وی ایچ پی کے پروگرام میں اینٹی-مسلم بیان دینے والے ہائی کورٹ کے جج اپنے ریمارکس پر قائم: رپورٹ

الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو نے 8 دسمبر کو وشو ہندو پریشد کے پروگرام میں فرقہ وارانہ تقریر کی تھی۔ اب انہوں نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ان کی تقریر آئین میں درج اقدار کے مطابق سماجی مسائل پر خیالات کا اظہار تھی اور کسی کمیونٹی کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے نہیں تھی۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو نے 8 دسمبر کو وشو ہندو پریشد کے پروگرام میں فرقہ وارانہ تقریر کی تھی۔ اب انہوں نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ ان کی تقریر آئین میں درج اقدار کے مطابق سماجی مسائل پر خیالات کا اظہار تھی اور کسی کمیونٹی کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے نہیں تھی۔

جسٹس شیکھر یادو (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

جسٹس شیکھر یادو (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے ریمارکس کے لیے سپریم کورٹ کے ذریعےطلب کیے گئے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر کہا ہے کہ وہ اپنے تبصرے پر قائم ہیں ، جو ان کے مطابق عدالتی طرز عمل کے کسی اصول کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس یادو نے الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ارون بھنسالی کو لکھے اپنے خط میں کہا ہے کہ ان کی تقریر آئین میں درج اقدار کے مطابق سماجی مسائل پر خیالات کا اظہار ہے،اور کسی کمیونٹی کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے نہیں تھی۔

چیف جسٹس بھنسالی نے 17 دسمبر کو چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ سے ملاقات کے بعد جسٹس یادو سے جواب طلب کیا تھا۔

یادو سے جواب طلب کرنے والے خط میں ان کی تقریر کے خلاف ایک لاء اسٹوڈنٹ اور ایک سابق آئی پی ایس افسر کی طرف سے درج کرائی گئی شکایت کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں گئو رکشاسے متعلق ان  کے ایک فیصلے اور کارکنوں کے ذریعے اٹھائے گئے سوالات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

یادو نے اپنے جواب میں کہا کہ گئو رکشا سماج کی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے اور اسے قانون کے ذریعہ تسلیم کیا گیا ہے۔

واضح ہو کہ جسٹس یادو نے اتوار (8 دسمبر) کو اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہندوستان اکثریتی برادری کی خواہشات کے مطابق چلے گا۔اس دوران انہوں نے مسلمانوں کے لیے ‘کٹھ ملا’ جیسے قابل اعتراض  لفظ کا استعمال کرتے ہوئےفرقہ وارانہ تقریر کی تھی ۔ یادو نے یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان بچے تشدد اور جانوروں کے ذبیحہ کو دیکھتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں ،  اس لیے ان میں رواداری  اور فراخدلی نہیں ہے۔

یادو نے کہا تھا کہ اس کے مقابلے میں ہندوؤں کو بچپن سے ہی رحمدلی کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان کے بچے عدم تشدد اور رواداری کے جذبے سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہندو برادری کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستان صرف ‘اکثریت’ کی خواہشات کے مطابق کام کرے گا۔

اس تبصرہ پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ بار ایسوسی ایشن آف انڈیا نے اس کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا تھا۔ ایسوسی ایشن نے کہا ،’یہ تبصرے ہندوستان کے آئین میں درج سیکولرازم کے اصول کے خلاف ہیں، آئینی عدالت کے جج کے حلف کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور ایک منصفانہ اور غیر جانبدار عدلیہ کی بنیاد پر حملہ ہے جو قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھتی ہے۔ ‘

جسٹس یادو کے اس بیان پر اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ نے  13  دسمبر  کو ان کے خلاف مواخذے کا  نوٹس دائر کیا تھا ۔ اس میں  55  ممبران پارلیامنٹ کے دستخط شامل ہیں ،  جن میں کپل سبل ،  وویک تنکھا ،  دگو وجئے سنگھ ،  منوج جھا اور ساکیت گوکھلے جیسے نام شامل  ہیں۔

سبل نے کہا تھا ، ‘ یہ  کوئی سیاسی  مسئلہ  نہیں  ہے ،  بلکہ  آئین  اور  عدلیہ  کی  آزادی کے تحفظ  کا مسئلہ ہے ۔’

دسمبر میں اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ‘یہ معاملہ ان کی نظر میں ہے۔’کیمپین فار جیوڈیشیل اکاؤنٹبلیٹی اینڈ ریفارمز نے اس معاملے پر ‘ان-ہاؤس جانچ ‘ کا مطالبہ کیا تھا۔