آپریشن سیندور: سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں اشوکا کے پروفیسر گرفتار، بی جے پی لیڈر نے کی تھی شکایت

محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ اس سے قبل ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے محمود آباد کو ان کی سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں طلب کیا تھا۔

محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔ اس سے قبل ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے محمود آباد کو ان کی سوشل میڈیا پوسٹ کے سلسلے میں طلب کیا تھا۔

علی خان محمود آباد۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس/محمود آباد)

علی خان محمود آباد۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس/محمود آباد)

نئی دہلی: ہریانہ پولیس نے اتوار (18 مئی) کو اشوکا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر علی خان محمود آباد کو گرفتار کر لیا۔ یہ معاملہ آپریشن سیندور کی پریس بریفنگ کے حوالے سے ان کے تبصرے سے متعلق ہے۔

محمود آباد کو سیڈیشن اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں حراست میں لیا گیا ۔ اس سے قبل ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے محمود آباد کو پاکستان کے خلاف ہندوستان کے آپریشن سیندور کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے سلسلے میں  طلب کیا تھا۔

ان کے خلاف ہریانہ میں بی جے پی یووا مورچہ کے جنرل سکریٹری یوگیش جٹھیری نے شکایت درج کروائی تھی۔ ایف آئی آر کے مطابق، جٹھیری ہریانہ کے ایک گاؤں کے سرپنچ ہیں، اور محمود آباد کے تبصرے سے انہیں تکلیف ہوئی ہے۔

حالاں کہ، پولیس نے ابھی تک عوامی طور پر ان کی گرفتاری پر کوئی  بیان نہیں دیا ہے، لیکن ہریانہ پولیس کے ایک سب انسپکٹر کی طرف سے دہلی کی مقامی پولیس کے ساتھ شیئر کیے گئے دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ محمود آباد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور انہیں سونی پت کی عدالت میں پیش کیا جانا ہے۔

ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ پولیس نے انہیں اتوار کی صبح دہلی میں واقع ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا۔

اہل خانہ نے بتایا کہ ہریانہ پولیس کے تقریباً 10-15 اہلکار اتوار کی صبح تقریباً 6:30 بجے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے اور محمود آباد کو مقامی پولیس اسٹیشن میں پیش کرنے کے بعد سونی پت لے گئے۔

پروفیسر محمود آباد اشوکا یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھاتے ہیں۔

‘ہندوستان کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالنا’

محمود آباد پر بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 152 کے تحت ‘ہندوستان کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے والے فعل’ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ان پر قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے، شہریوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کےارادے سے دانستہ اور بدنیتی پر مبنی کام کرنے، مذہب، نسل، مقام پیدائش، رہائش، زبان، ذات یا برادری کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان تعصب یا دشمنی، نفرت یا بغض و عداوت کے جذبات کو فروغ دینے کی کوشش کرنےکے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ محمود آباد کے خلاف مجرمانہ کارروائی ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ کی جانب سے انہیں ایک نوٹس بھیجے جانے کے چند دن بعد سامنے آئی ہے، جس میں ان پر فوجی خواتین افسران، بالخصوص کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی توہین کرنے اور ہندوستانی مسلح افواج میں پیشہ ور افسران کے طور پر ان کے کردار کو کمزور قرار دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔

محمود آباد پر حساس وقت میں لوگوں کو ملک کے خلاف اکسانے کا الزام لگایاہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ‘ایسے حساس وقت میں بیرونی طاقتوں کے خلاف لڑنے کے لیے لوگوں کو متحد کرنے کے بجائے پروفیسر جذبات کو بھڑکاتے رہے اور مذہب کے نام پر بیرونی یا غیر ملکی طاقتوں کو فائدہ پہنچانے کا کام کرتے رہے۔’

پروفیسر نے آپریشن سیندور کے بعد کرنل قریشی کی میڈیا بریفنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ لکھی تھی کہ کس طرح عام مسلمانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔

اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے، ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے محمود آباد کو ایک نوٹس جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے طرز عمل، تبصروں اور بیانات سے خواتین کی حفاظت، سلامتی اور وقار سے متعلق سنگین خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ محمود آباد کی پوسٹ نے سرحد پار دہشت گردی کے جواب میں کیے گئے قومی فوجی اقدامات اور خواتین افسران کے کردار کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ تشدد کو بھڑکانے کی کوشش کی، خاص طور پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے اور قومی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے۔ اس پوسٹ سے خواتین کے وقار کو ٹھیس پہنچا ہے۔

وہ تبصرہ کیا تھا؟

آٹھ  مئی کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے اشوکا یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ محمود آباد نے کرنل صوفیہ قریشی کی ستائش کرنے والے ہندوتوایوں کے تضاد کو اجاگر کیا تھا۔ محمود آباد نے کہا تھا کہ کرنل قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی پریس بریفنگ ایک علامت کے طور پر اہم تھی، لیکن اسے زمینی حقیقت میں بدلنا ہوگا، ورنہ یہ محض منافقت ہے۔

اس کے بعد ہریانہ ریاستی خواتین کمیشن نے دعویٰ کیا تھا کہ محمود آباد کے تبصرے نے ہندوستانی مسلح افواج میں خواتین افسران کی توہین کی اور فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دیا۔

خواتین کمیشن کے جواب میں محمود آباد نے کہا تھا کہ ‘میرے تبصرے کو مکمل طور پر غلط سمجھا گیا ہے اور کمیشن کے پاس اس معاملے میں کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے… مجھے جاری کیے گئے سمن اس بات کو اجاگر کرنے میں ناکام رہے کہ میری پوسٹ کس طرح خواتین کے حقوق یا قوانین کے خلاف ہے۔’

محمود آباد کے مطابق، ‘میں نے کرنل قریشی کی حمایت کرنے والے دائیں بازو کے لوگوں کی بھی تعریف کی اور ان سے عام ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ  بھی یہی رویہ اپنانے کے لیے کہا، جو روزانہ ہراسانی  کا سامنا کرتے ہیں… میرا تبصرہ شہریوں اور فوجیوں دونوں کی سلامتی کے بارے میں تھا۔ اس کے علاوہ، میرے تبصروں میں دور دور تک کوئی بدگمانی نہیں ہے۔’

اس معاملے پر اشوکا یونیورسٹی نے کہا تھا کہ پروفیسر کا یہ تبصرہ یونیورسٹی کی رائے کی نمائندگی نہیں کرتا۔

(اس  رپورٹ  کوہریانہ پولیس کے بیان کے ساتھ اپڈیٹ کیا جائے گا۔)

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)