عبادت گاہوں کے قانون پر پارلیامنٹ کی بحث نئی سمت دے سکتی ہے

تین دہائی قبل جب یہ عبادت گاہوں کا بل پارلیامنٹ میں پیش کیا گیا تھا تو بی جے پی نے اسے 'سیاہ ترین ' بل قرار دیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیاتھا کہ یہ'مغل اور برطانوی دور حکومت میں ہندو مندروں پر کی جانے والی تمام تجاوزات کو قانونی حیثیت دینے' کی کوشش کی کرتا ہے۔ جبکہ غیر بی جے پی ارکان پارلیامنٹ نے اس کی حمایت کرتے ہوئے اسے سیکولرازم اور ہم آہنگی کے تحفظ کے لیے ایک ضروری قدم قرار دیا تھا۔

تین دہائی قبل جب یہ عبادت گاہوں کا بل پارلیامنٹ میں پیش کیا گیا تھا تو بی جے پی نے اسے ‘سیاہ ترین ‘ بل قرار دیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیاتھا کہ یہ’مغل اور برطانوی دور حکومت میں ہندو مندروں پر کی جانے والی تمام تجاوزات کو قانونی حیثیت دینے’ کی کوشش کی کرتا ہے۔ جبکہ غیر بی جے پی ارکان پارلیامنٹ نے اس کی حمایت کرتے ہوئے اسے سیکولرازم اور ہم آہنگی کے تحفظ کے لیے ایک ضروری قدم قرار دیا تھا۔

پارلیامنٹ ہاؤس۔ (تصویر بہ شکریہ: PIB/Illustration: Pariplab Chakraborty/The Wire)

پارلیامنٹ ہاؤس۔ (تصویر بہ شکریہ: PIB/Illustration: Pariplab Chakraborty/The Wire)

عبادت گاہوں کے قانون اور ملک کی مسجدوں میں مندر تلاش کرنے کی کوشش پر پر ہرش مندر کے مضمون کا دوسرا حصہ۔ پہلا حصہ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

عبادت گاہوں کے قانون کے مقصد کی تصدیق کرنے کے لیے میں نے پارلیامنٹ میں ہوئی اس وقت کی بحث کا مطالعہ کیا، جب یہ بل پیش کیا گیا اور منظور کیا گیا تھا۔ ان پارلیامانی ریکارڈز کو پڑھ کر تین دہائیاں پہلے کی اس وقت کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، جب سیاست دان سیکولرازم اور تکثیریت کے دفاع میں آج کی نسبت کہیں زیادہ آواز اٹھاتے تھے۔

سال 1991 تھا۔ تقسیم کے فسادات میں نفرت اور ہنگامے میں دس لاکھ لوگوں کی جان جانےاور ایک مذہبی شدت پسند  کے ہاتھوں مہاتما گاندھی کے قتل کے چالیس سال گزر چکے تھے۔ آزادی کے پہلے ڈیڑھ دہائی میں فرقہ وارانہ امن تھا، لیکن 1961 کے جبل پور فسادات کے بعد ملک میں پھر سے پرتشدد فرقہ وارانہ تنازعات شروع ہو گئے۔

سال 1991 تک ملک میں فرقہ وارانہ جذبات بھڑک اٹھے۔ دو سال قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہوئے سومناتھ سے رتھ یاترا کا آغاز کیا تھا۔ یاترا جہاں جہاں سے گزری فرقہ وارانہ منافرت اور خونریزی کی آگ پھیلتی گئی۔ ایودھیا میں بابری مسجد ابھی بھی کھڑی تھی۔ لیکن ہندوتوکے حامیوں نے ملک بھر میں 3000 مساجد کو ‘واپس لینے’ کے اپنے عزم کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔ بی جے پی کے سینئر لیڈروں نے ایودھیا میں رام مندر کے لیے شروع کی گئی مہم کی طرح ہی وارانسی میں گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد پر دعویٰ کرنے کی دھمکی دی۔

ایسے وقت میں وزیر داخلہ ایس بی چوہان نے پارلیامنٹ میں ایک بل پیش کیا، جس کے الفاظ آج اور بھی غورطلب  ہیں؛

‘ہم اس بل کو محبت، امن اور ہم آہنگی کی اپنی شاندار روایات کو فروغ دینے اورمستحکم کرنے کے اقدام کے طور پر دیکھتے ہیں،’انہوں نے اعلان کیا۔’آزادی سے پہلے کے دور میں ملک کی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی روایت شدید دباؤ کا شکار تھی۔ آزادی کے بعد ہم نے ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنا شروع کیا اور اپنی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خیر سگالی کی پچھلی روایات کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ مجھے یقین ہے کہ اس بل کے نفاذ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور خیر سگالی کی بحالی میں بہت مدد ملے گی۔’

انہوں نے واضح کیا کہ ان کی حکومت ‘نئے تنازعات پیدا کرنے اور پرانے تنازعات کو اٹھانے کا ارادہ نہیں رکھتی، جسے لوگ طویل عرصے سے فراموش کر چکے ہیں۔’ اس کے بجائے، ‘عبادت گاہوں کی تبدیلی کے حوالے سے وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے تنازعات کے پیش نظر ان اقدامات کو اپنانا ضروری سمجھا گیا، جس سے فرقہ وارانہ ماحول خراب ہوتا ہے۔’

توقع کے مطابق، بی جے پی کے ارکان نے بل کی سخت مخالفت کی۔ اپوزیشن لیڈر اڈوانی نے مجوزہ قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور الزام لگایا، ‘میرا ماننا ہے کہ یہ مجوزہ قانون بالکل غلط طریقے سے بنایا گیا ہے۔ یہ بل سراسر ناانصافی ہے۔ ہم اس مجوزہ قانون سے خود کو منسلک نہیں کر سکتے۔ ہم اس کی مخالفت کر رہے ہیں اور اس کے خلاف احتجاجاً واک آؤٹ کر رہے ہیں۔’

ایودھیا کی  بابری مسجد کی فائل فوٹو۔ (کریڈٹ: سیموئیل بورن (1834-1912)/وکی میڈیا کامنز۔

ایودھیا کی  بابری مسجد کی فائل فوٹو۔ (کریڈٹ: سیموئیل بورن (1834-1912)/وکی میڈیا کامنز۔

رام جنم بھومی تحریک کی اہم لیڈر اوما بھارتی نے ایوان میں مجوزہ قانون کے خلاف زوردار دلائل پیش کیے۔ ‘کیا ہم تاریخوں میں ہیرا پھیری کرکے تاریخی حقائق کو بدل سکتے ہیں؟ کیا ہم تاریخ کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں؟’ انہوں نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔ انہوں نے اس شرمندگی کے بارے میں بات کی جب وہ وارانسی گئیں اور مسجد کے احاطے میں مندر کے کھنڈرات دیکھے۔ انہوں نے دلیل دی کہ تاریخ میں تباہ کیے گئے مندروں کو واپس کیا جانا چاہیے، تاکہ ‘اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہماری آنے والی نسلیں ہم آہنگی سے رہ سکیں۔’ ماضی میں ہونے والی تمام غلطیوں کے لیےبھگوان  سے معافی مانگیں اور آئندہ خونریزی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔’ انہوں نے الزام لگایا کہ ‘1947 کی صورتحال کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ آپ اپیزمنٹ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔’

ایک اور بی جے پی ایم پی رام نگینہ مشرا نے اسے ‘ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے مقصد سے متعارف کرایا گیا … ایک سیاہ قانون’ قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘یہ ریکارڈ پر ہے’ کہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک بھی مسجد کو نقصان نہیں پہنچایا گیا ہے۔ انہوں نے اپیل کی کہ ‘ملک کو متحد رکھنے اور فرقہ وارانہ تشدد سے دور رکھنے کے لیے’ بل کو ایک طرف رکھا جانا چاہیے۔

بی جے پی کے سینئر رہنما رام نائک نے اس بل پر تنقید کرتے ہوئے اسے ہندوستانی پارلیامنٹ کا ‘سیاہ ترین’ بل قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ بل ‘مغلوں اور برطانوی دور حکومت میں ہندو مندروں پر کی جانے والی تمام تجاوزات کو قانونی شکل دینے کی کوشش کرتا ہے’۔ یہ ‘ان لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے جنہوں نے ہندو عبادت گاہوں کی مذہبی  طور پربے حرمتی کی ہے۔’

لیکن تمام جماعتوں کے غیر بی جے پی ممبران پارلیامنٹ نے اس مجوزہ قانون کا پرزور دفاع کیا۔ منی شنکر ایر نے اوما بھارتی کو جواب دیا۔ انہوں نے’ ہمیں بتایا کہ جب وہ وارانسی گئی تھیں اور ایک مندر اور مسجد کو ایک ساتھ دیکھا تو انہیں  ایسا لگا جیسے مندر کو گرا دیا گیا ہے۔ انہوں  اسے ہندو مذہب کی توہین مانا۔ ان کے مطابق وہاں ایک مسلمان بادشاہ نے مسجد بنوائی تھی۔ ان میں اور مجھ میں صرف ایک فرق ہے، وہ جسے غلامی کی علامت سمجھتی ہیں، میں اسے سیکولرازم کی علامت سمجھتا ہوں… جب میں مندر اور مسجد کو ایک ساتھ دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ سیکولر ملک ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح ہم اسلام کے بغیر ہندوستان کا تصور نہیں کرسکتے اسی طرح ہندوستان کے بغیر اسلام کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اسلام اور ہندوستان اسی طرح جڑے ہوئے ہیں جس طرح میں اور اوما بھارتی جی انسانیت سے جڑے ہوئے ہیں۔’

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کی رکن پارلیامنٹ مالنی بھٹاچاریہ نے کہا کہ بل میں کٹ آف کی تاریخ ‘اہم ہے، کیونکہ اس تاریخ کو [15 اگست 1947] ہم ایک جدید، جمہوری اور خودمختار ریاست کے طور پر ابھرے تھے، جس نے اس طرح  کی بربریت کو ہمیشہ کے لیے ماضی میں دھکیل دیا۔اس تاریخ سے، ہم نے بھی اپنے آپ کو وقار بخشا… (ایک ایسی ریاست قائم کرکے) جس کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے اور جو تمام مختلف مذہبی فرقوں کو یکساں حقوق دیتی ہے۔ اس لیے اس سے پہلے جو کچھ بھی ہوا ہو، ہم سب کو توقع تھی کہ اس تاریخ سے ماضی میں ایسی کوئی واپسی نہیں ہونی چاہیے۔’

کانگریس کے ایم پی کے وی جیکب نے اپنی ریاست کیرالہ کی راجدھانی تریویندرم کی تعریف کی، جہاں آپ کو ایک ہی کمپلیکس میں ایک ‘خوبصورت مندر’، ایک ‘خوبصورت مسجد’ اور ‘خوبصورت چرچ’ ایک ساتھ نظر آتے ہیں۔ انہوں نے ہر مذہب میں اس تصور کے بارے میں بتایا کہ جب آپ اپنے مذہب کے مندر میں پوجا کرتے  ہیں تو آپ دوسرے مذاہب کے مندروں میں بھی پوجا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘صرف ایک ہی خدا ہے’، جس کی ہم مختلف طریقوں سے عبادت کرتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم مذہب کے نام پر لڑ رہے ہیں۔ بہت خون بہایا گیا ہے؛ ہم نے بابائے قوم کو بھی مار ڈالا۔ انہیں یقین تھا کہ اگر بھگوان رام بھی ظاہر ہو گئے تو وہ اپنے پیروکاروں کو بے گھر لوگوں کے لیے ہزاروں پناہ گاہیں بنانے کی ہدایت کریں گے۔’

انہوں نے اپنے مذہبی عقیدے کے بارے میں بات کی: ‘جب میں یسوع مسیح کی عبادت کرتا ہوں اور اپنے پڑوسیوں سے نفرت کرتا ہوں جو ہندو یا مسلمان ہیں، تو میں یسوع مسیح کا سچا پیروکار نہیں ہوں۔’

اس وقت کے وزیر مملکت برائے داخلہ ایم ایم جیکب نے بھی اسی طرح کی دلیل دی تھی کہ ‘اس ملک میں تمام مذاہب کا جوہر ایک دوسرے کے لیے محبت اور پیار ہے۔ میں نے کوئی ایسا مذہب نہیں دیکھا جو نفرت کی تبلیغ کرتا ہو۔ لہٰذا، جب تمام مذاہب ایک دوسرے کے لیے محبت اور انسانیت کی خدمت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے بھائیوں اور بہنوں کے لیے اگر ضروری ہو تو جان قربان کرتے ہیں، مجھے ایسی لڑائی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی… اگر آپ واقعی میں مذہبی ہیں… تو ہماری کوشش ہوگی کہ کسی بھی قیمت پر امن قائم ہو۔’

سینئر لیڈر رام ولاس پاسوان نے اتفاق کیا کہ ‘مذہب کا مقصد اندھیرے کو دور کرنا اور روشنی اور علم فراہم کرنا ہے۔ گھر کو روشن کرنے کے ساتھ ساتھ چراغ اس کو جلانے کے لیےبھی  استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے آج مذہب کو نفرت اور تفرقہ پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘آج سوال ہندو مسلم کا نہیں ہے، نہ ہی مندر، مسجد یا گرودوارہ کا ہے۔ آج مسئلہ ہمارے آئین کا ہے۔ مسئلہ اس ہندوستان کو بچانے کا ہے، جس کی آزادی کے لیے ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی مل کر لڑے تھے… ‘ایسا قانون ضروری تھا’ کیونکہ ہندوستان بہت سے مذہبی فرقوں کے لوگوں کا گھر ہے۔ ہمارا ملک ایک باغ کی طرح ہے جس میں ‘صرف ایک نہیں تمام پھولوں کو کھلنے کا موقع ملے گا۔’ انہوں نے کہا کہ ‘یہ ملک مندر یا مسجد جیسے معمولی مسائل پر نہیں لڑ سکتا۔ ہمارے سامنے اس سے کہیں زیادہ اہم مسائل ہیں – غربت کے مسائل، بے روزگاری کے مسائل، ناخواندگی کے مسائل، دیہی پانی کی فراہمی کے مسائل۔’

سینئر مارکسی ایم پی سومناتھ چٹرجی نے کہا، ‘میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی مضطرب روح آج کسی نئے مندر، مسجد یا گرودوارہ کے لیے نہیں رو رہی ہے۔ وہ ذات، عقیدہ یا مذہب سے قطع نظر اپنے تمام لوگوں کے لیے باوقار اور مہذب زندگی چاہتی ہے۔ اس کا تقاضہ ہے کہ تمام لوگوں کو دو وقت کا کھانا، سر پر چھت، پڑھنے لکھنے کا اختیار اور استحصال، بھوک، افلاس، بے روزگاری، خراب صحت اور گندگی سے نجات حاصل ہو۔’

عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ، 1991 کی اہمیت اور مقصد، جس کی اس وقت کے اراکین پارلیامنٹ نے اتنے مؤثر طریقے سے تشریح کی تھی، کو سپریم کورٹ نے 2019 میں نشان زد کیا۔ اپنے تاریخی لیکن انتہائی متنازعہ فیصلے میں، جس میں اس نے رام مندر کی تعمیر کے لیے بابری مسجد کی صدیوں سے کھڑی زمین کو دے دیا، عدالت نے کہا کہ اس قانون میں 15 اگست 1947 کی کٹ آف تاریخ طے کرنا اس بات کوتسلیم کرنے کے لیے کیا گیا تھا کہ ہندوستان کی آزادی نے ‘ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے کا موقع فراہم کیا’۔

پندرہ  اگست 1947 کو موجودہ عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے، ‘پارلیامنٹ نے طے کیا کہ نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی ہر مذہبی طبقے کو یہ یقین دلاکر ماضی کی ناانصافیوں کے ازالے کے لیے ایک آئینی بنیاد فراہم کرتی ہے کہ  ان کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی اور ان کے کردار میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔’

ججوں نے کہا کہ ‘عدالت آج قانون کی  عدالت میں ہندوؤں کی عبادت گاہوں کے خلاف مغل حکمرانوں کی کارروائیوں سے پیدا ہونے والے دعوے کی سماعت نہیں کر سکتی۔ کسی بھی شخص کے لیےجوکسی بھی قدیم حکمراں کے اقدامات کے خلاف تسلی یا سہارا ڈھونڈتا ہے، اس کے لیے قانون جواب نہیں ہے…’

اس فیصلے نے اس قانون کو آئین کی بنیادی اقدار سے ہم آہنگ کر دیا۔ ‘ریاست نے تمام مذاہب کی برابری اور سیکولرازم کو برقرار رکھنے کے لیے قوانین بنا کر اور اپنی آئینی ذمہ داریوں کو نافذ کر کے اپنی آئینی وابستگی کو عملی جامہ پہنایا ہے، جو کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔’

اگر واقعی میں عبادت گاہوں کا قانون، 1991 آئین کے سیکولر کردار کو بچانے کے لیے اہم ہے، تو ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا ہوگا کہ جسٹس چندر چوڑ نے غلطی کی تھی جب انہوں نے کہا کہ اگرچہ 1991 کے قانون نے عبادت گاہ کے مذہبی کردار کوبدلنے پر روک لگا دی تھی،  اس کے  باوجودبنیادی کردار کا تعین کرنا قانون کے منافی نہیں ہے۔ جیسا کہ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے ‘فرنٹ لائن’ سے بات کرتے ہوئے دلیل دی کہ بھلے ہی  سروے  میں 400 سال پہلے کا ڈھانچہ دکھایا گیا ہو، لیکن1991 کے قانون کی وجہ سے اس جگہ کا قانونی کردار نہیں بدلے گا۔ ‘ہمیں اس بات سے سروکار نہیں ہے کہ 400 سال پہلے کیا ہوا تھا، بلکہ ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ 15 اگست 1947 کو کیا صورتحال تھی۔’

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور انڈین ہسٹری کانگریس کے سکریٹری سید علی ندیم رضوی نے بھی اس سے اتفاق کیا۔ انہوں نے پوچھا، ‘اگر (سروے سے پتہ چلتا ہے) وہاں مندر تھا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اورنگ زیب ایک خودمختار شہنشاہ تھاجو جمہوریت اور آئین سے رہنمائی حاصل نہیں کرتاتھا۔ وہ 17ویں صدی کا انسان تھا۔ کیا ہم پشیامتر شونگا کو بھی سزا دینے جا رہے ہیں، جس نے بدھ مندروں کو مسمار کرنے کی مہم شروع کی تھی؟’ ‘میں اس بات سے پریشان نہیں ہوں کہ بی جے پی کیا کر رہی ہے۔ مجھے تشویش ہے کہ ہماری عدالتوں میں بیٹھے لوگ آئین اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے پارلیامنٹ کے تمام ایکٹ  کوبھول گئے ہیں۔’

سچائی تو یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کایہ ریمارکس (کہ 1991 کا قانون 1947 سے پہلے کے مقامات کے مذہبی کردار کی تحقیقات پر پابندی نہیں لگاتا) نے تاریخی مساجد کے سروے کرنے کے عدالتی احکامات کا سیلاب لا دیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ آیا وہ صدیوں پہلے مندروں کو تباہ کر کے بنائے گئے تھے۔ اس نے حکمران جماعت اور منتخب حکومتوں کی حمایت یافتہ ہندوتوا تنظیموں کو خطرناک طریقے سے، یہاں تک کہ لاپرواہی سے، ماضی کو اجاگر کرنے کے قابل بنایا ہے۔ اس نے پرانے تنازعات کو زندہ کرنے اور نئے کو بھڑکانے میں مدد کی ہے، اور اس طرح فرقہ وارانہ دراڑ کو خطرناک حد تک وسیع کر دیا ہے، جس نے مذہبی لڑائیوں کو بڑھاوا دیا ہے جو نسلوں تک چل سکتی ہیں۔ جسٹس چندرچوڑ کے تمام متنازعہ عدالتی اقدامات میں سے، تاریخ اسے ہندوستان کے سماجی تانے بانے کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ قرار دے سکتی ہے۔

سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے باہر تعینات پولیس(تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے باہر تعینات پولیس(تصویر: شروتی شرما/ دی وائر )

جسٹس سنجیو کھنہ، جو جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے بعد چیف جسٹس بنے، نے اچھا کیا کہ سنبھل میں مسجد کے سروے پر روک لگائی جائے تاکہ وہاں لگی آگ کو بجھایا جا سکے۔ عدالت نے مدعیان کو ہدایت کی کہ وہ مزید ہدایات کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کریں۔ لیکن چیف جسٹس نے اپنے پیش رو کے تبصروں کو پلٹنے کے لیے کچھ نہیں کیا، جس نے سنبھل اور کئی دیگر مساجد کے سروے کو آگے بڑھانے کی اجازت دی تھی۔

کوئی بھی ہائی کورٹ سپریم کورٹ کی قانون کی تشریح کو کالعدم نہیں کر سکتی، ایسا کرنے کا حق صرف سپریم کورٹ کو ہے۔ جب تک سابق چیف جسٹس کے تبصرے برقرار رہیں گے، تب تک مندر-مسجد جھگڑے کا امکان رہے گا، جو عدالت کے حکم کردہ سروے کی وجہ سے ملک کی روح کو مزید مجروح کرے گا۔

اس وقت کے اراکین پارلیامنٹ نے اتنے مؤثرانداز میں عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کے پیچھے کا مقصدبیان  کیا، جو ہندوستان کی سیکولر جمہوریت کو محفوظ بناتا ہے۔ ایودھیا میں ایک مسجد پر پرتشدد تنازعہ نے ملک کو ایک نسل اور اس سے زیادہ عرصے تک تقسیم کیا۔ اس کی دراڑیں ابھی تک گہری ہیں۔ ملک بھر کی عدالتوں کو قانون کی روح کی دھجیاں اڑانے اور تاریخ کے زخموں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دے کر، ہندوستان کی اعلیٰ عدلیہ، اس کی مقامی عدالتیں، سب سے بڑی سیاسی جماعت اور یہاں تک کہ کمزور اپوزیشن نے بھی ہندوستانی عوام کو مایوس کیا ہے۔

(ہرش مندر انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔) (انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)