انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے محمد زبیر کے خلاف درج مقدمے کی مذمت کی

انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک خط جاری کرتے ہوئے زبیرکے خلاف درج کی گئی حالیہ ایف آئی آر کو فوراً واپس لینے اور مرکزی حکومت سے اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک خط جاری کرتے ہوئے زبیرکے خلاف درج کی گئی حالیہ ایف آئی آر کو فوراً واپس لینے اور مرکزی حکومت سے اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔

محمد زبیر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

محمد زبیر۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

نئی دہلی: انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے فیکٹ چیکر اور آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کی حمایت میں ایک خط جاری کیا ہے۔ غازی آباد پولیس نے زبیر کے خلاف ان کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے حوالے سے مقدمہ درج کیا ہے۔ اس پوسٹ میں زبیر نے ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا تھا، جس میں شدت پسند ہندوتوا پجاری یتی نرسنہانند اشتعال انگیز تقریر کر رہے تھے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ 27 نومبر کو غازی آباد پولیس نے ایوارڈ یافتہ صحافی اور آلٹ نیوز (ایک غیر منافع بخش تنظیم) کے شریک بانی محمد زبیر کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعہ 152 کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔

اس خط پر انڈیکس آن سنسرشپ، پی ای این انٹرنیشنل، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف)، انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ (آئی پی آئی)، الکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے)، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس سمیت 11 انسانی حقوق کی تنظیموں کے  دستخط  ہیں۔

خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ ہندوستانی حکام فیکٹ چیکنگ، صحافت اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر زبیر کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

 بتادیں کہ زبیر اپنی سوشل میڈیا پوسٹ کے حوالے سے پہلے بھی کئی معاملوں کا سامنا کر چکے ہیں۔

خط میں اس طرح کے ایک پرانے کیس کا بھی ذکر ہے، ‘جون 2022 میں، زبیر کو سال 2018 میں پوسٹ کیے گئے ایک اور طنزیہ ٹوئٹ کے لیے دہلی اور اتر پردیش پولیس نے گرفتار کیا تھا۔’

خط میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح زبیر پر ‘مذہب، ذات، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر دشمنی کو فروغ دینے اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے’ کا الزام لگایا گیا تھا۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ جب بھی انہیں کسی مقدمے میں ضمانت ملتی ہے تو دوسری ایف آئی آر درج کر دی جاتی ہے۔ زبیر کے خلاف چھ مقدمات درج ہیں جس کی وجہ سے انہیں گرفتاری، ضمانت اور دوبارہ گرفتاری کے چکر میں پھنسا دیا گیا ہے۔

تنظیموں نے زبیر کے خلاف درج کی گئی حالیہ ایف آئی آر کو فوراً واپس لینے اورمرکزی حکومت سےاظہار رائے کی آزادی کے تحفظ  کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سال کی شروعات میں نرسنہانند پیغمبر اسلام پر اشتعال انگیز تبصرہ کرکے سرخیوں میں آئے تھے۔ انہیں 29 ستمبر کو غازی آباد میں ایک تقریب کے دوران لوگوں کو پیغمبر اسلام کا پتلا جلانے کے لیے اکساتے ہوئے بھی سنا گیا تھا۔ نرسنہانند کے یہ ویڈیوز جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے تو اتر پردیش میں کئی مقامات پر مسلمان سڑکوں پر نکل آئے اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

زبیر کے خلاف یہ شکایت یتی نرسنہانند سرسوتی فاؤنڈیشن کی جنرل سکریٹری ادیتا تیاگی نے درج کرائی تھی۔ شکایت میں الزام لگایا گیا تھا کہ زبیر نے نرسنہانند کے خلاف تشدد بھڑکانے کے لیے ایک پرانا کلپ شیئر کیا تھا۔ اس کے بعد زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

پولیس نے زبیر کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 196 (مذہب کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 228 (جھوٹے ثبوت دینا یا گھڑنا)، 299 (کسی بھی طبقے کےمذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرکے اس کی مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے جان بوجھ متعصب کام کرنا)، 356 (3) (ہتک عزت سے متعلق) اور 351 (2) (مجرمانہ دھمکیوں کی سزا) کے تحت معاملہ  درج کیا گیا ہے۔

زبیر نے الہ آباد ہائی کورٹ میں دائر رٹ پٹیشن میں ایف آئی آر کو چیلنج کیا ہے اور  اس کارروائی کے خلاف تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں  ۔