اترکاشی مسجد پر بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان حکومت نے کہا – مہاپنچایت کی اجازت نہیں

اترکاشی میں دہائیوں پرانی مسجد کو لے کر بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان اتراکھنڈ حکومت نے کہا ہے کہ اس نے 1 دسمبر کو ہندو تنظیموں کی طرف سے منعقد ہونے والی مہاپنچایت کی اجازت نہیں دی ہے، جس میں وہ مسجد کو گرانے کو لے کر دباؤ بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف، سنیوکت سناتن دھرم رکشا سنگھ اور وی ایچ پی جیسی تنظیمیں اصرار کر رہی ہیں کہ وہ طے شدہ پروگرام کے ساتھ آگے بڑھیں گی۔

اترکاشی میں دہائیوں پرانی مسجد کو لے کر بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان اتراکھنڈ حکومت نے کہا ہے کہ اس نے 1 دسمبر کو ہندو تنظیموں کی طرف سے منعقد ہونے والی مہاپنچایت کی اجازت نہیں دی ہے، جس میں وہ مسجد کو گرانے کو لے کر دباؤ بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف، سنیوکت سناتن دھرم رکشا سنگھ اور وی ایچ پی جیسی تنظیمیں اصرار کر رہی ہیں کہ وہ طے شدہ پروگرام کے ساتھ آگے بڑھیں گی۔

وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@pushkardhami)

وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@pushkardhami)

نئی دہلی: اترکاشی میں دہائیوں پرانی مسجد کو لے کر بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان اتراکھنڈ حکومت نے کہا ہے کہ اس نے 1 دسمبر کو ہندو تنظیموں کی طرف سے منعقد ہونے والی  مہاپنچایت کی اجازت نہیں دی ہے، جس میں وہ مسجد کو گرانے کا  دباؤبنانا چاہتے ہیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،یہ واقعہ مسجدکے معاملے پر بڑھتے ہوئے تناؤ کے درمیان پیش آیا ہے، جس میں سنیوکت سناتن دھرم رکشا سنگھ اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیموں کا اصرار ہے کہ وہ منصوبہ بند پروگرام کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔

بدھ کو ہائی کورٹ کے سامنے اپنی وضاحت میں ریاستی بی جے پی حکومت نے کہا کہ مسجد کو خاطر خواہ  سیکورٹی دی گئی ہے۔ یہ تبصرہ ایک درخواست پر سماعت کے دوران کیا گیا۔ اس سے چند روز قبل عدالت نے مسجد کو محفوظ رکھنے کا حکم دیا تھا اور حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ ہیٹ اسپیچ کے خلاف کارروائی کریں۔

واضح ہو کہ اقلیتی کمیٹی کے چیئرمین مشرف علی اور اشتیاق احمد نے اپنی درخواست میں مبینہ طور پر مسلم مخالف تقاریر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاست سے بھٹواری روڈ پر واقع جامع مسجد سمیت اقلیتی املاک کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

عرضی گزاروں نے دعویٰ کیا کہ مسجد وقف بورڈ کے تحت آتی ہے اور ان کے پاس اس کو ثابت کرنے کے ثبوت ہیں – 1969 کا ایک مبینہ سیل ڈیڈ اور 1987 کا گزٹ نوٹیفکیشن۔

درخواست گزاروں کے وکیل کارتکیہ ہری گپتا نے کہا، ‘ریاست نے عدالت کو یقین دلایا ہے کہ مذہبی ڈھانچے کو چوبیس گھنٹے نگرانی کے ساتھ مناسب سیکورٹی فراہم کی جا رہی ہے۔ عدالت نے اس بات کا اعادہ کیا کہ قانون کی حکمرانی والے ملک میں انہدام  اور نفرت انگیز تقریر کی دھمکیاں ناقابل قبول ہیں۔’

اترکاشی کے ایس پی امت سریواستو نے تصدیق کی کہ کچھ تنظیموں کو ابھی تک ریلی کے انعقاد کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘امن و امان برقرار رکھنے کے لیے مسجد کے ارد گرد پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔’

دریں اثنا، ریاستی حکومت نے ایس پی امت سریواستو کا تقرری کے تین ماہ کے اندر تبادلہ کر دیا ہے ۔ یہ تبادلہ اس واقعہ کے ٹھیک ایک ماہ بعد ہوا ہے جب ان کی قیادت میں اترکاشی پولیس نے ہجوم کو ان کے پہلے سے منظور شدہ احتجاجی راستے سے مسجد کی طرف بڑھنے سے روک دیا تھا، جس کے نتیجے میں علاقے میں پتھراؤ اور توڑ پھوڑ ہوئی۔

غورطلب  ہے کہ یہ تنازعہ ستمبر میں شروع ہوا تھا، جب سنیوکت سناتن دھرم رکشا سنگھ اور وشو ہندو پریشد سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے کچھ لوگوں نے مبینہ طور پر مسجد کو منہدم کرنے کی دھمکی دی۔ اس سے شہر میں تناؤ پیدا ہوا، جو بالآخر پتھراؤ اور توڑ پھوڑ پر منتج ہوا ، جس کے نتیجے میں 24 اکتوبر کو قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، 3 نومبر کو ایک بار پھر بدامنی پھوٹ پڑی جب ایک اور احتجاجی ریلی پرتشدد ہو گئی۔ پولیس نے مظاہرین کو مسجد کے قریب جانے سے روکنے کے لیے مداخلت کی جس کے نتیجے میں کم از کم چار اہلکار زخمی ہو گئے۔ افسران نے لاٹھی چارج کا سہارا لیا اور علاقے میں امن بحال کرنے کے لیے فلیگ مارچ کیا۔

کیس کی اگلی سماعت 5 دسمبر کو طے کی گئی ہے۔