سنبھل فسادات: 46 سال بعد پھر سے کھلے گا کیس، یوپی سرکار  نے دیے نئے سرے سے جانچ کے حکم

مارچ 1978 میں ہولیکا دہن کی جگہ کو لے کر دو برادریوں کے درمیان کشیدگی کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ افواہ پھیلی کہ ایک دکاندار نے دوسری برادری کے ایک شخص کو قتل کر دیا ہے، جس کی وجہ سے فسادات پھوٹ پڑے۔ اب اتر پردیش حکومت نے نئے سرے سے تحقیقات کا حکم دیا ہے اور پولیس سے کہا ہے کہ وہ سات دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے۔

مارچ 1978 میں ہولیکا دہن کی جگہ کو لے کر دو برادریوں کے درمیان کشیدگی کا مشاہدہ کیا گیا تھا۔ افواہ پھیلی کہ ایک دکاندار نے دوسری برادری کے ایک شخص کو قتل کر دیا ہے، جس کی وجہ سے فسادات پھوٹ پڑے۔ اب اتر پردیش حکومت نے نئے سرے سے تحقیقات کا حکم دیا ہے اور پولیس سے کہا ہے کہ وہ سات دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے۔

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: سنبھل کی جامع مسجد کو لے کر جاری تنازعہ کے درمیان اتر پردیش حکومت کی ہدایت  کے بعد 46 سال پہلے ہوئے فسادات کی فائل کو دوبارہ کھولا جائے گا۔

سنبھل، جو اس وقت مرادآباد ضلع کا حصہ تھا، میں تقریباً 184 لوگ مبینہ طور پر ہلاک ہوئے تھےاور ملزمان کو ثبوت کے فقدا ن میں 2010 میں عدالت نے بری کر دیا تھا۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، اب یوپی حکومت نے نئےسرے سےتحقیقات کا حکم دیا ہے اور انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ سات دن کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے۔ 17 دسمبر 2024 کو ایم ایل سی سری چند شرما نے حکومت کو خط لکھ کر فسادات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

چھ  جنوری کو ہوم سکریٹری ستیندر پرتاپ سنگھ نے اس کا نوٹس لیا۔ انہوں نے سنبھل کے ایس پی کرشن کمار بشنوئی کو خط لکھ کر ایک ہفتہ کے اندر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔

تحقیقات کی ذمہ داری ایڈیشنل ایس پی شریش چندر کو سونپی گئی اور ڈی ایم راجیندر پنسیا کو مشترکہ تحقیقات کے لیے انتظامیہ سے ایک افسر مقرر کرنے کو کہا گیا۔

سن 1976 میں سنبھل میں ایک مسجد کے مولوی کے قتل کے بعد فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان فسادات میں بہت سے لوگ مارے گئے تھے۔ اس کے بعد سنبھل شہر میں دو ماہ تک کرفیو نافذ رہا۔ اس وقت جنتا پارٹی کی حکومت تھی اور رام نریش یادو وزیر اعلیٰ تھے۔

اس کے بعد سنبھل میں سب سے بڑا فساد 28 مارچ 1978 کو ہوا تھا۔ ہولیکا دہن کی جگہ  کو لے کر دو برادریوں کے درمیان تناؤ تھا۔ افواہ پھیل گئی کہ ایک دکاندار نے دوسری برادری کے ایک شخص کو قتل کر دیا ہے، جس سے فسادات پھوٹ پڑے۔ کئی لوگوں نے ایس ڈی ایم رمیش چندر ماتھر کے دفتر میں چھپ کر اپنی جان بچائی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 1978 میں یوپی اور مرکز دونوں میں جنتا پارٹی کی حکومت تھی، جو بی جے پی کے پیش رو بھارتیہ جن سنگھ (بی جے ایس) کے اس میں انضمام کے بعد بنی تھی۔ مارچ 1978 میں جب سنبھل میں تشدد شروع ہوا تو اس وقت کے بی جے ایس کے کئی لیڈر یوپی اور مرکز میں وزراء کے عہدوں پر فائز تھے۔

اس دوران رام نریش یادو وزیر اعلیٰ تھے اور نانگل (سہارنپور) کے ایم ایل اے رام سنگھ ریاستی وزیر داخلہ تھے – جبکہ مرکزی حکومت کی سربراہی مرارجی دیسائی (اس وقت کے وزیر اعظم) اور چودھری چرن سنگھ (اس وقت کے وزیر داخلہ) کر رہے تھے۔ اٹل بہاری واجپائی اور ایل کے اڈوانی جیسے اس وقت کے بی جے ایس لیڈر مرکزی وزیر تھے، کلیان سنگھ، کیشری ناتھ ترپاٹھی، اوم پرکاش سنگھ، شاردا بھکت سنگھ، رویندر کشور شاہی اور کچھ دوسرے، جن کا تعلق اصل میں بی جے ایس سے تھا، یوپی حکومت میں وزیر تھے۔

سال 1978 میں اس وقت کی حکومتوں نے اسمبلی اور لوک سبھا میں سنبھل فسادات پر بحث کرنے سے گریز کیا تھا۔

تیس  دنوں لگارہاکرفیو

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، فسادات کے دوران تاجر بنواری لال نے دوسرے دکانداروں کو اپنے سالے مراری لال کی حویلی میں چھپادیا تھا۔ فسادیوں نے ٹریکٹر سے گیٹ توڑ کر 24 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ 30 دن سے زیادہ کرفیو نافذ رہا۔

سنبھل کے آس پاس کے ہر گاؤں میں لوگ مارے گئے۔ مراد آباد کے ایک بزرگ رہائشی کے مطابق، فسادات میں 184 لوگوں کی جان چلی گئی اور بہت سی لاشیں کبھی نہیں ملیں۔ ان کی جگہ پر پتلوں کی  آخری رسومات ادا کی گئی تھی۔

تاجر بنواری لال کو بھی بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اپنے گھر والوں کی وارننگ کے باوجود وہ فساد سے متاثرہ علاقے میں یہ کہتے ہوئے گئے کہ وہاں موجود ہر شخص ان کے بھائی اور دوست ہیں۔ فسادیوں نے انہیں پکڑ لیا اور ان  کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے۔ اس کیس میں 48 افراد کو ملزم بنایا گیا تھا، لیکن ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے 2010 میں سب کو بری کر دیا گیا تھا۔ بنواری لال کا خاندان سنبھل سے 1995 میں چلا گیا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس وقت کے یوپی کے وزیر داخلہ سوروپ کمار بخشی نے 2 مارچ 1982 کو اسمبلی کو بتایا تھا کہ 1978 کے سنبھل تشدد سے متعلق 168 مقدمات میں 1272 لوگوں کو نامزد کیا گیا تھا اور 200 نامعلوم لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔

بخشی نے مزید کہا تھا کہ 43 مقدمات میں 473 افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جن کے خلاف مقدمہ چلایا گیا تھا جبکہ باقی 125 مقدمات ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے بند کر دیے گئے تھے۔ ریاستی حکومت کی سفارش پر 12 مقدمات میں الزامات واپس لیے گئے جن میں 31 افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جبکہ دو مقدمات میں چھ ملزمان کو سزا سنائی گئی۔ عدالت نے چھ مقدمات میں 80 افراد کو بری کر دیا تھا۔

Next Article

سفارت کاری کی گتھیاں: دوحہ میں تاریخی معاہدے کی اندرونی کہانی

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا برقرار رہنا غیر یقینی ہے، کیونکہ عدم اعتماد اور غیر حل شدہ مسائل کسی بھی وقت کشیدگی کو دوبارہ ہوا دے سکتے ہیں۔

غزہ میں اسرائیل کے حملے کے بعد کی صورتحال۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/یو این آر ڈبلیو اے/اشرف امرا)

غزہ میں اسرائیل کے حملے کے بعد کی صورتحال۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/یو این آر ڈبلیو اے/اشرف امرا)

یہ چار دن کے تھکا دینے والے مذاکرات تھے، جہاں وقت کی قید ختم ہو چکی تھی—رات اور دن کا کوئی فرق باقی نہیں رہا تھا۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ کے نواح میں واقع دو منزلہ عمارت تناؤ اور بے یقینی کا مرکز بن چکی تھی۔

گراؤنڈ فلور پر، ایک میز کے گرد چند چہرے جھکے ہوئے تھے۔ قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی، مصر کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ عباس کمال، اور امریکی ایلچی بریٹ مکگرک کی موجودگی، ماحول کی سنجیدگی کو ظاہر کر رہی تھی۔

ان کے ساتھ صدر ٹرمپ کے نمائندے، اسٹیو ویٹکوف، کاغذات اور نقشوں کے پلندے میں الجھے ہوئے تھے۔ ہر چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے، لیکن ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں تھی۔

دوسری منزل پر اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا، داخلی ایجنسی کے افسر رونین بار اور فوج کے نمائندے نزتان الون تل ابیب سے مسلسل رابطے میں تھے۔ یہ رابطے ایک محفوظ مواصلاتی نظام کے ذریعے جاری تھے، گویا ہر لمحہ کسی بڑے فیصلے کی بنیاد رکھ رہا ہو۔

لیکن کہانی کی اصل گتھی تیسری منزل پر تھی، جہاں حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ خلیل الحیہ اپنے وفد کے ساتھ موجود تھے۔ ان کواختیار تھا —امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ سال مئی میں جس سیز فائر پلان کی بنیاد رکھی تھی، اور جس پر بعد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مہر ثبت کی تھی، اس پر رضامندی ظاہر کریں اور اس کے آس پاس ڈیل فائنل ہو۔  لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے بار بار گول پوسٹ بدلنے کے سبب اس پر عمل نہ ہو سکا۔

مذاکرات کی بھٹی میں ہر لمحہ تپش بڑھ رہی تھی۔ گراؤنڈ فلور پر سفارت کار ایک تجویز تیار کرتے، پھر امریکی وفد اسے پہلی منزل پر اسرائیلی وفد کے سامنے پیش کرتا۔ ادھر قطر اور مصر کے نمائندے اس تجویز کو لے کر حماس کے پاس پہنچتے، جہاں تیسری منزل کی فضا بظاہر پرسکون تھی۔

اسرائیلی وفد تل ابیب سے مشورے لیتے ہوئے قدم قدم پر نئی شرائط سامنے رکھ رہا تھا، جس سے مذاکرات کا سلسلہ بار بار رک جاتا۔

مذاکرات میں شریک ایک اہلکار نے راقم کو بتایا کہ ہر قدم پر ایسا محسوس ہوتا جیسے کامیابی کی منزل قریب ہے، لیکن اگلے ہی لمحے جب امریکی وفد اسرائیلی نمائندوں سے مل کر واپس گراؤنڈ فلور پر وارد ہوتا تھا توان کے تناؤ بھرے چہرے بتاتے تھے کہ وہ کوئی نئی پیچیدگی لے کر ہی آئے ہیں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ ان چار دنوں میں مذاکرات کاروں نے سینکڑوں بار سیڑھیاں چڑھی اور اتریں۔ ایک لمحے کو لگتا کہ معاہدہ طے ہونے کو ہے، اور پھر ایسا محسوس ہوتا کہ یہ کوشش ایک سراب کے سوا کچھ نہیں۔

منگل اور بدھ کی راتیں طویل اور بے چین تھیں۔ انگریزی کی ڈکشنریوں کے صفحات الٹے جا رہے تھے، ہر لفظ کی باریکی پر بحث ہو رہی تھی، لیکن کوئی بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ معاہدہ طے پا جائے گا۔

ویٹکوف براہ راست صدر ٹرمپ، جنہوں نے ابھی عہدہ سنبھالا نہیں تھا، سے مسلسل رابطہ میں تھے۔ ابھی مذاکرات کے دور جاری ہی تھے کہ خبر آئی کہ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پر معاہدے کا اعلان کر دیاہے۔ پوری دنیا کے میڈیا میں سمجھوتہ کی خبریں نشر ہونا شروع ہوگئیں۔ مذاکرات کاروں کے مطابق تب تک وہ ابھی بھی پیش رفت سے دور تھے۔ مگر ٹرمپ کے اس اعلان نے اسرائیلی وفد کو پیغام بھیجا کہ اب مزید لیت و لعل سےکام نہیں چلے گا۔

گو کہ ٹرمپ کے اس قبل از وقت اعلان نے پیچیدگیاں پیدا کر دی تھیں، مگر اس نے اسرائیلی وفد پر دباؤ ڈالنے کا کام کیا۔ امریکی وفد نے اسرائیلی نمائندوں سے کہا کہ اب سمجھوتہ کو آخری شکل دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان کو یہ بھی بتا یا کہ  وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

اعصاب شکن مذاکرات 96 گھنٹوں سے مسلسل جاری تھے۔ بالآخر اسرائیلی وفد کو تل ابیب سے ہری جھنڈی مل گئی اور اس کے دو گھنٹہ کے بعد قطری وزیر اعظم نے دوحہ میں پریس کانفرنس میں سیز فائر کی ڈیل کے مندرجات کا اعلان کردیا۔ اس کے چند لمحوں کے بعد واشنگٹن میں بائیڈن نے بھی اس کا اعلان کیا۔ مگر ابھی اس معاہدہ کو اسرائیلی کابینہ کی منظوری نہیں ملی تھی۔ جس کا اجلاس اب اگلے دن یعنی جمعرات کا طے تھا۔

مگر نیتن یاہو ایک بار پھر پلٹی کھانے کےلیے پر تول رہے تھے۔ امریکی نمائندہ کو ایک بار پھر سخت الفاظ میں ان کو انتباہ کرنا پڑا، جس کے بعد یعنی معاہدہ کے اعلان کے چوبیس گھنٹہ کے بعد اسرائیلی وفد اور حماس کے نمائندوں نے اس پر دستخط کرکے سیز فائر ڈیل کو حتمی اور قانونی شکل عطا کی۔

یہ معاہدہ یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی، اور انسانی امداد کی فراہمی جیسے نکات پر مشتمل ہے۔ ہر قدم پر اختلافات کے باوجود، دوحہ میں اس رات جو طے پایا، وہ نہ صرف سفارت کاری کی ایک کامیاب کہانی تھی بلکہ خطے میں امن کی ایک نئی امید بھی اور اسرائیل کے غرور کے بت کو پاش پاش کرنے کی شروعات بھی تھی۔

ٹرمپ کے نمائندے نے اس سے قبل سنیچر کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو تل ابیب میں  واضح اور سخت پیغام پہنچایا تھا۔ سنیچر یا سبت کے دن اسرائیلی وزیر اعظم کسی مہمان سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر ویٹکوف نے ان سے مل کران کو ٹرمپ کی طرف سے پیغام پہنچایا کہ اگر وہ سیز فائر کےمذاکرات میں اڑچن ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، تو اس کا ان کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور خیال رہے کہ اگلے چار سال وہائٹ ہاوس میں ان کو ٹرمپ سے ڈیل کرنا ہے۔

یہ بھی باور کیاگیا کہ اسرائیلی کی سیکورٹی کی صورت حال تاریخی لحاظ سے سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ ایران کا مزاحمتی اتحاد دم توڑ چکا ہے۔ شام اور لبنا ن کی طرف سے کسی مداخلت کا خطرہ نہیں ہے۔ لہذا سرحدی عدم تحفظ کو جواز بناکر سیز فائر میں دیری نہیں کی جاسکتی ہے۔

مذاکراتی عمل کے قریبی ذرائع کے مطابق، اس دباؤ نے مذاکرات میں نئی رفتار پیدا کی۔ تاہم، ایک اور رکاوٹ اس وقت سامنے آئی جب حماس نے یرغمالیوں کی فہرست مکمل طور پر فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ حماس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی مسلسل بمباری کی وجہ سے وہ گراؤنڈ پر اپنے عسکریوں سے رابطہ کرنے میں دشواری محسوس کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ ان کو خدشہ تھا کہ یرغمالیوں کی شناخت و دیگر کوائف ظاہر کرنے سے اسرائیل ان کی موجودگی کا پتہ لگا کر ان کو سیز فائر سے قبل بازیاب کرنے کا آپریشن کرسکتا ہے یا پھر ان کو قتل بھی کرسکتا ہے۔ اسرائیلی فوج کی ہنی بال ڈاکٹرئین کے مطانق ان کو اپنے شہریوں کو قتل کرنے کا حق حاْصل ہے، اگر وہ اغوا ہو رہے ہوں یا دشمن کے قبضہ میں ہوں۔ حماس کی طرف سے ایک ہفتہ کی مہلت کو اسرائیل نے مسترد کردیا۔

اس موقع پر امریکی ثالث میز سے اٹھ گئے اور مصر و قطر کو پیغام دیا کہ حماس کو فہرست دینے پر آمادہ کریں۔

اسرائیلی حکام کا اندازہ تھا کہ ایک تہائی یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔

معاہدے کے تحت ابتدائی 42 دنوں میں 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو سات مراحل میں رہا کیا جائے گا، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ بدلے میں، اسرائیل 2,000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں خواتین، بچے اور انسانی بنیادوں پر قیدی شامل ہوں گے۔ اکتوبر 7 کے حملوں میں ملوث قیدی اس معاہدے سے مستثنیٰ ہوں گے۔

رفح بارڈر کراسنگ دوبارہ کھول دی جائے گی تاکہ اہم انسانی امداد فراہم کی جا سکے۔ امدادی سامان میں خوراک، دوائیں، اور بنیادی ضروریات شامل ہیں، جو جنگ زدہ علاقے میں قلت کو ختم کریں گی۔ زخمی فلسطینی شہریوں کو مصر کے اسپتالوں میں منتقل کرنے کا انتظام بھی کیا جائے گا۔ بے گھر مہاجرین کی واپسی کے لیے ابتدائی طور پر پیدل راستہ فراہم کیا جائے گا، جس کے بعد گاڑیوں کے ذریعے واپسی کی اجازت دی جائے گی۔

معاہدے کی ایک اہم شرط کے تحت، اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) بتدریج اہم علاقوں سے انخلا کرے گی، جن میں نتزریم اور فلادلفی راہداری شامل ہیں۔ پہلے 50 دنوں کے دوران ان علاقوں سے آئی ڈی ایف کی مکمل واپسی متوقع ہے، جبکہ مصر رفح کراسنگ کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالے گا۔

پانچ مخصوص زونز میں آئی ڈی ایف کی موجودگی 400 میٹر تک محدود ہوگی، جبکہ فلادلفی راہداری سے انخلا مکمل طور پر کر لیا جائے گا۔ اسرائیلی حکومت کے اندرونی اختلافات کے باوجود، معاہدہ نافذ کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

دالیا شینڈلن نے اسرائیلی اخبار ‘ہاآرٹز’ میں لکھا ہے کہ بہت سے اسرائیلی فوجیوں کے لیے یہ جنگ بندی ایک بڑی راحت کا باعث بنی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کے بعد اسرائیلی ریزرو فوجی اپنی بقا کی جنگ سمجھ کر بڑی ہمت اور جوش کے ساتھ میدان میں اترے۔ متعدد فوجیوں نے حکم نامہ ملنے سے پہلے ہی اپنی خدمات پیش کر دیں، جس کے نتیجے میں حاضری کی شرح 100 فیصد سے بھی بڑھ گئی۔

جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک ایک تہائی ریزرو فوجی 150 دن سے زیادہ ڈیوٹی کر چکے ہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ ڈیوٹی کے احکامات پر عمل کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر وہ فوجی جو کئی بار طویل مدت تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان میں سے کئی کے لیے یہ وقت سینکڑوں دنوں پر محیط ہے۔ ایک لیفٹیننٹ کرنل نے بتایا کہ کئی فوجیوں کی شریک حیات مزید کسی طویل ڈیوٹی کے دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں۔

آئی ڈی ایف کے مطابق، جنگ کے دوران بلائے گئے 295000 ریزرو فوجیوں میں سے 118000 والدین ہیں، جن میں سے 115000 والد ہیں۔ مائیکل ملشٹائن، جو تل ابیب یونیورسٹی کے دیان سینٹر کے فلسطینی اسٹڈیز فورم کے سربراہ ہیں اور آئی ڈی ایف انٹلی جنس کے سابق اہلکار ہیں، کا کہنا ہے کہ کئی ریزرو فوجی اب گھر واپس آنے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘خاندان اسرائیل کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں۔’

جنگ کے آغاز سے اب تک 75000 کاروبار بند ہو چکے ہیں، جن میں سے 59000 صرف 2024 کے دوران بند ہوئے۔ یہ تعداد کووڈ-19 وبا کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹر شیری ڈینیئلز، جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم کی قومی ڈائریکٹر ہیں، نے کہا کہ ان کی تنظیم کو 40000 سے زیادہ مدد کی درخواستیں موصول ہوئیں، جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 100 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ دوسری تنظیموں، جیسے ناتال، نے خودکشی کے رجحانات رکھنے والے افراد کی طرف سے رابطوں میں 145 فیصد اضافہ رپورٹ کیا۔ آئی ڈی ایف کے مطابق، 2024 میں 21 فوجیوں نے اپنی جان لے لی، جو ایک دہائی کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا برقرار رہنا غیر یقینی ہے، کیونکہ عدم اعتماد اور غیر حل شدہ مسائل کسی بھی وقت کشیدگی کو دوبارہ ہوا دے سکتے ہیں۔ ان حالات میں، کچھ تجزیہ کار چھوٹی کامیابیوں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یعقوب کاتز لکھتے ہیں،’کبھی کبھی ہمارے لوگوں کی واپسی ہی کافی ہوتی ہے۔’یہ بیان ایک قوم کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جو امن کی خواہش کے باوجود مستقبل کی جنگوں کے لیے تیار رہتی ہے۔

غزہ میں انسانی بحران بدستور ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق، غزہ کے صحت کے نظام کی بحالی کے لیے اگلے پانچ سے سات سالوں میں کم از کم 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ غزہ کے نصف سے کم ہسپتال اس وقت کام کر رہے ہیں، جس کے باعث جنگ بندی کی کامیابی فوری اور پائیدار انسانی امداد پر منحصر ہے۔

بہت سے اسرائیلیوں کے لیے جنگ بندی تنازعے کے طویل اور بے رحم دورانیے کے بعد سکون کا ایک مختصر لمحہ ہے۔ یرغمالیوں کی واپسی نے خاندانوں کے لیے سکون اور عارضی ریلیف کا احساس پیدا کیا ہے۔ تاہم، اسرائیل کو  حماس کو ختم کرنے کے مقصد سے جنگ شروع کی تھی و ہ ہدف حاْصل نہیں ہوا۔

امریکہ کے سابق وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق جتنے عسکری حماس کے اسرائیل نے ہلاک کیے، اتنے ہی وہ دوبارہ بھرتی کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کیا دنیا اب سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ فلسطین کوفلسطینی عوام کی خواہشات اور خطے کے اطمینان کے مطابق حل کرنے کی طرف گامزن ہوگی؟ تاکہ ایک پائیدار امن قائم ہوسکے گا۔

Next Article

دہلی: عدالت نے آرٹ گیلری سے ایم ایف حسین کی دو ’قابل اعتراض‘ پینٹنگ کو ضبط کرنے کا حکم دیا

آرٹ گیلری میں نمائش کے لیے رکھی گئی پدم ایوارڈیافتہ آرٹسٹ ایم ایف حسین کی دو پینٹنگ کو دہلی ہائی کورٹ کے ایک وکیل نے ‘قابل اعتراض’ بتاتے ہوئے شکایت درج کرائی تھی۔ اب عدالت نے انہیں ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔

ایم ایف حسین (فائل فوٹو بہ شکریہ: gallery16.in)

ایم ایف حسین (فائل فوٹو بہ شکریہ: gallery16.in)

نئی دہلی: سوموار (20 جنوری) کو قومی دارالحکومت کی ایک مقامی عدالت نے شہر کی ایک آرٹ گیلری سے ملک کے نامور مصور اور پدم ایوارڈ یافتہ مقبول فدا حسین کی مبینہ قابل اعتراض مصوری کو ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔

خبروں کے مطابق،یہ پینٹنگ ہندو دیوی دیوتاؤں کی ہیں اور دہلی آرٹ گیلری میں نمائش کے لیے رکھی  گئی تھیں۔ ان میں ہندو بھگوان  ہنومان اور گنیش کو دکھایا گیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے یہ ہدایت دہلی ہائی کورٹ کی وکیل امیتا سچدیوا کی شکایت پر دی ہے۔ امیتا کا کہناتھا کہ یہ ‘قابل اعتراض’ ہیں اور انہیں گیلری سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔

شکایت کنندہ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ انہوں نے 4 دسمبر 2024 کو دہلی آرٹ گیلری 22اے، ونڈسر پلیس، کناٹ پلیس واقع دلی آرٹ گیلری میں نمائش کے لیے رکھی گئی ‘قابل اعتراض’ پینٹنگ کی تصویریں کلک کی تھیں اور 9 دسمبر کو سنسد مارگ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی۔

اب پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے جوڈیشیل مجسٹریٹ (فرسٹ کلاس) ساحل مونگا کی طرف سے جاری حکم میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ حقائق اور حالات کے پیش نظر درخواست کی اجازت دی جاتی ہے۔ اور ‘تفتیشی افسر (آئی او) کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مذکورہ پینٹنگ کو ضبط کریں اور 22.01.2025 کو رپورٹ درج کریں۔’

امیتا نے اپنی پوسٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ جب وہ 10 دسمبر 2024 کو آئی او کے ساتھ دہلی آرٹ گیلری گئی تھیں تو ان پینٹنگز کو ہٹا دیا گیا تھا اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں کبھی نمائش کے لیے رکھا نہیں گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس نے ابھی تک ہندو دیوتاؤں کی برہنہ  پینٹنگ کو نمائش میں رکھنے کے لیے دہلی آرٹ گیلری اور اس کے ڈائریکٹرز کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔

امیتا نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں مزید کہا، ‘یہ واضح نہیں ہے کہ پولیس نے 4 سے 10 دسمبر تک کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ کیا ہے یا نہیں، جیسا کہ میری درخواست میں کہا گیا تھا، تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ پینٹنگ کس نے اور کیوں ہٹائی۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے انڈین سول سیکورٹی کوڈ (بی این ایس ایس) ایکٹ کی دفعہ 175 (3)، 223 اور 94 کے تحت عرضی دی، جس میں مذکورہ معاملے پر ایف آئی آر کے اندراج اور دہلی آرٹ گیلری سے 4 سے 10 دسمبر 2024 تک کی مدت کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ رکھنے کا مطالبہ کیا گیا۔

جنوری کے مہینے میں کیس کی عدالتی سماعت کے دوران پولیس نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسر نے دہلی آرٹ گیلری کے سی سی ٹی وی فوٹیج اور نیٹ ورک ویڈیو ریکارڈر کو پہلے ہی قبضے میں لے لیا ہے۔

اس پر جج نے اپنے فیصلے میں کہا، ‘اے ٹی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ پینٹنگ کی ایک فہرست دہلی آرٹ گیلری نے دی تھی، جس میں زیر بحث پینٹنگ کا سیریل نمبر 6 اور 10 پر ذکر ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نمائش ایک نجی جگہ پر منعقد کی گئی تھی اور مذکورہ پینٹنگ کا مقصد صرف مصنفین/فنکاروں کے کام کی نمائش کرناتھا۔’

اس دوران دلی آرٹ گیلری نے منگل کو ایک بیان جاری کیا ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ نمائش میں ایم ایف حسین کے کچھ منتخب کاموں کے حوالے سے زیر التواء تحقیقات کی وجہ سے وہ صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ابھی تک کسی عدالتی کارروائی میں بطور فریق شامل نہیں ہیں اور پیش رفت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسے ہی کوئی اپ ڈیٹ ملے گا اسے شیئر کر دیا جائے گا۔

قابل ذکر ہے کہ حسین کی تخلیقات کے حوالے سے تنازعہ کوئی نیا نہیں ہے۔ جب وہ زندہ تھے، تب بھی لوگوں کے ایک طبقے نے ان کی پینٹنگ کو قابل اعتراض قرار دیتے ہوئے مخالفت کی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے آخری دنوں میں حسین کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور دوحہ اور لندن میں وقت گزارا۔ 95 سال کی عمر میں ہندوستان کے اس نامور فنکار کاانتقال 9 جون 2011 کو لندن میں ہوا۔

المیہ یہ ہے کہ ملک میں مصوروں/فنکاروں کو مجرم قرار دینا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پچھلے سال بھی ایسا ہی ایک معاملہ سامنے آیا تھا، جب بامبے ہائی کورٹ کو کسٹم ڈپارٹمنٹ کے افسران کو مشہور فنکاروں ایف این سوزا اور اکبر پدمسی کے سات ضبط شدہ فن پارے واپس کرنے کا حکم دینا پڑا تھا ۔ کسٹم حکام نے ان فن پاروں کو ‘فحش مواد’ قرار دے کر ضبط کیا تھا۔

سال 2022 میں محکمہ کسٹم نے فحاشی کا حوالہ دیتے ہوئے ممبئی کے ایک تاجر کی اسکاٹ لینڈ سے نیلامی میں خریدی گئی سات پینٹنگ ضبط کی تھیں۔ اس میں چار شہوانی پینٹنگ کا ایک فولیو بھی شامل تھا، جس میں سوزا کی ‘لورز’ پینٹنگ بھی تھی، جسے ‘فحش’ قرار دیا گیا تھا۔ تین دیگر فن پارے جو اسی وجہ سے روکے گئے تھے ان میں ‘نیوڈ’ نام کی ایک پینٹنگ اور اکبر پدمسی کی دو تصاویر تھیں۔

عدالت نے کسٹم افسران کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جنسی تعلقات کی عکاسی کرنے والی ہر عریاں پینٹنگ یا آرٹ ورک کو فحش نہیں کہا جا سکتا۔

Next Article

یوپی: بجرنگ دل کے تبدیلی مذہب کے الزام کے بعد پانچ مسلمان گرفتار

ہمیر پور ضلع کا ایک دلت خاندان 10 جنوری کی رات کو اپنے گھر میں ‘عرس’ کا پروگرام منعقد کر رہا تھا، جب بجرنگ دل کے ارکان نے اس میں رکاوٹ ڈالی اور پولیس کو اس کی  اطلاع دی۔ الزام لگایا گیا کہ مسلمان اس خاندان کو زبردستی اسلام قبول کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ہمیر پور پولیس اور پانچ مسلم ملزمان، جن پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کا الزام ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

ہمیر پور پولیس اور پانچ مسلم ملزمان، جن پر غیر قانونی تبدیلی مذہب کا الزام ہے۔ (تصویر بہ شکریہ: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: اترپردیش کے ہمیر پور ضلع میں پولیس نے ایک دلت خاندان کے گھر پر ‘عرس’ منانے اور دعائیہ پروگرام منعقد کرنے کے سلسلے میں ‘غیر قانونی تبدیلی مذہب’ کے الزام میں پانچ مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے۔

اس کیس کے مرکز میں ایک دلت خاندان ہے، جس میں ایک خاتون ارمیلا اور اس کے شوہر اجیت ورما نے مبینہ طور پر ملزمین کے کہنے پر ہمیر پور کے موداہا علاقے میں اپنے گھر کے اندر ایک مزار  کی تعمیر کرائی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ارمیلا کی بیماریاں ٹھیک ہو جائیں گی اور اس کی پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔

جب یہ دلت خاندان 10 جنوری کی رات اپنے گھر کے اندر ‘عرس’کا اہتمام کر رہا تھا،  توہندوتوا تنظیم بجرنگ دل کے اراکین نے اس پروگرام میں خلل ڈالا اور اس کے بارے میں  پولیس کو اطلاع دی۔ اس پر الزام لگایا گیا کہ مسلمان اس دلت خاندان کو اسلام قبول کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔

اس سلسلے میں بجرنگ دل ضلع یونٹ کے سابق کوآرڈینیٹر آشیش سنگھ نے ایک مقامی ٹیلی ویژن چینل کو بتایا، ‘جب ہم رات 2.30 بجے وہاں پہنچے تو گھر میں عرس کا پروگرام چل رہا تھا۔ درگاہ پر چادر پوشی ہو رہی تھی۔ کچھ  مولانا تقریر کر رہے تھے۔ وہ دلت خاندان کو ان کی بیماری کا علاج کرنے اور پیسے دینے کا وعدہ کرکے اسلام قبول کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔’

معلوم ہو کہ اس معاملے میں 10 جنوری کو ہی  چار مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور ایک کو ایک دن بعد گرفتار کیا گیا۔

پولیس نے جن پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے ان کی شناخت نورالدین (55)، ان کے بھتیجے معراج حسن (32)، خلیف (42)، عرفان (46) اور محمد حنیف (52) کے طور پر کی گئی ہے۔ ان لوگوں کے خلاف مجرمانہ دھمکی دینے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور اتر پردیش کے تبدیلی مذہب  ایکٹ 2021 کی دفعہ 3 اور 5 (1) لگائی گئی  ہے۔

تاہم، مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ارمیلا نے ان پانچوں افراد کے خلاف کوئی منفی تبصرہ نہیں کیا، لیکن ایف آئی آر ان کے نام پرکی گئی شکایت پر  ہی درج کی گئی تھی۔

دی وائر کے پاس اس ایف آئی آر کی ایک کاپی ہے، جس میں ارمیلا نے کہا ہے کہ وہ نورالدین، جو باندہ کے رہنے والے ہیں،  سے اس وقت رابطہ میں آئی تھی، جب وہ دو سال سے زیادہ عرصے سے مبتلااپنی  بیماری کا علاج تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ارمیلا نے کہا، ‘ہمارے گھر میں بھی پریشانی تھی۔ میں اپنا ٹیسٹ کروانے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی تھی  اور اسی دوران میری ملاقات نورالدین سے ہوئی۔’

انہوں نے مزید کہا کہ نورالدین نے انہیں ایک مزار پر جانے کے لیے کہا اور ان سے وعدہ کیا کہ ایک بار ایسا کرنے کے بعد وہ بہتر محسوس کرے گی اور اس کی تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔

ارمیلا نے بتایا کہ ایک موقع پر نورالدین اپنے بھتیجے معراج اور خلیق کے ساتھ ان کے گھر آئے اور گھر کے ایک کونے میں مزار بنوائی۔

ارمیلا نے بتایا کہ نورالدین نے ان سے کہا تھا کہ ‘تم ان کی پوجا کرو اور عرس کرو، تمہاری تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔’

ایف آئی آر کے مطابق، ارمیلا نے الزام لگایا ہے کہ وقتاً فوقتاً نورالدین اور اس کے ساتھی ان کے اہل خانہ کو لالچ دیتے تھے اور انہیں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کے لیے کہتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ان سے ہر سال ایک ‘عرس’ بھی  منعقد کرنے کو کہا ہے۔

گزشتہ 10 جنوری کے عرس کا پروگرام نورالدین اور ان کے ساتھیوں نے ارمیلا کے گھر پر منعقد کیا تھا۔ ارمیلا نے بتایا کہ انہوں نے فاتحہ بھی پڑھی۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پانچوں افراد نے خاندان کو اسلام قبول کرنے کے بدلے رقم دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ایف آئی آر میں ارمیلا نے کہا ہے کہ ان لوگوں کا کہناتھا، ‘آپ لوگ نچلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ مسلم مذہب میں اعلیٰ ذات بن جاؤ گے۔ آپ کو مسلم مذہب سے پیسے ملتے رہیں گے اور آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔’

ارمیلا نے مزید کہا، ‘ان لوگوں کے اصرار پر اور ان کی طرف سے لالچ میں آکر ہم نے دھیمے لہجے میں مذہب  تبدیل  کرنےکے بارے میں بات کرنے پر اتفاق کیا۔ لیکن بہت سوچنے کے بعد احساس ہوا کہ یہ لوگ ہمیں گمراہ کر کے ہندو مذہب سے اسلام میں تبدیل کر دیں گے۔ تب میں اور میرے شوہر نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنا مذہب تبدیل نہیں کریں گے۔ ہم اس کے اثر میں آ گئے تھے۔’

ہمیر پور کے ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس منوج کمار گپتا نے بتایا کہ موداہا میں ایک شخص کے گھر پر ‘غیر قانونی تبدیلی مذہب ‘ کی کوشش کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس موقع پر پہنچی۔

موداہا پولیس اسٹیشن کے باہر ہمیر پور میں ایک مقامی یوٹیوب چینل سے بات کرتے ہوئے اجیت ورما اور ارمیلا نے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔

ارمیلا نے کہا، ‘انہوں نے (نور الدین) مجھے ہر سال عرس کرنے کو کہا۔ مجھے نہیں معلوم کہ عرس کیا ہے۔ میں ہندو ہوں، مسلمانوں کی طرح پوجا  کیسے کر سکتی ہوں؟’

اس معاملے پر اجیت ورما نے کہا کہ ‘ہم ہندو ہیں اور ہندو ہی رہیں گے۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

جامع مسجد کے قریب بن رہی ستیہ ورت پولیس چوکی: نیا ایودھیا بننے کی راہ پر سنبھل؟

سنبھل کی شاہی جامع مسجدسے ملحقہ زمین خالی ہوا کرتی تھی۔ تشدد کے بعد انتظامیہ نے اسے اپنے  قبضے میں لے لیا اوریہاں ستیہ ورت پولیس چوکی کی تعمیر شروع کر دی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ نام سنبھل کی ‘مذہبی اور تاریخی اہمیت’ کو ظاہر کرتا ہے۔

جامع مسجد، سنبھل (تمام تصاویر: شروتی شرما/ دی وائر )

جامع مسجد، سنبھل (تمام تصاویر: شروتی شرما/ دی وائر )

سنبھل: ہر باراسلامی عمارت کا نام تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ موجودہ عمارت کے قریب پولیس بیریکیڈ لگا کر اور اس سے ملحقہ زمین کو’ہتھیاکر’اور اس پر ہندو نام کے ساتھ نئی عمارت تعمیر کردینے سے بھی مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ سنبھل میں ٹھیک یہی ہوا ہے۔

سنبھل میں دو ماہ قبل ہوئےتشدد اور شہر کی جامع مسجد کو لے کر تنازعہ پیدا کرنے کے بعد، اب اس مسجد سے ملحقہ زمین  میں ایک پولیس چوکی تیزی سے بنائی جا رہی ہے – ‘ستیہ ورت پولیس چوکی۔’ایک پولیس افسر نے کہا کہ یہ نام سنبھل کی ‘مذہبی اور تاریخی اہمیت’ کو ظاہر کرتا ہے اور ‘سنبھل کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔’ پولیس چوکی کی تعمیر کے لیے 28 دسمبر کو بھومی پوجن کیا گیا اور صرف پندرہ دنوں کے اندر باٹل پام  کے اونچے درخت آ گئے۔

جامع مسجد سے ملحقہ زمین میں زیر تعمیر پولیس چوکی۔

جامع مسجد سے ملحقہ زمین میں زیر تعمیر پولیس چوکی۔

گزشتہ 28 نومبر کو جب دی وائر کی ٹیم سنبھل گئی تھی تو یہ جگہ خالی پڑی تھی، لیکن آج وہاں تیزی سے بننے والی پولیس چوکی نظر آ رہی ہے۔

ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ یہ چوکی 24 نومبر کو ہوئے تشدد کے پیش نظر حفاظتی انتظامات کو مضبوط کرنے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔

اس زمین کے مالکانہ حقوق کے حوالے سے تنازعہ ہے۔ کچھ لوگ اسے وقف بورڈ کی زمین بتارہے ہیں، جبکہ پولیس اسے سرکاری زمین بتاتی ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سنبھل کے ایک وکیل نے دی وائر  کو بتایا،’یہ زمین مولانا خالد کے آباؤ اجداد نے وقف الاولاد (وقف بورڈ) کو دی تھی۔’ انہوں نے اس سے متعلق دستاویزات بھی دکھائے۔ نوے سالہ مولانا خالد مقامی رہائشی ہیں۔ کسی زمانے میں یہ ان کی  زمین  ہوا کرتی تھی۔

سنبھل ضلع انتظامیہ ان دعووں کی تردید کرتی ہے اور اس زمین کو وقف بورڈ کی ملکیت ہونے کا دعویٰ کرنے والے دستاویزات کو ‘فرضی’ قرار دیتی ہے۔ سنبھل میونسپل کونسل نے بھی اس معاملے میں ایک نامعلوم شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔

ضلع مجسٹریٹ راجیندر پنسیا نے کہا تھا کہ ‘نقلی وقف کاغذات مشتہر کرنے کے لیے ایک نامعلوم شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔’

بتایا جا رہا ہے کہ شاہی جامع مسجد کے وکیل محمد یعقوب نے مبینہ طور پر متعلقہ دستاویزسنبھل انتظامیہ کو سونپے تھے۔  ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راجیندر پنسیا کے مطابق، دستاویز کی جانچ کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور تحقیقات کے دوران وہ  جعلی پائے گئے۔

ڈی ایم نے کہا کہ جس زمین پر پولیس چوکی بن رہی ہے وہ سرکاری زمین ہے۔

اسی دوران ایک نیا حلف نامہ بھی آ گیا ہے۔ 6 جنوری 2025 کو بنے اس حلف نامہ میں مولانا خالد حلف اٹھا رہے ہیں کہ اب ان کا یا ان کے خاندان کا اس زمین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور مستقبل میں وہ یا ان کا خاندان اس زمین پر دعویٰ نہیں کرے گا۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے، ‘جس جگہ پر پولیس چوکی بن رہی ہے، بہت پہلے اس جگہ کی دیکھ بھال حلف اٹھانے والا اپنے باپ دادا کی ہدایت کے مطابق کرتا تھا۔ لیکن جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ یہ سرکاری زمین ہے، اس نے زمین کی دیکھ بھال کرنا چھوڑ دی۔’

وقف کی زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے دستاویزات اور مولانا خالد کا حلف نامہ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

وقف کی زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرنے والے دستاویزات اور مولانا خالد کا حلف نامہ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

‘مولانا خالد نے پولیس کے ڈر سے یہ حلف نامہ بنوایا ہے۔ پولیس نے دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ان کے گھر والوں  کو سنبھل تشدد میں پھنسا  کرگرفتار کر لیا جائے گا،’ وکیل کہتے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ پولیس چوکی لوگوں کے ذہنوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے بنائی جا رہی ہے۔

‘پچھلے چھ ماہ سےیہ سنبھل کے پیچھے لگے ہوئے تھے…وہ سنبھل کو نیا ایودھیا بنانا چاہتے ہیں، جامع مسجد کے علاقے کو پولیس چھاؤنی میں تبدیل کرکے دہشت پھیلانا چاہتے ہیں،’ سنبھل کے ایک تاجر نے دی وائر سے کہا۔

خوف کے سایے میں زندگی

سنبھل میں تشدد کو دو ماہ ہوچکے ہیں۔ پچھلے دو مہینوں میں وہاں کیا تبدیلی آئی؟ کیا حالات معمول پر آگئے ہیں یا لوگ اب بھی خوف  کے سایے میں زندگی گزار رہے ہیں؟ جو لوگ ابھی بھی گرفتار ہیں ، ان کے اہل خانہ کیسے زندگی بسر کر رہے ہیں؟

تشدد کے چار دن بعد جب دی وائر ٹیم نے پہلی بار ضلع کا دورہ کیا تھا تو سڑکیں سنسان تھیں اور کئی دکانیں بند تھیں۔ آج دکانوں اور گلیوں میں رونق  لوٹ آئی ہے۔ لیکن پورے شہر میں پولیس کی موجودگی اور لوگوں کے خوف کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حالات معمول پرنہیں  ہیں۔تشدد میں ہلاک ہونے والوں کےاہل خانہ کے زخم تازہ ہیں اور گرفتار لڑکوں کی مائیں ان کی راہ دیکھ رہی  ہیں۔ پولیس کے خوف سے نوجوان غروب آفتاب کے بعد گھروں سے نہیں نکلتے۔ سنبھل کوتوالی علاقے کے تحت آنے والے تقریباً تمام گھروں کے نوجوانوں سے پولیس باقاعدگی سے پوچھ تاچھ کر رہی ہے۔ ہر شام پولیس فلیگ مارچ کرتی ہے۔

اور مسجد سے کچھ دور ایک بے بس ماں اپنے نابالغ بیٹے کی واپسی کی راہ دیکھ رہی  ہے۔ شبنم کا 15 سالہ بیٹا سنبھل تشدد کے ایک دن بعد 25 نومبر سے پولیس کی حراست میں ہے۔  ‘میں نے اپنی بیٹی کی شادی ٹال دی ہے۔ میں اپنے بیٹے کی رہائی کا انتظار کر رہی ہوں… میں شادی کب تک ٹال پاؤں گی،کہیں لڑکی کا رشتہ نہ ٹوٹ جائے،’ فکرمندشبنم دی وائر سے کہتی ہیں۔

شبنم اپنی چھوٹی سی دکان کے سامنے۔

شبنم اپنی چھوٹی سی دکان کے سامنے۔

لوگوں کا خوف بے بنیاد نہیں ہے۔ حال ہی میں، ایک میڈیا چینل سے بات چیت کے دوران اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ ‘کسی کو بھی کسی متنازعہ ڈھانچے کو مسجد نہیں بولناچاہیے۔’ سنبھل مسجد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ‘آئین اکبری کہتا ہے کہ یہ مسجد نماڈھانچہ ہری ہر مندر کو گرا کر بنایا گیا تھا، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی غلطی کو ٹھیک کریں اور غیر ضروری تنازعہ پیدا کیے بغیر اسے ہندوؤں کو باعزت طریقے سےسونپ دیں۔’

جامع مسجد کے پیچھے والی گلی جہاں تشدد ہوا تھا۔

جامع مسجد کے پیچھے والی گلی جہاں تشدد ہوا تھا۔

متاثرین کا درد

گزشتہ 19 نومبر کو مسجد کے سروے کا عمل نسبتاً پرامن طریقے سے مکمل ہوگیا تھا، لیکن جب 24 تاریخ کی صبح ٹیم دوبارہ سروے کے لیے وہاں پہنچی تو اس دوران وہاں شدید تشدد کا مشاہدہ کیا گیا، جس میں5 افراد مارے گئے۔ پولیس کے مطابق تشدد میں 20 کے قریب پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

سنبھل تشدد میں مارے گئے اپنے بیٹے نعیم کو یاد کرتے ہوئے ان کی والدہ ادریس کہتی ہیں: ‘میرے شوہر کا 29 سال قبل انتقال ہوا تھا، میں نے اپنے بچے کو بڑی مشکل سے پالا تھا۔’

اپنےبچے کو یاد کرتے ہوئے ان  کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔

پچپن سالہ ادریس بتاتی ہیں کہ نعیم اس دن گھر سے اپنی مٹھائی کی دکان کے لیے سامان لانے نکلے تھے، لیکن واپس نہیں لوٹے۔ ‘اس کا چھوٹا بچہ (4 سال) اسے ہر روز یاد کرتا ہے، اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کا باپ کہاں چلا گیا ہے،’وہ کہتی ہیں۔

نعیم کے چار بچے ہیں، سب سے بڑے بچے کی عمر 10 سال اور سب سے چھوٹے کی عمر 4 سال ہے۔

نعیم کی والدہ ادریس

نعیم کی والدہ ادریس

سترہ سالہ کیف پلاسٹک کا کام کرتے تھے۔ ‘وہ گھر سے بازار نکلے تھے۔ پھر مجھے اپنے چچا کا فون آیا، جنہوں نے بتایا کہ انہیں جامع مسجد کے قریب ہنگامے میں گولی لگ گئی ہے،’ کیف کے بڑے بھائی نے بتایا۔

کیف چار بھائی تھے۔ دو چھوٹے بھائی اسکول جاتے ہیں۔ ‘ہمارے والد بیمار رہے، ان کی بیماری کے بعد سے ہم دونوں بھائی گھر چلاتے تھے،’ وہ کہتے ہیں۔

جائے وقوعہ سے چار کلومیٹر دور حیات نگر کے رہائشی نعمان (45) سائیکل پر کپڑے بیچتے تھے۔ وہ اپنے کاروبار کے لیے مسجد کی طرف  گئے تھے جہاں  وہ تشدد کا نشانہ بن گئے۔

ان کے بعد ان کے بڑے بیٹے عدنان  پر خاندان کو چلانے کی ذمہ داری ہے، بی کام کر رہے عدنان نے پڑھائی چھوڑ دی ہے۔

سماج وادی پارٹی نے تمام مرنے والوں کے لواحقین کو 5 لاکھ روپے دیے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند اور دیگر اداروں کی طرف سے بھی مالی امداد فراہم کی گئی ہے  ۔

سنبھل تشدد سے متعلق معاملات میں اب تک چھ ایف آئی آر اور 54 گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ پولیس روزانہ پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس پوچھ گچھ کے لیے لے جانے والوں کو بغیر پیسے لیے رہا نہیں کرتی۔ ‘کوئی ہزار، کوئی دو ہزار، کوئی پانچ یا دس ہزار۔ اس کے بعد انہیں جانے دیتی ہے۔’

سال 1978 کے فسادات کی نئی تحقیقات

گزشتہ 17 دسمبر کو مقامی ایم ایل سی شری چند شرما نے حکومت کو ایک خط لکھ کر 1978 کے فسادات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا، جس پر یوپی حکومت نے نئی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

سنبھل میں 1978 کے فسادات میں مبینہ طور پر 184 لوگ مارے گئے تھے۔ 2010 میں ملزمان کو عدالت نے شواہد کے فقدان میں بری کر دیا تھا۔

سنبھل ڈسٹرکٹ کورٹ کے ایک وکیل کا کہنا ہے کہ ‘حکومت کے اس نئے حکم کے بعد ہی بہت سے لوگوں کو 1978 کے فسادات کے بارے میں جانکاری ملی ہے۔ہاں کے لوگوں کے ذہنوں سے وہ دنگےمٹ چکے ہیں۔ ان پرانی فائلوں کو کھول کر یوگی حکومت پرانے زخموں کوکریدناچاہتی ہے۔’

سنبھل کا بازار۔

سنبھل کا بازار۔

مقامی رہائشی مطیع الرحمان کا کہنا ہے کہ ‘ گنگا جمنا ثقافت کی مثال ہے سنبھل، ماضی میں تین فسادات (1976، 1978 اور 1992 میں ہوئے تھے) کے باوجود ہندو اور مسلمان یہاں آپس میں مل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں۔’

تین دنگوں کو جھیل چکا یہ شہر ایک بار پھر جھلس رہا ہے اور انتظامیہ اس آگ کو ہوا دینے کی پوری کوشش کرتی نظر آرہی ہے۔

Next Article

’مودی بنام خان مارکیٹ گینگ‘ کی رونمائی کے موقع پر ڈی یو کے وی سی کا اظہار خیال – کتاب حب الوطنی کو فروغ دیتی ہے

دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر یوگیش سنگھ نے 16 جنوری کو دوردرشن کے پریزنٹر اشوک شری واستو کی کتاب ‘مودی بنام خان مارکیٹ گینگ’ کی رونمائی کے موقع پر مودی حکومت اور بی جے پی کے تئیں اپنی حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ یہ کتاب حب الوطنی کو فروغ دیتی ہے۔

مودی بنام خان مارکیٹ گینگ کے اجرا کی تقریب دہلی یونیورسٹی میں منعقد ہوئی۔ (تصویر: اتل اشوک ہووالے)

مودی بنام خان مارکیٹ گینگ کے اجرا کی تقریب دہلی یونیورسٹی میں منعقد ہوئی۔ (تصویر: اتل اشوک ہووالے)

نئی دہلی: دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) کے وائس چانسلر یوگیش سنگھ نے 16 جنوری کو نریندر مودی حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تئیں اپنی حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنی  اس حمایت کا اعلان ‘مودی بنام خان مارکیٹ گینگ’ نامی کتاب کی رونمائی کے موقع پر منعقد ایک پروگرام میں کیا۔ یہ عنوان اس سیاسی اختلاف کی طرف اشارہ ہے جس کو وزیر اعظم اپنے  ناقدین پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ڈی یو میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سنگھ نے کہا، ‘تمام لوگوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے کیونکہ یہ  ملک وقوم کے مفاد کے لیےتشویش کو ظاہرکرتی ہے اور حب الوطنی کو فروغ دیتی ہے۔ میں دہلی یونیورسٹی میں اکثر کہتا ہوں کہ ہمارے تعلیمی نظام اور یونیورسٹیوں کا کردار حب الوطنی کو فروغ دینا ہے۔ ملک وقوم سے محبت پیدا کرنا ہمارا بنیادی فرض ہے۔’

وی سی  دفتر کے کنونشن ہال میں منعقدہ اس تقریب کا اہتمام میڈیا اینڈ پبلک پالیسی اینڈ ریسرچ کونسل نے سائلنس فاؤنڈیشن کے تعاون سے دہلی یونیورسٹی کے اشتراک سے کیا تھا۔

اس متنازعہ کتاب کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بی جے پی کا پروپیگنڈہ ہے، جس کے مصنف اشوک شری واستو ہیں، جو پبلک براڈکاسٹر دوردرشن کے لیے کام کرتے ہیں۔

وائس چانسلر کے بیان– جو ملک میں تعلیمی اداروں کی بڑھتی ہوئی سیاست کاری کی عکاسی کرتے ہیں – متنازعہ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ سنگھ اپنے عہدے کو بی جے پی کے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

مصنف شری واستو نے تقریب کے انعقاد میں ان کے کردار کے لیے سنگھ کا شکریہ ادا کیا اور انھیں تقریب کا ‘چیف آرکیٹیکٹ’ بتایا۔ شری واستو نے دعویٰ کیا کہ ‘خان مارکیٹ گینگ’ – مودی حکومت کے ناقدین کے لیے استعمال کی جانے والی  اصطلاح –  دہلی سے نیویارک تک پھیل چکی ہے اور مودی ہندوستان کی علامت ہیں۔

مودی بنام خان مارکیٹ گینگ، اشوک شری واستو، کونسل فار میڈیا اینڈ پبلک پالیسی ریسرچ، 2024۔ (تصویر: اتل اشوک ہووالے)

مودی بنام خان مارکیٹ گینگ، اشوک شری واستو، کونسل فار میڈیا اینڈ پبلک پالیسی ریسرچ، 2024۔ (تصویر: اتل اشوک ہووالے)

شری واستو نے کہا، ‘خان مارکیٹ گینگ دہلی سے نیویارک تک پھیلا ہوا ہے۔ خان مارکیٹ گینگ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں ملک کی ترقی سے پریشانی ہوتی ہے۔ نریندر مودی ہندوستان کی علامت ہیں اور اسی وجہ سے ہندوستان اور نریندر مودی ہمیشہ خان مارکیٹ گینگ کے نشانے پر رہتے ہیں۔’

انہوں نے کہا، ‘اس کتاب کو یونیورسٹی میں لانے کا بنیادی مقصدتعلیمی مراکز، طلبہ اور اساتذہ کو ان فرضی کہانیوں کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔ اگر طلباء اور اساتذہ ان فرضی کہانیوں کو سمجھ لیں تو ہندوستان محفوظ رہ سکتا ہے۔’

اس پروگرام میں مختلف کالجوں کے پرنسپل اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے وابستہ طلباء کے علاوہ پارٹی کے قومی کو آرگنائزیشن سکریٹری شیو پرکاش اور سابق ایم پی جیوتی مردھا سمیت بی جے پی لیڈران نےشرکت کی۔

کتاب کی رونمائی کے طور پر پیش کیے گئے اس پروگرام میں حکومت پر سوال اٹھانے والے صحافی اور میڈیاادارے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تنقید کے بغیر مودی حکومت کی حمایت کرنے والے میڈیا اداروں کو فروغ دینے کی بھی کوشش کی گئی۔ مثال کے طور پر سنگھ نے شری واستو کی تعریف کی اور ناظرین کو ڈی ڈی نیوز پر ان کا شو ‘دو ٹوک’ دیکھنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ پروگرام اپنے آپ میں ‘حب الوطنی کی ایک مثال’ ہے۔

کتاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنگھ نے مشورہ دیا کہ کس طرح مختلف عالمی درجہ بندی، جیسے کہ ہنگر انڈیکس، پریس فریڈم انڈیکس اور ہیپی نیس انڈیکس کو مبینہ طور پر فرضی  بیانیہ پھیلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پریس فریڈم انڈیکس کے 2024 ایڈیشن میں شامل 180 ممالک میں ہندوستان 159 ویں نمبر پر ہے۔

بی جے پی لیڈر مردھا نے پروگرام میں مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ‘مودی کا  (سیاسی) سفر کسی انقلاب سے کم نہیں تھا اور ہم جیسے لوگوں نے اس انقلاب میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ انہیں شکست دینے کی بھرپور کوششوں کے باوجود عوام نے انہیں منتخب کیا۔’

انہوں نے کہا، ‘گزشتہ انتخابات میں یہ بیانیہ سیٹ کیا گیا تھا کہ اگر بی جے پی کی حکومت آئی تو وہ آئین کو بدل دے گی۔ تاہم، آئین میں ترمیم کی شق خود آئین میں موجود ہے اور اس میں 130 مرتبہ تبدیلی کی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر پنچایتی راج نظام اور خواتین کا ریزرویشن صرف آئینی ترمیم کے ذریعے لایا گیا۔ لوگوں کو یہ سمجھنا چاہیے۔ پسماندہ طبقات کے لوگ جو پہلے یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ بی جے پی سے ڈرتے ہیں اور کہتے تھے کہ اگر مودی اقتدار میں آئے تو ان کا ریزرویشن ختم ہو جائے گا، اب انتخابات کے بعد تسلیم کر رہے ہیں کہ اس وقت لوگوں کو بے وقوف بنایا گیا تھا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)