اخلاق لنچنگ: ایک دہائی بعد یوپی حکومت نے ملزمین کے خلاف تمام الزامات واپس لینے کی عرضی دی

گوتم بدھ نگر کے دادری علاقے کے بساہڑا گاؤں کے رہنے والے 52 سالہ محمد اخلاق کو 28 ستمبر 2015 کو بھیڑ نے مبینہ طور پراس شبہ میں پیٹ-پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہواہے۔ اب اتر پردیش حکومت نے ان کی لنچنگ کے ملزمین کے خلاف قتل سمیت تمام الزامات واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

گوتم بدھ نگر کے دادری علاقے کے بساہڑا گاؤں کے رہنے والے 52 سالہ محمد اخلاق کو 28 ستمبر 2015 کو بھیڑ نے مبینہ طور پراس شبہ میں پیٹ-پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہواہے۔ اب اتر پردیش حکومت نے ان کی لنچنگ کے ملزمین کے خلاف قتل سمیت تمام الزامات واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

نئی دہلی: نوئیڈا کے دادری کے رہنے والے محمد اخلاق کی لنچنگ سے موت کے ایک دہائی بعد اتر پردیش حکومت نے لنچنگ کےملزم دس لوگوں کے خلاف قتل سمیت تمام الزامات کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

بتا دیں کہ گوتم بدھ نگر کے دادری علاقے کے بساہڑا گاؤں کے رہنے والے 52 سالہ محمد اخلاق کو 28 ستمبر 2015 کوبھیڑ نے مبینہ طور پر اس شبہ میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنے گھر میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے۔

پولیس نے اخلاق قتل کیس کے سلسلے میں کل 18 افراد کو گرفتار کیا تھا، جن میں تین نابالغ بھی شامل تھے۔ ساتھ ہی معاملے کے181 صفحات پر مشتمل دستاویز (چار صفحات کی چارج شیٹ اور 177 صفحات کی کیس ڈائری) کے مطابق، نابالغ ملزم کو ستمبر 2016 میں رہا کر دیا گیا تھا۔

وہیں، کیس کے ایک اور ملزم روی کی حراست میں طویل عرصے تک بیمار رہنے کے بعد اکتوبر 2016 میں موت ہو گئی تھی ، جس کی لاش کو ترنگے میں لپیٹے جانے پر تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق، گوتم بدھ نگر ہائی سیشن کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق، ریاست نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 321 کے تحت مقدمہ واپس لینے کی عرضی دی ہے۔ بی جے پی کے مقامی لیڈر سنجے رانا کا بیٹا وشال رانا  بھی ملزمین میں شامل ہے۔

ملزمان پر تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی، جس کی جگہ اب بھارتیہ نیائے سنہتانے لے لی ہے، جن میں 302 (قتل)، 307 (قتل کی کوشش)، 323 (ارادہ کرکے تکلیف پہنچانا)، 504 (جان بوجھ کر توہین کرنا) اور 506 (مجرمانہ دھمکی) شامل ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گوتم بدھ نگر کے اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ایڈوکیٹ بھاگ سنگھ نے ریاستی حکومت کی طرف سے 26 اگست کو جاری کردہ خط میں ہدایات کے بعد 15 اکتوبر کو کیس واپس لینے کی درخواست کی تھی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش کے گورنر نے استغاثہ واپس لینے کی تحریری منظوری دی ہے اور حکومت کے اس موقف کو دہرایا ہے کہ اخلاق کے گھر سے برآمد ہونے والے گوشت کی شناخت سرکاری لیبارٹری نےگائے کے گوشت کے طور پر کی تھی۔ جوائنٹ ڈائریکٹر (پراسیکیوشن) برجیش کمار مشرا کا ایک خط بھی منسلک کیا گیا ہے، جس میں سنگھ کو کیس واپس لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

آؤٹ لک کی رپورٹ کے مطابق، مقدمہ ابھی عدالت میں زیر التوا ہے، جہاں الزامات کو ہٹانے سے پہلے اس کی رضامندی ضروری ہے۔

معلوم ہو کہ 28 ستمبر 2015 کوبساہڑا گاؤں کے 52 سالہ اخلاق اور اس کے بیٹے دانش کو ان کے گھر سے گھسیٹ کر باہر لے جایا گیا تھا اور مندر کے لاؤڈ اسپیکر سے مبینہ طور پر یہ اعلان کرنے کے بعد وحشیانہ حملہ کیا گیا تھا کہ انہوں نے ایک گائے کو مارا ہے اور گائے کا گوشت اپنے فریج میں رکھا ہے۔ اخلاق کی موقع پر ہی موت ہو گئی تھی، جبکہ بیٹا شدید  طور پرزخمی ہو گیا تھا۔

غورطلب ہے کہ اخلاق کی لنچنگ نے ہجومی تشدد، عدم برداشت اور گائے کا گوشت کھانے پر ملک گیر بحث کو جنم دیا، جس سے سیاسی اور سماجی حلقوں میں پولرائزڈ رد عمل پیدا ہوا۔ کئی شہری گروپوں نے ‘ناٹ ان مائی نیم’ مارچ کا انعقاد کیا، اور سیاسی کارکنوں اور دانشوروں نے زور دے کر کہا کہ یہ ملک میں سیکولر اور جمہوری اقدار کے کمزور ہونے کا اشارہ ہے۔ بالآخر، مودی کی دہائی کے دوران یہ شمالی ہندوستان میں اسی طرح کے حملوں کی ایک خوفناک مثال بن گئی، جب خود ساختہ’گئو رکشکوں’ نے گئو رکشا کے نام پر گئوکشی یا مویشیوں کی نقل و حمل کے الزام میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔