سپریم کورٹ نے دھرم سنسد جیسے پروگراموں کے انعقاد پر تشویش کا اظہار کیا

سپریم کورٹ نے ہری دوار میں منعقد 'دھرم سنسد' میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے معاملے میں اسلام چھوڑکر ہندو مذہب اختیار کرنے والے جتیندر نارائن تیاگی عرف وسیم رضوی کی ضمانت عرضی پر اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ تیاگی تقریباً چھ ماہ سے حراست میں ہیں۔ اس معاملے میں ایک اور ملزم شدت پسند ہندوتوا دھرم گرو یتی نرسنہانند کو گزشتہ فروری میں ہی ضمانت مل گئی تھی۔

سپریم کورٹ نے ہری دوار میں منعقد ‘دھرم سنسد’ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے معاملے میں اسلام چھوڑکر ہندو مذہب اختیار کرنے والے جتیندر نارائن تیاگی عرف وسیم رضوی کی ضمانت عرضی پر اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ تیاگی تقریباً چھ ماہ سے حراست میں ہیں۔ اس معاملے میں ایک اور ملزم شدت پسند  ہندوتوا دھرم گرو یتی نرسنہانند کو گزشتہ فروری میں ہی ضمانت مل گئی تھی۔

جتیندر نارائن تیاگی۔ (تصویربہ شکریہ: ٹویٹر/ @JitendraTyagi)

جتیندر نارائن تیاگی۔ (تصویربہ شکریہ: ٹویٹر/ @JitendraTyagi)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے مختلف مقامات پر دھرم سنسد جیسے پروگراموں کے انعقاد پر جمعرات کوتشویش کا اظہار کیا، جو مبینہ طور پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑ رہے ہیں۔

جسٹس اجے رستوگی اور وکرم ناتھ کی بنچ نے کہا، اس سے پہلے کہ وہ دوسروں کو بیداری کے لیے کہیں، انہیں پہلے اپنے آپ کو حساس بنانا چاہیے۔ انہیں حساس نہیں بنایا گیا ہے۔ اس سے پورا ماحول خراب ہو رہا ہے۔

بنچ نے ہری دوار دھرم سنسد معاملے میں مسلمانوں کے خلاف مبینہ اشتعال انگیز تقاریر کے معاملے سے جڑے ایک ملزم کی ضمانت عرضی  پر اتراکھنڈ حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔

بنچ نے جتیندر نارائن تیاگی عرف وسیم رضوی کی ضمانت عرضی پر ریاستی حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کیا۔ اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کرنے سے پہلے تیاگی کا نام وسیم رضوی تھا۔ وہ اتر پردیش کے شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے سابق ممبر اور چیئرمین رہ چکے ہیں۔

تیاگی کی طرف سے پیش ہوئے سینئر وکیل سدھارتھ لوتھرا نے کہا کہ انہوں نے ایسے ویڈیو دیکھے ہیں جہاں بھگوا کپڑوں میں لوگ جمع ہوئے اور تقریر کی۔

لوتھرا نے کہا کہ تیاگی تقریباً چھ ماہ سے حراست میں ہیں اور وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تیاگی کے خلاف درج مقدمے میں زیادہ سے زیادہ سزا تین سال ہے۔

شکایت گزار کے وکیل نے عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تیاگی یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ قانون سے نہیں ڈرتے۔

اس سال مارچ میں اتراکھنڈ ہائی کورٹ کی طرف سے ان کی ضمانت عرضی  مسترد ہونے کے بعدتیاگی نے  سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ہری دوار دھرم سنسد کیس میں جتیندر تیاگی عرف وسیم رضوی کو ضمانت دینے سے انکار  کرتے ہوئے کہا تھاکہ، تیاگی کی تقریر کی زبان اشتعال انگیز تھی، جس کا مقصد جنگ چھیڑنا، باہمی دشمنی کو بڑھانا اور پیغمبر محمد کی توہین کرنا تھا۔

ہری دوار کے ندیم علی کی شکایت پر 2 جنوری 2022 کو تیاگی اور دیگر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

معلوم ہوکہ تیاگی کی مبینہ اسپیچ کے سلسلے میں اتراکھنڈ پولیس نے ان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153اے (مختلف گروہوں کے درمیان مذہب، ذات، جائے پیدائش، رہائش کی بنیاد پر دشمنی کو فروغ دینا) اور 298 (مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیےجان بوجھ کر تبصرہ کرنا) کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔

بتادیں کہ جنوری 2022 کو ہری دوار کی ایک مقامی عدالت نے دھرم سنسد کے دوران پیغمبر اسلام کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز تبصرہ کرنے کے ملزم جتیندر تیاگی کی ضمانت  کی عرضی خارج کر دی تھی۔

بتادیں کہ 17 سے 19 دسمبر 2021 کے درمیان اتراکھنڈ کے ہری دوار میں ہندوتوا رہنماؤں اور شدت پسندوں کی جانب سے ایک ‘دھرم سنسد’ کا انعقاد کیا گیا، جس میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف کھلے عام ہیٹ اسپیچ دیے گئے، یہاں تک کہ ان کے قتل عام کی بھی اپیل کی گئی تھی۔

شدت پسند ہندوتوا رہنما یتی نرسنہانند اس دھرم سنسد کے منتظمین میں سے ایک تھے۔ نرسنہانند پہلے ہی نفرت انگیز تقاریر کی وجہ سے پولیس کی نظروں میں رہے ہیں۔

 یتی نرسمہانند نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ ہندو پربھاکرن بننے والے شخص کو ایک کروڑ روپے دیں گے۔

ہری دوار دھرم سنسد معاملے میں نرسنہانند کو 7 فروری کو ضمانت مل گئی تھی، لیکن دیگر زیر التوا معاملوں کی وجہ سے انہیں جیل سے رہا نہیں کیا گیا تھا۔ ہری دوار کی مقامی عدالت سے اسے 17 فروری کو ضمانت ملنے کے بعد انہیں رہا کیا گیا تھا۔

 معاملے میں 15 لوگوں کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ اس تقریب کاویڈیو وائرل ہونے پر ہوئے تنازعہ کے بعد 23 دسمبر 2021 کو اس سلسلے میں پہلی ایف آئی آر درج کی گئی تھی، جس میں صرف جتیندر نارائن سنگھ تیاگی کو  نامزد کیا گیا تھا۔ اسلام چھوڑ کر ہندو مذہب اختیار کرنے سے پہلے تیاگی کا نام وسیم رضوی تھا۔

ایف آئی آر میں25 دسمبر 2021 کوسوامی دھرم داس اور سادھوی اناپورنا عرف پوجا شکن پانڈے کے نام شامل کیے گئے تھے۔ پوجا شکن پانڈے نرنجنی اکھاڑہ کی مہامنڈلیشور اور ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری ہیں۔

اس کے بعد یکم جنوری کو اس ایف آئی آر میں یتی نرسنہانند اور رڑکی کےساگر سندھوراج مہاراج کے نام شامل کیے گئے تھے۔

دو جنوری کو ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے معاملے کی جانچ کے لیے ایک ایس آئی ٹی بھی بنائی  تھی۔ اس کے بعد 3 جنوری کو دھرم سنسدکے سلسلے میں دس افراد کے خلاف دوسری ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

 دوسری ایف آئی آر میں تقریب کے منتظمین یتی نرسنہانند گری، جتیندر نارائن تیاگی (جنہیں پہلے وسیم رضوی کے نام سے جانا جاتا تھا)، ساگر سندھوراج مہاراج، دھرم داس، پرمانند، سادھوی اناپورنا، آنند سوروپ، اشونی اپادھیائے، سریش چوان اور پربودھانند گری کو نامزد کیا گیا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)

Next Article

پنجاب کے تین نوجوان ڈنکی روٹ سے ایران پہنچنے کے بعد لاپتہ، اہل خانہ کا اغوا اور مارپیٹ کا الزام

پنجاب کے جسپال سنگھ، امرت پال سنگھ اور حسن پریت سنگھ اس مہینے کی پہلی تاریخ سے لاپتہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اسی دن وہ ایران پہنچے تھے۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق، ان کی اپنے بیٹوں سے آخری بار تقریباً12 روز قبل بات ہوئی تھی، جس کے بعد سے ان کا ان سے رابطہ منقطع ہے ۔

علامتی تصویر۔ (فوٹو بہ شکریہ: فلکر ڈاٹ کام

جالندھر: پنجاب کے ہوشیار پور، نواں شہر اور سنگرور اضلاع کے تین افراد، جو اپنے گاؤں سے ‘ڈنکی’ روٹ سے آسٹریلیا کےلیے نکلے تھے، کو ایران کے تہران ہوائی اڈے پر پاکستانی ایجنٹوں نے مبینہ طور پراغوا کر لیا ہے۔ یہ الزامات ان لوگوں کے گھر والوں نے لگائے ہیں۔

جسپال سنگھ (32)، امرت پال سنگھ (23) اور حسن پریت سنگھ (27) نام کے تین افراد یکم مئی سے لاپتہ ہیں۔ اسی دن وہ ایران پہنچے تھے۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق، ان کی اپنے بیٹوں سے آخری بار تقریباً 12 روز قبل بات ہوئی تھی، جس کے بعدسے  ان کا ان سے رابطہ منقطع ہے۔

دی وائر کو پتہ چلا ہے کہ ان تینوں کے جسم پر گہرے زخم تھے اور انہیں مبینہ پاکستانی ڈونکروں نے یرغمال بنانے کے بعد بے دردی سے مارا پیٹا تھا۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مبینہ پاکستانی ڈونکروں نے ان تینوں سے رہائی کے بدلے  18-18 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا۔

اس معاملے میں متعلقہ اضلاع میں تینوں کے اہل خانہ کی شکایات پر ہوشیار پور کے تین ٹریول ایجنٹوں دھیرج اٹوال، کمل اٹوال اور سویتا سویا کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) 2023 کی دفعہ 143 (کسی شخص کی اسمگلنگ)، 318 (4) (دھوکہ دہی)، 61 (2) (مجرمانہ طور پرسازش) اور پنجاب ٹریول پروفیشنلز (ریگولیشن) ایکٹ، 2014 کی دفعہ 13کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی  ہے۔

ایف آئی آر کے بارے میں  علم ہوتے ہی ٹریول ایجنٹ فرار

اہل خانہ نے بتایا کہ ایف آئی آر کے بارے میں معلوم ہونے کے بعد ٹریول ایجنٹ مبینہ طور پر فرار ہوگئے اور انہیں بتایا کہ وہ تینوں کا سراغ لگانے کے لیے ایران جا رہے ہیں۔

اس سلسلے میں ایران کے تہران میں ہندوستانی سفارت خانے نے ایکس پر ایک بیان جاری کیا اور کہا، ‘تین ہندوستانی شہریوں کے اہل خانہ نے ہندوستانی سفارت خانے کو مطلع کیا ہے کہ ان کے رشتہ دار ایران کا سفر کرنے کے بعد لاپتہ ہیں۔ سفارت خانے نے اس معاملے کو ایرانی حکام کے ساتھ زوردار طریقے  سے اٹھایا ہے اور درخواست کی ہے کہ لاپتہ ہندوستانیوں کا فوراً پتہ لگایا  جائے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ ہم سفارت خانے کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے بارے میں خاندان کے افراد کو بھی باقاعدگی سے اپڈیٹ کر رہے ہیں۔’

غور طلب ہے کہ ایران میں ہندوستانیوں کے لیے صرف سیاحت کے مقاصد کے لیے 15 دنوں  تک کے لیے ویزا فری پالیسی ہے، جس سے ‘ڈنکی’ روٹ کے لیے ایک ممکنہ راستہ بن جاتا ہے۔

معلوم ہو کہ ڈنکی غیر قانونی امیگریشن کا ایک طریقہ ہے، جس میں اکثر خطرناک راستے شامل ہوتے ہیں۔ ایران ،پاکستان، افغانستان، ترکی، عراق، ترکمانستان، آذربائیجان اور آرمینیا سے گھرا ہوا ہے۔

یہ خبر ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب حال ہی میں 5 فروری کو امریکہ سے ڈی پورٹ کیے گئے لوگوں کو لے کر پہلا فوجی طیارہ امرتسر پہنچا تھا۔ اس کے بعد سے پچھلے تین مہینوں میں 400 سے زیادہ ہندوستانیوں کو امریکہ سے ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے۔

اٹھارہ-اٹھارہ لاکھ روپے اضافی مانگے

دی وائر سے بات کرتے ہوئے ضلع نواں شہر کے گاؤں لنگرویا سے تعلق رکھنے والے جسپال سنگھ کے بھائی اشوک کمار نے بتایا کہ یکم مئی 2025 کو ایران کے تہران ہوائی اڈے پر اترنے کے فوراً بعد ان کے بھائی اور دو دیگر کو پاکستانی ڈونکروں نے اغوا کر لیا۔

انھوں نے کہا، ‘جیسے ہی وہ ہوائی اڈے سے باہر نکلے،ڈونکرزان کی تصویریں لے کر ان کے پاس آئے اور ان کی شناخت کی تصدیق کی۔ تاہم، جب وہ کار میں بیٹھے اور بیچ راستےمیں پہنچے تو ڈونکروں نے انہیں بتایا کہ ان کا اغوا کر لیا گیا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ انہیں ڈانکروں کی طرف سے پہلی کال یکم مئی کو موصول ہوئی، جس کے دوران ان کے بھائی نے خاندان کو بتایا کہ انہیں اور دو دیگر افراد کو اغوا کر لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میرے بھائی نے پہلےہمیں یکم مئی کو تقریباً 2 بجے جاگتے رہنےکے لیے کہا تھا، یہی وہ وقت تھا جب پاکستانی ڈونکرز نے ویڈیو کال کی اور ہر ایک سے 18 لاکھ روپے اضافی کا مطالبہ کیا۔ میرے بھائی کو آسٹریلیا بھیجنے کے لیے ہم نے پہلے ہی 18 لاکھ روپے ادا کیے تھے۔’

مزدور کے طور پر کام کرنے والے اشوک کمار کے مطابق، خاندان نے رشتہ داروں اور دوستوں سے رقم ادھار لے کر جسپال سنگھ کو آسٹریلیا بھیجنے کے لیے 18 لاکھ روپے کا بندوبست کیا تھا۔

روتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘ہم 11 مئی تک جسپال سے رابطے میں تھے، اس کے بعد ہمارا ان سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ پاکستانی ڈونکرز نوجوانوں کو یرغمال بناکر ان کے کپڑے اتارکر، ان کے جسم پر  گہرے زخم دکھاتے ہوئے، انہیں بے رحمی سے پیٹتے ہوئےہم سے بات کرواتے تھے، اس دوران وہ خود کو بچانے کی درخواست کرتے تھے،نہیں تو پاکستانی ڈونکر انہیں مار ڈالیں گے۔’

انہوں نے کہا کہ ڈونکرز نے انہیں اپنے پاکستانی بینک اکاؤنٹس بھی دیے اور ان سے پیسےدینے کے لیے دباؤ ڈالا۔ انہوں نے کہا، ‘میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے پاس کوئی پیسہ نہیں بچا ہے اور ہندوستان سے پاکستان کو کوئی بھی ادائیگی کرنا ناممکن ہے۔ لیکن، انہوں نے ہماری ایک نہ سنی اور ہمارے بیٹوں کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔’

اسی طرح ہوشیار پور کے بھوگووال لڈن گاؤں کے امرت پال سنگھ کی والدہ گردیپ کور نے دی وائر کو بتایا کہ ان کا بیٹا 25 اپریل 2025 کو دبئی گیا تھا ،جہاں سے وہ ایران پہنچا۔

انہوں نے کہا، ‘جسپال یکم اپریل کو دبئی پہنچا، جبکہ دیگر دو لڑکے بعد میں اس کے ساتھ شامل ہوئے۔ میرا بیٹا اور دیگر دو نوجوان صرف ویڈیو کال کے ذریعے ہم سے رابطے میں رہے، اس دوران پاکستانی ڈونکرز نے ان کی پٹائی کی۔ وہ ڈونکرز کے چنگل سےانہیں  بچانے کی درخواست کر رہے تھے۔’

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں سے بات کرتے ہوئے 12 دن گزر چکے ہیں، انہیں امید ہے کہ ہندوستانی حکومت کی مداخلت سے ان کی جان بچ جائے گی۔

بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، گردیپ کور بھی کپڑے سلائی کر کے گھر چلاتی  ہے اور نقلی ٹریول ایجنٹس کے خطرناک گٹھ جوڑ کا شکار ہو گئی، جو پنجاب اور مرکزی حکومتوں کے دعووں کے باوجود، سادہ لوح نوجوانوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔

دریں اثنا، سنگرور کے دھوری سے تعلق رکھنے والے حسن پریت کے خاندان نے مرکزی حکومت سے پرزور اپیل کی کہ وہ ان کے بیٹے کو بحفاظت گھر واپس لانے میں مدد کرے۔ اہل خانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے تقریباً 10 دن تک رابطے میں تھے، جس کے بعد انہیں کوئی کال یاپیغام نہیں آیا۔

امرت پال سنگھ کے اہل خانہ نے ہوشیار پور کے ایم پی راج کمار چبیوال اور پنجاب کے این آر آئی امور کے وزیر کلدیپ سنگھ دھالیوال سے بھی رابطہ کیا ہے اور ان سے اپنے بیٹے کی جلد رہائی کی اپیل کی ہے۔

جسپال اور حسن پریت کے اہل خانہ نے مقامی رہنماؤں سے بھی ملاقات کی ہے اور ان سے اپنے بیٹوں کو اس مصیبت سے بچانے کی اپیل کی ہے۔

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ہریانہ: ٹوپی کو لے کر ہوئے جھگڑے میں مسلم نوجوان کی موت، پولیس نے کہا – کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں

گزشتہ دنوں ہریانہ کے پانی پت میں بہار کے کشن گنج سے تعلق رکھنے والے مزدورفردوس عالم کی مذہبی ٹوپی کو لے کر ہوئے تنازعہ کے دوران حملے کے بعد موت ہو گئی۔ اہل خانہ نے اس کی وجہ ان کی مذہبی پہچان  بتائی ہے، جبکہ پولیس نے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویے سے انکار کیا ہے۔

فردوس عالم (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: ہریانہ کے پانی پت میں 24 مئی کو ایک 24 سالہ مزدور فردوس عالم عرف اسجد بابو کی جان لیوا حملے میں موت ہوگئی۔ یہ واقعہ مذہبی ٹوپی کے حوالے سےہوئے جھگڑے کے بعد پیش آیا،  جو بعد میں پرتشدد ہو گیا۔

تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے۔

فردوس بہار کے کشن گنج ضلع کا رہنے والا تھا اور پانی پت کی ایک فیکٹری میں درزی کا کام کرتا تھا۔ فردوس کے بھائی اسد نے بتایا کہ فردوس حال ہی میں شادی کرکے اپنی سسرال سے اپنے دوست شاہنواز کے ساتھ واپس لوٹ رہے تھے۔ رات 8 بجے کے قریب، سیکٹر 29 کے فلورا چوک کے پاس ان کی ملاقات ایک دکاندار شیشو لال عرف نریندر سے ہوئی، جو وہاں کریانہ کی دکان چلاتا ہے۔

اسد نے کہا، ‘اس نے میرے بھائی کی ٹوپی چھین کر پہن  لی اور مذاق اڑانے لگا۔ جب میرے بھائی نے اسے ٹوپی واپس کرنے کو کہا تو اس نے ٹوپی زمین پر پھینک دی۔’

اسد کے مطابق، فردوس نے لڑائی نہیں کی۔ اسد نے بتایا، ‘اس نے صرف غصے سے دیکھا اور پوچھا کہ ٹوپی کیوں پھینکی؟ اس پر نریندر غصے میں آگیا اور بولا، تو مجھ سے اس طرح  بات کیسے کر سکتا ہے؟’ اس کے بعد جب فردوس اپنی ٹوپی لینے کے لیے نیچے جھکے تو نریندر نے اس کے سر پر ڈنڈے سے وار کیا اور پوچھا کہ کیسا لگا۔ حملے کے بعد فردوس بے ہوش ہو گئے۔

شاہنواز نے بتایا کہ انہوں نے گھبراکر اسد کو فون کیا۔ اسد موقع پر پہنچے اور انہیں  مقامی سرکاری ہسپتال لے گئے، جہاں سے انہیں پی جی آئی روہتک ریفر کر دیا گیا۔ فردوس کی روہتک میں علاج کے دوران موت ہو گئی۔

اسد نے بتایا،’ میں 9 سال سے  درزی کا کام کر رہا ہوں، فردوس دو سال پہلے ہی آیاتھا۔ میں یہاں بہت زیادہ لوگوں کو نہیں جانتا ہوں ، تو فردوس اس دکاندار کو کیسے جانتا ہوگا۔’

اسد کا مانناہے کہ اس کے بھائی کو اس کی مذہبی پہچان  کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ انہوں نے کہا، ‘ان دنوں حالات ہی ایسے ہیں۔’

ملزم نریندر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این سی) کی کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے،جس میں دفعہ 103(1) (جان بوجھ کر کیا گیا قتل) بھی شامل ہے۔

پولیس کا فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار

تاہم، انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ، پانی پت پولیس نے اس واقعے کے پیچھے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار کیا ہے۔ رپورٹ میں انڈسٹریل سیکٹر 29 تھانے کے تھانہ انچارج (ایس ایچ او) سبھاش  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے،’بالکل نہیں (جب فرقہ وارانہ زاویہ کے بارے میں پوچھا گیا))۔ ملزم نے صرف ٹوپی پہن کر  دیکھنا چاہا تھا، اسے شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ مذہبی ٹوپی ہے۔ اس نے ٹوپی پہن کر پوچھا کہ یہ کیسی لگ رہی ہے، جس پر متوفی نے اسے لوٹانے کے لیے کہا۔اس کے بعد جھگڑا ہو گیا،معاملہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ تفتیش جاری ہے۔’

وہیں،کشن گنج کے کانگریس ایم پی محمد جاوید نے اس واقعہ کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں ہے، بلکہ ‘ریاستی سرپرستی ‘  میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ہے۔

انہوں نے لکھا، ‘ہریانہ میں کشن گنج کے کوچادھامن کے اسجد بابو کو صرف اس لیے بے دردی سے قتل کر دیا گیا کیونکہ اس نے ٹوپی پہن رکھی تھی۔ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں، بلکہ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی ہے۔ اس ٹارگٹ کلنگ کے لیے ہریانہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ ہم تمام مجرموں کے خلاف سخت کارروائی اور متاثرہ خاندان کو 50 لاکھ روپے کے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اس ادارے سےامید کر سکتے ہیں کہ یہ ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے اٹھ کرکھڑا ہوجائے؟ شاید وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اس بار پھر سے اس ادارے کے آقا بی جے پی کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی قربانی دے دیں گے۔

(اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب/اشوکا یونیورسٹی)

اب یہ بات آہستہ آہستہ واضح ہوتی جا رہی ہے کہ علی خان محمود آباد کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کو گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا اس پر پوری طرح  قبضہ کر لیا جائے گا؟ کیا یہ جے این یو کی طرح برباد کر دیا جائے گا؟

اس خدشے کی  وجہ ہے۔ اس بار آر ایس ایس کی تنظیمیں، بی جے پی، سرکاری ادارے، سب مل کر اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کر رہے ہیں۔ خبرہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے تین ماہ قبل اشوکا یونیورسٹی کیمپس میں دو طالبعلموں کی موت کے معاملے میں وضاحت کے لیے ہریانہ پولیس اور انتظامیہ کو نوٹس بھیجا ہے۔ اس نے یہ کام کسی کی شکایت پر کیا ہے۔

کمیشن کے خط میں کہا گیا ہے کہ ‘شکایت کنندہ نے الزام لگایا ہے کہ 14 اور 15 فروری کو اشوکا یونیورسٹی کے دو طالبعلموں کی المناک موت نے ممکنہ ادارہ جاتی کوتاہی کے بارے میں شدید تشویش پیدا کی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، ایک طالبعلم کی خودکشی سے موت  کا اندازہ ہے، جبکہ دوسرے طالبعلم کی لاش چند ہی گھنٹے بعد یونیورسٹی کے گیٹ کے قریب غیر واضح اور مشتبہ حالات میں پائی گئی۔’

کمیشن کے مطابق، ‘شکایت کنندہ نے واقعات کے ارد گرد شفافیت کی تشویشناک کمی کو اجاگر کیا، جس میں مبینہ خودکشی نوٹ کے مواد کو ظاہر نہ کرنا بھی شامل ہے۔ مزید برآں، یونیورسٹی کے مینٹل ہیلتھ سپورٹ سسٹم، سیکورٹی پروٹوکول، اور کیمپس کے مجموعی ماحول سے متعلق اہم سوال  بھی تھے۔’

یہ سب کچھ نارمل لگ سکتا ہے اگر ہم یہ نہ دیکھنا چاہیں کہ مرنے والوں کی عمریں 21 اور 19 سال تھیں اور انہیں کسی بھی طرح بچوں کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر کا معاملہ ہے، حالانکہ یہ اپنے آپ میں تشویشناک ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس کمیشن نے بچوں کے حقوق کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس حکومت کے ناقدین پر بار بار حملہ کیا ہے۔ ہرش مندر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس نوٹس کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کے ادارہ جاتی عمل کی تحقیقات شروع کی جائیں گی اور اسے کنٹرول  میں لینے کی کوشش کی جائے گی۔

اس نوٹس کا وقت بھی کم اہم نہیں ہے۔ یہ علی خان کے مقدمے کے عین درمیان میں آیا ہے۔ اس طرح کے واقعات پچھلے 11 سالوں میں کئی کیمپس میں پیش آئے ہیں۔ کیا کمیشن نے ہر جگہ اس انداز سے متحرک ہونے کا ثبوت دیاہے؟

اس نوٹس سے پہلے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے یونیورسٹی کے خلاف احتجاج کیا۔ پریشداس بات پر ناراض ہے کہ یونیورسٹی نے علی خان کی رہائی پر راحت کا اظہار کیوں کیا اور اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ علی خان کو معطل یا برخاست کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اگرچہ احتجاج میں بہت کم لوگ تھے، لیکن معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی نے پریشد کو دو تین دن بعد جواب کی یقین دہانی کرائی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ آر ایس ایس کے ترجمان ‘آرگنائزر’ نے بھی اسی بہانے اشوکا یونیورسٹی کے خلاف لکھا ۔ علی خان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ اشوکا یونیورسٹی ان کے خیالات سے متفق ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے اشوکا یونیورسٹی کے کچھ اکیڈمک پروگراموں میں ریزرویشن کو لے کر بھی سوال اٹھائے ہیں۔

علی خان کے خلاف برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن نے اشوکا یونیورسٹی کو کھری -کھوٹی سنائی تھی اور اسے دھمکی بھی دی تھی۔

یہ بھی یوں ہی نہیں ہوا کہ علی خان کے معاملےکی سماعت کے دوران جسٹس سوریہ کانت نے اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کو احتجاج کرنے پر دھمکی دی۔ اس کا کوئی موقع نہیں تھا۔ کیا اشوکا یونیورسٹی انتظامیہ اس زبانی دھمکی کو طلبہ  اور اساتذہ کو نظم و ضبط کے لیے استعمال کرے گی؟

علی خان محمودآباد کے تبصرے میں خیالی طور پرخاتون مخالف اور سیڈیشن ڈھونڈ کر ان پر حملہ کیا جا رہا ہے، وہ اب اشوکا یونیورسٹی پر حملے میں بدل گیا ہے۔ اس کا  مطلب کیاہے؟

ہندوتوا تنظیمیں اشوکا یونیورسٹی کو بھی اسی طرح شک و شبہ دیکھتی ہیں جس طرح جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو ۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو بھی ملک دشمن کہہ کر گھیر لیا گیا ۔ اس کے زیادہ تر اساتذہ آزاد خیال تھے، یہ حقیقت آر ایس ایس کو مسلسل پریشان کرتی رہی۔ اس کے نصاب نوجوانوں میں لبرل سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور وہ ہندو راشٹر واد کے ناقد تھے۔

جے این یو ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کے لیے ایک ماڈل تھا۔ اگرچہ یہ تعداد اور حجم میں دہلی یونیورسٹی سے چھوٹا تھا، لیکن اس کا تعلیمی وقار زیادہ تھا۔ اسے ختم کرنا ضروری تھا۔ اسی طرح اشوکا یونیورسٹی بھی ایک بہت چھوٹا ادارہ ہے، لیکن کئی وجوہات کی بنا پر علمی اور اکیڈمک دنیا میں اس کی علامتی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ آر ایس ایس کے ثقافتی تسلط کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس علامت کو ختم کرنا ضروری ہے۔

جے این یو کو بھی ملک دشمن کہہ کر بدنام کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے کردار کو بدلنے کی کوشش کی گئی۔ اسے سرکاری طور پر کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ ہندوتوا دی وائس چانسلر مقرر کرکے جے این یو کو تباہ کیا گیا۔ دہلی یونیورسٹی کو بھی آہستہ آہستہ تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ سب سے پہلے وائس چانسلر کی تقرری اور پھر اساتذہ کی تقرری کے ذریعے کیا گیا۔ اب، ایسے اساتذہ کی کافی تعداد ہے جو ہندوتوا یا دائیں بازو کے ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر نااہل بھی ہیں۔

اشوکا یونیورسٹی میں ایسے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ہے جنہیں اپنی سوچ میں ترقی پسند یا لبرل کہا جا سکتا ہے۔ ان کی وجہ سے یونیورسٹی کا نصاب بھی لبرل ازم کی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے طلبہ بھی زیادہ تر لبرل اقدار کی پیروی کرتے ہیں۔ ابھی انہوں نے علی خان کی حمایت کی ہے۔ لیکن اس کے منتظمین پر ترقی پسندی یا لبرل ازم کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔

پچھلے 10 سالوں میں انہوں نے بارہا ان اساتذہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ہے جن کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر ایس ایس نے ناراضگی ظاہر کی۔ 2016 میں انتظامیہ نے کشمیر سے متعلق ایک بیان پر دستخط کرنے پر راجندرن نارائنن اور دو اکیڈمک اہلکاروں سورو گوسوامی اور عادل مشتاق شاہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ اس کے بعد وائس چانسلر پرتاپ بھانو مہتہ کو بھی اشارہ کیا گیا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں کیونکہ ان کی موجودگی سے ادارے پر حکومت کی سفاک نگاہیں بنی رہیں گی اور وہ اس کے کام کاج میں  رکاوٹیں پیداکرے گی۔

ان کے استعفیٰ کے بعد انتظامیہ یہ کہتی رہی کہ پرتاپ نے یہ کام اپنی مرضی سے کیا ہے۔ اس کے بعد، ابھی کچھ دن پہلے، اقتصادیات کے پروفیسر سبیہ ساچی داس کو ان کی ملازمت سے اس لیے نکال دیا گیاکہ انہوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات پر ایک اکیڈمک پیپر جاری کیا تھا، جو بی جے پی کوناگوار گزرا تھا۔

اساتذہ کو سزا دیتے ہوئے انتظامیہ نے ہر بار یہ دلیل دی کہ اشوکا یونیورسٹی کی بقا ہندوستان کے لیے بہت ضروری ہے اور اگر اس کے لیے اساتذہ کو قربانی دینی پڑتی ہے تو یہ جائز ہے کیونکہ اشوکا یونیورسٹی ہندوستان کے نالج کیمپس کے لیے ضروری ہے۔ بڑے مقصد کے لیے سب کی قربانی ضروری ہے۔ یعنی یونیورسٹی بذات خود ایک ایسا مقدس مقصد ہے کہ اس کے لیے ان اقدار کو بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے جن کا اشوکا یونیورسٹی دعویٰ کرتی رہی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ اسے اپنی ترقی کے لیے، زمین، پانی اور بجلی کے لیے سرکار کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ایک دو اساتذہ نہ ہوں تو کیا تبدیلی آ جائے گی؟

تو کیا اس بار بھی علی خان کی قربانی دے کر اشوکا یونیورسٹی اپنے لیے کچھ اورمہلت طلب کر لے گی؟ یا اس بار بی جے پی اور آر ایس ایس اس سے مطمئن نہیں ہوں گے اور ان کا مطالبہ کچھ اوربڑا ہوگا؟ کیا وہ انتظامیہ کے لیے اپنا آدمی چاہیں گے؟ کیا وہ یونیورسٹی کی فکری سمت میں تبدیلی کا مطالبہ کریں گے؟ یونیورسٹی انتظامیہ کا کیا موقف ہوگا؟

ہم اشوکا یونیورسٹی کے بورڈ سے ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے کھڑے ہونے کی امید نہیں کر سکتے۔ وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس بار پھر سے وہ بی جے پی یا حکومت کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی قربانی دیں گے۔

وہ یہ نہیں بھی کر سکتے ہیں۔ میں کم از کم ایک ایسے اسکول منتظم کو جانتا ہوں جس نے دائیں بازو کے دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، اسکول پر حملہ اس لیے کیا گیا تھاکہ اس نے اپنے طلبہ کو پڑھنے کے لیے کچھ کتابیں تجویز کی تھیں اور ہندوتوا کے حامیوں کواس پر اعتراض تھا۔ اسکول میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن اسکول کے منتظم نے کہا کہ وہ کتابوں کی فہرست میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔ اگر انتظامیہ نے اسے سکیورٹی فراہم نہیں کی تو وہ اسکول بند کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ابھی اسکول چل رہا ہے۔

کیا اشوکا یونیورسٹی کے سرپرستوں میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ اگر انہیں ان کے مقاصد کے مطابق کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ ادارے کو بند کرنے کو ترجیح دیں گے؟ وہ شاید ہی ایسا کر سکیں۔

لیکن ہم ان کی بزدلی پر کتنی ہی لعنت بھیجیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس نے یہ صورتحال پیدا کی ہے۔ اگر اشوکا یونیورسٹی بچ جاتی ہے اور جے این یو کی طرح ختم ہوجا تی ہے تو اس کے ذمہ دار وہی  ہیں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

دہلی: پچھلے چھ مہینوں میں 700 سے زیادہ غیر قانونی بنگلہ دیشی کو واپس بھیجا گیا

پہلگام حملے کے بعد قومی دارالحکومت کے علاقے میں شروع کی گئی مہم میں دہلی پولیس نے 470 لوگوں کی شناخت غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کے طور پر اور 50 دیگر کی پہچان ایسے غیر ملکیوں کے طور پر کی، جواپنے مقررہ وقت سے زیادہ عرصے سےملک میں  رہ رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کے بریماری میں ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد پر ایک نشان۔فوٹو بہ شکریہ؛ وکی میڈیا کامنس /ناہید سلطان۔

نئی دہلی: ہندوستانی حکومت کی ‘پش بیک’ حکمت عملی کے تحت گزشتہ چھ ماہ میں تقریباً 700 ‘غیر قانونی’ تارکین وطن کو دہلی سے بنگلہ دیش واپس بھیجا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، گزشتہ ماہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کےعمل میں تیزی آئی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، پہلگام حملے کے بعد پوری راجدھانی میں شروع کی گئی ایک مہم تحت دہلی پولیس نے 470 لوگوں کی شناخت غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن اور 50 دیگر کی پہچان ایسے غیر ملکیوں کے طور پر کی، جو مقررہ وقت سے زیادہ عرصے تک ملک میں رہ رہے ہیں۔

اس کے بعد ان لوگوں کو ہنڈن ایئر بیس سے تریپورہ کے اگرتلہ لے جایا گیا اور پھر انہیں زمینی سرحد کے ذریعے بنگلہ دیش بھیج دیا گیا۔

اس سلسلے میں دہلی پولیس کے حکام نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال مرکزی وزارت داخلہ نے انہیں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن اور روہنگیا کی شناخت اور حراست میں لینے کے لیے تصدیقی مشق کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ایک اہلکار نے اخبار کو بتایا کہ پچھلے ایک مہینے میں غازی آباد کے ہنڈن ایئر بیس سے تقریباً 3-4 خصوصی پروازیں تمام غیر قانونی تارکین وطن کو چھوڑنے کے لیے اگرتلہ گئی ہیں۔

اخبار کے ذرائع کے مطابق، ‘دہلی پولیس نے تقریباً پانچ عارضی ہولڈنگ سینٹر بنائے ہیں۔ انہیں ایف آر آر او کے ساتھ تال میل کرنے اور غیرقانونی تارکین وطن کوایک خصوصی طیارے سے اگرتلہ ہوائی اڈے اور مغربی بنگال چھوڑ نے کے لیےکہا گیا ہے۔’

بی جے پی مقتدرہ ریاستوں سے کئی تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا

دہلی کے علاوہ، ہریانہ، راجستھان، گجرات، مہاراشٹر، اتر پردیش اور گوا سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے زیر اقتدار ریاستوں میں کئی غیر قانونی تارکین وطن کو حراست میں لیا گیا، اور بعد میں انہیں واپس بھیجنے  کے لیے بارڈر سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) کے حوالے کر دیا گیا۔

دی ہندو کے مطابق ، جنوری کے بعد سے اب تک دہلی پولیس نے سب سے زیادہ تعداد میں غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو حراست میں لیا ہے، جن کی تعداد کم از کم 120 ہے۔ اس کے بعد مہاراشٹر (کم از کم 110)، ہریانہ (80)، راجستھان (70)، اتر پردیش (65)، گجرات (65) اور گوا (10) کی ریاستی پولیس ہیں۔

ایک اہلکار نے اخبار کو بتایا کہ بی ایس ایف نے مغربی بنگال-بنگلہ دیش سرحد پر ایک سیکٹر سے 1200 سے زیادہ بنگلہ دیشیوں کو واپس بھیجا ہے۔

افسر نے کہا، ‘یہ گرفتاریاں اس وقت کی گئیں جب وہ زمینی سرحد سے ہندوستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وزارت داخلہ کے حکم پر انہیں آئندہ چند روز میں واپس بھیج دیا گیا۔’

قابل ذکر ہے کہ اس ماہ کے شروع میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے 10 مئی کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ حکومت نے قانونی راستہ اختیار کرنے کے بجائے دراندازی کو روکنے کے لیے ‘پش بیک’ میکانزم کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وہیں، بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے اس سے قبل 8 مئی کو ہندوستان کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں ‘لوگوں کو ملک میں ایسے دھکیلنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور ہندوستانی حکومت وطن واپسی کے قائم کردہ طریقہ کار پر عمل کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔’

Next Article

راہل گاندھی نے کہا – ’ناٹ فاؤنڈ سوٹیبل‘ کہہ کر ایجوکیشن اور قیادت سے دور رکھنا ایک نیا منوواد

دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے طلبہ کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران راہل گاندھی نے کہا کہ ڈی یو میں 60 فیصد سے زیادہ پروفیسر کے ریزرو عہدوں کو ‘ناٹ فاؤنڈ سوٹیبل’ (این ایف ایس) قرار دے کر خالی رکھا گیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پسماندہ طبقات کے اہل امیدواروں کو جان بوجھ کر ‘نااہل’ ٹھہرایا جا رہا ہے۔

راہل گاندھی نے کہا کہ ‘دہلی یونیورسٹی میں پروفیسروں کے 60 فیصد سے زیادہ اور ایسوسی ایٹ پروفیسروں کے 30 فیصد سے زیادہ ریزرو عہدوں کو ‘ناٹ فاؤنڈ سوٹیبل(این ایف ایس)قرار دے کر خالی رکھا گیا ہے۔’ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)

نئی دہلی:  لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین(ڈی یو ایس یو) کے طلبہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ ‘ شیڈیولڈ کاسٹ (ایس سی)، درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور دیگر پسماندہ طبقات (اوبی سی) کے اہل امیدواروں کو جان بوجھ کر ‘نااہل’ ٹھہرایا جا رہا ہے – تاکہ وہ ایجوکیش اور قیادت سے دور رہیں۔’

راہل گاندھی نے اپنے ایکس ہینڈل پر اس ملاقات کا ویڈیو ٹوئٹ کیا ہے۔ ویڈیو میں کانگریس ایم پی طلبہ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ویڈیو کے ساتھ ڈالے گئے کیپشن میں وہ لکھتے ہیں، ‘دہلی یونیورسٹی میں پروفیسروں کی 60 فیصد سے زیادہ اور ایسوسی ایٹ پروفیسروں کی 30 فیصد سے زیادہ ریزرو پوسٹوں کو ‘ناٹ فاؤنڈ سویٹبل (این ایف ایس)’قرار دے کر خالی رکھا گیا ہے۔ این ایف ایس اب نیا منوادہے۔’

بتادیں کہ ‘منواد’ کا مطلب ہے وہ سوچ یا نظام، جو پرانے’منوسمرتی’ کے اصولوں پر عمل کرتا ہے۔

طلبہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘یہ کوئی استثنیٰ نہیں ہے، یہی سازش ہر جگہ چل رہی ہے، آئی آئی ٹی ہو یا سینٹرل یونیورسٹی، این ایف ایس آئین پر حملہ ہے۔ این ایف ایس سماجی انصاف کے ساتھ دھوکہ ہے۔ ‘

ویڈیو میں وہ طلبہ سے کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کی بھی تاریخ ہے۔ انہیں اپنی پہچان کے لیے جو کچھ برداشت کرنا پڑا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن ہندوتوا کےمنصوبے کی بنیاد ہی یہی ہے کہ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی برادریوں کی تاریخ کو مٹا  دیا جائے۔’

راہل گاندھی نے امبیڈکر کے اس بیان کو دہراتے ہوئے – مساوات کے لیے تعلیم سب سے بڑا ہتھیار ہے – کہا کہ ‘مودی حکومت اس ہتھیار کو کند کرنے میں لگی ہوئی ہے۔’

جب ایک طالبعلم نے ریزرویشن پر سوال پوچھا تو اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ‘ریزرویشن ایک حق ہے۔ اور کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد اس پر لگائی گئی 50 فیصد پابندی ہٹا دی جائے گی۔’