سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سینئر وکیل دشینت دوے نے دی وائر کے لیے کرن تھاپر کو دیے ایک انٹرویو میں کہا کہ مسجدوں کے سروے کی اجازت دے کر سابق سی جے آئی جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ‘آئین اور ملک کے ساتھ بڑی ناانصافی کی’ ہے۔
نئی دہلی: گزشتہ ہفتے ملک کےسینئر وکیلوں میں سے ایک اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر دشینت دوے دی وائر کے لیےکرن تھاپر کودیے گئے ایک انٹرویو کے دوران ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ مسجدوں کے سروے کی اجازت دے کر سابق سی جے آئی جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ‘آئین اور ملک کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی’ کی ہے۔ وہ مسجد کے نیچے مندر ہونے کے دعوے کے تناظر میں ملک کی مختلف مساجد کے سروے کے عدالتی احکامات پر اظہار خیال کر رہے تھے۔
انٹرویوملاحظہ کریں؛
کرن تھاپر : آداب ، دی وائر کے ساتھ اس خصوصی انٹرویو میں آپ کا استقبال ہے۔ اچانک محسوس ہو رہا ہے کہ ہم ایسی مسجدوں کی کھوج کر رہے ہیں،جن کے بارے میں لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہندو مندروں کے اوپر بنائی گئی ہیں، اور عدالتوں میں ان کی جانچ کی اجازت کے لیے درخواستیں دائر کی جا رہی ہیں۔ یہ وارانسی کی گیان واپی مسجد، متھرا کی شاہی عیدگاہ اور دھار کی کمال مولا سے شروع ہوا…سنبھل کی شاہی جامع مسجد اور اجمیر کی اجمیر شریف درگاہ تک پہنچ گیا ہے۔ یہ آگ سے کھیلنا ہے۔ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔
میرےآج کے مہمان اس کے لیے مئی 2022 میں جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کے ایک فیصلے کو براہ راست ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس کی وضاحت کرنے کے لیے میرے ساتھ ہیں ہندوستان کے معزز ترین وکیلوں میں سے ایک اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر دشینت دوے۔ مسلسل احساس ہو رہا ہے کہ عدالتوں سے مسجدوں ، جو اکثر صدیوں پرانی ہیں،کے سروے کی اجازت مانگی جا رہی ہےیہ دیکھنے کے لیے کہ کیا وہ پرانے ہندو مندروں کے اوپر بنی ہیں۔ حال ہی میں سنبھل اور اجمیر میں ایسا ہوا ہے، لیکن اس سے پہلے مدھیہ پردیش کے وارانسی، متھرا اور دھار میں ایسا ہواتھا۔ آپ سمجھتے ہیں کہ جسٹس چندر چوڑ کا مئی 2022 کا فیصلہ اس سنگین صورتحال کے لیے ذمہ دار ہے۔ کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں کہ آپ انہیں قصوروار کیوں سمجھتے ہیں؟
دشینت دوے: دیکھیے،ملک میں بہت سنگین صورتحال پیدا ہو رہی ہے، اور عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 میں اس کی واضح ممانعت تھی۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے، جس میں جسٹس چندر چوڑایودھیا رام جنم بھومی کیس میں شامل تھے، واضح طور پر کہا کہ اس ایکٹ کے دو بنیادی پیرامیٹرز ہیں: ایک، یہ 15 اگست 1947 کو موجود ہر مذہبی مقام کی حفاظت کرتا ہے۔ دوسرا، انہوں نے دفعہ 4، ذیلی دفعہ 2 کی تشریح کی کہ کسی بھی مذہبی مقام کے کردار کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی نیا مقدمہ، اپیل یا کارروائی نہیں ہو سکتی۔
اس ایکٹ نے دفعہ 5 کے ذریعے رام جنم بھومی-بابری مسجد کو واضح طور پر مستثنیٰ قرار دیا تھا کیونکہ مقدمہ اور تنازعات 1947 سے پہلے زیر التوا تھے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ ایکٹ آئین میں فراہم کردہ بنیادی حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ قانون ریاست کو اتنا ہی مخاطب کرتا ہے جتنا وہ ملک کے ہر شہری کو مخاطب کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ قانون سیکولرازم قائم کرنے کے لیے ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اس نے یہ بھی کہا کہ یہ ایکٹ ریاست پر تمام مذاہب کی برابری کو آئینی قدر کے طور پر تحفظ فراہم کرنے کا فرض عائد کرتا ہے۔ یہ آئین کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اس نےیہ بھی کہا کہ تاریخی غلطیوں کو لوگوں کے ذریعے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر درست نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سپریم کورٹ کے الفاظ ہیں، جن میں چندرچوڑ بھی تھے۔ انہیں ان الفاظ پر عمل کرنا ہے۔
اس لیے ایکٹ، اور اس کی دی گئی تشریح واضح طور پر حکم دیتی ہے کہ رام جنم بھومی کے فیصلے کے بعد اب ہر کسی کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شرما نے، جنہوں نے رام جنم بھومی کا فیصلہ دیا تھا، اپنے فیصلے میں یہ تبصرہ کیا تھا کہ یہ قانون دیگر عبادت گاہوں کے سلسلے میں نئی کارروائی یا نئے مقدمے کو نہیں روکتا ہے۔ آئینی بنچ نے اس نتیجے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکمل طور پر غلط، ناقص اور دفعہ 4، ذیلی دفعہ 2 کے خلاف ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ مستقبل میں کسی نئی عبادت گاہ کے لیے کوئی مقدمہ یا کارروائی نہیں ہو سکتی۔
اب اگر آرٹیکل 141 کی بنا پر یہ ملک کا قانون ہے تو اس آرٹیکل کی وجہ سے ہر کوئی – ایگزیکٹو، مقننہ، حتیٰ کہ عدلیہ بھی بشمول سپریم کورٹ – اس قانون کا پابند ہے۔ اس لیے مجھے یہ انتہائی چونکا دینے والا معلوم ہوتا ہے کہ جب گیان واپی مسجد کا معاملہ آیا، جب اقلیتی برادری کی طرف سے دائر مقدمہ کو خارج کرنے کی درخواست کی گئی، جسے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے خارج کر دیا، لیکن جسٹس چندر چوڑ نے کارروائی کو جاری رکھنے کی اجازت دی، اے ایس آئی کی کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دی۔
یہ جسٹس چندر چوڑ کے اپنے ہی فیصلے کی سب سے چونکا دینے والی خلاف ورزی تھی۔ اب اس نے پٹار ہ کھول دیا ہے۔ اگر انہوں نے اس دن کہا ہوتا،’کچھ نہیں ہوگا، کوئی اور کارروائی نہیں ہو سکتی’، ‘ کوئی اور کارروائی قبول نہیں کی جائے گی، اور ہم حکم دیتے ہیں کہ ہندوستان کی کوئی عدالت ایسی کارروائی قبول نہیں کرے گی،’ تو چندرچوڑ نے اس ملک کا بہت بھلا کیا ہوتا۔ لیکن وہ ایسا کرنے کو تیار نہیں تھے کیونکہ وہ سیاست دانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے، اور مجھے یہ بات حیران کرتی ہے کہ ایک شخص جو پوری دنیا میں دعوے کرتا ہے، سیکولرازم، قانون کی حکمرانی پر لیکچر دیتا رہتا ہے، اب اس ملک میں قانون کی حکمرانی کے زوال کا باعث بن گیا ہے۔
کرن تھاپر:جسٹس چندر چوڑ نے مئی 2022 میں کیا کہا جس سے آپ کو لگتا ہے کہ مسائل کا پٹارہ کھل گیا ہے؟ ان کے الفاظ تھے، ‘عبادت گاہ کے مذہبی کردار کا تعین کرنا ممنوع نہیں ہے۔’ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جو چیز ممنوع ہے وہ 15 اگست 1947 کے بعد عبادت گاہ کے کردار کو بدلنا۔ لیکن (سائٹ کے) مذہبی کردار کا تعین کرنا غلط نہیں ہے۔ عبادت گاہوں کے قانون کی جو تشریح انہوں نے کی اس نے تمام مسائل کو پیدا کیا؟
دوے: یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ انہوں نے یہ تشریح کی۔ دانشور ہونے کا دعویٰ کرنے والے شخص کو ایسی وضاحت نہیں کرنی چاہیےتھی، کیونکہ اگر آپ کسی جگہ کا کردار نہیں بدل سکتے تو کردار کے تعین کا کیامطلب؟ اس لیے تمام مذہبی عبادت گاہوں کے حوالے سے مکمل پابندی تھی اوراسٹیٹس کو(صورتحال کو برقرار رکھنا) تھا۔ مجھے یقین ہے کہ جسٹس چندر چوڑ جانتے تھے کہ ایکٹ کا مقصد کیا تھا۔ اس کا مقصد اس ملک میں امن و خوشحالی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی لانا تھا اور اس لیے وہ اس کی اس طرح تشریح نہیں کر سکتے تھے۔
کرن: جسٹس چندرچوڑ نے تشریح کی کہ اگرچہ آپ 15 اگست 1947 کے بعد کسی مذہبی مقام کے کردار کو نہیں بدل سکتے، لیکن آپ یہ تعین کر سکتے ہیں کہ وہ کردار کیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس سے عبادت گاہوں کے قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ہے، تو کیا اس سے ایکٹ کی روح کمزور نہیں ہوتی؟ اس سے ایکٹ کی روح شدید طور پر کمزور ہوتی ہے۔
دوے: میں کہوں گا کہ یہ دراصل ایکٹ کے خلاف ہے۔ یہ ایکٹ کی روح کی بھی خلاف ورزی ہے، کیونکہ ایکٹ کا مقصد کسی بھی عبادت گاہ میں تبدیلی کو روکنا ہے جیسا کہ 15 اگست 1947 کو ہوا تھا۔ اب اگر کوئی پابندی ہے تو (مذہبی مقام) کی نوعیت کے تعین کا سوال کہاں سے آتا ہے؟ یعنی کیا آپ سپریم کورٹ میں ایک انتہائی حساس، فرقہ وارانہ طور پر حساس معاملے پر کوئی اکیڈمک مشق کر رہے ہیں؟ کیا سنبھل میں ان چار لوگوں کی موت کے لیے عدلیہ ذمہ دار نہیں ہے؟ ہم یہاں کیا بحث کر رہے ہیں؟ لوگ اپنی جان گنوا رہے ہیں۔ دونوں برادریوں کو مستقل طور پر تقسیم کیا جا رہا ہے، اور ان زخموں کو مندمل کرنا تقریباً ناممکن ہے، خاص طور پر جب ان ریاستوں میں جہاں یہ ہو رہا ہے، بی جے پی اقتدار میں ہے، چاہے وہ راجستھان ہو یا اتر پردیش۔ اس لیے میرا ماننا ہے کہ چندر چوڑ نے آئین اور اس ملک کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی کی ہے۔
کرن: جسٹس چندر چوڑ نے آئین اور اس ملک کے لوگوں کے ساتھ بڑی ناانصافی کی ہے۔ کیا آپ واقعی اس پر یقین رکھتے ہیں؟
دوے: میں نہ صرف اس پر یقین رکھتا ہوں، بلکہ میرا خیال ہے کہ اگر سپریم کورٹ – اور یہ بات سپریم کورٹ نے بار بار کہی ہے – اپنے ہی فیصلوں کی پابند ہے، تو یہ سپریم کورٹ ،شہری، بیوروکریٹس اور سیاست دان کو اپنے احکامات کی خلاف ورزی کےلیےگھسیٹے گا۔ چندرچوڑ نے کیا کیا ہے؟ کیا وہ مجرم نہیں؟ کیا وہ اور ان کے ساتھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کے مجرم نہیں ہیں؟ کیا وہ اور ان کے ساتھی قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کے ذمہ دار نہیں ہیں؟ کیونکہ انہوں نے اس فیصلے میں نوٹ کیا تھا کہ 1992 میں مسجد کا انہدام ریاست کے ساتھ ملی بھگت سے- خاص طور پر بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کے سپریم کورٹ میں انڈرٹیکٹنگ دینے کے بعد – ایک انتہائی گھناؤنا عمل تھا اور انہوں نے کہاکہ قانون کی حکمرانی نہیں رہی۔ جج یہ صاف صاف کہتے ہیں۔ اب، وہ اس کا حصہ تھے۔ اس لیے وہ اسے کیسے جاری رکھ سکتے ہیں؟
کرن: تو وہ خود توہین عدالت کے مجرم ہیں۔
دوے: کسی نے کبھی اس بات کا جائزہ نہیں لیا کہ کیا کوئی جج اپنے فیصلے کی توہین کا مجرم ہو سکتا ہے، لیکن یقینی طور پر، وہ اپنے ہی فیصلے کی خلاف ورزی اور توہین کے مجرم ہیں۔
کرن: کچھ لوگ جو جسٹس چندر چوڑ کی تشریح سے اتفاق کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ قانون کی ایک چالاک تشریح ہے، لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس کے برعکس حقیقت میں زیادہ سچ ہے؟ کہ جسٹس چندر چوڑ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ ہندوستان میں ایک دھماکہ خیز اور انتہائی حساس موضوع ہے، اور اس کے نتیجے میں، عام لوگوں کی زندگی اور ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی داؤ پر لگ جائے گی، اور اس دوسری، زیادہ اہم تشویش کو انہوں نے صرف نظر انداز کر دیالگتا ہے۔
دوے: نہیں، جسٹس چندرچوڑ نے نہ صرف ایک بے ایمان تشریح کی ہے، اہم بات یہ ہے کہ جسٹس چندرچوڑ یہ بھول جاتے ہیں کہ ایکٹ ایک شہری کو کوئی بھی کارروائی شروع کرنے سے روکتا ہے، اور آرٹیکل 51اےکی بنیاد پر ہر شہری کے کچھ بنیادی فرض ہیں، جن میں آئینی اقدار کو برقرار رکھنا شامل ہے۔ یہ ایکٹ ریاست پر ایک پابندی عائد کرتا ہے، جو کہتا ہے کہ آپ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس ایکٹ کو پوری روح کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ مجھے ایک بات بتائیے، ججوں — خاص طور پر جسٹس چندر چوڑ — کے اندر اس ایکٹ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والے مقدمات کی سماعت کرنے کی ہمت کیوں نہیں تھی؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ برقرار رہے گا۔
دوسری بات، کیا جسٹس چندر چوڑ نے حکومت سے، خاص طور پر مرکز کی بی جے پی سے پوچھا کہ آپ 1991 کے اس ایکٹ کو ہٹانے اور منسوخ کرنے کے لیے قانون کیوں نہیں لاتے؟ یہ وہ چیزیں ہیں جو ججوں کو ذہن میں رکھنی چاہیے۔ آخرکار، یہ پارلیامنٹ کا ایکٹ تھا، اور آئینی حلف کے ساتھ آپ حلف اٹھاتے ہیں کہ ‘میں آئین اور قوانین کی پاسداری کروں گا۔’ایک بار جب آپ یہ حلف اٹھا لیتے ہیں، تو آپ کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ آئین اور قوانین کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن طریقے سے اس حلف کی پاسداری اور احترام کیا جائے۔ اور جسٹس چندرچوڑ اور ان کے ساتھی – دیکھیے چندرچوڑ ذمہ دار نہیں ہیں؛ ان کے ساتھی جو ابھی تک معزز سپریم کورٹ میں بیٹھے ہیں وہ بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں کہ چیف جسٹس کو بتائیں کہ ‘ہم آپ سے متفق نہیں ہیں، اور ہم اس کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔’
ان تمام معاملات میں اقلیتی برادری کی نمائندگی کرنے والے ایک معزز سینئر وکیل مسٹر احمدی سپریم کورٹ کو بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اب ان عبادت گاہوں کے کردار کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ وہ کہتے ہیں،’گیان واپی میں مداخلت نہ کریں، متھرا میں مداخلت نہ کریں۔’ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا، میں کہنا چاہوں گا کہ جسٹس کول کو سلام ،جنہوں نے کارروائی پر روک لگا دی، جیسا کہ انہوں نے کل سنبھل کے سلسلے میں کیا۔ تو ایسے بھی جج ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک تقسیم ہے۔ اس لیے، جسٹس چندر چوڑ اور ان کے ساتھیوں جو گیان واپی کے فیصلے کا حصہ تھے،ان کی حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ میں ان ججوں کا بہت احترام کرتا ہوں، میں ان کی تعریف کرتا ہوں- لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ چیف جسٹس صاحب سے کہہ سکیں، ‘چیف جسٹس، ہم اس سے متفق نہیں ہیں، اور ہم خود کو اس سے الگ کر رہے ہیں۔’
کرن: ہم نے گزشتہ چند ہفتوں میں کئی بار جسٹس چندرچوڑ کے بارے میں بات کی ہے – پچھلے دو مہینوں میں تین، شاید چار بار۔ کیا آپ کو خدشہ ہے کہ مئی 2022 کا یہ تبصرہ ، ان کی طرف سے کہی گئی سب سے زیادہ نقصاندہ بات ہو سکتی؟
دوے: نہ صرف نقصاندہ، بلکہ جان بوجھ کر کہی گئی بات۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ جب چیف جسٹس چندر چوڑ نے یہ فیصلہ کیا تو وہ کسی کے ہاتھ میں کھیل رہے تھے۔ وہ اتنے ذہین ہیں کہ یہ ممکن نہیں کہ وہ قانون کو نہ سمجھیں۔ وہ اتنے ذہین ہیں کہ رام جنم بھومی معاملے پر جو کچھ انہوں نے خود کہا اسے بھول جائیں۔ اور دوسرے فیصلوں میں سیکولرازم پر کئی تقریریں کر چکے ہیں۔ تو، یہاں ایک شخص، ایک جج ہے، جو سب کچھ جانتا ہے، پھر بھی وہ یہ تبصرہ کرتا ہے۔ چندرچوڑ کو جلد ہی بھلا دیا جائے گا۔ وہ مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ملک بھر کی عدلیہ پارلیامنٹ کے بنائے ہوئے قانون کی خلاف ورزی کی ذمہ دار ہے۔ یہ ایک افسوسناک صورتحال ہے۔ نچلے درجے کے جج پابند ہیں – آپ کو بتاتا چلوں، سپریم کورٹ کا ایک بہت ہی دلچسپ فیصلہ ہے جسٹس چننپا ریڈی کا اسسٹنٹ کلکٹر آف کسٹمز بنام ڈنلپ انڈیا لمیٹڈ، جہاں جسٹس چننپا ریڈی نے انتہائی دکھ بھرے الفاظ میں کہا کہ اس ملک میں سب سپریم کورٹ کے اعلان کردہ قانون کاپابندہے۔ ہر کوئی ایگزیکٹو اور عدلیہ سمیت۔ اور وہ کہتے ہیں، ‘ہم انہیں بار بار یاد دلا رہے ہیں کہ مہربانی کرکے ہمارے فیصلوں کی تعمیل کریں، اور ہم بڑی مشکل سے پاتے ہیں کہ وہ تعمیل نہیں کرتے ہیں۔’ تو، یہ 1985 میں تھا۔ پھر بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ ججوں کو قانون یا سپریم کورٹ کے فیصلے کا کوئی احترام نہیں ہے، چاہے وہ سنبھل ہو، وارانسی ہو، متھرا ہو یا اجمیر۔
کرن: کچھ دیر پہلے آپ نے جسٹس چندر چوڑ کے بارے میں کہا کہ یہ نہ صرف سب سے زیادہ نقصاندہ تبصرہ تھا، بلکہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا، اور پھر آپ نے مزید کہا، ‘مجھے کوئی شک نہیں کہ وہ کسی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔’ وہ کس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں؟ ان کو کون کنٹرول کر رہا ہے؟
دوے: ہم سب جانتے ہیں کہ کیا ہے… مجھے کچھ کہنا ہے۔ میں آر ایس ایس کے مسٹر بھاگوت کا احترام کرتا ہوں، اگرچہ میں ان کے نظریہ سے متفق نہیں ہوں، لیکن انہوں نے خود کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کو ہر مسجد کے نیچے شاید ایک شیولنگ مل سکتا ہے۔
کرن: لیکن جسٹس چندرچوڑ کس کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں؟ آپ کس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟
دوے: وہ کون سی قوتیں ہیں جو اس پریکٹس کو جاری رکھنا چاہتی ہیں؟
کرن: آپ کی مراد مودی اور بی جے پی سے ہے؟
دوے: …. ملک کو غیر مستحکم کرنے اور اقلیتی برادری کو دبانے اور جبر کرنے کے لیے؟
کرن: آپ بہت سنگین الزام لگا رہے ہیں کہ ایک جج اور بعد میں چیف جسٹس کے طور پر، وہ سیاسی مفادات اور خاص طور پر حکمراں بی جے پی سے متاثر ہو رہے تھے۔
دوے: اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور انہوں نے وزیر اعظم سے اپنی دوستی کا ثبوت بھی دیا۔ انہوں نے اسے دوبارہ ثابت کر دیا جب انہوں نے کہا کہ ایودھیا کے فیصلے میں انہیں بھگوان سے رہنمائی ملی۔ چیف جسٹس ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ آج ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے – اور یہیں پر مجھے لگتا ہے کہ بی جے پی، وزیر اعظم، مسٹر مودی کو ایک سنجیدگی سے اپنا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے – لو جہاد، لینڈ جہاد، لنچنگ، یہ سب ریاست کی حمایت سے ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر بی جے پی کی ریاستوں میں۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ حال ہی میں بڑودہ میں ایک نوجوان جس کے والد بی جے پی کارکن ہیں کو ایک مسلم لڑکے نے مبینہ طور پر قتل کر دیا تھا۔ اب مسلمان لڑکے پر مقدمہ چلایا جانا چاہیےاور قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔ وہ کیا کرتے ہیں کہ بڑودہ کے پرانے حصے، مانڈوی اور دیگر علاقوں میں جاتے ہیں، اور ہر اس مسلم ہاکر کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں جو وہاں شاید 100 سال سے کام کر رہا ہے، اور مسلمانوں کی تمام دکانوں کو، جو تھوڑی سی بھی باہر نکلی ہوئی ہے۔ انہیں توڑ دیتے ہیں۔اور پولیس اور میونسپل اہلکار ڈر کا ماحول بناتے ہیں۔
آج آپ خوف پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور وہ خوف – ایک بات یاد رکھیے، کرن، یہ میرے الفاظ نہیں ہیں۔ امبیڈکر نے دستور ساز اسمبلی کی بحث کے دوران کہا تھا کہ اقلیتیں ایک دھماکہ خیز قوت ہیں، اور اگر وہ پھٹتی ہیں تو یہ اس ملک کے تانے بانے کو تباہ کر دے گی۔ ہم ایسی صورتحال نہیں چاہتے۔
کرن: تو کیا آپ اس لیے فکر مند ہیں – کہ ہم جلد ہی ایک ایسے دور میں پہنچ سکتے ہیں جب سینکڑوں، شاید ہزاروں، مساجد کا اس خیال کے ساتھ سروے کیا جائے گا کہ وہ ہندو مندروں کے او پر تعمیر کی گئی تھیں، صرف روایت یا کہانیوں کی بنیاد پر؟ کیا آپ فکرمند ہیں کہ یہ بڑھے گا، اور یہ پٹارہ سینکڑوں، ہزاروں مقدمات کا باعث بنے گا؟
دوے: میں نہ صرف فکر مند ہوں، بلکہ میں ان لوگوں سے کہتا ہوں جو اس ملک کی اسلامی تاریخ کو مٹانا چاہتے ہیں، ‘آپ لال قلعہ سے شروعات کیوں نہیں کرتے؟ آپ تاج محل کیوں نہیں جاتے؟ آپ قطب مینار کیوں نہیں جاتے؟ ان کے نیچے کھدائی شروع کریں! آئیے ان ہزاروں یادگاروں کو گرا دیں جو اس ملک کا عظیم ورثہ ہیں۔’ تاکہ اب ہم اس ملک سے اسلامی حملہ آوروں کا ہر نشان مٹا دیں؟ ہم کہاں ختم کریں گے؟
دیکھیے،یہ ایک شاندار قوم ہے۔ ہندومت ایک شاندار مذہب ہے۔ میں ایک قابل فخر ہندو ہوں۔ میں برہمن ہوں۔ میں ہر روز اپنے بھگوان کی پوجا کرتا ہوں۔ لیکن میں دوسرے دیوتاؤں اور مذہبی رہنماؤں کا بھی احترام کرتا ہوں۔ آپ اس چیز کو جاری نہیں رکھ سکتے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اسے اب نہ روکا گیا تو یہ اس ملک کو آگ میں جھونک دے گا۔
بدقسمتی سے، جیسا کہ میں نے کہا، بی جے پی کے پاس قانون کو منسوخ کرنے کی ہمت نہیں ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ انہیں پارلیامنٹ میں اپنے ہی اتحادیوں کی حمایت نہیں ملے گی۔ اب، اس لیے، وہ جو کرنا چاہتے ہیں – جو وہ براہِ راست نہیں کر سکتے، وہ بالواسطہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔
کرن: جیسا کہ آپ نے کہا،جسٹس چندرچوڑ نے پٹارہ کھول دیا ہے، اور زمین تیار کر دی ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے کہ معاملات مکمل طور پر قابو سے باہر نہ ہو جائیں؟
دوے: سب سے پہلے، مجھے لگتا ہے کہ ملک کو اس بات سے خوشی ہوگی کہ چیف جسٹس کھنہ کی قیادت میں ایک نئی سپریم کورٹ جنم لے رہی ہے۔ اور یہ سپریم کورٹ 2014 سے 2024 تک جو کچھ ہوا اس سے فاصلہ رکھے ہوئے ہے۔ ہمارے یہاں ایک ایسا چیف جسٹس ہے جو متوازن ہے، جو سنجیدہ ہے، جو آئین کا احترام کرتا ہے۔ اور یہاں ایک سپریم کورٹ ہے جہاں ان کے بہت سے ساتھی ایسا کرنے کو تیار ہیں۔
کرن: ان کا دور صرف سات ماہ کا ہے۔ کیا یہ صورتحال بدلنے کے لیے کافی ہے…؟
دوے: ہمارے پاس اب سپریم کورٹ میں کئی اچھے جج ہیں اور مستقبل میں کئی اچھے چیف جسٹس آنے والے ہیں۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ چیف جسٹس قانون کا وقار برقرار رکھیں گے۔ مجھے آج یاد آرہا ہے… یہ الفاظ ہیں سردار پٹیل کے… سردار پٹیل آئین سازی کے وقت اقلیتی کمیٹی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے اقلیتوں کے تحفظ کا بندوبست کیا۔ اور انہوں نے کہا، ‘دیکھیے، اگر ہندو اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بند کر دیں تو اقلیتوں کے پاس شکایت کی کوئی وجہ نہیں رہے گی، اور اقلیتیں غائب ہو جائیں گی۔ ایک ملک ہو گا، مکمل برابری ہو گی۔’ اور انہوں نے یہ بھی کہا، ‘اقلیتی برادری کی طرح سوچیں اور اس کے درد کو محسوس کریں۔ تب آپ کو احساس ہوگا کہ کہ وہ غلط ہے۔’ لہذا، یہاں عظیم لوگ ہیں – سردار پٹیل، امبیڈکر – جو مبینہ طور پر وزیر اعظم مودی کے آئیڈیل ہیں، لیکن وہ ان معاملات میں ان کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ صرف مورتیاں بنانا چاہتے ہیں اور ان کی سالگرہ وغیرہ پر انہیں ہار پہنانا چاہتے ہیں۔
کرن: میں لائیو لاء کے منیجنگ ایڈیٹر مانس کا حوالہ دیتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں،’سپریم کورٹ کو فیصلہ کن اعلان کرنا چاہیے کہ مذہبی کردار کے تعین کے نام پر عبادت گاہوں کے ایکٹ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔’ کیا آپ ان سے اتفاق کرتے ہیں؟
دوے: بالکل، پوری طرح سے۔ اور میں یہ کہوں گا کہ اگرچہ جسٹس کھنہ کی مداخلت – جسٹس کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی–خوش آئند تھی، میرے خیال میں انہیں کچھ اور کرنا چاہیے تھا۔ انہیں سپریم کورٹ میں اس کیس کو واپس لے لینا چاہیے تھا اور اعلان کر دینا چاہیے تھا کہ کیس قابل سماعت نہیں ہے۔ انہیں ایک عام ہدایت دینی چاہیے تھی۔ میں آپ کو بتاتا چلوں، بہت سال پہلے شاید ریلائنس کا پبلک ایشو تھا، یا مورگن اسٹینلے کا پبلک ایشو تھا، اور بڑی تعداد میں کیس دائر کیے جا رہے تھےآنے والے پبلک ایشو کے خلاف ، میرے خیال میں یہ ریلائنس تھا، اور سپریم کورٹ نے حکم دیا اور ملک کی ہر عدالت کو ایسے مقدمات درج کرنے سے روک دیا گیا۔ آج اسی کی ضرورت ہے۔ ججوں کو نئے انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے۔
آج بدقسمتی سے ہم تفرقہ پیدا کر رہے ہیں۔ آپ گجرات آئیے،یہ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ دونوں برادریاں پولرائزڈ ہو گئی ہیں۔ مسلمان کسی علاقے میں ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے اور نہ ہی ہندو کسی علاقے میں مسلمانوں کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ آپ دوعلاقے بنا رہے ہیں۔ اور احمد آباد میں ، جہاں اقلیتی برادریاں رہتی ہیں، ضحیٰ پورہ،احمدآباد میں میرے بہت سے دوست اسے پاکستان کہتے ہیں۔ کیا اسی لیےمجاہد آزادی نے لڑائی لڑی تھی؟ ان سب نے اپنی جانیں دیں – ہزاروں ہندوستانیوں نے ہمیں آزادی دلانے کے لیے اپنی جانیں دیں۔ تقسیم ہو چکا ہے، جو مسلمان پاکستان جانا چاہتے تھے وہ چلے گئے، لیکن جنہوں نے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے اپنا مستقبل ہم اکثریت کے حوالے کر دیا۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں یہاں اپنے پن کا احساس دلائیں۔ 77 سال کے بعد، کیا ہم اب 600-700 سال پہلے کیا ہوا تھااس کے بارے میں بات کریں گے؟ اگر بابر اور اورنگ زیب تھے تو اکبر بھی تھا… مجھے یاد ہے، جہاں شری بھگوان کی مورتی تھی۔ انہوں نے گرنار کو مستثنیٰ قرار دیا… انہوں نے اس زمین کا حق مہا پربھو جی کو دیا اور پھر اسے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا۔
گڑے مردوں کو اکھاڑنا ہمارے لیے اچھا نہیں۔ اقلیتی برادری کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔ وہ اب بھی ہم پر اور آئین پر اپنا اعتماد برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان سمیت عالم اسلام میں ہزاروں خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ ہندوستان میں صرف ایک خودکش حملہ ہوا ہے – پلوامہ۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہ صورتحال مزید بڑھے۔ ہمیں بہت کام کرنا ہے۔ ہمیں 140 کروڑ لوگوں کا خیال رکھنا ہے۔ ہمیں روزگار پیدا کرنا ہے۔ ہمیں غریبوں کو غربت سے نکالنا ہے۔ ہمیں تعلیم کی ضرورت ہے۔ ہمیں اچھی صحت کی ضرورت ہے۔ ہمیں امن کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ ہمیں خوشحالی چاہیے۔ یہ سب ختم ہو جائے گا، کرن۔
میں آپ کو ایک بات بتا سکتا ہوں –اس کے بارے میں سوچ سوچ کر مجھے نیند نہیں آتی۔ میری بیوی ہر روز مجھ سے کہتی، ‘آپ اس حد تک کیوں سوچ رہے ہیں؟’ لیکن مجھے اپنے ملک کی فکر ہے۔ میں اپنے لوگوں کے لیے فکرمند ہوں … آپ نہیں جانتے کہ اس کا مجھ پر کتنا اثر ہو رہا ہے۔ تصور کیجیے کہ یہ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کتنا متاثر کر رہا ہوگا۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ واقعی افسوسناک ہے، اور مجھے نہیں معلوم کیوں اس ملک میں کوئی بھی اس کے خلاف کھڑا ہوکر لڑنا کیوں نہیں چاہتا۔
کرن: دشینت، شکریہ۔ میں کچھ اہم باتوں کو دہرانا چاہتا ہوں جو آپ نے جسٹس چندر چوڑ کے بارے میں کہی ہیں۔ آپ نے کہا کہ وہ 2019 کے اپنے ہی فیصلے کی خلاف ورزی کے مجرم ہیں۔ آپ نے ان پر بے ایمان تشریح کرنے کا الزام لگایا۔ آپ نے کہا کہ وہ کسی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، یہ واضح کرتے ہوئے کہ یہ بی جے پی کی حکومت ہے۔ اور مئی 2022 کا ان کا فیصلہ اس ملک کو آگ میں جھونک سکتا ہے۔ آپ کے لیے…
دوے: میں نے یہ نہیں کہا کہ بی جے پی اور حکومت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ میں نے کہا ہے کہ وہ کسی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔ میں نہیں جانتا کس کے۔
کرن: آپ کا بہت بہت شکریہ۔