وزیر اعظم نریندر مودی آئین کے آگے ماتھا ٹیکتے ہیں اور بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی تصویر کے سامنے ادب سے سر کو خم کرتے ہیں، لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ دلت ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کا شو آف ہے۔
ان دنوں پارلیامنٹ سے لے کر سڑکوں تک بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر اور آئین کی باتیں ہورہی ہیں۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں۔ ایسے ہی وقت میں ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ طیش اور تیور کے ساتھ کہتے ہیں کہ ‘امبیڈکر کا نام لینا اب فیشن ہو گیا ہے۔ امبیڈکر- امبیڈکر… اتنا اگر بھگوان کا نام لیتے تو سات جنموں کے لیے جنت مل جاتی…‘
یہ بیان امت شاہ کی دلت مخالف ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اپوزیشن کو تو یہ ایشومل ہی گیا ہے۔ اس کی مخالفت بھی فطری ہے۔ لیکن یہ بیان بابا صاحب امبیڈکر کو ماننے والوں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہے۔ کیونکہ ان کے لیے بابا صاحب فیشن نہیں بلکہ پیشن ہیں، موٹیویشن ہیں، تحریک ہیں۔
امت شاہ جس تیور کے ساتھ بابا صاحب امبیڈکر کا نام چھ بار لے کر تبصرہ کرتے ہیں وہ نہ صرف بابا صاحب کی توہین ہے بلکہ ان کی جھنجھلاہت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
راہل گاندھی ٹھیک ہی کہتے ہیں منواسمرتی کو ماننے والوں کو بابا صاحب سے تکلیف تو ہوگی ہی ۔ کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے کا کہنا بھی درست ہے کہ جو جنت اور جہنم کی بات کرتے ہیں وہ منواسمرتی کو مانتے ہیں۔ جنت اور جہنم کی باتیں منواسمرتی میں لکھی ہیں۔
خیر،بھگوان کا نام لینے سے جنت ملنے کی بات تو امت شاہ جی جانیں، لیکن بابا صاحب امبیڈکر نے مظلوموں کے انسانی حقوق، ان کی برابری اور عزت و احترام کے ساتھ جینے کے لیے جو کیا،آئین میں انہیں جو حقوق دیے، نمائندگی دی ، اس کی وجہ سے وہ دلتوں کے بھگوان یا مسیحا سے کم نہیں ہیں۔
رکن پارلیامنٹ چندر شیکھر آزاد کا یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ بابا صاحب کا نام لینا فیشن نہیں ہے بلکہ مساوات، آزادی اور سماجی تبدیلی کے انقلاب کی علامت ہے جس نے کروڑوں دبے کچلے لوگوں کو انصاف اور حقوق دلائے۔
ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جی بھلے ہی ایکس پر چھ ٹوئٹ کریں، لیکن وہ ایک بھی ٹوئٹ میں امت شاہ کے بیان کی تنقید نہیں کرتے۔ درحقیقت بابا صاحب اور آئین کے تئیں بی جے پی حکومت کی اصل منشا کیا ہے، اس کا پردہ فاش ہوچکا ہے، سب جان گئے ہیں۔
اگر بی جے پی حکومت بابا صاحب کے نظریات پر یقین رکھتی تو دلتوں پر ہونے والے مظالم پر لگام لگاتی۔ انہیں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر نمائندگی کی بنیاد پر بٹھاتی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔
حال ہی میں بلند شہر میں ایک دلت دولہے سپاہی رابن سنگھ کی بارات پر اونچی ذات کے لوگوں نے حملہ کر دیا۔ دولہے کو گھوڑی سے گرا دیا۔ باراتیوں کوزخمی کر دیا۔ ان کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا۔ اسی طرح مدھیہ پردیش کے دموہ ضلع میں ایک دلت دولہا بگہی میں بیٹھا تو اونچی ذات کے لوگوں نے بگہی والے اور گھوڑی پر حملہ کردیا۔ دلتوں کا گھوڑی پر چڑھنا، مونچھیں رکھنا اور دھوم دھام سے شادی کرنے کو بھی ذات پات میں یقین رکھنے والےاونچی ذات کے لوگ برداشت نہیں کرتے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اونچی ذات کے ٹینٹ مالکان دلتوں کو شادی کے لیے ٹینٹ بھی کرائے پر نہیں دیتے۔ آج بھی دلتوں کے ساتھ چھواچھوت جاری ہے بھلے ہی اسے آئین کے آرٹیکل 17 میں ختم کر دیا گیا ہے۔
دلت خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ نام نہاد اونچی ذات کے لوگوں کے ذریعے ہونے والےریپ اور جنسی تشدد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ لوگ چار سال پہلے ہاتھرس کی ایک دلت بیٹی کی عصمت دری اور قتل کو بھولے نہیں ہوں گے۔ آج دلت بیٹی کا خاندان غنڈوں کی دہشت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وہ مجرم جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ دلت بیٹی کے ملزم آزاد گھوم رہے ہیں اور متاثرہ خاندان کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی آئین کے سامنے ماتھا ٹیکتے ہیں اور بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی تصویر کے سامنےادب سےسر کو خم کرتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ دلت ووٹ حاصل کرنے کا ان کا شو آف ہے۔ بی جے پی حکومت بابا صاحب کی یادگاریں بنوا سکتی ہے۔ ان کے مجسمے نصب کروا سکتی ہے۔ بابا صاحب کے یوم پیدائش 14 اپریل کو قومی ہم آہنگی کا دن اور 26 نومبر کو یوم دستور کے طور پر منانے کا اعلان کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے نظریے کو نہیں اپناتی۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو اپنے ٹھاکر ہونے پر فخر ہے۔ وہ ذات پات میں یقین رکھتے ہیں جبکہ بابا صاحب نے ذات پات کو ختم کرنے کی بات کہی تھی۔
بابا صاحب کا بنایا ہوا آئین ملک کے ہر شہری کو بغیر کسی ذات پات، فرقے، جنس، زبان یا علاقے کی بنیاد کے مساوی حقوق فراہم کرتا ہے۔ لیکن اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ جس طرح کے بیانات دیتے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ یوگی جی ملک کو آئین کی بنیاد پر نہیں بلکہ منو ودھان کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ ملک بابر اورنگ زیب کی روایات پر نہیں رام اور کرشن کی روایات پر چلے گا۔یعنی وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ جبکہ ہماری آئینی اقدار فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہیں۔
دوسری طرف، بی جے پی کی حکومتیں مسجدوں کے نیچے مندروں کو تلاش کرنے کی مہم میں مصروف ہیں، جو عبادت گاہوں کے لیے خصوصی ایکٹ 1991 کی خلاف ورزی ہے۔
اسی طرح حکومت ’ون نیشن ون الیکشن‘ جیسے احکامات لا کر آئین کے بنیادی وفاقی ڈھانچے کو تباہ کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح بی جے پی حکومت آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ آئین کے مطابق ہمارا ملک سیکولر ہے۔ بتاتے چلیں کہ ہندو راشٹر کا تصور آئین اور بابا صاحب کے نظریات کے خلاف ہے۔ ایک طرف بی جے پی بابا صاحب کی عقیدت مند ہونے کا ڈرامہ کرتی ہے اور دوسری طرف ان کے نظریات کے برعکس کام کرتی ہے۔ ہندو راشٹر کے بارے میں بابا صاحب 1945 میں اپنی ایک کتاب پاکستان یا تقسیم ہند میں کہتے ہیں کہ اگر ہندو راشٹر حقیقت بن جاتا ہے تو یہ ملک کے لیے سب سے بڑی تباہی ہوگی۔ ہندو راشٹر کو ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے۔
کیا آج بی جے پی کا کوئی لیڈر یہ کہے گا کہ بابا صاحب ہندو راشٹر کے خلاف تھے، اس لیے ہم ہندو راشٹر کے تصور کی مخالفت کرتے ہیں۔
امبیڈکر نے ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھا جہاں سب کے لیے مساوات، آزادی، بھائی چارہ اور انصاف ہو۔ وہ سماجی عدم مساوات اور معاشی عدم مساوات کے خلاف تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ذات پات اور مذہب کے نام پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ سماجی ہم آہنگی ہو، لوگوں کا آپس میں میل جول ہو۔ ملک کے شہریوں میں معاشی عدم مساوات یا امیر اور غریب کی کھائی نہ ہو۔ ملک کے تمام شہری معاشی طور پر خوشحال ہوں۔ لیکن آج ملک کے حالات ان مقاصد کے برعکس ہیں۔
اگر بی جے پی کی حکومتیں واقعی امبیڈکر کے نظریات کا احترام کرتی ہیں تو وہ ان کے خوابوں کے ہندوستان یعنی مساوات، آزادی، بھائی چارے اور انصاف والے ہندوستان کو بنانے میں پہل کیوں نہیں کرتی ہیں؟ واضح ہے کہ بابا صاحب کے نظریے کو نہ اپنانا اور دلت ووٹ بینک کے لیے بابا صاحب سے محبت کا اظہار صرف ان کا سیاسی ایجنڈا ہے۔
(راج والمیکی صفائی کرمچاری آندولن سے وابستہ ہیں۔)