طلبہ کے خلاف پولیس زیادتی: جامعہ انتظامیہ اور بھگوا حکومت کی ملی بھگت کا نتیجہ

طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کا ‘قصور’ اتنا ہی تھا کہ وہ 15 دسمبر کو یونیورسٹی میں ایک پروگرام منعقد کر کے اس دن کو یومِ مزاحمتِ کے طور پر منانا چاہتے تھے۔ یہ وہی دن ہے جب 2019 میں جامعہ کے طلبہ سی اے اے اور این آر سی جیسے غیر جمہوری قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور اس وقت کی انتظامیہ نے طلبہ کے جمہوری حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے پولیس کو کیمپس میں بلا کر مظاہرین پر لاٹھیاں برسوائی تھیں۔

طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کا ‘قصور’ اتنا ہی تھا کہ وہ 15 دسمبر کو یونیورسٹی میں ایک پروگرام منعقد کر کے اس دن کو یومِ مزاحمتِ کے طور پر منانا چاہتے تھے۔ یہ وہی دن ہے جب 2019 میں جامعہ کے طلبہ سی اے اے اور این آر سی جیسے غیر جمہوری قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور اس وقت کی انتظامیہ نے طلبہ کے جمہوری حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے پولیس کو کیمپس میں بلا کر مظاہرین پر لاٹھیاں برسوائی تھیں۔

فائل فوٹو: (تصویر: اویس صدیقی)

فائل فوٹو: (تصویر: اویس صدیقی)

سوموار کے روز، جب یہ مضمون لکھا جا رہا ہے، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ یونیورسٹی کی کلاسوں کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ انہیں اس بات پر شدید غصہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اپنے سیاسی آقاؤں کی خوشنودی کے لیے نہ صرف طلبہ کو مختلف طریقوں سے ہراساں کر رہی ہے، بلکہ تحریکِ جامعہ کو کچلنے پر بھی آمادہ ہے۔

یہ تاریخ دانوں سے مخفی نہیں کہ جامعہ کی بنیاد تحریکِ آزادی کے بطن سے نکلی تھی۔ مہاتما گاندھی کی قومی تعلیمی پالیسی اور نوآبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کے طور پر مجاہدینِ آزادی نے اس ادارے کی تشکیل کی تھی۔ اگر بانیانِ جامعہ چاہتے تو وہ انگریزی تعلیمی اداروں میں اپنی جگہ بنا کر ایک آرام دہ اور خوشحال زندگی گزار سکتے تھے، مگر انہوں نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے ملک کی آزادی اور عوام کے حقوق کو ترجیح دی۔

افسوس کہ آج حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ جامعہ کی انتظامیہ بھگوا حکومت کے اشارے پر پولیس کو کیمپس میں بلا کر اپنے ہی طلبہ کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔

انتظامیہ کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ ایک دن وہ بانیانِ جامعہ کے مزارات پر جا کر گلپوشی کرتی ہے اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا عہد کرتی ہے، لیکن اگلے ہی دن وہی انتظامیہ طلبہ جہدکاروں کو علی الصبح، جب پوری دہلی نیند کی آغوش میں ہوتی ہے، چپکے سے دھرنے کی جگہ سے اٹھوا کر پولیس کے حوالے کر دیتی ہے۔

جامعہ انتظامیہ یونیورسٹی میں جمہوری آوازوں کو دبانے کے لیے ہر روز ایک نئی سازش رچ رہی ہے۔ اگر حکمراں جماعت کی نیت واقعی درست ہوتی تو وہ انتظامیہ میں صاف ستھری شبیہ رکھنے والے افراد کو تعینات کرتی، تاکہ وہ طلبہ کے مفادات کو اولین ترجیح دے سکیں۔ مگر بھگوا حکومت نے لیاقت اور صلاحیت کو نظرانداز کرتے ہوئے ایسے افراد کو بڑے عہدوں پر فائز کیا ہے، جن کی وفاداری ملک کے سیکولر اور سوشلسٹ آئین سے زیادہ ہندو قومیت پر مبنی تفریق انگیز نظریے اور بھگوا جماعت کے پروگرام سے ہے۔

اگرچہ سابقہ حکومتوں کے دور میں بھی جامعہ انتظامیہ نے طلبہ کے حقوق کو نظرانداز کیا، لیکن گزشتہ دس سالوں میں انتظامیہ نے اقتدار کی چاپلوسی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے طلبہ کے حقوق کو بری طرح کچل ڈالا ہے۔

جامعہ انتظامیہ کے جانبدارانہ رویے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے ادارے کو بھگوا تنظیموں کے پروگراموں کے لیے پوری طرح کھول رکھا ہے۔ ہر روز انتظامیہ بھگوا نظریے سے جڑے لیڈروں کے استقبال کے لیے ریڈ کارپٹ بچھاتی ہے، لیکن جب طلبہ جمہوری طریقے سے کسی تقریب کا انعقاد کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اجازت نہیں دی جاتی۔

کوئی جامعہ انتظامیہ سے یہ پوچھے کہ اگر طلبہ یونیورسٹی کے اندر تقریبات، جلسے اور اپنے واجب مطالبات کے حق میں پُرامن دھرنے اور مظاہرے نہیں کریں گے، تو پھر کہاں کریں گے؟

یونیورسٹی سیاسی شعور کا ایک اہم مرکز ہوتی ہے۔ اگر یہاں طلبہ کو اپنی رائے کے اظہار اور حکومت سے سوال کرنے کا موقع نہ دیا جائے، اور سوال پوچھنے کی پاداش میں انہیں یونیورسٹی سے نکال کر پولیس کے حوالے کر دیا جائے، تو پھر جیل اور یونیورسٹی میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے؟

حالانکہ جیلوں میں بھی اکثر دھرنے اور ہڑتالیں ہوتی ہیں۔ شہیدِ اعظم بھگت سنگھ نے بھی جیل میں احتجاج کیا تھا۔ جامعہ انتظامیہ ان کی یومِ شہادت پر ان کی تصویر پر گل پوشی تو کرتی ہے، مگر ان کی تعلیمات کے برخلاف یونیورسٹی کو جیل میں تبدیل کر رہی ہے۔

جامعہ میں جس طرح ایک درجن سے زیادہ طلبہ کو احتجاج کرنے کے ‘جرم’ میں پولیس کے ذریعے زبردستی دھرنے سے اٹھوایا گیا، جس طرح بعض طلبہ کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، انہیں وکیل سے رابطے کے جمہوری حق سے محروم رکھا گیا، اور بعد میں انہیں یونیورسٹی سے معطل کر دیا گیا، یہ کسی جمہوری ملک کی یونیورسٹی کا نہیں بلکہ کسی آمرانہ نظام کے تحت چلنے والے ادارے کا منظرنامہ پیش کرتا ہے۔

گزشتہ 13 فروری کی صبح، جن طلبہ کو پولیس نے دھرنے سے اٹھایا اور ان پر ظلم و زیادتی کی، انہوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ سب کچھ جامعہ انتظامیہ اور بھگوا حکومت کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے، جو جامعہ کی تاریخ اور اس کی وراثت کو برباد کر کے اس کا ‘بھگوا کرن’ کرنا چاہتے ہیں۔

مظاہرین طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کا صرف اتنا ہی ‘قصور’ تھا کہ وہ 15 دسمبر کو یونیورسٹی میں ایک پروگرام منعقد کر کے اس دن کو یومِ مزاحمتِ کے طور پر منانا چاہتے تھے۔ یہ وہی دن ہے جب 2019 میں جامعہ کے طلبہ سی اے اے اور این آر سی جیسے غیر جمہوری قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ اس وقت ملک کی حزبِ اختلاف کو بھی یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان قوانین کے خلاف کیسے لڑا جائے، کیونکہ کئی سیکولر پارٹیوں کے اندر دائیں بازو کے عناصر سرگرم تھے۔

ان کا ماننا تھا کہ اگر وہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف کھل کر احتجاج کریں گے، تو بی جے پی انہیں ‘ہندو مخالف’ قرار دے کر مزید سیاسی نقصان پہنچائے گی۔

سیکولر پارٹیاں اگر آج کمزور ہو چکی ہیں، تو اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ جب انہیں محکوم طبقات کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت آتا ہے، تو وہ مصلحت پسندی کے نام پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔

سال 2019 میں بھی ایسی ہی صورتِحال تھی، جب آئین پر اتنے بڑے حملے کے باوجود اپوزیشن پارٹیاں احتجاج کرنے میں ناکام رہیں۔ مگر جامعہ کے طلبہ نے تحریک جامعہ اور اس کی وراثت کو اپنے سینوں میں اتارتے ہوئے دھرنے پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کہا کہ وہ اس قانون کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے، کیونکہ یہ آئین کے بنیادی اصول سیکولرازم کی صریح خلاف ورزی ہے۔

سی اے اے اور این آر سی کے خلاف، سال 2019 میں جامعہ کے طلبہ دھرنے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مگر اس وقت کی جامعہ انتظامیہ نے طلبہ کے جمہوری حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے، 15 دسمبر کو پولیس کو کیمپس میں بلا کر مظاہرین پر لاٹھیاں برسوائیں۔

پولیس کی بربریت کا عالم یہ تھا کہ لائبریری میں بیٹھ کر مطالعہ کرتے ہوئے طلبہ کو بھی نہ بخشا گیا اور انہیں بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مذکورہ سانحے کو پانچ سال مکمل ہونے پر،15 دسمبر کو یومِ مزاحمتِ کے طور پر منانے کا پروگرام تھا۔

یاد رہے کہ سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت کرنے کے ‘جرم’ میں جامعہ کے بہت سے طلبہ کو ملزم بنایا گیا ہے، اور کچھ آج بھی جیلوں میں قید ہیں۔ میران حیدربھی ان میں سے ایک ہیں، جو آج تک ضمانت کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

اس سال جامعہ کے طلبہ 15 دسمبر کو یومِ مزاحمتِ جامعہ کی مناسبت سے ایک تقریب منعقد کرنا چاہتے تھے، مگر جامعہ انتظامیہ نے نہ صرف انہیں ایسا کرنے سے روکا بلکہ پولیس کے ذریعے طلبہ کو کیمپس سے اٹھوا دیا اور ایک درجن سے زیادہ طلبہ کو یونیورسٹی سے معطل کر دیا۔ یہ تمام طلبہ مخالف کارروائیاں نہ صرف ملک کے نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ ہیں، بلکہ جامعہ کی تحریک اور اس کی وراثت کی توہین بھی ہیں۔

جامعہ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر طلبہ کی معطلی کا فیصلہ واپس لے، قصوروار افسران کے خلاف کارروائی کرے اور آئندہ یونیورسٹی کو طلبہ کے مفادات کے مطابق چلائے، نہ کہ اس تاریخی درسگاہ کو فرقہ پرست طاقتوں کے اڈے میں تبدیل کرے۔

(مضمون نگار نے جے این یو سے جدید تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے۔)