رہائی کے بعد سدھیر دھاولے نے کہا – کام جاری رہے گا …

ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کیے گئے لوگوں میں سے ایک سدھیر دھاولے 2424 دن کی قید کے بعد رہا ہونے والے نویں شخص ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں کانگریس اور بی جے پی، دونوں حکومتوں میں 10 سال سے زیادہ جیل میں گزارنے کے بعد دھاولے کا کہنا ہے کہ دونوں کی حکمرانی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں نے ہر طرح کے اختلاف کو بہت پرتشدد طریقے سے دبایا ہے۔

ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کیے گئے  لوگوں میں سے ایک سدھیر دھاولے 2424 دن کی قید کے بعد رہا ہونے والے نویں شخص ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں کانگریس اور بی جے پی، دونوں حکومتوں میں 10 سال سے زیادہ جیل میں گزارنے کے بعد دھاولے کا کہنا ہے کہ دونوں کی حکمرانی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ دونوں نے ہر طرح کے اختلاف کو بہت پرتشدد طریقے سے دبایا ہے۔

سدھیر دھاولے۔ (تمام تصویریں: سکنیا شانتا/دی وائر)

سدھیر دھاولے۔ (تمام تصویریں: سکنیا شانتا/دی وائر)

ممبئی: فادر اسٹین سوامی کی موت کے ایک دن بعد سدھیر دھاولے نے وفور جذبات میں بیرک میں بیٹھ کر ایک طویل نظم کہی۔’الفاظ بے ساختہ جاری ہوگئے،’ وہ کہتے ہیں۔

دھاولےتخلیقی ذہن کے مالک ہیں، انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں اور ذات پات کے خلاف  نکلنے والے  دو ماہی رسالے ‘وِدروہی’ کے مدیر ہیں۔ انہوں نے پہلے کبھی شاعری نہیں کی تھی۔ یہ ان کی پہلی نظم تھی۔ لیکن سوامی کی موت کے بعد سے ساڑھے تین سال کےعرصے میں دھاولے نے کم از کم سو نظمیں کہی ہیں- ان مسائل اور موضوعات پر جو انہیں براہ راست متاثر کرتے ہیں، ان خبروں پر جو ان کےجذبات پر اثرانداز ہوتے ہیں، اس سیاست پرجو انہیں جیل میں بیدار  رکھتی ہے، مودی پر، ‘منووادی’ حکومت پر اور حتیٰ کہ ‘جمہوریت کو تباہ کرنے’ کے تئیں سماج کی بے حسی پر بھی ۔

گوونڈی کی جھگیوں میں کرایہ کے اپنے 15×15 مربع فٹ کے دفتر-کم-گھر میں بیٹھے ہوئے انہوں مجھے جیل میں لکھی ہوئی اپنی تخلیقات دکھاتے ہوئے کہا، ‘فادر اسٹین سوامی نے مجھے شاعر بنایا۔’

ان  کی گرفتاری سے بہت پہلے یہ علاقہ ان  کے کام کی جگہ اور گھر کے طور پر استعمال میں تھا۔ اس کے ساتھ ہی کلچرل ایکٹوسٹ  اور گلوکاروں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ  کے طور پر بھی۔ نظم کا عنوان ہے ‘پتھل گڑی چا فادر’ (پتھل گڑی کا باپ)؛  اس کے مراٹھی الفاظ سوامی کو جیل کے اندر اور باہر سب کے لیے ایک باپ کے طور پرآہستہ روی  سے بیان کرتے ہیں۔ یہ اس بات کی گواہی ہے کہ سوامی کی موت نے دھاولے کو اندر سے کس قدر توڑ دیا ۔

فادر اسٹین سوامی کی موت کے بعد سدھیر دھاولے کی نظم۔

فادر اسٹین سوامی کی موت کے بعد سدھیر دھاولے کی نظم۔

دھاولے کو 6 جون، 2018 کو گرفتار کیا گیا تھا، جو ایلگار پریشد کیس کے نام سےمعروف  16 گرفتار لوگوں میں سے پہلے چھ لوگوں میں سے ایک تھے۔ دھاولے 2424 دن کی قید کے بعد جیل سے رہا  ہونے والے نویں شخص ہیں (رونا ولسن کو بھی ان کے ساتھ 24 جنوری کو رہا کیا گیا تھا)۔ مقدمے کی سماعت کے بغیر قید کی مدت ان بنیادی وجوہات میں سے ایک تھی جس کی وجہ سے بمبئی ہائی کورٹ نے انہیں اور ولسن کو رہائی دی ۔

‘دونوں نے اختلاف رائے کو بہت پرتشدد طریقے سے دبایا’

ایلگار پریشد کیس پہلی بار نہیں تھا جب دھاولے ریاست کی جانچ کے دائرے میں آئے تھے۔ 2011 میں جب کانگریس کی قیادت والی متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کی حکومت تھی، اس وقت دھاولے پر اسی سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مئی 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) حکومت کے اقتدار میں آنے کے کچھ ہی دنوں  بعدتمام الزامات سے بری ہونے سے پہلے انہوں  نے 40  ماہ سے زیادہ جیل میں گزارے تھے۔

اس وقت کی خصوصی سیشن عدالت کے جج آر جی اسمر نے سخت الفاظ میں تحریر کیے گئے فیصلے میں دھاولے کے خلاف ممکنہ ‘من گھڑت  کہانی’ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اسمر نے فیصلے میں کہا تھا کہ ‘معاشرے میں پھیلی برائیوں کو بے نقاب کرنا اور اس بات پر زور دینا کہ حالات کو بدلنے کی ضرورت ہے ، انہیں دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے کا ثبوت کیسے مانا جا سکتا ہے؟’

گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں دو مختلف حکومتوں میں 10 سال سے زیادہ جیل میں گزارنے کے بعد دھاولے کہتے ہیں کہ دونوں پارٹیوں کی حکمرانی میں’زیادہ فرق نہیں ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘ان دونوں نے ہر طرح  کے اختلاف کو بہت پرتشدد طریقے سے دبا دیا ہے۔’

کچھ دیر سوچنے کے بعد وہ ایک ‘ فرق’ کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘کانگریس کے دور اقتدارمیں ایک کیس کو گھڑنا عام تھا، اور پھر ریاست (حکومت) اسے ثابت کرنےمیں برسوں لگا دیتی تھی، جس کے بعد وہ بالآخر ناکام ہو جاتی تھی۔ لیکن بی جے پی کے دور حکومت میں طریقہ مختلف ہے۔ یہاں حکومت ثبوت پیش کرتی ہے اور آپ خود یہ ثابت کرنے میں لگے رہتے  ہیں کہ جو مواد پیش کیا گیا ہے وہ آپ کا نہیں ہے۔’

شخصی، سیاسی اور جوابی لڑائی

ایلگار پریشد کیس میں دھاولے کی گرفتاری ان کے لیےشخصی اور سیاسی طور پر کئی اہم واقعات کے ساتھ میل کھاتی ہے۔ انہیں 6 جون 2018 کو گرفتار کیا گیا تھا، اور اس وقت سے وہ پونے پولیس کی حراست میں تھے، ان کے قریبی دوست شاہیر شانتانو کامبلے (جن کی زندگی پر کورٹ فلم بنی تھی) کی موت ہو گئی۔ اس کے بعدکشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹایا گیا، کووڈ 19 کی مہاماری پھیلی، ان کے قریبی دوست اور اداکار ویرا ستھی دھر (فلم کورٹ کے ہیرو) دنیا سے چلے گئے، دہلی میں فسادات ہوئے، شہریت ترمیمی قانون/شہریوں کے قومی رجسٹر کے خلاف مظاہرے ہوئے، فادر سٹین سوامی کا انتقال ہو گیا اور حال ہی میں پروفیسر جی این سائی بابا بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان تمام واقعات پر دھاولے کا ردعمل کیارہا؟جواب ہے – بہت سارے الفاظ۔

جب سپریم کورٹ نے دی وائر کی تحقیقات کی بنیاد پر اس رپورٹر کی جانب  سے دائر کی گئی جیلوں میں ذات پات سے متعلق عرضی پر اپنا فیصلہ سنایا تو انہوں  نے ایک اور تلخ نظم لکھی۔

جیل میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سدھیر دھاولے کی نظم۔

جیل میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سدھیر دھاولے کی نظم۔

ان کی دو کتابیں اس وقت شائع ہوئیں، جب وہ جیل میں تھے؛ کچھ اور کتابیں، جن کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ  وہ انہیں اور پریشانی میں ڈال سکتی ہیں،تیارمسودے کے ساتھ  اشاعت کی منتظر ہیں۔

دھاولے کو بڑی مشکل سے ضمانت ملی۔  بامبے ہائی کورٹ کی جانب سے مقدمے کی سماعت شروع کرنے میں ‘غیر معمولی تاخیر’ کو تسلیم کرنے کے بعد انہیں رہا کیا گیا۔ این آئی اے نے ابھی تک اس معاملے میں الزامات طے نہیں کیے ہیں، اور یہ دیکھتے ہوئے کہ کئی مرحلوں میں دائر کی گئی ان کی چارج شیٹ میں 300 سے زیادہ گواہوں کی جانچ کی جانی  ہے، عدالت نے انہیں اور ولسن کو رہا کردیا۔

دھاولے محتاط ہیں کہ معاملے کی سنگینی پر توجہ نہ دیں، کیونکہ مقدمے کی سماعت ابھی شروع ہونی ہے۔ لیکن انہیں اس بات کی بھی اتنی ہی فکر ہے کہ حکومت وہ کام حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جو اس نے حاصل کرنے ہدف مقرر کیا تھا، یعنی ؛انہیں اپنی  بات کہنے سے روکنا۔

وہ کہتے ہیں،’ابتدائی طور پر ایسا لگ سکتا ہے کہ ریاست نے ہمیں سلاخوں کے پیچھے ڈال کر جیت حاصل کر لی ہے۔ لیکن جدوجہد اب بھی جاری ہے۔ عام آدمی لڑ رہا ہے، اور یہی جذبہ ہے جسے ہم نے ہمیشہ زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔’

‘تعاون’ کی سیاست

دھاوالے 31 دسمبر 2017 کو وسطی پونے کے شنیوارواڑہ میں منعقدہ ایلگار پریشد پروگرام کے اہم منتظمین میں سے ایک تھے۔ شنیوار واڑہ ایک سوچی سمجھی جگہ تھی، جو علاقے میں پیشوائی حکومت کی برہمن حکمرانی کا مترادف ہے۔ بی جے پی کی زیرقیادت مہاراشٹر حکومت نے بعد میں پریشد پر بھیما کورےگاؤں میں ‘فسادات بھڑکانے’ کا الزام لگایا، جبکہ تشدد کے متاثرین اور گواہوں نے دائیں بازو کے دو رہنماؤں، منوہر بھیڑے اور ملند ایکبوٹے کو بھیما کورےگاؤں میں ایک پرامن اجتماع میں خلل ڈالنے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

بعد میں ایلگار پریشد کے منتظمین کے خلاف مزید الزامات عائد کیے گئے، اور کئی لوگوں پر – جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کا اس تقریب  کے انعقاد میں کوئی کردار نہیں تھا ، ‘حکومت کو غیر مستحکم کرنے’، ‘ممنوعہ ماؤنواز تحریک کو فنڈ فراہم کرنے’، اور یہاں تک کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو ‘راجیو گاندھی کی طرح قتل کرنے’ کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام لگایا گیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتنے سنگین الزامات میں  ابھی تک کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا ہے۔

دھاولے کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر کے لوگوں کے علاوہ انہیں ایلگار پریشد کیس کے دیگر ملزمان سے ملنے یا بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ‘بی جے پی ہمیں ایک ساتھ لے آئی،’ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے مطابق، انہیں یا دوسروں کو اس کیس میں کیوں گرفتار کیا گیا ہے اور کیا یہ ان کا بائیں بازو کا نظریہ تھا یا  دلت امبیڈکرائٹ کے طور پر ان  کی شناخت، جس کی وجہ سے وہ مصیبت میں پڑے، تو دھاولے نے واضح کیا کہ وہ ان  دونوں کو کس طرح  دیکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں،’میں مارکس کا پیروکار ضرور ہوں، لیکن میں امبیڈکرائٹ بھی ہوں۔ میں امبیڈکر ازم کو اپنے آپ میں ایک بنیاد پرست سیاست کے طور پر دیکھتا ہوں۔ ایک ایسے وقت میں جب بی جے پی اور آر ایس ایس امبیڈکر کو اپنے ساتھ جوڑنے کی اتنی کوشش کر رہے ہیں، میری کوشش صرف اپنے امبیڈکرائٹ نظریات کو بغیر کسی خوف کے پیش کرنے کی ہے۔’

سدھیر دھاولے اپنی کتابوں کے ساتھ۔

سدھیر دھاولے اپنی کتابوں کے ساتھ۔

ناگپور میں پیدا ہوئے دھاولے نے کئی تنظیمیں قائم کیں۔ ریپبلکن پینتھرز جتیانٹاچائی چلوال (اینٹی کاسٹ ریپبلکن پینتھرز)، ریڈیکل امبیڈکر اور رمابائی نگر-کھیرلانجی انسداد قتل کیس اسٹرگل کمیٹی ان کی مشہور تنظیموں میں شامل ہیں۔

دھاولے کووڈ 19 کو اپنی جیل کی زندگی کا بدترین دورقرار دیتے ہیں۔ وہ وبا کے دور کو ‘کایاماچی مرنیاچی بھیتی’ (موت کا مستقل خوف) کہتے ہیں۔ وبائی امراض کی خبریں نیوز چینلوں کے ذریعے جیل تک پہنچتی تھیں، جس کو قیدی ہر سرکل میں ٹی وی سے ایکسس کر سکتے تھے۔ (تلوجا جیل میں اس طرح کے آٹھ سرکل ہیں جن میں سے ہر ایک میں 16 بیرک ہیں)۔

اپنے جیل کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں،’ٹی وی چینل ہمیں اپنے ہاتھ صاف کرنے کے لیے کہتے  رہتے تھے۔ لیکن بطور قیدی، ہمیں ہر چیز کے لیے صرف ایک بالٹی پانی ملتا تھا- دھونے، نہانے، پینے سے لے کر ٹوائلٹ استعمال کرنے تک۔ یہ عجیب تھا۔’

ان کا کہنا ہے کہ ایسے بھی دن تھے جب بیرکوں میں تقریباً تمام قیدی اپنے بستروں تک محدود تھے۔ وہ کہتے ہیں، ‘کسی بھی قیدی کو باہر نہیں لے جایا جاتا تھا۔ لیکن ہر روز مزید قیدی بھرے جاتے تھے۔ میری بیرک جس میں 23 قیدیوں کی گنجائش تھی، ایک وقت میں 60-70 سے زیادہ قیدی بھردیے جاتے تھے۔’

ان کا کہنا ہے کہ کووڈ کٹ (ماسک اور سینیٹائزر) وبائی مرض کی دوسری لہر کے بعد ہی دستیاب ہوئے۔

خونخوار انڈا سیل

ہمیشہ سےانسانی حقوق کے کارکن رہے دھاولے نے جیل میں بھی اپنی سرگرمی جاری رکھی۔ جب دھاولے نے جیل سپرنٹنڈنٹ کے معمول کے دورے کے دوران اپنے جوتے اتارنے سے انکار کر دیا، تو انہیں ‘مشکل قیدی’ قرار دیا گیا۔ انہیں جلد ہی تلوجا کے خونخوار ‘انڈا سیل’ میں بھیج دیا گیا۔ دھاولے نے ہمت نہیں ہاری؛ انہوں نے شکایات اور آر ٹی آئی درج کرائی۔ تحریک شروع کرنے کے تین سال بعد بھی ان کی کچھ اپیلیں زیر التوا ہیں۔

دھاولے کا کہنا ہے کہ تلوجا کی انڈا سیل (ہندوستانی جیلوں میں انڈے کی شکل کی سیل) ان کی زندگی کی بدترین داستان ہے۔ دھاولے نے 23 ماہ قید تنہائی میں گزارے۔ حکام سے پوچھ گچھ کرنے یا عدالت میں درخواستیں داخل کرنے کے لیےان کے کئی ساتھی ملزمان کو بھی وہاں سے نکال  دیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں،’جیل حکام کو ڈر تھا کہ اگر ہماری پوچھ گچھ پوری طرح سے جارحانہ ہو گئی تو وہ اس کیس کو مزید سنبھال نہیں سکیں گے۔’

قابل ذکر ہے کہ 27 ہیکٹر پر پھیلی، تلوجا سینٹرل جیل حال ہی میں بنائی گئی جیلوں میں سے ایک ہے (2008 میں بنائی گئی)۔ اس میں ایک بہت بڑا دو منزلہ انڈا سیل کمپلیکس ہے، جو ریاست اور شاید ملک میں واحد کمپلیکس ہے، جس میں اتنے سارے سیل ہیں۔ انڈے کی شکل کی دیگر جیلوں کے برعکس ، اس سیل کی شکل ایک دائرے کی طرح ہے۔ اس کے چار اندرونی ڈویژن ہیں، ہر ڈویژن میں 6-7 چھوٹے کمرے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں،’ گراؤنڈ فلور پر رہنے والوں کو کم از کم مرکز میں دستیاب محدود جگہ میں گھومنے پھرنے کی اجازت ملتی ہے۔ لیکن پہلی منزل پر رہنے والوں کے لیے ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب تک وہ وہاں رہتے ہیں، انہیں سورج کی روشنی یا تازہ ہوا نہیں ملتی۔’

دھاولے کہتے ہیں،’یہ ڈھانچہ آپ کی آزادی کے احساس کو ختم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔’

جیلوں کے اپنے اصول ہوتے ہیں- کچھ تحریری اور زیادہ تر زبانی۔ لہذا جب قیدیوں کو خط بھیجے جاتے ہیں یا موصول ہوتے ہیں، وہ سب ‘سیکنڈ ہینڈ ریڈنگ’ ہوتے ہیں، دھاولے کہتے ہیں،’یہ یقینی ہے کہ جیل حکام پہلے خط کو پڑھیں گے اور پھر اسے جیل کے اندر یا باہر جانے کی اجازت دیں گے۔’

لیکن ایلگار پریشد کیس میں جیل میں بند لوگوں کے معاملے میں تفتیش کی سطح بہت اعلیٰ تھی۔ خطوط ناگپور میں واقع اینٹی نکسل آپریشن (اے این او) سیل کو بھیجےجاتے ہیں۔ دھاولے نے اسے ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے سامنے چیلنج کیا تھا۔ مراٹھی میں تیار کی گئی ت ان کی شکایت کو خارج  کر دیا گیا تھا۔

تاہم، ان کے شریک ملزم ارون پھریرا کی تیار کردہ اسی طرح کی شکایت کو قبول کر لیا گیا اور بعد میں ایس ایچ آر سی نے ریاست کو ہدایت کی کہ وہ پھریرا کو اس کے حقوق کی خلاف ورزی کے لیے 2 لاکھ روپے معاوضہ کے طور پر ادا کرے۔

اب جبکہ دھاولے باہر آ گئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ جیل جانے سے پہلے جو کام کرتے تھے، اس کو جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا، ‘کام رکا نہیں۔ جب میں جیل میں تھا، میری ٹیم نے کام کو آگے بڑھایا۔ جیل میں رہ کر بھی لکھتا رہا، کام جاری رہے گا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)