جسٹس یادو نے اتوار (8 دسمبر) کو اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہندوستان اکثریتی برادری کی خواہشات کے مطابق چلے گا۔ اس دوران انہوں نے مسلمانوں کے لیے ‘کٹھ ملا’ کا لفظ بھی استعمال کیا تھا۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جسٹس شیکھر کمار یادو کی فرقہ وارانہ تقریر کا نوٹس لیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ جسٹس یادو کی تقریر پر غور کیا گیا ہے۔
پریس ریلیز میں لکھا گیا ہے، ‘اس معاملے کی تفصیلات ہائی کورٹ سے مانگی گئی ہیں اور یہ معاملہ زیر غور ہے۔’
واضح ہو کہ آل انڈیا لائرز یونین (اے آئی ایل یو) نے سوموار (9 دسمبر) کو صدر دروپدی مرمو اور چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ کو خط لکھ کر وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ایک پروگرام میں تقریر کرنے والے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ وکلاء تنظیم نے جسٹس یادو کی تقریر کو ‘اقلیتوں (مسلمانوں) کے خلاف نفرت پھیلانے کے مترادف قرار دیا ہے۔’
جسٹس یادو نے اپنی تقریر میں کیا کہا تھا؟
جسٹس یادو نے اتوار (8 دسمبر) کو اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہندوستان اکثریتی برادری کی خواہشات کے مطابق چلے گا۔ انہوں نے ملک میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک سے زیادہ شادی، تین طلاق یا حلالہ جیسی چیزوں کے لیے کوئی بہانہ نہیں ہو سکتا۔ اس دوران انہوں نے مسلمانوں کے لیے ‘کٹھ ملا’ کا لفظ بھی استعمال کیا تھا۔
وکلاء ایسوسی ایشن نے خط میں کیا لکھا ہے؟
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، اے آئی ایل یو نے خط میں لکھا ہے، ‘وی ایچ پی کے پلیٹ فارم سے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر یادو کی تقریر آئین کے خلاف ہے۔ ساتھ ہی یہ سیکولرازم اور عدلیہ کی آزادی کی براہ راست توہین ہے۔ یہ تقریر عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچانے والی ہے۔’
خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ان کی تقریر کا لہجہ ہندو مذہب کے نام پر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والا تھا۔
اے آئی ایل یو نے کہا، ‘مسلم اقلیتوں کے خلاف ان کے الزامات تلخ اور زہریلے ہیں، جو عدالت کے جج کے لیے نازیبا ہے۔ یہ ہائی کورٹ کے جج کے آئینی حلف کی خلاف ورزی ہے۔’ خط میں یہ بھی کہا گیا کہ جمہوریت نہ تو اکثریت پسندی ہے اور نہ ہی مذہبی اکثریت پرستی۔
صدر اور سی جے آئی کو بھیجے گئے اس خط پر اے آئی ایل یو کے صدر اور راجیہ سبھا ممبری بیکاش رنجن بھٹاچاریہ اور اے آئی ایل یو کے جنرل سکریٹری پی وی سریندر ناتھ نے دستخط کیے تھے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس یادو کی تقریر ایک بار پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ججوں کے انتخاب اور تقرری کے معاملے میں کالجیم نظام کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔
کالجیم سسٹم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کے تحفظ میں نااہلی ، ایگزیکٹو یا عدلیہ کے غلبہ کو قبول کیے بغیر عدالتوں میں ججوں کے انتخاب اور تقرری کے لیے ایک آزاد آئینی طریقہ کار کی ضرورت کی عکاسی کرتی ہے،’ خط میں لکھا گیا ہے ۔
اے آئی ایل یو نے جسٹس یادو کی تقریر سے سخت اختلاف کا اظہار کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ صدر جمہوریہ ہند اور سی جے آئی اس معاملے میں مداخلت کریں گےاور ان کے خلاف کارروائی شروع کریں گے۔
جسٹس یادو کی تقریر پر تنقید کرتے ہوئے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہائی کورٹ کے جج نے وی ایچ پی جیسی تنظیم کی کانفرنس میں شرکت کی، جس پر کئی مواقع پر پابندی لگائی گئی ہے۔
اویسی نےایکس پر لکھا ، ‘یہ تقریر عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتی ہے۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والا فرد ایسے جج سے انصاف کی امید کیسے کر سکتا ہے جس نے وی ایچ پی کی تقریب میں حصہ لیا ہو؟’
مہم برائے عدالتی احتساب اور اصلاحات (سی جے اے آر) نے بھی منگل (10 دسمبر) کو سی جے آئی سنجیو کھنہ کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان سے ایک کمیٹی بنانے اور اس معاملے میں ‘ان ہاؤس جانچ’ کرانے کی اپیل کی ہے۔
سی جے اے آر نے کہاکہ وی ایچ پی کی تقریب میں شرکت اور ان کی متنازعہ تقریر کی وسیع کوریج نے جسٹس یادو کے طرز عمل سے ‘عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کے بارے میں عام شہریوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں،’ اس معاملے کی وسیع پیمانے پر کوریج کے پیش نظر، ایک مضبوط ادارہ جاتی ردعمل کی ضرورت ہے۔