جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کی تاریخ میں آج تک کوئی بھی پارٹی دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی، بہار سے الگ ہونے والی اس ریاست کے انتخابی نتائج پرحکومت مخالف لہر ہمیشہ حاوی رہی ہے، لیکن درج فہرست ذاتوں کے لیےمخصوص 28 اسمبلی سیٹوں میں سے 27 پرجیت حاصل کرنے جا رہے ہیمنت سورین کی قیادت والا’انڈیا’ اتحاد تاریخ رقم کرنے کی دہلیز پر ہے۔
نئی دہلی: جھارکھنڈ میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کی قیادت میں ‘انڈیا’ اتحاد کی واپسی لگ بھگ طے ہو چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین جھارکھنڈ کی تاریخ میں پہلےایسے وزیر اعلیٰ ہوں گے جو مسلسل دوسری بار انتخابات جیتتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیں گے۔
ریاست کی 81 اسمبلی سیٹوں کے لیے دو مرحلوں میں ہونے والے انتخابات میں ‘انڈیا’ اتحاد 56 سیٹوں پر جیت کے قریب ہے، جو کہ اکثریت سے 15 سیٹیں زیادہ ہے۔ جے ایم ایم اپنی 42 میں سے 34 سیٹوں پر آگے ہے۔ کانگریس نے 30 سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور وہ 16 پر آگے چل رہی ہے۔ راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) نے4 ،وہیں سی پی آئی (ایم ایل-ایل) نے 2 سیٹیں جیتنے کی راہ پر ہے۔
اس تاریخی فتح کےکیامعنی ہے؟
جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کی تاریخ میں آج تک کوئی بھی پارٹی دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی، بہار سے الگ ہونے والی اس ریاست کے انتخابی نتائج پر حکومت مخالف لہر ہمیشہ حاوی رہی ہے، لیکن درج فہرست ذاتوں کے لیے مخصوص28 اسمبلی سیٹوں میں سے 27 پر جیت حاصل کرنے جا رہے ہیمنت سورین کی قیادت میں ‘انڈیا’ اتحاد تاریخ رقم کرنےکی دہلیز پر ہے۔
اس سال ہوئے لوک سبھا انتخابات میں، ‘انڈیا’ اتحاد جھارکھنڈ میں لوک سبھا کی 14 میں سے صرف پانچ سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہا، یہ سبھی سیٹیں شیڈولڈ ٹرائب (ایس ٹی) کے لیے مخصوص تھیں۔ اس اسمبلی انتخابات میں جے ایم ایم کی قیادت والے اتحاد کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ان ریزرو سیٹوں کے علاوہ دیگر سیٹیں جیتنا تھا۔ اتحاد اس چیلنج پر قابو پانے میں کامیاب رہا۔
ریاست میں درج فہرست ذاتوں (ایس سی) کے لیے 9 سیٹیں محفوظ ہیں، جن میں سے ‘انڈیا’ اتحاد 5 جیتنے کی راہ پر ہے۔ انڈیااتحاد 44 غیر محفوظ نشستوں میں سے 25 پر جیت رہا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں ایس ٹی سیٹوں تک محدود رہنے والے اس اتحاد کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان سیٹوں پر مظاہرہ کرنا تھا۔
لوک سبھا انتخابات میں جن سیٹوں پر شکست ہوئی تھی وہاں کارکردگی کیسی رہی؟
دھنباد لوک سبھا کی چھ اسمبلی سیٹوں میں سے ‘انڈیا’ اتحاد 4 سیٹیں جیت سکتا ہے۔ وہیں رانچی، گریڈیہہ اور کوڈرما کی 6 سیٹوں میں سے 3 بھی اتحاد کی طرف جا سکتی ہیں۔ ‘انڈیا’ اتحاد جمشید پور میں 6 میں سے 4 سیٹیں جیتتا دکھائی دے رہا ہے۔ پلامو کی 6 سیٹوں میں سے 4 ہیمنت سورین کی قیادت والے اتحاد کو مل سکتی ہیں۔ تاہم، اتحاد کو ہزاری باغ کی 5 میں سے صرف 2 سیٹوں پر برتری حاصل ہے۔ وہیں’انڈیا’ اتحاد کو گڈا میں 6 میں سے 5 سیٹیں ملتی نظر آ رہی ہیں۔
آدی واسی ووٹ حاصل کرنے میں بی جے پی کی ‘تفرقہ انگیز سیاست’ ناکام
انتخابی مہم میں بی جے پی کے اسٹار پرچارکوں نے حکمراں پارٹی پر قبائلیوں کے حقوق چھیننے اور انہیں ‘دراندازوں’ (بنگلہ دیش اور روہنگیا مسلمانوں) کو دینے کا الزام لگایا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جے ایم ایم کی قیادت والا اتحاد جھارکھنڈ کے قبائلیوں سے ان کا پانی، جنگل اور زمین چھین کر ‘دراندازوں’ کو دے گا۔ بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ریاست سے ‘قبائلیوں کے حقوق چھیننے والوں’ کو باہر نکال دے گی۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ایک انتخابی ریلی کے دوران یہاں تک کہا تھا کہ ‘کانگریس اور جے ایم ایم دراندازوں کو نہیں روک سکتے، یہ ان کا ووٹ بینک ہے۔ اور درانداز ہماری قبائلی ماؤں بہنوں کو لالچ دے کر ان سے شادیاں کرتے ہیں اور جہیز میں ان سے ان کی زمینیں چھین لیتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی ایسا سخت قانون لائے گی کہ قبائلی زمین کسی بھی درانداز کے نام منتقل نہیں ہوگی۔ اور جن دراندازوں نے ہماری قبائلی لڑکیوں کی زمین ہڑپ لی ہے انہیں وہ زمین بھی واپس کرنی پڑے گی، ہم ایسا قانون لائیں گے۔’
قبائلیوں نے بی جے پی کی اس اشتعال انگیز سیاست کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ درج فہرست قبائل کے لیے ریزرو 28 سیٹوں میں سے بی جے پی صرف 1 سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ، اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا وشوا سرما کے اشتعال انگیز بیانات کی شکست ہے۔
فلاحی اسکیموں کی وجہ سے ملی جیت
ہیمنت سورین کی حکومت نے ریاست میں کئی فلاحی اسکیمیں لائیں، جن میں سب سے اہم میا سمان یوجنا تھی۔ اس اسکیم کے تحت جھارکھنڈ حکومت 19 سے 50 سال کی عمر کی معاشی طور پر کمزور خواتین کو ماہانہ 1000 روپے دیتی ہے۔
اس کے علاوہ دیگر اسکیموں میں سروجن پنشن یوجنا، ساوتری بائی پھولے کشوری سمردھی یوجنا، کسانوں کے 2 لاکھ روپے تک کے قرض کی معافی، خشک سالی سے نجات اسکیم، ابوآ آواس یوجنا، کسان کریڈٹ کارڈ، سکھی منڈل جیسی اسکیمیں بھی کافی چرچے میں رہیں۔