سنبھل تشدد: پولیس نے مسلمانوں پر گولی چلانے کے الزامات کی تردید کی، 25 مسلمان شہری گرفتار

سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد کے سلسلے میں پولیس نے دو خواتین سمیت 25 مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور ایس پی ایم پی ضیاء الرحمان برق سمیت تقریباً 2500 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے بھیڑ کے خلاف کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیا۔

سنبھل میں جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوئے تشدد کے سلسلے میں پولیس نے دو خواتین سمیت 25 مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور ایس پی ایم پی ضیاء الرحمان برق سمیت تقریباً 2500 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے بھیڑ کے خلاف کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیا۔

سنبھل تشدد کے دوران تعینات پولیس اہلکار۔ (تصویر: ویڈیو اسکرین گریب)

سنبھل تشدد کے دوران تعینات پولیس اہلکار۔ (تصویر: ویڈیو اسکرین گریب)

نئی دہلی: اترپردیش کے سنبھل ضلع میں پولیس نے دو خواتین سمیت 25 مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے ایم پی ضیاء الرحمان برق سمیت تقریباً 2500 لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ یہ تشدد مغلیہ  دور کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران ہوا تھا۔

اب تک چار مسلمانوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے، تاہم پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے بھیڑکے خلاف کوئی مہلک ہتھیار استعمال نہیں کیا۔ سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے ویڈیو میں پولیس افسران اور کانسٹبلوں کو بھیڑ پر گولی چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ وسیع پیمانے پر شیئر کیے گئے ویڈیو میں نظر آنے والا ہتھیار پیلٹ گن تھا۔

اتوار کے واقعہ کے ایک دن بعد پارلیامنٹ کے باہر بات کرتے ہوئے برق نے الزام لگایا کہ کچھ افسران نے اپنے نجی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ اپنے سروس ہتھیاروں سے بھی گولی چلائی اور اپنی  کاروں کو آگ لگا دی۔ سنبھل پولیس نے ابھی تک ان کے الزامات کا جواب نہیں دیا ہے۔

ایس پی سربراہ اکھلیش یادو نے پارلیامنٹ کے باہر ان الزامات کو دہرایا اور پولیس افسران کے خلاف کارروائی اور ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ واقعہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کندرکی ضمنی انتخاب میں ‘ووٹوں کی لوٹ مار’ سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا گیا ہے۔ حیران کن نتائج میں بی جے پی نے یہاں جیت حاصل کی ہے۔

ایس پی سربراہ نے الزام لگایا کہ مہلوکین کی موت پولیس کی گولیوں سے ہوئی۔

تاہم، مراد آباد کے ڈویژنل کمشنر آنجنیا کمار سنگھ نے کہا کہ ہلاک ہونے والے چار مسلمانوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں  دیسی ہتھیاروں سے چلائی گئی گولیاں لگی تھیں۔ سنگھ نے کہا، ‘ہم معاملے کی مزید تحقیقات کریں گے۔’

انہوں نے اتوار کو کہا تھا کہ وہ ہجوم کے ارکان کے درمیان کراس فائرنگ میں مارے گئے، جنہوں نے تین اطراف سے پولیس پر پتھراؤ کیا اور ان پر فائرنگ بھی کی۔

ضلع انتظامیہ نے علاقے میں انٹرنیٹ بند کر دیا ہے اور متعلقہ حکام کی اجازت کے بغیر کسی بھی باہری شخص، سماجی تنظیم یا عوامی نمائندے کے سنبھل میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ پابندیوں کا جواز پیش کرتے ہوئے ضلع مجسٹریٹ راجندر پنسیا نے ایک حکم میں کہا کہ ضلع میں ماحول ‘انتہائی حساس’ ہے۔ سنبھل تحصیل کے تمام اسکولوں کو سوموار کوبھی کو بند رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

وہیں،سنبھل کے مقامی ایم پی برق نے پورے واقعہ کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس میں شامل افسران کے خلاف تینوں لوگوں کے قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے اور انہیں جیل بھیجا جانا چاہئے۔ مہلوکین کے اہل خانہ اور اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ پولیس نے انہیں گولی ماری۔

برق نے کہا، ‘میں سپریم کورٹ سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتا ہوں۔’ انہوں نے دعویٰ کیا کہ تشدد ایک سازش کے تحت کیا گیا تھا۔

ادھر، الہ آباد کے ایک سماجی گروپ ‘ناگرک سماج الہ آباد’، جس میں سرکردہ کارکنوں اور وکیل شامل ہیں، نے سنبھل تشدد کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اسے کس نے بھڑکایا اور تشدد میں پولیس کا کیا رول تھا۔

اس گروپ نے اتر پردیش کی عدالتوں میں قانونی تنازعات کے حل کے طریقے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر جہاں ان کا تعلق معاشرے میں فرقہ وارانہ امن اور ہم آہنگی سے ہے۔ گروپ نے کہا کہ سنبھل اس کی روشن مثال ہے۔

واضح ہو کہ سول جج سینئر ڈویژن آدتیہ سنگھ نے 24 نومبر کو مسجد کے سروے کا حکم دیا تھا۔ آٹھ مدعیان نے مسجد میں داخلے کے حق کا دعویٰ کرنے کے لیے ایک سول  مقدمہ دائر کیا تھا۔ ان مدعیان کی قیادت ہندوتوا کے حامی وکیل ہری شنکر جین اور ہندو سنت مہنت رشی راج گری کر رہے تھے۔

سنبھل ضلع کی سرکاری ویب سائٹ پر ایک ‘تاریخی یادگار’کے طور پر دکھایا گیا ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے پہلے مغل بادشاہ بابر کی ہدایات پر تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم، ہندو درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ مسجد و وشنو کے آخری اوتار کالکی کو وقف ایک قدیم مندر کی جگہ تھی۔ اس معاملے میں وکیل اور کلیدی مدعی ہری شنکر جین کے بیٹے وشنو شنکر جین کا کہنا ہے کہ 1529 میں بابر نے ہری ہری مندر کو جزوی طور پر گرا کر مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں )