تقریباًایک ہزار صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلہ کو پڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہورہا تھا جیسے میں کشمیری نوجوان افضل گرو کو دی گئی سزائے موت کے فرمان کو پڑھ رہا ہوں۔ جب لگ رہا تھا کہ شاید کورٹ اپنے ہی دلائل کی روشنی میں گرو کر بری کردے گی،تب فیصلے کا آخری پیراگراف پڑھتے ہوئے، جج نے فرمان صادر کیا کہ’اجتماعی ضمیر’ کو مطمئن کرنے کی خاطر، ملزم گرو کو سزائے موت دی جاتی ہے۔بالکل اسی طرح بابری مسجد سے متعلق فیصلہ میں بھی کورٹ نے ہندو فریقین کو مطمئن کردیا۔
عیدمیلاد النبی سے ایک دن قبل اور عین جب سکھ زائرین کے لیے کرتار پور کاریڈور کا افتتاح ہو رہا تھا، ہندوستانی سپریم کورٹ نے تاریخ کے سب سے پرانے دیوانی تنازعہ یعنی بابری مسجد کی حق ملکیت کا فیصلہ سنادیا۔ توقع کے مطابق ہی چیف جسٹس رنجن گگوئی کی قیادت میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے استدلال کے بجائے عقیدہ کو فوقیت دےکر متنارعہ زمین، اساطیری شخصیت و ہندو دیوتا رام للاکے سپرد کرکے، وہاں پر ایک مندر بنانے کے لیے راستہ صاف کردیا۔ تقریباًایک ہزار صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلہ کو پڑھتے ہوئے، مجھے محسوس ہورہا تھا، کہ جیسے میں کشمیری نوجوان افضل گرو کو دی گئی سزائے موت کے فرمان کو پڑھ رہا تھا۔ اس فیصلہ میں بھی کورٹ نے استغاثہ کے دلائل کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی بتایا کہ استغاثہ گرو کے دہشت گردوں کے ساتھ روابط اور جیش محمد کے ساتھ اس کی قربت و رفاقت ثابت نہیں کر پائی ہے۔
جب لگ رہا تھا کہ شاید کورٹ اپنے ہی دلائل کی روشنی میں گرو کر بری کردے گی، کہ فیصلہ کا آخری پیراگراف پڑھتے ہوئے، جج نے فرمان صادر کیا کہ’اجتماعی ضمیر’ کو مطمئن کرنے کی خاطر، ملزم گرو کو سزائے موت دی جاتی ہے۔بالکل اسی طرح بابری مسجد سے متعلق فیصلہ میں بھی کورٹ نے ہندو فریقین کے دلائل کی پول کھول کر رکھ دی۔ ان کی یہ دلیل بھی رد کردی کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے اور مسجد کو منہدم کرنے کے واقعات کو بھی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمی قرار دیا۔ کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہاں بابری مسجد ایستادہ تھی اور نماز کا سلسلہ منقطع ہوجانے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہوجاتا۔عدالت نے مسجد کے نیچے کسی تعمیر کا تو اشارہ دیا لیکن یہ بھی کہا کہ محکمہ آثار قدیمہ نے یہ نہیں بتایا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر کی گئی تھی۔
یہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔ 1949 کو جب مسجد کے منبر پر مورتی رکھی گئی اور مقامی انتظامیہ نے تالا لگا کر مسلمانوں کی عبادت پر پابندی لگائی تو مقامی وقف بورڈ اور ایک شخص ہاشم انصاری نے اس کے خلاف کورٹ میں فریاد کی کہ اس جگہ کی ملکیت طے کی جائے۔ جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیرکہا کہ Law of Limitations کا اطلاق ہندو دیوی-یوتاؤں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں ہوں۔جج صاحبان نے دراصل ہندوؤں کی آستھا یعنی عقیدہ کو اپنے فیصلے کی بنیادبنا دیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ بھگوان رام کا جنم ’گربھ گرہ‘ یعنی مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے،عین محراب و ممبر کے پاس ہوا تھا۔”ایک بار اگر آستھا قائم ہوجائے تو عدالت کو معاملے سے دور رہنا چاہیے اور عدالت کو عقیدت مندوں کی آستھا اور عقیدے کے معاملے میں مداخلت سے پرہیز کرنا چاہئے۔“
اسی عدالت نے مقدمے کی سماعت سے قبل یہ واضح کیاتھا کہ وہ اس مقدمے کا فیصلہ کسی کی عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ حق ملکیت کی بنیاد پر کرے گی۔اسی طرح کورٹ نے تسلیم کیا کہ 1949تک اس مسجد میں نماز کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ جس رات مسجد میں مورتیاں رکھی گئی تھیں، اس سے قبل وہاں عشا ء کی نماز ادا کی گئی تھی۔ مگر کورٹ نے کہا کہ مسلم فریق یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا کہ کہ اس مسجد کی تعمیر یعنی 1528اور1856کے درمیان بھی وہاں نماز ادا کی جا رہی تھی۔ یعنی کورٹ کی دلیل ہے کہ اس مسجد میں نماز و عبادت کا سلسلہ 1857میں شروع ہوا۔ اگر یہ دلیل مان بھی لی جائے، تو سوال اٹھتا ہے کہ 1528اور1857تک اس کا کیا استعمال تھا؟ ایک یورپی سیاح جوزف ٹائفین تھلیر کا حوالہ دےکر کورٹ نے بتایا کہ مسجد کے اندرونی احاطہ سے متصل ہند و ایک چبوترہ کی عبادت کرتے تھے۔تجزیہ کار موہن گورو سوامی کے مطابق کورٹ کا فیصلہ کچھ ایسا ہی ہے کہ ایک آدمی کسی کا خالی مکان ہڑپ کرتا ہے، اور اس کو مسمار کرکے نیا مکان بنانا شروع کرتا ہے۔ کورٹ فیصلہ صادر کرتا ہے کہ مکان پر قبصہ اور اس کو مسمار کرنا غیر قانونی اور جرم ہے، مگر نئے مکان کی تعمیر جائز ہے اور اس میں رکاوٹ نہیں آنی چاہئے۔
فیصلہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے، کہ عدالت نے فیصلہ ہندوؤں کے حق میں تو دیا، مگر مسمار شدہ مسجد کی زمین، ہندو فریقین کو دینے کے بجائے، بھگوان رام کے سپرد کرنے کے احکامات صادر کر دئے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ چونکہ رام للا، نابالغ ہے، اس لیے اس کی سرپرستی کے لیے حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانے کیلئے تین ماہ کا وقفہ دے دیا۔ فریقین پر قانون و نظم کو برقرار رکھنے کی بھی ذمہ داری ڈالی گئی۔کورٹ نے بتایا کہ چونکہ رام للا کی مورتی بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کئے گئے عارضی مندر میں براجمان ہے، اس لیے وہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔ کورٹ نے رام للا کو Juristic Personیعنی شخص معنوی و اعتباری، جس پر قانون کے سبھی حقوق و فرائض کا اطلاق ہوتا ہے، قرار دیا۔ ہندو فریقین، جو فیصلہ پر بغلیں بجا رہے ہیں، کورٹ کے اس رخ سے خود بھی حیران ہیں، کہ رام مندر کی تعمیر میں اب و ہ وزیر اعظم مودی کے دست نگر ہوں گے۔ٹرسٹ کے ممبران اور رام مندر کے نگرانوں کا تعین مودی کی مرضی سے ہوگا۔ نرموہی اکھاڑہ، رام جنم بھومی نیاس، ہندو مہاسبھا ا ور وشو ہندو پریشد سے تعلق رکھنے والے سادھو سنتوں اور پجاریوں کی نیند یں اڑی ہوئی ہے، جن کی عظیم الشان رام مندر کے کنٹرول اور وہاں پر زائرین کے چڑھاوے پر حق جمانے کی آس میں رال ٹپک رہی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایودھیا معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مذہبی اقلیتوں اور مسلمانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے؟
اکیسویں صدی میں بھی کسی جمہوری ملک کی عدالت کوئی ایسا فیصلہ دے سکتی ہے، شاید دنیا کو حیران کردے، مگر شاید ان کو معلوم نہیں، ہندوستانی سپریم کورٹ آزاد اور خود اختیار ہی سہی، مگر جب اس طرح کامعاملہ یہاں پہنچتا ہے تو انصاف کی دیوی حقیقت میں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ فروری 1984 کو معروف وکیل کپل سبل نے چیف جسٹس، جسٹس یشونت وشنو چندر چوڑ کی عدالت میں نے زور دار بحث کرکے دلیل دی تھی کہ جموں و کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ کے بانی مقبول بٹ کی، سزائے موت پر عملدرآمدنہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے سزاکی توثیق نہیں کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی دستخط و مہر شدہ سند بھی پیش کی۔مگر اٹارنی جنرل کے دلائل کا جواب دیئے بغیر بس ایک سادہ ٹائپ شدہ کاغذ چیف جسٹس کے حوالے کیا، جس پر کسی کے دستخط نہیں تھے، اور دعویٰ کیا کہ یہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا توثیق نامہ ہے۔ چیف جسٹس نے سبل کی اپیل مسترد کی اور بلیک وارنٹ کو مؤخر کرنے سے انکار کردیا۔
سپریم کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس گانگولی نے دی وائر کو بتایا کہ ان کے لیے اس فیصلہ کو تسلیم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا کہ قانون کے ایک طالب علم کی حثیت سے وہ مانتے ہیں کہ یہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ یہ تعین کرے کہ آئین کے وجود میں آنے سے پہلے وہاں کیا موجود تھا۔اگر اس کو عدالتی بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے، تو بہت سے مندروں، مساجد اور دیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا۔”ہم افسانوی حقائق کی بنیاد پر عدالتی فیصلے نہیں کرسکتے۔“ہندوستان کے طول و عرض میں لاتعداد مندر تو بدھ و جین عبادت گاہوں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔ آٹھویں صدی میں آدی شنکر آچاریہ نے جب ہندو مت کے احیاء کی خاطر ملک کے طول و عرض کا دورہ کرکے بدھ بھکشووں کے ساتھ مکالمہ کیا، تو بدھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرادیا۔ اشوکا اور کنشکا کے عہد حکومت میں تو بھارت کی کثیر آبادی بدھ مت اختیار کر چکی تھی، تو اب ہندوستان میں بد ھ آبادی محض 85لاکھ یعنی کل آبادی کا 0.70فیصد ہی کیوں ہے؟
پچھلے کچھ دنوں سے جس طرح بڑی تعداد میں مسلمانوں سے امن وامان برقراررکھنے اور سپریم کورٹ کا فیصلہ بسر و چشم قبول کرنے کی اپیلیں کی جارہی تھیں اور انہیں جس طرح صبر وتحمل سے کام لینے کے لئے کہا جارہا تھا‘ اسے دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ عدالت کوئی ایسا فیصلہ صادر کرنے والی ہے جس پر مسلمانوں کو صرف اور صرف صبر ہی کرنا ہوگا۔ ہندوستان کے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال سے لےکرآر ایس ایس کے لیڈران، جو مسلمانوں کو منہ تک نہیں لگاتے ہیں، مسلم لیڈروں،دانشوروں اور اردو صحافیوں کو کہیں چائے پر اور کہیں کھانے پر بلا کر یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کو چوں چرا کیے بغیر قبول کرنا چاہیے۔ آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم کا کہنا ہے کہ فیصلہ لکھنے کے دوران ججز حضرات نے حقائق کو سامنے نہیں رکھا ہے اور خاص طور پر ٹائٹل سوٹ کو انہوں نے بنیاد نہیں بنایاہے۔جہاں تک کورٹ کی طرف سے مسلمانوں کو معاوضے کے طور پر ایودھیا میں مسجد تعمیر کرنے کے لئے پانچ ایکڑ زمین دینے کا تعلق ہے، کئی مسلم گروپ بشمول حیدر آباد سے ایم پی اسد الدین اویسی اس کو پہلے ہی یہ کہہ کر مسترد کرچکے ہیں کہ خیرات کی زمین پر مسجد نہیں بنائی جاتی۔مگر منطور عالم کا کہنا ہے کہ پانچ ایکڑ زمین، بابری مسجد کے نواح میں اس 67 ایکڑزمین میں سے دی جائے جس کو حکومت نے 1993 میں ایکوائر کیاتھا۔
حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی جن تین ایجنڈوں کے سہارے انتخابات میں ووٹ مانگتی تھی، ان میں سے دو اب پورے ہوچکے ہیں، ان میں جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرنا اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر شامل تھا۔ اب ملک میں یونیفارم سول کورڈ کا نفاذ باقی رہ جاتا ہے۔ ان میں سے بابری مسجد نے خاص طور پر بی جے پی کو سیاسی طور پر خاصا فائدہ پہنچایا۔ ہندی کے ایک معروف صحافی و سماجی کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی ایک تصنیف،ایودھیا-رام جنم بھومی بابری مسجد وواد (تنازعہ) کا سچ میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح تین دہائی قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولہ پر اتفاق کیا تھا۔ وشو ہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولہ پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے، تو ان کو خوب پھٹکار لگائی گئی۔
دیورس کا کہنا تھا ”رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی فکر (یعنی رام مندر کی تعمیر) چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندو ؤں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے۔“ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سرد ہوجائےگی اور اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائیگا۔مشہور محقق اے جی نورانی نے بھی اپنی کتابDestruction of Babri Masjid:A National Dishonour میں لکھا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لئے وشو ہندو پریشد کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔گوکہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیاتاہم، اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کیا اور پارلیامنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لاء میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔مصنف کے بقول انہوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے،مگر وہ مسلمانوں کو سیاسی بیوقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔