مزاحمت کی بے خوف آواز تھیں ذکیہ جعفری …

ذکیہ جعفری نے اپنی زندگی کے آخری 22 سال انصاف کی جدوجہد میں صرف کر دیے۔ ہر قدم پر ہندوستان کے طاقتور نظام کی طرف سے رکاوٹ اور مخالفت کے باوجود انہوں نے انصاف کی اپنی جدوجہد نہیں چھوڑی۔

ذکیہ جعفری نے اپنی زندگی کے آخری 22 سال انصاف کی جدوجہد میں صرف کر دیے۔ ہر قدم پر ہندوستان کے طاقتور نظام کی طرف سے رکاوٹ اور مخالفت کے باوجود انہوں نے انصاف کی اپنی جدوجہد نہیں چھوڑی۔

ذکیہ جعفری۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

ذکیہ جعفری۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

ذکیہ جعفری نہیں رہیں۔ ان کے بیٹے تنویر جعفری نے بتایا کہ 1 فروری کی صبح احمد آباد میں اپنی بیٹی کے گھر تمام کام ختم کرنے کے بعد گھر والوں سے بات  چیت کرتے ہوئے ذکیہ جعفری کو کچھ تکلیف محسوس ہوئی۔ ڈاکٹر کو بلایا گیا جس نے  11.30 بجے ان کی موت کا اعلان کیا۔

ذکیہ 86 سال کی تھیں۔ ان کی موت قدرتی کہی جائے گی۔ اکثر لوگ اپنے لیےایسی ہی موت کی خواہش کرتے ہیں جس میں انہیں اذیت نہ ہواور ان کے پیاروں کو بھی اس کی وجہ سے تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ ان کی موت کی تفصیلات پڑھ کر مجھے اپنی ماں کی موت یاد آگئی۔کلیجے میں درد کی شکایت اور بس! جیسے وہ غائب ہو گئیں۔ میری دوست نویدیتا مینن نے یہ سن کر کہا کہ ان کی ماں ایسے لوگوں کو نیک روح کہا کرتی ہیں۔

ہم ذکیہ جعفری جیسی موت کی تمنا کر سکتے ہیں، لیکن کیا ہم ان کے جیسی زندگی جینا چاہیں گے؟ بچوں کے بڑے ہو جانے اورٹھکانے سے لگ جانے کے بعد اطمینان کی سانس کے جوسال ایک عام ہندوستانی عورت بغیر کسی پریشانی کے اپنے شوہر کے ساتھ گزارنے کا خواب دیکھتی ہے، ذکیہ جعفری نے عرضیاں  تیار کرتے ہوئے اور ہندوستانی عدالتوں کے چکر کاٹنے میں صرف کیے۔اس لیے کہ 86 سالہ جس ذکیہ جعفری نے دنیا کو الوداع کہا، وہ جب  63 سال کی تھیں تب  ان کے شوہر احسان جعفری کو ان کی آنکھوں کے سامنے تشدد پر آمادہ  ہندوؤں نے قتل کردیا تھا۔ وہ صرف ان کا قتل نہیں تھا۔

احمد آباد کی جس گلبرگ سوسائٹی کے ایک فلیٹ میں وہ رہتی تھیں، اسے مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہندو ہجوم نے گھیر لیا تھا۔ یہ کوئی  اچانک جمع ہو ئی بھیڑ نہیں تھی۔ احسان جعفری بھی کوئی معمولی انسان نہیں تھے۔ وہ ایم پی رہ چکے تھے۔ وہ گجرات حکومت کے ہر محکمے میں جانے جاتے تھے۔ گجرات کا ہر سیاستدان ذکیہ جعفری کے شوہر کو جانتا تھا۔ اس وقت وہاں کا وزیر اعلیٰ بھی۔ شاید اس یقین کے ساتھ کہ ان کے نامور ہونے کی  وجہ سے ان کی بات سنی جائے گی اور ان کی موجودگی کی وجہ سے وہ بچ بھی جائیں گے، گلبرگ سوسائٹی کے تمام پڑوسی ذکیہ جعفری کے فلیٹ میں پناہ لینے چلے آئے۔

پولیس کمشنر خود آئے اور کہا کہ مزید پولیس فورس آرہی ہے۔ لیکن ہجوم بڑھتا ہی چلا گیا اور پولیس کے آنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ احسان صاحب نے ایک ایک کرکے تمام عہدیداروں کو فون لگانا شروع کیا: پولیس چیف، میئر، اپوزیشن لیڈر، تمام اعلیٰ افسران: سب کو۔ آخر میں ان کی پڑوسی روپا مودی نے دیکھا کہ انہوں نے چیف منسٹر کو فون کیا۔ فون پر وزیر اعلیٰ کا جواب سن کر احسان صاحب نے فون رکھ  دیا۔ انہوں نے باہر جمع ہونے والے ہجوم کے سامنے جانے کا فیصلہ کیا: مجھے مار ڈالو، باقی سب کو چھوڑ دو بھیڑ  ان  پر ٹوٹ پڑی  اور ان کے ٹکڑے کر دیے گئے۔

اس کے بعد سے ذکیہ جعفری کو احسان جعفری کی بیوہ کہاجانا جانے لگا۔ وہ ایک بے چاری  ہندوستانی بیوہ  ہو کررہ سکتی تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنے شوہر اور دوسروں کے قتل کے لیے انصاف کی لڑائی  لڑنے کا فیصلہ کیا۔ یہ آسان نہیں تھا۔ وہ گجرات کے سب سے طاقتور آدمی کے خلاف کھڑی تھیں۔ اور اس کے ساتھ ہندوؤں کی اکثریت کی نفرت کے خلاف بھی۔ انصاف کی یہ لڑائی طویل ہونے والی تھی۔ لیکن ذکیہ نے اس راستے کا انتخاب کیا۔

ان کے مطابق ان کے شوہر کا قتل ایک بڑی سازش کا حصہ تھا۔ یہ انتقام کے جذبے سے کیا گیا قتل نہیں تھا۔ اس قتل کو نظام نے ہونے دیا تھا۔ اس کے لیے تیاریاں کی گئی تھیں۔

گودھرا میں ٹرین میں آگ لگنے سے ہلاک ہونے والے ہندوؤں کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کی گئیں بلکہ وشو ہندو پریشد کو دی گئیں اور جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی۔ مسلمانوں کو ان کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ان کے خلاف منظم تشدد کیا گیا۔ احسان جعفری کی موت کسی جذباتی ہجوم کے جنون کی وجہ سے نہیں ہوئی۔

ذکیہ جعفری نے فیصلہ کیا کہ وہ احسان جعفری کے قتل کے پیچھے کی اس بڑی سازش کے ماسٹر مائنڈز کے خلاف انصاف کی لڑائی  لڑیں گی۔ انصاف کی یہ لڑائی طویل ہونے والی تھی۔ لیکن ذکیہ نے اس راستے کا انتخاب کیا۔ وہ 22 سال تک اس راستے پر چلتی رہیں۔ ان  کی بوڑھی ٹانگیں کانپی نہیں۔ انہیں  دہلی کی  سب سے بڑی عدالت   میں آنا پڑا۔ اوراس  عدالت نے ذکیہ کے حوصلے اور انصاف کے لیے ا ن کے عزم کی قدر کرتے ہوئےان کا ہاتھ تھامنے کی جگہ  ان کی ناقدری کی۔ کہا کہ آخر یہ کیسی عورت ہے جو 22 سال تک انصاف مانگتے ہوئے تھکی نہیں ! یہ تو ہندوستانی عورت نہیں ہے۔ یہ کیسی عورت ہے جو پورے نظام کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہے! عدالت نے ذکیہ جعفری کی انصاف کے لیے جدوجہد کو حیرانی سے دیکھا۔ انصاف کے حصول کے لیے ان کی ضدکو دیکھ کر  شک ہوا: ضرور اس کے پیچھے کوئی سازش ہے! انصاف کے لیے ضد  تو ہندوستانی خصوصیت نہیں اور عدالت نے ذکیہ جعفری کی عرضی کو پھینک دیا۔

آج ذکیہ جعفری کی موت کے اس لمحے میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہندوستان کے نظام اور اس کی عدالتوں کے ذریعے ٹھکرائی ہندوستانی خاتون تھیں۔ وہ انصاف کی اسی پیاس کے ساتھ اس دنیا سے چلی گئیں۔ جس طرح کربلا میں شہادت کے ساتھ پانی کے ہر قطرے کی پیاس کی یاد وابستہ ہے، اسی طرح ہم سب کو ذکیہ جعفری کی موت  کے ساتھ انصاف کے لیے ان کی پیاس کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔

ذکیہ جعفری نیک روح تھیں، لیکن جتنا  اپنی  موت کے طریقے  کی وجہ سے نہیں اتنااپنی  زندگی کی وجہ سے۔ اپنی زندگی کے آخری 22 سالوں میں انصاف کی جدوجہد  کی وجہ سے۔ اس وجہ سے کہ ہر قدم پر ہندوستان کے طاقتور نظام کی طرف سے رکاوٹ اور مخالفت کے باوجود انہوں  نے انصاف پر اپنا موقف نہیں چھوڑا۔ کیا ہم میں ذکیہ جعفری جیسی زندگی گزارنے کی قوت اور حوصلہ ہے؟ کیا ہمیں ذکیہ کی انصاف کی پیاس یاد رہے گی؟