بامبے ہائی کورٹ نے ایلگار پریشد معاملے میں رونا ولسن اور سدھیر دھاولے کوطویل عرصے تک جیل میں رہنے، الزامات طے نہ ہونے اور 300 سے زیادہ گواہوں سے پوچھ گچھ کیے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے ضمانت دی ہے ۔
ممبئی: بامبے ہائی کورٹ نے بدھ (8 جنوری) کو 2018 کے ایلگار پریشد معاملے میں ملزم رونا ولسن اور سدھیر دھاولے کو چھ سال اور چھ ماہ سے زیادہ جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت دے دی۔
جسٹس اے ایس گڈکری اور جسٹس کمل کھاتا کی بنچ نے طویل عرصے تک جیل میں رہنے، الزامات طے نہ ہونے اور 300 سے زائد گواہوں سے پوچھ گچھ کا حوالہ دیتے ہوئے ضمانت دی۔ ضمانت ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے اور اس شرط پر پر دی گئی ہےکہ ملزم ہر سوموار کو قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے سامنے پیش ہوں گے۔
واضح ہو کہ جولائی 2024 میں عدالت نے ایلگار پریشد کیس کے سلسلے میں ولسن، دھاولے اور تین دیگر ملزمان کو ڈیفالٹ ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
ولسن کو جولائی 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ فی الحال غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت جرائم کے لیے عدالتی حراست میں ہیں اور نوی ممبئی، مہاراشٹرا کی تلوجہ جیل میں بند ہیں۔
ولسن اور دھاولے دونوں انسانی حقوق کے کارکنوں کے اس پہلے گروپ میں شامل تھے، جنہیں ایلگار پریشد کیس میں گرفتار کیا گیا تھا، اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کے مبینہ طور پر ماؤنواز سے روابط تھے۔
بتادیں کہ 6 جون 2018 کو ایک کارروائی میں پونے پولیس نے متعدد ٹیمیں ہندوستان بھر میں مختلف مقامات پر بھیجی تھیں جہاں کارکن موجود تھے۔ کیرالہ کے رہنے والے ولسن کو دہلی میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا، جہاں وہ کئی سالوں تک قیدیوں کے حقوق کے کارکن کے طور پر مقیم تھے اور کام کرتے تھے۔ ودروہی میگزین کے ایڈیٹر دھاولے کو ممبئی میں ان کی رہائش گاہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔
اس کیس کو پونے پولیس سنبھال رہی تھی، لیکن 2020 کے اوائل میں مہاراشٹر میں بی جے پی حکومت کے گرنے اور مہاوکاس اگھاڑی کے اقتدار میں آنے کے بعد اسے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
پونے پولیس اور این آئی اے دونوں نے ہمیشہ سے یہ کہا ہے کہ ولسن نام نہاد ‘اربن نکسل’ تحریک کے ماسٹر مائنڈ میں سے ایک تھے اور وہ یونیورسٹیوں کے نوجوان طلبہ کو اس تحریک سے جوڑنے کا کام کرتے تھے۔
این آئی اے کا موقف
تاہم، جب وکیل سدیپ پاسبولا (ولسن کی نمائندگی کر رہے) اور مہر دیسائی (دھاولے کی نمائندگی کر رہے) نے استدلال کیا کہ دونوں نے تقریباً سات سال جیل میں گزارے ہیں اور این آئی اے اس کیس میں الزامات طے کرنے میں بھی ناکام رہی ہے، تو دھاولے نے اپنی درخواست کا دفاع کرنے کی کوشش نہیں کی۔
معاملے میں دائر چارج شیٹ اور کئی ضمنی چارج شیٹ میں این آئی اے نے 300 سے زیادہ گواہوں کے نام درج کیے ہیں۔ دفاعی وکلاء نے دلیل دی کہ ان گواہوں سے پوچھ گچھ کرنے میں کافی وقت لگے گا اور اتنے عرصے تک کسی پری ٹرائل قیدی کو حراست میں رکھنا زیادتی ہے۔
حالاں کہ این آئی اے نے ہائی کورٹ کے سامنے دعویٰ کیا کہ وہ ‘مقدمے میں تیزی لائیں گے’، لیکن انہوں نے ضمانت کی درخواست کی مخالفت نہیں کی۔
دیسائی نے تصدیق کی کہ جب ججوں نے دونوں کو ضمانت دی تو این آئی اےنے آرڈر پر روک لگانے یا ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کے لیے وقت نہیں مانگا۔
اس سے پہلے ضمانت کے معاملوں میں این آئی اے نے فوراً حکم امتناعی کی درخواست کی تھی اور سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔ مہیش راوت کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا ، جسے بامبے ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی تھی، لیکن ان کی اپیل سپریم کورٹ میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے زیر التوا ہے۔
معلوم ہو کہ ایلگار پریشد معاملہ پونے میں 31 دسمبر 2017 کو منعقدہ سیمینار میں مبینہ اشتعال انگیز تقریر سے متعلق ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس تقریر کی وجہ سے اگلے دن شہر کے مضافات میں بھیما کورےگاؤں جنگی یادگار کے قریب تشدد ہوا اور اس سیمینار کے منتظمین کے مبینہ ماؤنوازوں سے روابط تھے۔
این آئی اے نے 16 لوگوں کے خلاف معاملہ درج کیا، جن میں انسانی حقوق کے کارکن، وکیل اور ماہرین تعلیم شامل ہیں۔ ان سبھی پر ممنوعہ سی پی آئی (ماؤسٹ) تنظیم کا حصہ ہونے کا الزام ہے۔ پونے پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ملزمین نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ‘راجیو گاندھی کی طرح’ قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
پچھلے سات سالوں میں این آئی اے نے کئی دعوے کیے ہیں، جبکہ اس نے مقدمہ چلانے کے لیے کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی ہے۔ مرکزی ایجنسی کی جانب سے حراست کو طول دینے اور مقدمے کی سماعت پر زیادہ توجہ نہ دینے کا ایک مخصوص پیٹرن ہے۔ ایسے سیاسی محرکات میں عمل خود سزا بن جاتا ہے۔
جولائی 2022 میں پیگاسس پروجیکٹ کے تحت دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پیگاسس کے ذریعے جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، ان میں ولسن بھی تھے۔ کئی آزاد ماہرین کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں ولسن اور دیگر ملزمان کے فون میں پیگاسس مالویئر بھی پایا گیا تھا۔ تاہم، عدالتوں نے ان اہم نتائج پر غور نہیں کیا اور انسانی حقوق کے کارکن مسلسل قید میں رہے۔
گرفتار کیے گئے 16افراد میں سے 84 سالہ کارکن اورفادر اسٹین سوامی جولائی 2021 میں انتقال کر گئے۔ ان کے شریک ملزم اور تلوجہ سینٹرل جیل کے کئی دیگر قیدیوں نے جیل حکام پر لاپرواہی اور بروقت مناسب طبی دیکھ بھال فراہم کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا تھا، جس کی وجہ سے حراست میں ہی ان کی موت ہوگئی۔
پچھلے کچھ سالوں میں شاعر وراورا راؤ، کارکن اور وکیل سدھا بھاردواج، ماہر تعلیم شوما سین، کارکن ورنن گونسالویس، وکیل ارون فریرا، مصنف اور ماہر تعلیم آنند تیلٹمبڑے اور صحافی اور کارکن گوتم نولکھا سمیت کچھ لوگوں کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔
جو لوگ اب بھی جیل میں ہیں ان میں دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہینی بابو، کارکن مہیش راوت، وکیل سریندر گاڈلنگ اور کلچرل ایکٹوسٹ ساگر گورکھے، رمیش گائچور اور جیوتی جگتاپ شامل ہیں۔ جن لوگوں کو ابھی رہا کیا جانا ہے، ان میں سے تقریباً سبھی کی ضمانت کی درخواستیں یا ان کے ضمانتی احکامات پر روک کے خلاف اپیلیں مختلف عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)