیں، اور وہ ایک بار پھر سیتامڑھی پہنچکر انتظامیہ کو جھنجھوڑنا چاہتے ہیں۔
اسی بھیڑ میں غفران کے چچا زاد بھائی تنویر حیدر بھی بیٹھے ہیں۔تنویر کہتے ہیں؛
اس میں بتانے والی بات نہیں کہ ہم بہت غم زدہ ہیں۔ غفران کے غسل میں ہم نے دیکھا ہے کہ اس کے پیرکے دونوں ناخن میں لوہے کی کیل ٹھونکی گئی تھی۔ اس کی جانگھ میں بھی کیل ٹھونکی گئی ہے۔ پولیس یہاں سے اس کو مارنے کے لئے ہی لے گئی تھی۔ س کو تڑپا تڑپا کر مارا گیا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس سے اچھا ہوتا کہ پولیس اس کو گولی مار دیتی تلوار سے کاٹ دیتی تو اتنا دکھ نہیں ہوتا۔ اس کو تڑپاتڑپا کر ایک ایک پل مارا گیا ہے۔
تنویر آگے کہتے ہیں،
یہ سبھی کو معلوم ہے کہ غفران پر کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ یہ بات ہائی لیول کے افسران بھی جان رہے ہیں۔ اب یہ نہیں ہے کہ کیا لے گئے کیا نہیں لے گئے اس میں پولیس ڈپارٹمنٹ کی لیپا پوتی اہم بات ہے۔ ڈپارٹمنٹ تو ہمیشہ اپنی ہی حمایت کرےگا۔ بتایا جا رہا ہے کہ تین ڈاکٹروں کی ٹیم نے پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ ویڈیوگرافی بھی کیا گیا ہے۔ یہ سب کہا جا رہا ہے پبلک کو دکھانے کے لئے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پوسٹ مارٹم کرنے سے پہلے فیملی والوں سے پوچھا بھی نہیں گیا۔ ہم لوگوں کو تو غفران کو ہاسپٹل میں تلاش کرنے میں ہی دو گھنٹے لگ گئے۔
پولیس انتظامیہ کے خلاف اس طرح کی ناراضگی رمڈیہا کے ہر بوڑھے-جوان کے منھ سے سننے کو ملتی ہے۔ بات بس ایک ہی ہے-غفران اور تسلیم کی موت کا انصاف۔واضح ہو کہ گزشتہ 5 مارچ (منگل) کی رات کو سیتامڑھی پولیس قتل اور لوٹکے معاملے میں چکیا تھانہ کے تحت آنے والا گاؤں رمڈیہا (ضلع،مشرقی چمپارن)میں چھاپا مارتی ہے۔ چھاپےماری میں رمڈیہا گاؤں کے ہی باشندہ غفران عالم (30)اور محمد تسلیم (35)کو پوچھ تاچھ کے لئے حراست میں لیتی ہے۔ دستیاب میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں ملزمین کی سیتامڑھی ضلع کے ڈمرا تھانہ کے حاجت (حوالات) میں موت ہو جاتی ہے۔ رشتہ داروں کا الزام ہے کہ پولیس نے غفران اور تسلیم کی بےرحمی سے پٹائی کی جس کے وجہ سے ان کی موت ہو گئی۔
اس معاملے کو لےکر ڈمرا تھانہ انچارج سمیت آٹھ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اسی بابت سیتامڑھی ایس پی امرکیش ڈی کا بھی تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ معاملے کی تفتیش جونل ڈی آئی جی خود سنبھال رہے ہیں۔ حالانکہ رشتہ داروں کی مانگ ہے کہ اس معاملے کی تفتیش سی بی آئی سے کرائی جائے۔
پیر ٹھیک رہتا تو اپنے بچےکو بچا لیتا
ملازم انصاری، جو تسلیم کے والد ہیں۔ پچھلے کافی مہینوں سے بستر پر ہی پڑے ہیں۔ جانگھ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے۔ پاس بیٹھنے پر پائجامہ اوپر کر ہڈی دکھانے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں؛
پیر ٹھیک رہتا تو اپنے بچے کو بچا لیتا۔ لیکن کہیں جانے کے قابل نہیں ہوں۔
منگل کی رات کے بارے میں پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ؛
منگل کی رات ڈیڑھ بجے (یعنی بدھ کی صبح) تقریباً بیس پولیس آتی ہے۔ سات-آٹھ لوگ دروازے کا قبضہ توڑکر اندر گھس جاتے ہیں۔ باقی لوگ باہر سے گھر کو گھیر لیتے ہیں۔ گھر کے ہر کمرے میں سامان کو تتربتر کر دیتے ہیں۔ چاول-دال سب الٹ دیتے ہیں۔ اس وقت تسلیم بغل کے مدرسہ میں سو رہا تھا۔
ملازم انصاری سے ہو رہی بات چیت کے بیچ میں ہی ان کی بیوی بھی بھوجپوری میں بات دوہرا رہی ہیں۔ کہتی ہیں؛
نیوتا کہیں رہے نو تو دےلے رہے بووا کے دعوت، ت کھاکے ائیلن رات میں تو ہمنی کی نیند پڑ گئل رہے دروازہ نہ کھلل تو مدرسے میں جاکے لئیکن سبھے لیٹ گئیلن(گاؤں میں کسی کے یہاں سے دعوت ملی تھا تو وہ وہاں سے دیر رات کھانا کھاکر آیا۔ اس وقت دروازہ بند تھا۔ سبھی سو گئے تو وہ مدرسہ میں جاکر سو گیا۔)
انصاری بتاتے ہیں کہ کسی نے پولیس کو خبر دے دی تھی کہ تسلیم مدرسہ میں سویا ہوا ہے۔ پولیس اس کو وہاں سے اٹھا لیتی ہے۔وہ آگے کہتے ہیں،
تسلیم کئی بار پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں اور مجھے کس مقدمہ میں لے جا رہے ہیں۔ پولیس کچھ جواب نہیں دی۔ بچے کو جیکیٹ بھی نہیں پہننے دی۔ ایسا بے دردی سے مارا ہے کہ جب مرا نہیں تو کرنٹ دے دیا سب۔’
تسلیم کی ماں بیچ بیچ میں رونے لگتی ہیں، کہتی ہیں،لئکا کے پیر میں کانٹی ٹھونک دےلے رہسن ۔
ابھی بات ہو ہی رہی تھی کہ تسلیم کے دوست کنال سنگھ پہنچتے ہیں۔ کنال بتاتے ہیں،
تسلیم مدرسہ کی دیکھ ریکھ کا کام کرتا تھا۔ باقی گھر کھیتی باڑی کا کام کرتا تھا۔ جس معاملے کو لےکر پولیس پوچھ تاچھ کے لئے گرفتار کی تھی اس رات میں بھی تسلیم کے ساتھ تھا۔ 20 فروری تسلیم میرے ساتھ شادی اٹینڈ کرنے میجرگنج گیا تھا۔ میرے ماموں گھر شادی تھی۔ ہم دونوں بولیرو چار چکہ سے گئے۔ اب آپ ہی بتائے کہ چار چکہ سے کوئی موٹرسائیکل لوٹنے جائےگا؟
کنال آگے کہتے ہیں کہ؛
سب سے پہلے تھانے کو جانچکر لینا چاہیے تھا۔ اگلے دن صبح مجھے تھانہ انچارج فون پر کہتے ہیں دیکھو تمہارے دوست کو پٹوا رہا ہوں۔ میں تو اس وقت بھی بولا کہ سر آپ پہلے جانچکر لیں۔
ایک زندگی نہیں ایک ساتھ کئی زندگیاں برباد ہو گئیں
غفران کی بیوی کا روروکر برا حال ہے۔ بولنے کی حالت میں نہیں ہے۔ جتنا بولتی ہے اس سے زیادہ روتی ہیں۔ رونا اور بولنا ایک لے میں آ گیا ہے۔ کہتی ہیں،
بے قصور آدمی کو ڈاکو اٹھاکے لے گئے ہیں۔ دونوں بچے یتیم ہو گئے۔ میں ہوں اور پورا گھر ہے۔ جانکے بدلے کون جان دےگا۔ منکر رہا کہ سبھی کی جان لے لوں۔
غفران کے والد منور علی بتاتے ہیں کہ؛
میرا بیٹا چار مہینے پہلے ہی سعودی سے یہاں آیا تھا۔ سعودی میں ہی الکٹریشین کا کام کرتا تھا۔ دو سال بعد وہاں سے آیا تھا۔ اس رات پولیس بنا کچھ بتائے اٹھاکر لےکے چلی جاتی ہے۔
آگے کہتے ہیں،
آج تک اس پر کوئی مقدمہ ہی نہیں ہے۔ پولیس سے میرا بیٹا پوچھا کہ کیوں لے جا رہے ہو مجھے-پر پولیس کچھ نہیں بولی۔
بیٹے سے آخری بار بات کو لےکر منور علی بتاتے ہیں کہ،
بدھ کی صبح تقریباً دس بجے میرے بھائی صنوبر علی سے اس کی بات ہوئی تھی۔ تھانے سے نہ جانے کون فون کر بات کرا دیا تھا۔ میں تو بس ریکارڈنگ ہی سن پایا-بول رہا تھا کہ پولیس والے مجھ سے پوچھ تاچھ کر رہے ہیں۔ مجھے بہت مار بھی رہے ہیں۔
صنوبرعلی بتاتے ہیں،
ہم لوگ تو جان رہے تھے کہ چکیا تھانہ لے گیا ہوگا۔ لیکن اس کو چکیا تھانہ سے سیتامڑھی کے ڈمرا تھانہ بھیج دیا گیا تھا۔ پولیس ہمیں کچھ نہیں بتا رہی تھی۔ کسی طرح ہمیں صبح 11 بجے یہ پتہ چلا کہ وہ ڈمرا تھانہ کے حاجت میں ہے۔ جب ہم وہاں پہنچ تو وہاں دو-تین خاتون پولیس اہلکارتھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں چکیا تھانہ سے کوئی معاملہ آیا ہی نہیں ہے۔ ہم نے درخواست بھی کی کہ برائے مہربانی آپ رجسٹر چیک کر لیں۔
صنوبر علی آگے بتاتے ہیں کہ ،
ایک گھنٹے بعد کسی صحافی یا اپنے آدمی کے تھرو ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ دونوں انچارج ہاسپٹل میں بھرتی ہیں اور کافی سیریس ہیں۔ وہاں بھی پولیس کچھ نہیں بتائی۔ ہمیں اندر جانے سے منع کر دے رہی تھی۔ بعد میں کسی صحافی سے پتا چلا کہ غفران اور تسلیم کی تو موت ہو گئی۔
کیا ہے رشتہ داروں کا مطالبہ
تسلیم کے والد ملازم انصاری بتاتے ہیں کہ واقعہ کے بعد سے کئی رہنما آئے اور پوچھے کہ کیا کیا جائے آگے۔ میں تو بس یہی کہا کہ ،مجھے میرا بیٹا زندہ چاہیے۔ مردہ نہیں چاہیے۔ ہم تو زندہ دیے مردہ کاہے لیںگے۔ پولیس کو کاہے معاف کریںگے۔
غفران کے چچا زاد بھائی تنویر حیدر کہتے ہیں،
اگر پولیس کو سزا مل بھی جاتی ہے تو اس کو اس کی کرنی کی سزا ملےگی۔ لیکن غفران کے بغیر اس کی بیوی اور ان کے یتیم بچے جو سزا بھگت رہے ہیں، اس کی بھرپائی آخر کون کرےگا۔ موت کی کوئی قیمت تو نہیں ہوتی پر بہار حکومت سے گزارش ہے کہ وہ اس کے لئے سوچے۔
جمع لوگوں میں کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ پولیس کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ گھر میں کسی کو نوکری بھی دی جائے۔ مناسب معاوضہ ملے۔
پولیس کی اب تک کی کارروائی
گھر والوں کا الزام ہے کہ جب انہوں نے پولیس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تو اس کا کاغذ بھی نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کے انتظامیہ کی طرف سے ابھی تک پوسٹ مارٹم رپورٹ کا کاغذ بھی نہیں ملا ہے۔غفران کے گھر پر جمع لوگوں میں مولانا اجمیر عالم بھی بیٹھے ہیں، کہتے ہیں،
بنا کسی اطلاع کے دیر رات دروازہ کھولکر پولیس کا گھر میں گھس جانا اور کسی کو سیدھے اٹھا لینا۔ یہ کہیں سے نہیں لگتا کہ بہار میں قانون کا راج ہے۔ ابھی کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ کوئی پکڑایا۔پھر کوئی تھانہ سے ہی بھاگ جاتا ہے۔ یہ سب پولس کی نوٹنکی ہے۔
حالانکہ پولیس انتظامیہ نے قتل کے ملزم ڈمرا تھانہ انچارج سمیت آٹھ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے۔ فرار تھانہ انچارج اور پولیس اہلکاروں کو لےکر تلاش مہم جاری ہے۔سنیچر کو ڈی آئی جی نے پورے معاملے کی تفتیش رپورٹ آئی جی کو سونپی ہے۔ ابھی تک تفتیش میں کیا بات نکلکر سامنے آئی ہے، اس کو عوامی نہیں کیا گیا ہے۔ڈی آئی جی مظفرپور انل سنگھ نین نیوزسینٹرل 24X7 کو فون پر بتایا کہ،
بھاگے ہوئے پولیس اہلکاروں کی تلاش جاری ہے۔ آگے ان کے خلاف قرقی کی کارروائی کی تیاری کی جا رہی ہے۔
جونل آئی جی کو سونپی گئی رپورٹ کے تعلق سے پوچھنے پر انہوں نے اس بارے میں کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا۔
(یہ رپورٹ بنیادی طور پرنیوزسینٹرل24X7پر شائع ہوئی ہے،جس کو ادارے کی اجازت سے یہاں پیش کیا گیا ہے۔)