جب تک ہندوستانی عدالتوں کو پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کی روح کو پامال کرنے کی اجازت دی جاتی رہے گی، تب تک تاریخ کے زخم کریدے جاتے رہیں گے، ہم آہنگی بگڑتی رہے گی اور خون خرابہ ہوتا رہے گا۔
پہلی قسط
مغربی اتر پردیش کے مسلم اکثریتی اورقرون وسطی کے شہر سنبھل میں 24 نومبر 2024 کو چھ افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا اور متعدد زخمی ہوگئے۔ شاہی جامع مسجد کے سروے سے مشتعل مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کی۔ یہ سروے اس بات کا جائزہ لینے کے لیے کیا گیا تھا کہ کیا یہ مسجد صدیوں پہلے کسی ہندو مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی تھی، مقامی عدالت نے اس سروے کاحکم دیا تھا۔ جج پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کے ذریعے عائد کردہ پابندیوں کے پاسدار نہیں تھے، کہ کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو اس دن سے نہیں بدلا جاسکتا تھا جس دن سے ہندوستان آزاد ہوا تھا۔
سنبھل کا سانحہ: تاریخ اور دیومالائی دعوے
سنبھل کچھ عرصے کے لیےلودی خاندان اور پہلے مغل شہنشاہ بابر، دونوں کے دور میں دارالحکومت رہا۔ 1526-30 کے درمیان بابر کے دور میں تین بڑی مساجد تعمیر کی گئیں۔ ایک ایودھیا میں، دوسری پانی پت میں اور تیسری سنبھل میں۔ ایودھیا کی مسجد ایک ملک گیر انتہا پسند تحریک کا مرکز بن گئی، جس نے ہندوستان کی سیکولر جمہوریت کاخاتمہ کر دیا اور ہندوستانی جمہوریہ کا رخ موڑ دیا۔بابری مسجد کے انہدام کے تین دہائیوں بعد ہندوتوا کارکن اب سنبھل میں بھی یہ آگ جلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایڈوکیٹ ہری شنکر جین (جو گیان واپی مسجد-کاشی وشواناتھ تنازعہ کے بھی وکیل ہیں) نے مقامی عدالت میں ایک عرضی دائر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد کو بھگوان کلکی کے مندر کو تباہ کرکے تعمیر کیا گیا تھا۔ دیگر درخواست گزاروں میں سنبھل میں کلکی دیوی مندر کے مہنت رشی راج گری بھی شامل تھے۔
مہنت نے ایک سال پہلے ہری شنکر جین سے اپنے اس دعوے کے بارے میں بات کی تھی کہ مسجد ایک مندر کو تباہ کر کے بنائی گئی تھی۔ اپنے مندر کے برآمدے میں مہنت نے اپنے پیروکاروں اور اتر پردیش حکومت کی طرف سے اپنی سکیورٹی کے لیے تعینات پولیس والوں کو یہ دوہا سنایا تھا؛’پانچ صدی سے جمع رکت(خون) جب شعلہ بن کر کھولےگا، بابر بھی تب قبر سے اٹھ کر ہری ہر، ہری ہر بولے گا۔’
ان کی درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سنبھل شہر کے عین وسط میں واقع بھگوان کلکی کے لیے وقف’صدیوں پرانا شری ہری مندر’ہے، جس کا استعمال جامع مسجد کمیٹی کے ذریعےمسجد کے طور پر ‘زبردستی اور غیر قانونی طور پر’ کیا جا رہا ہے۔ ‘سنبھل ایک تاریخی شہر ہے اور ہندو صحیفوں میں اس کا تذکرہ ملتاہے، جس کے مطابق یہ ایک مقدس مقام ہے جہاں بھگوان وشنو کے ایک اوتار کلکی (مستقبل میں) ظاہر ہو ں گے، بھگوان کا روپ ،جو ابھی تک ظاہر نہیں ہوا ہے۔’
درخواست گزاروں نے بتایا کہ ‘کلکی بھگوان وشنو کے 10ویں اور آخری اوتار مانے جاتے ہیں، جن کی آمد کلیگ میں یقینی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اان کے ظہور سے تاریک اور ہنگامہ خیز کلیگ کا خاتمہ ہوجائے گا اور اگلے دور کی شروعا ت ہوگی، جسے ستیگ کہا جاتا ہے۔ ‘سنبھل کا شری ہری ہر مندر کائنات کے آغاز میں بھگوان وشوکرما نے خود بنایا تھا۔’
اتفاق سے یہ دعوے ‘تاریخی حقائق’ کے عنوان کے تحت درخواست میں کیے گئے ہیں۔ درخواست گزاروں نے الزام لگایا کہ جب مغل شہنشاہ بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا تو اس نے ‘اسلام کی طاقت دکھانے کے لیے بہت سے ہندو مندروں کو تباہ کیا تاکہ ہندو محسوس کرسکیں کہ وہ اسلامی حکمران کے ماتحت ہیں۔’ ‘1527-28 میں، بابر کی فوج کے لیفٹیننٹ ہندو بیگ نے سنبھل میں شری ہری ہر مندر کو جزوی طور پر منہدم کر دیا’ اور ‘مسلمانوں نے مندر کی عمارت پر قبضہ کر لیا اور اسے مسجد کے طور پر استعمال کرنے لگے۔’
اس درخواست کے داخل ہونے کے صرف ایک گھنٹہ بعد، اسی دن – خصوصی طور پر بغیر کوئی نوٹس جاری کیے اور مسجد کے نگراں یا امام صاحب کی بات سنے بغیر– چندوسی کورٹ کے سول جج آدتیہ سنگھ نے 19 نومبر کو ایک ایڈوکیٹ کمشنر کی قیادت میں ایک ٹیم کے ذریعے مسجد کی ویڈیو گرافی کے ساتھ سروے کرنےکا حکم دیا، جس کو 29 نومبر تک پورا کیا جانا تھا۔
اسی مستعدی کے ساتھ، ٹیم، جس میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ بھی ریاستی حکومت کے نمائندے کے طور پر شامل تھے، اسی شام مسجد پہنچی اور سروے شروع کیا۔ اس دن مسجد انتظامیہ اور مقامی باشندوں نے سروے کی مخالفت نہیں کی کیونکہ وہ حیران تھے۔
لیکن جب ٹیم پانچ دن بعد مسلح پولیس والوں کی ایک بڑی نفری اور جئے شری رام کے نعرے لگاتی بھیڑ کے ساتھ پہنچی تو سب ڈویژنل مجسٹریٹ نے اس انڈرگراؤنڈٹینک کی پیمائش کا حکم دیا جس سے نمازی نماز سے پہلے وضو کرتے ہیں۔ اس دوران ایک افواہ پھیل گئی کہ مسجد کو گرا دیا جائے گا۔ مشتعل ہجوم تیزی سے جمع ہو گیا، کچھ لوگوں نے پتھراؤ کیا اور پولیس نے بھیڑ پر فائرنگ شروع کر دی۔ مسجد کے قریب ہونے والے حملے میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ بعد میں کم از کم دو اور افراد ہلاک ہو ئے۔
پولیس نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جان لینے کے لیے گولی نہیں چلائی تھی۔ انہوں نے صرف ربڑ اور پیلٹ گن کااستعمال کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جن گولیوں سے لوگوں کی جان گئی وہ پولیس رائفل سے نہیں بلکہ دیسی ہتھیاروں سے چلائی گئی تھیں۔ لیکن مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس کے لیے یہ عام بات ہوگئی ہے کہ وہ بھیڑپر دیسی ہتھیاروں سے گولی چلاتی ہے، تاکہ پولیس کو ہلاکتوں کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جاسکے۔
واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے۔ ماضی کے تجربات پر غور کیا جائے تو اس بار بھی سچ سامنے آنے کی زیادہ امید نہیں ہے۔ لیکن پہلے سروے کی رپورٹ میں جو بھی کہاگیا ہے اس پر کوئی تنازعہ نہیں ہو سکتا کہ مسجد کے سروے کرنے کا مقامی جج کے حکم اور ضلع انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی سروے میں شرکت نے اس آگ کو بھڑکایا، جو جلد ہی آگ کی شکل اختیار کر گئی، جس میں چھ نوجوان ہلاک ہو گئے۔
عدالت کا حکم قانون کی خلاف ورزی
عجلت میں لیا گیایہ حکم غیر قانونی تھا۔ سب سے پہلے، جج نے قرون وسطیٰ کی مسجد کے انتظامیہ اور امام صاحب کی بات سنے بغیر اپنی ہدایات جاری کیں۔ اس کی وجہ سے انہیں ہائی کورٹ میں اس حکم کو چیلنج کرنے کا وقت نہیں ملا۔
اس کے علاوہ، سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد کو قدیم یادگاروں کے تحفظ کے قانون، 1904 کے تحت 22 دسمبر 1920 کو ایک ‘محفوظ یادگار’ کے طور پر مطلع کیا گیا تھا، اور بعد میں اسے قومی اہمیت کی یادگار قرار دیا گیا تھا۔ اس نے مسجد کو ریاست کی طرف سے خصوصی تحفظ کا اہل بنایا۔
لیکن اس سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ اس حکم سے ملک کے قانون کی خلاف ورزی ہوئی۔ 1991 میں ہندوستانی پارلیامنٹ کی طرف سے منظور کردہ عبادت گاہوں کے(خصوصی دفعات) ایکٹ میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو عبادت گاہ جس مذہبی شکل میں تھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی (ایودھیا کی بابری مسجد اس ایکٹ سے مستثنیٰ ہے)۔ یہ قانون ایسی کسی بھی کوشش کو غیر قانونی قرار دیتا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر سخت سزا کا اہتمام کرتا ہے۔
سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد 16ویں صدی کی مسجد ہے۔ 1947 میں بھی یہ ایک مسجد تھی۔ 1991 کے قانون کی بنیاد پر جج کو اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دینا چاہیے تھا، کیونکہ اس میں جو بنیادی حل طلب کیا گیا تھا – ہندو عبادت گزاروں کو مساجد میں پوجا کرنے کی اجازت — وہ ایسا تھا جس کی قانون اجازت نہیں دیتا ہے۔
دلیل یہ ہے کہ جج کو مسجد کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے والے درخواست گزاروں کے خلاف بھی مقدمہ چلانا چاہیے تھا، جو 1991 کے قانون کی رو سے تین سال کی قید کے مستحق تھے۔
ہائی کورٹ نے ایسے معاملوں کا پٹارہ کھول دیا
تاہم، سنبھل کے سول جج اس طرح کا حکم دینے والے واحدجج نہیں ہیں۔ گزشتہ دو سالوں میں دیگر مقامی عدالتوں نے بھی اسی طرح کے فیصلے صادرکیے ہیں، جنہیں مختلف ہائی کورٹس نے برقرار رکھا ہے۔ حالیہ برسوں میں، ہائی کورٹس نے نچلی عدالتوں کو مساجد کو ہندو مندروں میں تبدیل کرنے، متنازعہ مذہبی مقامات کی ملکیت سے متعلق مقدموں اور مساجد میں ہندوؤں کو عبادت کرنے کے حق کا دعوی کرنے والی درخواستوں پر غور کرنے سے روکا نہیں ہے۔
اس میں سے زیادہ تر سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے گیان واپی مسجد کیس میں کیے گئے ایک انتہائی اہم تبصرے کی وجہ سے ممکن ہوا، جس نے 1991 کے قانون کے برعکس عدالتوں کے احکامات کا سلسلہ دراز کر دیا ہے۔
اگست 2021 میں، پانچ ہندو خواتین نے ہندو مورتیوں کی پوجا کرنے کی اجازت طلب کرتے ہوئے وارانسی سول کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ مسجد کے اندر واقع ہیں، اور یہ مسجد مغل بادشاہ اورنگ زیب کے ذریعہ کاشی وشوناتھ مندر کے انہدام کے بعد بنائی گئی تھی۔ اپریل 2022 میں سول کورٹ کے جج نے دعوے کی تحقیقات کے لیے ایک ‘ویڈیوگرافک سروے’ (بعد میں سنبھل میں دیے گئے حکم کی طرح) کا حکم دیا۔ اس حکم کو الہ آباد ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔
اس کے بعد مسجد کی انتظامی کمیٹی نے سپریم کورٹ سے مداخلت کی درخواست کی، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ سروے نے عبادت گاہوں کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ مئی 2022 میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ 1991 کے قانون کے تحت کسی مذہبی مقام کی نوعیت کو تبدیل کرنا ممنوع ہے، لیکن ‘کسی جگہ کے مذہبی کردار کا پتہ لگانا، دفعہ 3 اور 4[عبادت گاہوں کے (خصوصی دفعات) ایکٹ، 1991] کی دفعات کے تحت ضروری نہیں ہے۔’
اس کا مطلب یہ تھا کہ 1991 کا قانون اس بات کی تحقیقات پر پابندی نہیں لگاتا کہ 15 اگست 1947 کو عبادت گاہ کی نوعیت کیا تھی۔ قانون صرف مطالعہ کے بعد عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو تبدیل کرنے سے منع کرتا ہے۔
یہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کا حیران کن تبصرہ تھا۔
اگر آپ یہ طے کرنے کے لیے مسجد کے سروے کی اجازت دیتے ہیں کہ اس کے نیچے مندر ہے یا نہیں، اور اس جگہ پر مندر کی بحالی پر پابندی لگاتے ہیں، تو اس سے مختلف مذاہب کے لوگوں میں ناراضگی، نفرت پیدا ہوگی اور یہ خوف پھیلانے کا ایک یقینی نسخہ ہے، جو سالوں تک جھگڑوں کا باعث بن سکتا ہے۔
ان کے مشاہدے نے سنبھل میں سول جج کے حکم کو روکنے کی اجازت دی، جس کے نتیجے میں بالآخر چھ لوگوں کی موت ہوگئی۔
اس نے گیان واپی کے تناظر میں سپریم کورٹ کے آبزرور کی جانب سے بیان کیے گئے ‘عبادت گاہوں کے مذہبی کردار کو چیلنج کرنے والی ایک سیریز’ کو مجاز بنایا۔ ‘متھرا کی ضلع عدالت نے شاہی عیدگاہ مسجد میں ہندو’ نوادرات’ کی موجودگی کا دعویٰ کرنے والی ایک عرضی قبول کرلی۔ کرناٹک میں، نریندر مودی کا تھنک ٹینک سری رنگا پٹنہ میں ایک مسجد کے اندر پوجا کرنے کی اجازت طلب کر رہا ہے – دعویٰ ہے کہ یہ ٹیپو سلطان کے دور میں ہنومان مندر کے اوپر بنایا گیا تھا۔ ان معاملات میں، اور بہت سے دوسرے معاملات میں، ایک ‘سروے’ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔’
دہلی کے قطب مینار کمپلیکس میں عبادت کے حق کو بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھی ایک مقدمہ دائرکیا گیا تھا۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ یہ کمپلیکس اصل میں 22 ہندو اور جین مندروں کا مقام تھا۔
یہاں تک کہ اس مضمون کو لکھتے وقت، ہندو سینا کے سربراہ کا تازہ ترین دعویٰ یہ ہے کہ اجمیر شریف کی درگاہ – صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کا مقبرہ – دراصل ایک شیو مندر ہے۔ سول جج نے مناسب سمجھا کہ اس درخواست کو قبول کر کے نوٹس جاری کر دیا جائے۔
کیا جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ 1991 کے قانون کی اپنی تشریح میں حق بجانب تھے، جب انہوں نے اسے جانچنے کی اجازت دی کہ کیا 1947 میں تعمیر کی گئی مسجدوں کے نیچے ہندو مندر موجود ہے؟ یاانہیں شدید طور پرگمراہ کیا گیا تھا؟
ایودھیا کے 2019 کے فیصلے نے (جس کے وہ مصنف کے طور پر سامنے آئے ہیں) نے اس بات کی تصدیق کی کہ 1991 کا قانون اس بات کو یقینی بنانے کے لیے منظور کیا گیا تھا کہ تاریخ کو ‘پرانے تنازعات کو اکھاڑ نے اور تنازعات کو دوبارہ زندہ کرنے کے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے؟
سروے کو یہ جانچنے کی اجازت دے کر کہ کیا واقعی مساجد ہندو مندروں کو تباہ کرنے کے بعد بنائی گئی تھیں، کیا انہوں نے اس کے برعکس اختیار نہیں دیا؟ کیا انہوں نے ہندوتوا تنظیموں کو، جنہیں اکثر حکمران جماعت اور منتخب حکومتوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے، ماضی کوکریدنے، پرانے تنازعات کو زندہ کرنے اور نئے تنازعات پیدا کرنے اور اس طرح خطرناک حد تک فرقہ وارانہ دراڑیں اور مذہبی تنازعات کو ہوا دینے کے قابل نہیں بنایا، جو نسلوں تک جاری رہ سکتے ہیں؟
(ہرش مندر انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔) (انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)