عدالت نے عمر خالد کو دہلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں عبوری ضمانت دی ہے۔ دراصل، خالد کو خاندان میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے 28 دسمبر سے 3 جنوری 2025 کی شام تک جیل سے باہر رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے بدھ کو جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد کو 2020 کے دہلی فسادات سے متعلق ایک بڑی سازش کا الزام عائد کرنے والے یو اے پی اے کیس میں خاندان کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے سات دن کی ضمانت دی ہے۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، کڑکڑڈوما کورٹ کے جج سمیر باجپئی نے خالد کو اپنے چچا زاد بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے سات دن کی ضمانت دی ہے۔
غور طلب ہے کہ جے این یو (جواہر لال نہرو یونیورسٹی) کے سابق طالبعلم عمر خالد دہلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں ستمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ خالد پر یو اے پی اے (انسداد دہشت گردی قانون ‘غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ) کے تحت الزام عائد کیے گئے ہیں۔
خالد نے شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے 10 دن کی عبوری ضمانت کی درخواست کی تھی، تاہم عدالت نے ان کی سات دن کی ضمانت شرائط کے ساتھ منظور کی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ، اپنی عبوری ضمانت کی درخواست میں، خالد نے کہا تھا کہ ان کےچچازاد بھائی کی شادی ایک جنوری کو نئی دہلی کے ابوالفضل انکلیو میں ہونے والی ہے، کالندی کنج میں نکاح اور عشائیہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا تھاکہ ہلدی اور مہندی کی تقریبات 30 اور 31 دسمبر کو ہوں گی اور انہوں نے مزید بتایا تھا کہ وہ اپنے رشتہ داروں ، بالخصوص اپنی بہن سے ملنا چاہتے ہیں جو امریکہ سے آرہی ہیں۔
خالد نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ناگپور میں ہونے والے استقبالیہ میں شرکت نہیں کرنا چاہتے اور وہ دہلی میں ہی رہیں گے۔
عدالت نے خالد کو 20000 روپے کے ذاتی مچلکے پر 28 دسمبر کی صبح سے 3 جنوری 2025 کی شام تک جیل سے باہر رہنے کی اجازت دی ہے۔
ضمانت کی شرائط کے مطابق، خالد کو صرف اپنے خاندان کے افراد، رشتہ داروں اور دوستوں سے ہی ملنا ہوگا۔ انہیں اپنے گھرو یا ان جگہوں پر ہی رہنا ہوگا جہاں ان کی جانب سےبتائے گئی جگہوں پر شادی کی تقریبات منعقد ہوں گی۔ اور وہ سوشل میڈیا استعمال نہیں کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ عمر خالد کی ضمانت کی عرضی فی الحال دہلی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے ۔ خالد 14 ستمبر 2020 کو گرفتاری کے بعد سے جیل میں ہیں۔
بتادیں کہ 28 مئی 2024 کو نچلی عدالت نے انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ میں ان کی درخواست ضمانت کی سماعت گزشتہ چار سالوں میں 14 بار ملتوی ہونے کے بعد انہوں نے ٹرائل کورٹ کا رخ کیا تھا۔
اس سے قبل آٹھ ماہ کی سماعت کے بعد مارچ 2022 میں دہلی کی ایک سیشن عدالت نے خالد کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ خالد نے اس فیصلے کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی۔ اکتوبر 2022 میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی خالد کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
دسمبر 2022 میں کڑکڑڈوما عدالت نے دہلی فسادات سے متعلق ‘پتھراؤ’ کیس میں خالد کو بری کر دیا تھا، لیکن فسادات سے متعلق ‘بڑی سازش’ کے سلسلے میں انہیں حراست میں رکھا گیا ہے۔
اسی مہینے انہیں اپنی بہن کی شادی میں شرکت کے لیے23 سے 30 دسمبر تک ضمانت دی گئی تھی ۔
یہ فسادات شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کی حمایت اور خلاف مظاہروں کے دوران ہوئے تھے۔ ان میں 53 افراد ہلاک جبکہ 700 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
خالد کے علاوہ کارکن خالد سیفی، جے این یو کی طالبات نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا، جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی رکن صفورہ زرگر، عام آدمی پارٹی (عآپ) کے سابق کونسلر طاہر حسین اور کئی دیگر کے خلاف فسادات کے سلسلے میں سخت قوانین کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔